نثری نظمیں

نثری نظمیں
(شاعر: زین شکیل)

****************

ایک مسلسل اجڑی ہوئی نثری نظم

میری ویرانی پر ہنسنے والے تمام لمحات کی بدتمیزیاں
میں نے لکھ رکھی ہیں
ہوا نے میرے کان میں جتنی بھی بے تُکی باتیں
تمہارے بارے میں کہی تھیں
میں نے تمام کی تمام
چادرِ طیش وغضب اوڑھ کر
ان زخمی ہاتھوں سے
ضبط کی دیوار پر 
مکمل زور سے دے ماری ہیں
افسوس کہ نہ یہ ٹوٹ پائیں
نہ میرے ہاتھوں کہ زخم بھر پائے
کیا تم جلدی میں کچھ بھول گئے ہو؟
جو بس مجھے یاد رہ گیا ہے
یا پھر تم یاد سے کچھ لے گئے ہو
جسے میرے پاس ہی رہنا چاہئیے تھا
اگر تم کہو! 
تو سال میں دو مرتبہ
یعنی چھ مہینوں میں ایک خط تمہارے نام لکھ دیا کروں؟
صرف لکھا کروں گا!
اور پھر ایک سال میں لکھے ہوئے وہ دو خط
اگلے سال کی 4 جنوری کو شبھ مہورت مان کر
اپنی ذات میں موجود ایک عکس، 
(جو کبھی میرا تھا ہی نہیں)
نکال کر باہر رکھوں گا!
اور تمہاری یاد کی ماچس میں رکھی ہوئی چند لمحات میں لپٹی ہوئی بس ایک ہی تیلی سے
آگ لگا کر
وہ دونوں خط اس میں جلا دیا کروں گا
بولو!
کیا تمہیں منظور ہے؟
ہو سکتا ہے خطوط جل جانے سے الفاظ جل جائیں
مگر شاید ایسا نہ ہوسکے !
لیکن پھر بھی تم تک نہیں پہنچ پائیں گے
کیونکہ ان خطوط میں کیا ہو گا بھلا
بس تمہاری کچھ باتیں میری باتوں میں ملی ہوئی
جنہیں تم پڑھ بھی لو تب بھی شاید تمہاری سمجھ میں نہ آ سکیں
اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے
کہ پہلے چھ مہینوں میں لکھے گئے ایک خط کے تمام الفاظ نے
اگلے چھ مہینوں میں لکھے دوسرے خط کے کچھ الفاظ کو
تین سے زیادہ مرتبہ طلاق دے دی ہے
اور اب شاید
اگلے سال کے دونوں خطوط میں سے دوسرا خط
عدت پوری کرنے لگ جائے
اور شاید پہلا خط میں تمہیں نہ لکھ پاؤں

زین شکیل

****************

پھٹے ہوئے ٹشو پیپر پر لکھی گئی ایک ثابت نثری نظم

یہ تو اس دن بھی یاد نہیں تھا کہ رات کیسے کٹی
کٹ گئی یا کاٹ دی گئی یا ابھی تک وہیں کی وہیں پڑی ہے
ویسے کی ویسی
ہاں ناں وہی 3 جنوری 2013 کی رات
اور 4 جنوری کے دن کا تو کبھی مت پوچھنا پلیز
ورنہ
کامسیٹس یونیورسٹی لاھور میں 
batch fall-10 
کے چوتھے سمیسٹر کے فائنل ایگزام کا پہلا پیپر دے کر عباسی کیفے میں چائے کی میز پر بیٹھ کر
شاہنواز علی کا ایک ٹوٹا ہوا دوست 
شاہنواز علی کے سامنے ہی کتنی بےچارگی سے زار و قطار رویا تھا
یہ سب جان کر تم شاید کئی ہفتوں تک مسکرا بھی نہیں پاؤ گی
لیکن میرے کچھ عزیر اب بھی تمہیں بے وفا کہنے سے باز نہیں آتے
یقین جانو اس میں رتی برابر بھی میرا کوئی قصور نہیں

زین شکیل

****************

ایک تاروں سے بھری ہوئی رات والی نثری نظم

تم اتنے باذوق کب سے ہو گئے ہو؟
چاند نے ہی بتایا تھا مجھے
کہ کل رات
ساری کی ساری رات تم نے تارے گنے
بتاؤ کیا واقعی تم نے گنے؟
اور اگر یہ بات عین حقیقت ہے تو پاگل
ساری رات میں آٹھ ہزار نو سو بہتر تارے گننے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟
اس سے اچھا تھا کہ چاند سے براہِ راست بات کرتے
میرے بارے میں ہی کچھ پوچھ لیتے
خیر تم نے پہلے بھی کب مانی ہے 
کوئی بھی بات
میری
یا اپنی خود کی بھی
بس جو تم سے ہوتا ہے
کرتے جاتے ہو
چاہے کتنا ہی بے تکا کیوں نہ ہو
عجیب ہو تم سچ میں
بالکل عجیب ہو
میری طرح
یا خود اپنی طرح
ایک ہی بات ہے
دیکھو کتنا اچھا ہوتا
اگر تم آٹھ ہزار نوسو بہتر تارے گننے سے پہلے
اپنی انا کی دیوار گرا کر
مجھے ایک میسج کر دیتے
تو میں بھی اپنی انا کی دیوار گرا کر تمہیں جوابی میسج کرتا کہ
 آئ رئیلی مِس یو ٹو
اور پھر مجھے بھی ساری کی ساری رات
آٹھ ہزار نو سو تہترتارے نہ گننے پڑتے۔۔۔

زین شکیل

****************

موٹے مارکر سے لکھی گئی ایک نثری نظم

مجھے ٹھیک سے یاد ہے کہ
میں نے لفظِ محبت کی ت پر دو نقطے علیحدہ علیحدہ ڈالے تھے
اب اس بات پر اعتراض تو فضول ہے نا
کہ نقطے جڑے ہوئے ہیں
یا ٹھیک طرح میں نے لفظِ محبت لکھنے کا حق ادا نہیں کیا
تم کیا عجیب نقطے لے کر بیٹھ جاتی ہو
میں سادہ سا انسان
اپنی ٹوٹی پھوٹی لکھائی میں 
ہمیشہ یہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں 
کی مجھے تم سے بے تحاشہ محبت ہے
اور تم بجائے اسے سمجھنے ، محسوس کرنے کے
لفظِ محبت کے نقطوں پر نقطے نکالنے لگتی ہو!
آخر مجھے بتا ہی دوکہ کس قلم سے تمہیں یہ لکھا کروں
کہ مجھے تم سے محبت ہے
مگر مجھے یقین ہے جس قلم، پنسل، یا مارکر سے بھی میں لکھوں گا
تمہیں ہمیشہ میرے لفظِ محبت کے نقطوں پر اعتراض ہی رہے گا
اس لئے بہتر ہے 
کہ کسی دن فرصت نکالو
اور میرے دل کے مہمان بن جاؤ
شاید تم دیکھ سکو، جان سکو اور محسوس بھی کر سکو
کہ مجھے سچ مچ
تم سے بے حد محبت 
بہت زیادہ محبت
اور بے تحاشہ محبت ہے ۔۔۔

زین شکیل

****************

بے حد حسین چہرے پر لکھی گئی کبھی پوری نہ اترنے والی نثری نظم

مجھ سے زیادہ خدا بہتر جانتا ہے
کہ کیوں تم اتنی خوبصورت لگتی ہو 
مجھے
یا جو بھی تمہیں اک نظر دیکھے اسے بھی
خدا بہتر جانتا ہے کہ کس ترتیب سے
تمہارے بال
آنکھیں اور گال
ایک دوسرے سے مل کر ایک سحر انگیز حسن کا مجسمہ بن جاتے ہیں
اور میں تو نا سمجھ
ابھی تک اتنا ہی سمجھ سکا ہوں
کہ تم حسین ہو
واقعی حسین
یعنی جسے مکمل خوبصورت کہا جا سکتا ہے
ہاں بالکل وہی ہو
اس پر ایک حسین بات یہ بھی ہے
کہ اتنی ہی مقدس بھی ہو
یعنی سادہ لفظوں میں سمجھاتا ہوں
کہ اگر تمہیں چھو لیا تو شاید حسن کی شان میں بے ادبی ہو جائے
تمہیں آنکھ بھر کے دیکھنا 
اور بس ٹک دیکھتے رہنا بھی حسن کی شان میں گستاخی ہے
یا شاید میرے نزدیک گناہ بھی
مگر 
کیا کروں اتنی پاکیزہ آنکھوں، گالوں
اور خم دار زلفوں کو دیکھتے رہنا
اور یونہی ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہنے کا گناہ
نہ چاہتے ہوئے بھی مجھ سے ہو جاتا ہے
سنو
مجھ سے قسم لے لو
میں نے یہ گناہ ہمیشہ ثواب کی نیت سے ہی کیا ہے
ہو سکے تو سزا کے دن میری طرفداری کردینا
شاید حسن مجھ سے راضی ہو جائے
مگر مصیبت یہ ہے کہ
کیا بنے گا اگر
اس دن بھی میں بس تمہیں ہی دیکھتا رہ گیا
سزا و جزا سے بے خبر
یونہی مسلسل ٹکٹکی باندھ کر۔۔۔۔۔

زین شکیل

****************

عید کے سفید لباس میں لکھی گئی ایک نثری نظم

ہاں وہی چاند رات
جب میری اور تمہاری شرط لگی تھی
کہ چاند نظر آئے گا یا نہیں
کل عید ہو گی یا نہیں
اور میں نے کہا تھا
تم چھت پر آؤ
دیکھنا چاند ضرور نکلے گا
مجھے اس بات کا یقین ہے
اور تم چھت پر آئیں
اور کچھ ہی دیر میں
وہ شرط ہار گئیں
اور فوراً مجھ سے یہ بولیں
کہ کل عید کی نماز سفید لباس میں پڑھنا
لڑکے سفید شلوار قمیص میں ہی عید کی نماز ادا کرتے اچھے لگتے ہیں
دیکھو 
کتنے برس گزر گئے
میں نے تب سے عید کی نماز ہمیشہ سفید لباس میں ہی پڑھی ہے
مگر اس مدت میں
نجانے تمہارا دل اتنا سیاہ کیسے ہو گیاہے۔۔۔۔

زین شکیل

****************

سالگرہ مبارک حمزہ نثری نظم

بھائیوں، یار، دوستوں، بیلیوں سے دور 
میرے بھائی، میرے یار، میرے دوست، میرے بیلی
میرے حمزہ
تم وہی ہو بالکل وہی کہ جس کا بچپن دیکھا 
میں نے اپنے بچپن کے ساتھ
بنا تلخیوں کے اس قدر پیار
بخت بلندوں کو ہی مل پاتا ہے
میرے یار
آج کے دن ایک بار پھر سے جی چاہ رہا ہے
تمہارا بچپن دیکھوں 
اپنے بچپن کے ساتھ
باوجود اس کے کہ تم دور ہو
دور تو ہو لیکن نظروں سے
دل میں موجود اور روح میں پیوست ہو
اور میرے جسم کا روم روم آج کے دن بس
یہی جملہ، ایک گیت کی صورت 
محبت کی خوبصورت دھن میں گنگنائے جا رہا ہے
کہ تمہیں سالگرہ مبارک میرے حمزہ
تمہیں سالگرہ کی مبارکباد 
میرے بھائی، میرے یار 
میں دل سے تمہارا
وہی زین شکیل
اے میرے بیلی حمزہ

زین شکیل

****************

عید مبارک میری عمر کی ریاضت - ایک نثری نظم

اب بھی بے وقوفوں کی طرح
میں تمہارے گجروں اور چوڑیوں 
کی فرمائش کے انتظار میں ہوں
یہ جانتے ہوئے بھی
کہ اب تم میری دسترس سے باہر ہو
میرے اخیتار میں نہیں
میرے انتظار میں نہیں
مگر اس کے باوجود بھی
مجھے یہی ایک جملہ
یعنی عید مبارک
ہر کسی کو رسماً کہنا پڑ رہا ہے
اور وہ لوگ 
جو تمہیں بالکل بھی اچھا نہیں سمجھتے تھے
انہیں بھی عید کی مبارکباد دینا پڑ رہی ہے
ہوں عجیب کشمکش میں۔۔۔۔
وقت گزر جانا تھا تب بھی میں جانتا تھا
تم وقت تو نہیں تھے
تمہیں ٹھہر جانا چاہئیے تھا
تاکہ میں تمہیں ٹھیک سے گلے لگاتا
اور عید مبارک کہتا
اور تمہیں سب نا پسند کرنے واے لوگ
جل کر راکھ ہو جاتے۔۔
خیر جہاں بھی ہو تمہیں عید کی بہت مبارکباد
میں ابھی تک صرف تمہارا

زین شکیل

****************

تم اور سیگریٹ

سیگریٹ میں اور تمہارے لبوں میں
زمین آسمان کا فرق اس طرح بھی ہے
کہ سیگریٹ لبوں پر ختم ہو کر سپردِ خاک ہو جاتا ہے
اور تم لبوں سے شروع ہو کر میری روح میں پیوست ہو جاتی ہو
اور تمہارا انجام میری ذات میں ممکن نہیں
تم ہمیشہ کی طرح بے تحاشہ ہو۔۔۔۔

زین شکیل

****************

کسک

اس وقت
میرے صحن میں جس قدر اداسی
اپنا آپ پھیلا کر
جا بجا بکھری ہوئی ہے
مجھے تمہارے ہجر کی بالکل آخری قسم
یہ مسلسل مجھے تمہارے
بہت دور ہونے کا احساس دلا رہی ہے

زین شکیل

****************

تم تو تم ہو ناں

بے تحاشہ خوبصورت آنکھوں سے بہتے ہوئے 
کسی شاداب لمحے میں اس نے مجھ سے پوچھ لیا
 بتاؤ تو محبت کیسی ہوتی ہے؟
نجانے کیوں میں بس اسے
یہی کہہ پایا
مجھ سے اپنی آنکھوں کی قسم لے لو
یہ ساری دنیا تو ایک طرف
یہ محبت بھی تم جیسی نہیں ہو سکتی

زین شکیل

****************

کسک

کاش تم نے میری ہتھیلی پر
اپنی ہتھیلی
پل بھر کو ہی سہی رکھی تو ہوتی
پھر شاید۔۔
تمہارے کھو جانے کا دکھ 
یوں شدت اختیار نہ کرتا
کیونکہ پھر
میرے ہاتھ کی لکیروں پر درج
میرے نصیب نے
تمہارے ہاتھ کی لکیروں پر درج 
تمہارے نصیب کو
پل بھر کو ہی سہی
چوم تو لیا ہوتا۔۔۔

زین شکیل

****************


کوئی اسے بتاتا کیوں نہیں؟

کوئی اسے بتاتا کیوں نہیں؟
کہ اس کے بغیر میرے
دن، رات،
شام، سویر،
نظم، غزل،
ردیف، قافیہ،
دل، روح،
پلکیں، ابرو،
خاموشی، آواز،
ہاں، نہیں،
اگر، مگر،
یہ، وہ،
سب کے سب آپس میں الجھ جاتے ہیں....
اور کسی پر بس نہ چلے تو
مجھے مارتے رہتے ہیں....
کوئی اسے بتاتا کیوں نہیں ؟؟؟


زین شکیل

****************

No comments:

Post a Comment