آزاد غزلیں


*********************
زین شکیل کی آزاد غزلیں
*********************

تنہائی کا وقت بتانا مشکل ہے
تم سے باتیں کرنا تو مجبوری ہے

تم اندھوں کے شہر میں آنکھیں بیچو گے
تم بھی بچوں جیسی باتیں کرتے ہو

دیکھو میری آنکھیں کتنا روتی ہیں
تم نے جب سے خواب میں آنا چھوڑا ہے

اکثر خط میں تم جو مجھ کو لکھتی تھیں
پیڑوں پر وہ نام تراشا کرتا ہوں

سارا تم کو یاد کیا تھا محنت سے
باقی سارا کچھ بھی یاد نہیں رکھا

وہ جو میری باتیں تم دہراتے تھے
اب میں ان کے گیت بنایا کرتا ہوں

زین شکیل

*************

مایوسی امید سے پہلے ہو تو پھر
باقی رستے خود ہی کٹتے رہتے ہیں

تم کہتی ہو شہر میں جا کر بس جاؤں
یعنی گونگا ، اندھا، بہرا، بن جاؤں

تم ہی شاید اک دن آ کر پانی دو
دیواروں پر پھول بنایا کرتا ہوں

روز اسی امید پہ چھت پر جاتا ہوں
آج کے چاند کو شاید تم نے دیکھا ہو

پیروں کو خود آپ سنبھالے رکھنا تھا
ریت اڑے تو آنکھوں میں پڑ جاتی ہے

کیونکر تم یوں آدھے آدھے آتے ہو؟
میں نے تم سے ساری باتیں کرنی ہیں

زین شکیل

*************

وہ کہتی ہے باتیں کتنی لمبی ہیں
میں کہتا ہوںراتیں کتنی چھوٹی ہیں

وہ کہتی ہے میں نے سپنے دیکھے ہیں
میں کہتا ہوں سپنے، سپنے ہوتے ہیں

اس نے پوچھا، مجھ سے ملنے آئے ہو؟
میں یہ بولا، خود سے ملنا تھا مجھ کو

سارا شہر ہی گھائل پھرتا رہتا ہے
تم جو آنکھیں کاجل کرتے پھرتے ہو

اب بھی باتیں بکھری بکھری کرتا ہوں
اب بھی کوئی خواہش روتی رہتی ہے

اب بھی صحرا باقی ہے ان آنکھوں میں
اب بھی اندر بارش ہوتی رہتی ہے

زین شکیل

*************

عشق یاد رکھتا ہے
راستہ اذیت کا

بات کرنے والوں کی
بات ہی نرالی ہے

درد سہتے رہنے میں
مصلحت تو ہوتی ہے

بے رخی برتنے سے
اس کا جی نہیں بھرتا

ہم کسی کی باتوں کو
سرسری نہیں لیتے

خامشی کی منزل پر
لوگ چپ نہیں رہتے

آپ خامشی اپنی
توڑ کیوں نہیں دیتے

خواب نیند کا رستہ
بھول بھی تو جاتے ہی

آپ کی نگاہوں کے
رنگ کتنے پیارے ہی

آپ مان بھی جائیں
آپ بس ہمارے ہیں

زین شکیل

*************

چپ چپ رہنا عادت بھی ہو جاتی ہے
روٹھے رہنا بنجر بھی کر دیتا ہے

ہم نے اپنی آنکھوں کو مجبوری میں
تیرے شہر میں سستے داموں بیچ دیا

میں نے کتنے ساون روئے میں جانوں
اس کے کتنے آنچل بھیگے وہ جانے

خالی خالی رہنے والے لوگوں میں
کتنی زیادہ آوازیں بھر جاتی ہیں

تم بھی آخر میرے بارے سوچو نا
دیکھو میں نے تم کو کتنا سوچا ہے

اچھے خاصے لوگ بھی کھوئے رہتے ہیں
یادیں بھی نا ،کتنی پاگل ہو تی ہیں

زین شکیل

*************

اس نے باتوں باتوں میں
تنہائی سے باتیں کیں

سارے آنسو رو دینا
ساون کی مجبوری تھی

ایک سمندر گہرا سا
آنکھوں میں بس جاتا ہے

یاد قضا ہو جائے تو
دکھ واجب ہو جاتے ہیں

یعنی میرے بارے میں
لوگ تمہیں بتلاتے ہیں

میں بھی تیرے بارے میں
لوگوں سے سن لیتا ہوں

زین شکیل

*************

یہ مری زبان کو کیل کر کہاں لے گئے
مرے چارہ گر مجھے گفتگو پہ عبور تھا

مجھے وسعتوں سے نکال کر کہین دفن کر
یہ جو تیری حد کا خمار ہے مجھے راس ہے

زین شکیل

*************

تری آنکھ میں کسی بارگاہ کا عکس تھا
مرے کنجِ لب پہ اٹک گئی تھی دعا کوئی

وہ تمہارے ہجر کا ایک لمحہِ جاوداں
مجھے کہہ رہا تھا کہ میں کہیں نہیں جا رہا

جو کسی بھی حد میں نہ آسکے اسے یاد کر
یہ زماں مکان کا خوف بھی کوئی خوف ہے

مرے روبرو بھی تو ہو کہ خود کو میں دیکھ لوں
مرا اعتبار ہے آئینوں سے اٹھا ہوا

وہ جو آنسوؤں کی قطار تھی کوئی اور تھی
جو ترا تبسمِ ناز تھا مجھے یاد ہے

مری روح تک میں بکھر گئی کوئی فکر سی
کہ ہوا نے آج تمہارے نام پہ ضد نہ کی

مری نیند بھی ہے بذاتِ خود کوئی ہجر ہی
مجھے اب تلک ترے خواب سے بڑا عشق ہے

زین شکیل

*************

آپ یاد کرتے ہیں
آپ کی محبت ہے

آپ سے یہ کہنا ہے
آپ یاد آتے ہیں

آپ سے نہیں کہنا
آپ خود سمجھ جائیں

آپ کے لئے ہم نے
آپ ہی سے ملنا ہے

آپ ہم سے پوچھیں نا
آپ کتنے پیارے ہیں

آپ سے خفا ہو کر
آپ کو ستانا ہے

آپ کا تصور ہے
آپ کھو نہیں جانا

آپ نے بتایا تھا
آپ ہی کے بارے میں

آپ ہی کے لہجے میں
آپ کو سنا ہم نے

آپ ہر خوشی ہیں ناں
آپ زندگی ہیں ناں

آپ اپنے، بارے میں
آپ نے نہیں سوچا؟

آپ کی عنایت ہو
آپ جو ملیں ہم سے

آپ سے گزارش ہے
آپ دور مت ہونا

آپ مان بھی جائیں
آپ بس ہمارے ہیں

آپ کتنے سادہ ہیں
آپ کتنے سندر ہیں

آپ نے پکارا ہے
آپ کی مہربانی

آپ اب بہت خوش ہیں
آپ ٹھیک کہتے ہیں

آپ ہی کو سوچا ہے
آپ ہی کو چاہا ہے

آپ آگئے تو پھر
آپ جا نہیں سکتے

آپ جس طرح چاہیں
آپ کو اجازت ہے

آپ کی قسم ہم کو
آپ سے محبت ہے

زین شکیل

*************

کتنی خوش خوش رہتی ہے
میرے اندر ویرانی

زین شکیل

*************

چاردن کے جھگڑے میں
مجھ کو کھو نہیں دینا
آنکھ روٹھ جائے گی
مجھ کو رو نہیں دینا
عمر بیت جاتی ہے
رابطہ نبھانے میں

زین شکیل

*************

مری ذات کتنی حسین تھی
ترے لوٹ جانے سے پیشتر

زین شکیل

*************

کوئی خواب مردہ پڑا ہوا ہے وجود میں
مرے دل میں کتنی ہی حسرتوں کا ہجوم ہے

مرا عجلتوں میں گزرگیا تھا فراق بھی
ترے خواب تکنے کا وقت بھی نہیں مل سکا

زین شکیل

*************

درد بڑھانے کے فن میں
چاند پرانا پاپی ہے

اپنی مرضی ہے لیکن
لوٹ آتے تو اچھا تھا

چاہت میں اک بیماری 
جذبوں کی کمزوری ہے

سندر سندر چہرے بھی
کیوں بے داغ نہیں ہوتے

میں نے کب یہ سوچا تھا
وہ مجھ سے کھو جائے گا

نیندیں آ بھی جائیں تو
خواب جھگڑنے لگتے ہیں

میٹھی میٹھی باتیں کیوں
اب زہریلی لگتی ہیں

تُو تو آیا جایا کر
دل تیرا دربار پیا

ہم بھی تیری چاہت میں
جیون بیٹھے ہار پیا

زین شکیل

*************

تجھے اب تلک مری بے بسی کا ملال ہے
تجھے سچ کہوں مجھے اب بھی تیری ہی فکر ہے

تری خامشی مری الجھنوں کو بڑھا گئی
سو کبھی سکوت بھی توڑ دے کوئی بات کر

مجھے رات سے کسی اور طرح کا عشق ہے
مجھے دن میں رات کی عادتیں ہیں پڑی ہوئیں

زین شکیل

*************

تجھے میری انائیں مار دیں گی
کبھی ناراض ہو کر دیکھ لینا

ہماری چشم کی حیرانیوں میں
اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

ہمیشہ ٹوٹتی ہے شام بن کر
محبت کے اسیروں پر قیامت

خوشی کو دیکھنے کی جستجو میں
کسی غم کا جنازہ پڑھ رہا ہوں

مرے خوابوں کو اکبر صفت کوئی
کسی دیوار میں چنوا گیا ہے

اب اس کے بعد اس کے رابطوں سے
ابھی تک رابطہ رکھا ہوا ہے

مجھے یہ چین غم کی ساعتوں میں
کسی دُکھ کے وسیلے سے ملا ہے


زین شکیل

*************

No comments:

Post a Comment