جھَلّی - نظم



جھلّی
(نظم)

زین شکیل





انتساب

 جھَلّی کے نام




جھلّیے!
سُن مری جھلّیے!
میں یہ کچھ روز سے جو زِخودرفتگی کے سے عالم میں الجھا ہوا ہوں
یہ تیری فسوں ریختہ، تیغِ برّاں سی چشمِ غزالاں ہی اس کا سبب ہیں فقط 
جھلّیے! 
تُو کہاں تھی؟ بتا
جب فراغت پڑاؤ میں تھی منتشر زیست میں
تُو کہاں سے چلی آئی ہے میری جھلّی!
کہ میں جاں بَلَب، مضطرب، پائے دَر گِل تری چشمِ حیراں کا بسمل ہوا 
تن بدن پر لگے تیری چاہت کے یہ زخم ناسور ہونے پہ ایسے بضد ہیں
کہ جرّاح بھی ہاتھ جوڑے ہوئے معذت چاہتے ہیں
مری جھلّیے!
مان لے کہ یہ بُنّت نہیں، یادہ گوئی نہیں!
تیری خاطر یہ جذبات، 
اک رات آکاش بانی ہوئی تو مرے قلبِ بے چین میں
اور ژولیدہ حالی کے عالم میں،
 اترے کہ بس
کیا کہوں؟ 
تو نہیں مانتی!
کیوں نہیں مانتی؟
یہ جو آدھار رستے ہیں یہ منتظر ہیں ترے 
کہ کبھی تُو چلی آئے
اور تیغہءِ برق تاب ان فسوں ریختہ، 
فتنہ گر سی نگاہوں سے دیکھے کہ کیسے
یہ میں جھانجھ کی زد میں آیا ہوا
حسرتِ آشتی میں کوئی ایک بےنام سی تھاپ کب سے سِہارے ہوئے، 
پا بہ گِل
کیسے تیری محبت کا روگی بنا پھر رہا ہوں
مری جھلّیے!
میری آرامِ جاں!
میرا یہ دستِ بے آسرا تھام 
اور حسرتوں کی جو یہ خون آشام سی تودہ بندی ہے،
اب اس سے آزاد کر
جھلّیے!
تیری پُرتاب، پُر گو، فسوں ریختہ، تیغِ برّاں سی چشمِ غزالاں جو ہیں،
بس یہی تو زرِ اصل ہیں
بس یہی میری بیدار بختی
یہی میرا بختِ رسا ہیں
اگر تھام لے ہاتھ اور اک نظر دیکھ لے تو یہ مجھ 
ایک پروردہءِ درد و آوارگی ،اور آغِشتہ ِ رنج و آشفتگی، 
کی طرف















اے مری جھلّیے!
سخت مہجوریاں آ پڑیں ہیں نجانے کہاں سے یہاں
تیری مجبوریوں اور مہجوریوں میں ہر اک رات پُر ہول کٹتی ہے
اور بیخِ جذباتِ الفت کو چمٹی ہوئی ہے یہ بے رحم سی بیخ کُن رات
اور ایک میں آلکسیا مگر قلب بے چین و بے صبر ، 
آزردہ خاطر،
لیے پھر سے شوقِ لقا،
 ڈھونڈنے چل پڑا ہے تجھے 
اے مری لاجوَنتِی، 
اے مے گوں نظر والیے ، جھلّیے!
آ ۔۔ اِدھر
اور نادِ مَدُھر میں سنا حالِ دل ، 
اور سُن آ کے مجھ پابدامن سے مدفوع رنج و الم کی کتھا
 دیکھ میں ہوں ادھر ، منتظر
تیرا غمخوار، یکتا سکوں دار، مدت سے تیرا طلبگار اور نازبردار،
میں، جھلّیے! 
تیرا میں ہوں اِدھر دیکھ!
آ کہ یہ مہجوریوں میں عجب سفلہ پن دیکھنے کو ملے ہے گھڑی در گھڑی
خواہشوں کا
اُداسی کی نافہم حرکات لگتا لگت ہی لگائی بجھائی میں مشغول ہیں
حسرتوں کی بلی کون دے؟جھلّیے!
آ۔۔۔ اِدھر 
مجھ کو ناراست جذبوں کی قیدِ مسلسل سے نروان دے
ناملائم رویوں کو اب اپنے اندر کہیں آڑ دینا 
دلِ مضطرب میں ،
مری جھلّیے!  میرے قلبِ شکستہ کے بس میں نہیں ہے
سو اب آگ میں جھونک دے ساری مجبوریاں اور مہجوریاں اور مِل
آ۔۔ اِدھر ۔۔۔
اے مرے سارے الفاظ میں رنگ بھرتی ہوئی ،
میری منظوم ، 
میری فقط 
اے مری جھلّیے!























دیکھ دل کی اَگن
اے پری وَش ،  قمروَش!
کہ مدت ہوئی سابدھانی برتتے ہوئے ، کیا ملا؟
کچھ نہیں مل سکا۔۔۔ اور تُو؟
تُو تو بالکل نہیں ۔۔۔
اے مری جھلّیے!
دیکھ یہ ناسَکِ درد مسمار ہونے پہ راضی نہیں 
ایسے عالم میں جینا، اسی ایک عالم میں فرسودگی اوڑھ کر جیتے رہنا
قضا و قدر بھی اگر ہو تو پھر بھی غلط در غلط ہے ،
 فقط ایسے غارت کے مارے ہوؤں کے لیے
جن کا جینا بھی ایسا ہی ہے جیسے گورِ غریباں کا منظر
مری جھلّیے ! 
دکھ بھی ایسے عمیق و فراواں سے ہیں کہ تجھے کیا بتاؤں
تجھے کیسے دکھلاؤں،
 اے میری گُل پیرہن 
تُو فقط یہ بتا اے سلونی، اے گُل نا شگفتہ ،
کبھی میری یادیں ترے دل کی دہلیز پر آئیں گی؟
تُو انہیں کیا کبھی اپنے اندر کے رستوں کی پہچان کروائے گی یا نہیں؟
جھلّیے! یہ اذیت ذرا سی اذیت نہیں ہے 
بتا کیا عہودِ محبت بھلا دے گی تُو ،
 یونہی بیٹھے بٹھائے ہوئے اور ہنستے ہنساتے ہوئے؟
دیکھتی کیوں نہیں؟
 کہ یہ میں آج کل کن عوارض کے گھیرے میں ہوں پائے در گِل
یہ میں دکھ گزیدہ و مغموم،
 اک تیرے میثاق کے آسرے زیست کرتا ہوا
تیری چاہت پہ نازندہ
کیسے کسی ایک انجان تکلیف میں سانس لینے لگا ہوں 
میری بات سُن
 اپنا یہ روئے گُل گوں لیے میری جانب چلی آ
تجھے یہ بتادوں کہ یہ جو تری اور میری محبت کی دلسوزو دلدار سی داستاں ہے 
یہ عہدِ اساطیری کی داستاں تو نہیں ہے
یہ اُس عہد کی داستاں ہے کہ جب لوگ
 آئیندہ عشق و محبت میں اپنا قدم جو دھریں گے
تو پھر لفظ جھلّی سے منسوب کر دیں گے اپنی محبت سدا کے لیے 
آ ادھر دیکھ جھلّی یہ میں کیسے تیری محبت کے گُل دام میں آ گیا
اور تُو غالیہ مُو چلی آ ئی ہے یوں مرے سامنے
دیکھ میں یہ فقط ایک تیرے غدیرِ محبت میں غرقاب ہو کر
 غٹا غٹ سے پینے لگا ہوں
نکلتی ہوئی تیری آنکھوں سے مستی بھری چاندنی
آ اِدھر 
تُو بہت دھیرے دھیرے سے بانہوں کو اپنی
 یوں میرے قریب آ کے گلہار کر دے
کہ خوشبو بھری میں بھی سکھ کی کوئی سانس لوں 






























رات ،
ہر رات ہی پُر غضب ، پُر فسوں اور تخیل ،
تخیل میں تُو، اور ترے آب گُلرنگ سے نین!
نینوں تلے ایک خمدار سی ناک اور اُس میں نتھلی
مری جھلّیے!
اور پھر دامِ نتھلی میں ایسا گرفتار دل میرا بے چین دل
جس کو اک تیری نتھلی سوا 
ساری دنیا کی ہرشے لگے غیر شافی
مگر تیری نتھلی جو ہر رات نیندوں کی دشمن بنی 
دل بھی غلطاں و پیچاں اسی ایک نتھلی کی زد میں 
تجھے کچھ خبر بھی نہیں 
کہ ترا غمزہِ جانستاں میری فہمیدگی سے بہت ہی بلند اور بالا ہوا
اور دل تو ازل سے رہا فاتر العقل 
(سو اس کا رونا ہی کیا)
خیر جھلّی ترے ناز و غمزہ کی زد میں مرے کتنے جذبے ہوئے جاں بحق
میری فریاد رَس آ کبھی میرے اس غمکدے میں
کبھی آ کے سن مجھ سے میری زبانی ، 
خود اپنی کہانی
مری جھلّیے!
میں کبھی ایسا غادر نہیں ایسا پیماں شکن تو نہیں تھا
کہ جتنا مجھے تو سمجھنے لگی ان دنوں
میں کبھی ناموافق نہیں تھا
(ترے حق میں بالکل نہیں)
 جس قدر تُو مجھے جاننے لگ گئی ان دنوں 
میری جھلّی میں تیری محبت کی صدیوں پرانی ریاضت میں ایسا تَوغُّل ہوا
کہ میں اپنے تئیں کچھ بچا بھی نہ پایا 
فقط ایک تیرے سوا جھلّیے
اور ہر معاملے میں توارُد کی توجیہہ بھی تو مرے بس میں بالکل نہیں
اے گُل اندام، گُل رُو، اے ملبوسِ گُل ریز
اے میری جھلّی!
ذرا اپنی نتھلی سے کہہ ہاتھ ہولا دھرے 
کہ کہیں پھر کوئی ایک جذبہ نیا 
تیری نتھلی کے غمزے کی زد میں نہ آجائے
اور تیرے گالوں کے میدان میں 
اک بلا کی فضیحت اٹھاتے ہوئے 
اور بے انتہا آبرو ریز ہو کر گرے 
جاں بحق ہو کہ پھریہ کہیں بھی کبھی جاگ پائے نہیں ۔۔۔
















جھلّیے!
 راہ آساں نہ تھی،
جھلّیے! پالنِ عہدو پیماں نہیں ہو سکا 
میں بلا کا وفادار ثابت نہیں ہو سکا
معذرت۔۔
زندگی تجھ کو پردان کر دی تو کیا؟
بات اتنی نہ تھی ۔۔۔ بات اتنی تو بالکل نہ تھی
درد، آموز گارِ ازل ، بیخ کن ، نا ملائم ، فراواں وبا و عِوارِض کا مجموعہِ بے رحم
مجھ محبت گزیدہ و مہجور و مجبور و مدفوع پر ایک مدت سے یونہی مسلط رہا،
میری ہرسانس میں 
اور اُس ایک جاں آفریں سے شکایت بھی مجھ سے نہیں ہو سکی
میں گلہ بھی نہیں کر سکا
جھلّیے!
 راستے تو ہزاروں کی تعداد میں مل ہی جاتے ہیں، چلنے لگیں تو
 یہ اوہام ناسور بن جایا کرتے ہیں گر بے سبب دل میں پلنے لگیں تو
کبھی یوں بھی ہوتا ہے اے جھلّیے!
 دوریاں اور بڑھ جایا کرتی ہیں
 جب حد سے زیادہ کوئی دو محبت کے مارے ہوئے 
ساری دنیا سے چھپ چھپ کے اک دوسرے سے
 محبت کے پیڑوں کی چھاؤں تلے
یونہی تنہا اکیلے زمین و زماں اور سبع سماوات سے بے خبر ہو کے ملنے لگیں تو۔
مگر مجھ کو افسوس ہے 
اے مری نابغہ، اے وفادارنی اور میری محبت کی سردارنی!
 مجھ کو افسوس ہے تو نے نافہم ہو کہ تعین کیا ہے نئی راہ کا 
اور شاید تجھے یہ خبر ہی نہیں ہے کہ اس راہ پر
میرا کوئی بھی نام و نشاں تک نہیں مل سکے گا تجھے
اور پھر یہ جدائی کا الزام جانے کسے آ کے اپنے گلے سے لگا لے
کہ پھر یوں نہ ہو کہ جوصفحات باقی بچے ہیں کہیں زندگی کے صحیفے میں 
وہ نہ بکھر جائیں ۔۔۔ 
اور ان میں لکھی ہوئی جو نصیبوں کی آیات ہیں
وہ کہیں بین کرنے نہ لگ جائیں
اور اپنے ہونے پہ رونے نہ لگ جائیں ۔۔
شاید ہمیں پھر کبھی ایک دوجے کی قسمت پہ افسوس کرنے کا
موقع میسر بھی نہ آسکے۔۔۔۔





(اختتام)





نظم:  جھَلّی
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial

No comments:

Post a Comment