یہ صدی بھی اُداس ہے تم بن - طویل نظم

کتاب : یہ صدی بھی اداس ہے تم بن
(طویل نظم)
شاعر: زینؔ شکیل
انتساب : والد مرحوم شکیل اختر کے نام




یہ صدی بھی اداس ہے تم بن
( نظم)

زین شکیل











فہرست

1 اے مرے خوفزدہ
2 ایسے کھویا ہوں کسی ہجر میں خاموشی سے
3 اب تلک حل نہیں نکلا کسی بے چینی کا
4 تم حقیقت میں کوئی خواب سہی
5 دل تو پھیلا ہے کئی صدیوں پر
6 میری باتوں میں تری بات چھپی رہتی ہے
7 روح سے روح تلک آ ہی گئی بے چینی
8 چاند آیا ہی نہیں بات تمہاری کرنے
9 بارشیں ہونا تو معمول ہے ان آنکھوں میں
10 کتنے پیغام لکھوں خط میں کہ اب لوٹ آؤ
11 درد ہوتا ہے تو چہرہ بھی حسیں لگتا ہے
12 کتنی عیدیں اداس ہیں تم بن
13 یاد آنے سے تو بہتر تھا کہ خود لوٹ آتے
14 پھر تمہیں یاد کیا 
15 ہجر سویا ہے کئی صدیوں سے
16 تم کہاں چین سے سوئے ہوئے رہتے ہو مرے ہجر زدہ؟
17 چاند تو اب بھی دیوانہ ہی سمجھتا ہے ہمیں
18 آؤ کچھ یاد دلاتا ہوں جو تم کہتے تھے
19 ڈَس گئی تیری مسیحائی مجھے
20 آ کبھی کھل کے ہنسیں ہم دونوں
21 ہو بھی سکتا ہے کبھی تم آؤ
22 ہم ترا ہجر لکھا کرتے تھے دیواروں پر
23 بخت کے ساتھ ہی ڈھل جاتے تو اچھا ہوتا
24 یہ دلاسہ بھی بہت ہے دل کو
25 روئے جانے کا سبب بھول گئیں ہیں آنکھیں
26 کس کے ہاتھوں میں تلاشوں میں یہاں بخت رسا
27 کیا بچھڑنے کا مہورت بھی ہوا کرتا ہے؟
28 میٹھی نظروں سے اداسی نے ہمیں بھانپ لیا
29 اتنے انداز بدل لیتی ہے خاموشی بھی
30 ہم اسے یاد بہت کرتے ہیں خاموشی سے
31 روح نے تم سے محبت کی کی ہے
32 تم بھی ناراض ہوئے رہتے ہو
33 میں نے خوش ہو کے ہی خوشیوں کو کیا تھا رخصت
34 اتنا آساں تو نہیں ہجر سے ہجرت کرنا
35 اے مرے ہوش رُبا
36 تم تو صدیوں سے کہیں پہلے ملے تھے ہم سے
37 آخری خط ہی تو پہلا خط ہے
38 یہ صدی بھی اداس ہے تم بن


*****************



اے مرے خوفزدہ

لو گیا دن بھی مرے ہاتھوں سے
آ بسی شام مری آنکھوں میں
رات بھی ضبط سے ملنے کو چلی آئی ہے
خواب ویران گزر گاہ پہ جا نکلے ہیں
نیند سرہانے کے نیچے سے نکلتی ہی نہیں
سانس ہے ہجر زدہ
خواب ہیں موت زدہ
آنکھ ہے خوفزدہ
درد حیران و پریشان کھڑا ہے کب سے
کس کے رونے سے نمی پھیل گئی کمرے میں
کھڑکیاں کب سے کھلی ہیں لیکن
اس قدر حبس ہے جو جاں کو مسل دیتا ہے
اتنی جذبات کی حدّت ہے کہ جاتی ہی نہیں
اک قیامت ہے جو ٹھہری ہے ، گزرتی ہی نہیں
تم ہی چپ چاپ یونہی روز گزر جاتے ہو!!!

زین شکیل

*****************

ایسے کھویا ہوں کسی ہجر میں خاموشی سے

ایسے کھویا ہوں کسی ہجر میں خاموشی سے
سانس لیتا ہوں تو ڈر جاتا ہوں
خواب جب مل کے چلے جاتے ہیں، سو جاتا ہوں
نیند آتی ہے تو جاگ اٹھتا ہوں
وقت زنجیر بنا رہتا ہے
میرے پیروں میں بندھا رہتا ہے
اور گھسیٹے ہوئے رکھتا ہے مجھے آگے ہی
اور ماضی سے نکلنے بھی نہیں دیتا ہے
آبلوں سے کہیں رِستا ہوا پانی جب جب
تیری دہلیز پہ پڑتا ہے تو رودیتا ہوں
کان بج جاتے ہیں خاموشی سے
نیند اُڑ جاتی ہے بے چینی سے
بولتے رہنے کو تنہائی بہت کافی ہے
میں تو کھویا ہوں کسی ہجر میں خاموشی سے
اور بربادی نے آباد کیے رکھا ہے

زین شکیل

*****************

اب تلک حل نہیں نکلا کسی بے چینی کا

آرزوئیں ہیں کہ مٹتی ہی نہیں
بے قراری ہے کہ جاتی ہی نہیں
فاصلے کم بھی نہیں ہو سکتے
راستے ہیں کہ فقط تنگ ہوئے جاتے ہیں
اک مسیحا ہے جو بے نام مسیحائی لیے
روز خوابوں میں چلا آتا ہے
اور آ کر یہی کہتا ہے ہمیشہ کی طرح
اب تلک حل نہیں نکلا کسی بے چینی کا
یہ عجب زخم ہیں مرہم کے لگانے سے سلگ اٹھتے ہیں
حرف بیزار ہوئے
لفظ بے کار ہوئے
اس اداسی سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے ممکن
فکر کرنے کی ضرورت کیا ہے
کوئی تدبیر تو ہو گی ہی کہیں
جان نکلے گی تو شاید ہی قرار آ جائے
اب تلک حل نہیں نکلا کسی بے چینی کا

زین شکیل

*****************

تم حقیقت میں کوئی خواب سہی

اور پھر خواب کی بستی سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں
خواب آتے ہیں تو آتے ہی چلے جاتے ہیں
نیند آتی نہیں اور رات گزر جاتی ہے
خواب تکنے کے لیے نیند ضروری تو نہیں
خواب تعبیر کی منزل پہ پہنچنے کا کوئی رستہ ہیں
خواب ہی خواب ہیں بس دور تلک پھیلے ہوئے
خواب تو صدیوں پرانے بھی ہوا کرتے ہیں
خواب دیتے ہیں جنم خوابوں کو
خواب کی بات فقط خواب سمجھ سکتے ہیں
خواب گر ٹوٹے تو یہ عمر کو ڈس لیتا ہے
خواب روٹھے تو اسے خواب منا سکتے ہیں
ہم حقیقت میں حقیقت تو نہیں
ہم حقیقت میں کئی خواب ہیں خوابوں میں کہیں بکھرے ہوئے
ہم سبھی خواب ہیں صدیوں میں کہیں اٹکے ہوئے
تم بھی خوابوں میں کہیں آتے ہوئے خواب سہی

زین شکیل

*****************

دل تو پھیلا ہے کئی صدیوں پر

یہ تجربہ بھی کئی بار کیا ہے دل نے
دل نے ہر بار کوئی بات کہیں بھولی ہے
تجھ کو ہر بار مگر یاد کیا ہے دل نے
دل کچھ ایسے بھی کئی بار ملا
جیسے اس سے بڑا آوارہ طبیعت ہی نہیں ہے کوئی
جیسے اس میں کسی انجام کی حسرت ہی نہیں ہے کوئی
دل تو ہر درد سے ملنے میں پہل کرتا ہے
دل کو عادت ہے ستم سہنے کی
دل اگر دکھ ہی دیا کرتا ہے
دل مداوا بھی تو کر سکتا ہے
دل میں یادیں بھی بسا کرتی ہیں
دل کے موسم بھی ہوا کرتے ہیں
دل میں کچھ راز ہوا کرتے ہیں کچھ صدیوں کے
دل وہ مسجد ہے کہ جس میں کوئی چپ چاپ چلا آتا ہے ننگے پاؤں
اور یادوں سے وضو کرتا ہے
اور محراب پہ رکھتا ہے مصلّہ اپنا
اور سجدے میں پڑا رہتا ہے پھر صدیوں تک
جانے یہ کیسی عبادت ہے کہ اٹھتا ہی نہیں
ایسے عابد کو بھلا کون نکالے دل سے
جو نکلتا ہی نہیں۔۔۔۔
دل بھی خاموش پڑا رہتا ہے
دل جو بولے تو بغاوت پہ اتر آتا ہے
دل کی خاموشی سے ڈر بھی تو بہت لگتا ہے
پھیل جاتی ہے اداسی بھی کئی صدیوں پر
دل سنا کرتا ہے ہر بات، سمجھتا ہی نہیں
دل محبت سے بھرا رہتا ہے
دل اداسی میں گھرا رہتا ہے

زین شکیل

*****************

میری باتوں میں تری بات چھپی رہتی ہے

اے مرے خوفزدہ بات تو سن!
تجھ کو کس بات سے ڈرتے ہوئے ڈر لگتا ہے؟
تیری کس رات میں ہر رات پڑی رہتی ہے؟
کون سے ذات تری ذات میں ڈھل سکتی ہے؟
کون سی بات تری بات بدل سکتی ہے؟
کیسا چہرہ ترے چہرے کے لیے موزوں ہے؟
کیسی آنکھیں تری آنکھوں میں سما سکتی ہیں؟
کیا ترے خواب میں یہ خواب نہیں آسکتا؟
کیا ترے بھاگ میں یہ بھاگ نہیں آ سکتا؟
میں تو ہر موڑ پہ ہر موڑ بدل لیتا ہوں
میں تو ہر شہر میں اک شہر بسا سکتا ہوں
میرے جذبات کے جذبات بدلتے ہیں نہیں
میرے حالات کے حالات بدل جاتے ہیں
تیری خوشبو مری خوشبو میں بسی رہتی ہے
میری باتوں میں تری بات چھپی رہتی ہے
اے مرے ہجر زدہ پاس تو آ۔۔۔
اے مرے خوفزدہ بات تو سن!

زین شکیل

*****************

روح سے روح تلک آ ہی گئی بے چینی

چند لمحات سہی پھیلے ہوئے صدیوں پر
اتنی صدیاں ہیں کہ گننے میں نہیں آ سکتیں
کب، کہاں، کیسے تری یاد میں روئی آنکھیں
اشک گر چن بھی لیے جائیں تو
اتنی آنکھیں ہیں کہ چننے میں نہیں آ سکتیں
کتنی سانسوں نے ترے نام کی سرگم کی تھی
اب سبھی سُر وہ سبھی گیت بھی خاموش ہوئے
کون سے موڑ پہ رکنا تھا ،کسے ملنا تھا
راستوں پر تومسلط ہے عجب ویرانی
اب بھی دروازے کی دستک سے ہے امید کوئی وابسطہ
جیسے صدیوں کی مسافت سے کوئی لوٹے گا
جس کے چہرے سےتھکن اترے گی اس چہرے کی
یہ اداسی کا لبادہ بھی اترتا ہی نہیں
روح سے روح تلک آہی گئی بے چینی

زین شکیل

*****************

چاند آیا ہی نہیں بات تمہاری کرنے

رات کے پاس کوئی سرمئی آنچل ہی نہ تھا
نیند تاروں میں بھٹکتی ہی رہی
خواب ملنے ہی نہیں آئے ہمیں
چاند نکلا تو ستاروں نے اسے گھیر لیا
چاند کی سمت نگاہوں کو لگائے ہوئے ہم
دیکھتے رہ گئے اپنا ہی تماشہ چپ چاپ
ہم کسی ہجر کو لکھتے رہے دیواروں پر
خوب کوسا ہمیں دیواروں نے
خوب ڈانٹا ہے ہمیں لفظوں نے
ہاتھ پچھتاتے رہے لکھ کے تری سب باتیں
اور کرتے بھی تو ہم کیا کرتے
چاند آیا ہی نہیں بات تمہاری کرنے

زین شکیل

*****************

بارشیں ہونا تو معمول ہے ان آنکھوں میں

یہ عجب بات ہے جنگل بھی بھٹک جاتے ہیں
اور مسافر کا بھٹک جانا کوئی ایسی بڑی بات نہیں
راہ جب دکھتی نہیں ہے تو یہی سوچتے ہیں
آسمانوں سے کوئی بجلی گرے
چاہے جل جائے بدن
راکھ ہو جائے زمیں
خاک کے ڈھیر میں مل جائے کوئی منزل بھی
کچھ دکھائی تو مگر دے ہم کو
کوئی انجان سا بادل جو گزرتا ہو کہیں
اس سے بے ساختہ کہتے ہیں برس کر جانا
ابر برسے گا تو چھٹ جائے گا
اور ممکن ہے اجالا ہونا
لیکن آنکھیں جو کہیں ابر ہوئی جاتی ہیں
نا ہی چھٹتے ہیں یہاں سے بادل
نا ہی برسات یہاں تھمتی ہے
بارشیں ہونا تو معمول ہے ان آنکھوں میں

زین شکیل

*****************

کتنے پیغام لکھوں خط میں کہ اب لوٹ آؤ

کتنے پیغام لکھے جائیں گے ان آنکھوں سے
روگ اتنے ہیں کہ ٹکڑے بھی کیے جائیں اگر
پھر بھی لفظوں کی حدوں سے وہ کہیں باہر ہیں
لکھے جاتے ہیں کہاں درد کسی کاغذ پر
پھیل جاتی ہے سیاہی سبھی جذبات کے ساتھ
ہاتھ سے درد نہیں جاتا ہے
پھر بھی کہتا ہوں کہ ہر ہجر ترے نام لکھوں
تیرے وہ خط بھی سبھی کھا گئیں صدیاں چپ چاپ
سارے پیغام کہیں کھو گئے ان راہوں میں
اور اب کتنے تجھے خط لکھوں؟
کتنے پیغام لکھوں خط میں کہ اب لوٹ آؤ
کتنی صدیاں ہیں اداسی میں کہیں ڈوبی ہوئی
یہ صدی بھی نہ گزر جائے کہیں تیرے بغیر

زین شکیل

*****************

درد ہوتا ہے تو چہرہ بھی حسیں لگتا ہے

دل بہلتا بھی نہیں جسم بھی تھک جاتا ہے
کتنے افسردہ خیالات میں کھوئی ہوئی وہ
کتنے غمگین سے دریاؤں میں ڈوبا ہوا میں
کوئی رہتا ہے ہواؤں میں کہیں بکھرا ہوا
کوئی رہتا ہے صداؤں میں کہیں ٹوٹا ہوا
جان بھی جاتی نہیں
سانس بھی آتی نہیں
کون سے غم میں تجھے بھول گئے
کس خوشی میں ہے تجھے یاد کیا
ٹھیک سے یاد نہیں کب ہوئے آباد بھی ہم
ایک وہ ہے جو کسی غم سے جڑا رہتا ہے
جس کے ہر درد کو جی بھر کے سہا ہے ہم نے
جس کے دکھ صدیوں سے سہتے ہوئے آئے ہیں یہاں
آئینہ جھوٹ بھی کہہ دے تو بڑی بات نہیں
یہ تو صدیوں کی ریاضت سے عیاں ہے ہم پر
درد ہوتا ہے تو چہرہ بھی حسیں لگتا ہے

زین شکیل

*****************

کتنی عیدیں اداس ہیں تم بن

ایک تہوار سا چل نکلا ہے
لوگ ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں گجرے ہر سُو
سب نے محبوب بنا رکھے ہیں اپنے اپنے
ہم بھی انجان سی اک بھیڑ میں سب دیکھتے ہیں
ہم بھی کھوئے ہوئے رہتے ہیں ہر اک چہرے میں
ہم تمہیں کھوج رہے ہوتے ہیں
ہم تمہیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں
جب ہمیں پھول بھی اس حال میں تکتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں
اب بھلا کس کے لیے پھول خریدے جائیں
کس لیے ہاتھ میں لے کر پھریں گجرے ہم بھی
تم کہاں ٹھیک سے محبوب بنے تھے اپنے
وہ تو ہم نے تمہیں محبوب سمجھ رکھا تھا
پھول ہنستے ہیں تو ہنستے جائیں
جس میں تم پاس نہیں آ سکتے
جس میں تم راس نہیں آ سکتے
جس میں ہم دیکھ نہ پائیں تم کو
ایسے تہوار کو ہم عید نہیں کہہ سکتے

زین شکیل

*****************

یاد آنے سے تو بہتر تھا کہ خود لوٹ آتے

بانکپن خاک ہوا
پیرہن چاک ہوا
اور آواز کی بھی اُڑ گئیں دھجیاں کتنی
ذہن چِلّایا بہت
خواب پچھتایا بہت
تجھ سے کچھ ربط ابھی باقی ہیں
کتنا بھولے ہیں تجھے
بے تحاشہ ہے تجھے یاد کیا
تیری یادوں سے کوئی محل بنانا ہے ہمیں
جس میں تم آؤ گے تو دل کے حسیں تخت پہ بٹھلائیں گے
 اسی مزدوری کو یہ عمر بہت ہی کم ہے
سانس رکتی ہوئی آتی ہے نظر
لوٹ آؤ گے کبھی، یہ بھی نہیں ہے معلوم
ذہن کے سارے دریچے ہیں اجڑنے والے
میں نے مشکل سے سمیٹا ہے کئی اشکوں کو
یاد آنے سے تو بہتر تھا کہ خود لوٹ آتے

زین شکیل

*****************

پھر تمہیں یاد کیا

پھر تمہیں یاد کیا ہجر میں، بیماری میں
راکھ ہوتی ہوئی بینائی کے ہر ریشے میں
بات کی تہہ کے بہت آخر میں
رات کی ذات کے اندر جا کر
دشت کو پیاس میں دریاؤں کے کچھ خواب دکھا کر ہم نے
خود کو تنہائی میں خود پاس بلا کر اپنے
پھر تمہیں یاد کیا 
اور ہر رات کو اک راز بتا کر چپ چاپ
ایک لمحے میں کئی صدیاں بتا کر چپ چاپ
تیری تصویر کو سینے سے لگا کر چپ چاپ
اس قدر یاد کیا ہم نے تمہیں۔۔۔
پھر تجھے یاد کیا شہر کے ویرانوں میں
سانس لیتی ہوئی زخمی چڑیا
صحن میں آکے گری، ہم نے اٹھایا تو اسے کمرے میں لے کر آئے
سامنے رکھ کے اسے اور بہت رو رو کر
پھر تمہیں یاد کیا ہے ہم نے۔۔۔۔

زین شکیل

*****************

ہجر سویا ہے کئی صدیوں سے

نیتیں سچ بھی اگر ہوں تو مقدر پہ ہی بات آتی ہے
اجر کی آس میں اب عمر بتائی تو نہیں جاسکتی
بعد میں بھی کوئی مل سکتا ہے
کون رویا ہے کسے ہے پروا؟
لوٹ کر پھر ہمیں تیری ہی طرف جانا ہے
کون روکے گا ہمیں؟
پہلے بھی کون بھلا روک سکا تھا ہم کو
ہم کو آنا تھا، چلے آئے ہیں
تیرے آنے کی بھی امید لگا بیٹھے ہیں
اور سچ پوچھو تو نیت بھی بہت سچی ہے
ایسی امید پہ ہم عمر بتانے کے لیے راضی ہیں
چند لمحوں میں کئی صدیاں بِتا بیٹھے ہیں
ہم نے بازار سے خوشیوں کی کئی شالیں خریدی ہیں تمہاری خاطر
اور سب دکھ انہی شالوں میں چھپا رکھے ہیں
اور بس دکھ ہی نہیں،
 ہجربھی شال کو اوڑھے ہوئے سویا ہے کئی صدیوں سے
جو ترے آنے پہ ہی نیند سے جاگے شاید
اور کہیں دور چلا جائے مری دنیا سے
اور میں وصل کو سینے سے لگاؤں اپنے

زین شکیل

*****************

تم کہاں چین سے سوئے ہوئے رہتے ہو مرے ہجر زدہ؟

زندگی لاش بنی پھرتی ہے
آرزو بین کیے جاتی ہے
ابر ایسے ہیں نگاہوں میں، برستے ہیں تو تھمتے ہی نہیں
حسرتوں کا کوئی ماتم ہے کہ ٹلتا ہی نہیں
یہ اُداسی ہے جو آتی ہے تو جاتی ہی نہیں
کون سی رُت ہے کوئی نام نہیں ہے اس کا
ایک لاچار سی بیوہ ہے کوئی سنتا نہیں ہے جس کی
ایسے حسرت کوئی بیٹھی ہے کسی درد کی چادر اوڑھے
درد بھی صدیوں پرانا کہ جسے دیکھتے ہی درد جنم لینے لگیں اور نئے
اور اس کربِ مسلسل میں تری یاد دلاسہ جو کہیں دے جائے
چند لمحوں کے لیے آنکھ لگا لیتے ہیں
حسرتیں پھر بھی نہیں سو پاتیں
نیند بالکل نہیں آتی ان کو
تم کہاں چین سے سوئے ہوئے رہتے ہو مرے ہجر زدہ؟

زین شکیل

*****************

چاند تو اب بھی دیوانہ ہی سمجھتا ہے ہمیں

ایک لمحے میں کہاں حال بدل سکتا ہے
اور لمحات بھی صدیوں جیسے
جو گزر کر بھی گزرتے ہی نہیں
اور اک ہم بھی تو ہیں جاں سے گزرتے ہی نہیں
تم کسی روز ملو!
چند لمحات سہی پاس تو آ کر بیٹھو
ایک مدت سے تمہارے وہ گھنے بالوں کی گتھی کو نہیں سلجھایا
ہم کو ہر ایک پہیلی کا جواب آتا ہے
تم بجھارت کوئی ڈالو تو سہی
اب تمہاری کئی باتوں سے کوئی بات نکالی ہی نہیں صدیوں سے
اب کے مدت سےتمہارا وہ کبھی دھیان بٹایا ہی نہیں
تم کو باتوں میں لگا کریونہی ہاتھوں پہ اچانک کوئی انگلی بھی لگائے ہوئے عرصہ بیتا
تم جو باتیں ذرا دھیرے سے مرے کان میں کہہ دیتے تھے
میں وہ باتیں وہیں چلّا کے ستاروں کو بتا دیتا تھا
اور تم بھی تو ہنسا کرتے تھے
تم کسی روز ملو
آکے دیکھو تو سہی
چاند تو اب بھی دیوانہ ہی سمجھتا ہے ہمیں

زین شکیل

*****************

آؤ کچھ یاد دلاتا ہوں جو تم کہتے تھے

سانس لینا بھی کوئی جینا ہے؟
تم نہیں، تم جو نہیں ہو تو کوئی اور بھی کیوں؟
میں نے خوابوں میں بھی دیکھا تھا تمہیں اپنا ہی
جو مجھے تم سے جدا کر دے وہ رُت ہے ہی نہیں
اس قدر ٹوٹ کے تم مجھ سے ملو تو اک بار
اور تم اتنا ملو مجھ سے کہ پھر جا نہ سکو
میں نے چاہا ہے تمہیں صدیوں سے
میری صدیاں ترے لمحات میں کھو جاتی ہیں
میری باتیں تو تری بات میں کھو جاتی ہیں
میری نیندیں بھی تری رات میں سو جاتی ہیں
تیرے آنسو بھی میری آنکھیں ہی رو جاتی ہیں
زہر تو جان فقط لے گا مگر تم کو بھلا کیسے نکالے گا مرے اندر سے
ہجر کا نام بھی سوچوں تو یہی لگتا ہے
جیسے اس جسم سے یہ روح نکل جاتی ہے
روح سے جسم جدا ہوتے نظر آتا ہے!
میرے لمحات میں صدیوں کو بسائے ہوئے شخص
کیا تمہیں یاد ہے سب؟ تم ہی کہا کرتے تھے!

زین شکیل

*****************

ڈَس گئی تیری مسیحائی مجھے

ہم تو سمجھے تھے مسیحا سے بھی کچھ زیادہ تمہیں
تم نے بھی کم تو نہیں کچھ بھی کیا
زخم پر، زخم سجایا، میرے
خوب چہرے کو سجایا ہے مرے ،زخموںسے
سامنے بیٹھ کے دیکھا ہے مجھے
اور دیکھا بھی مجھے حد سے کہیں زیادہ ہے
اور ہنستے بھی رہے ہو مجھ پر
اور جب زخم پہ تم زخم لگا دیتے تو کہہ جاتے تھے
زخم ہی زخم سے کر سکتا ہے زخموں کا علاج
یہ عجب زخم ہیں جن سے نہ کبھی درد ہوا
نہ کوئی ٹیس اُٹھی شدت سے
زخم بھی صدیوں پرانے ہیں کہ جب جلتے ہیں
ایک ہی چہرہ نظر آتا ہے چاروں جانب
روح مفلوج سی ہو جاتی ہے
اور احساس سے بھی دور نکل جاتا ہے یہ جسم کہیں
اور صدیاں مرے لمحات میں آجاتی ہیں

زین شکیل

*****************

آ کبھی کھل کے ہنسیں ہم دونوں

لوگ بکھرے ہوئے بالوں کا سبب کیا جانیں
وقت کی ریت سے واقف تو بہت ہو تم بھی
ویسے بدلاؤ تو ہر چیز میں ہو سکتا ہے
جس طرح تم۔۔۔۔
اور پھر تم تو مثالوں سے کہیں آگے ہو
کوئی گھڑیال کبھی وقت بھلا سکتی ہے؟
ہاں اگر، وہ تو ہے پابند مگر تم تو نہیں
کس طرح تم نے مری صدیاں بھلا دیں ؟ بولو!
میں نے بھی تم کو بھلانا ہے انہی لمحوں میں
اور پھر وقت سے آگے ہی کہیں جانا ہے
اس سے پہلے کہ بھلا دوں تم کو
اس سے پہلے کہ یہی وقت بھلادے کوئی گھڑیال کہیں
تم اسی وقت سے پہلے ہی چلے آؤ یہاں
آ ؤ پھر مل کے بھلائیں صدیاں
آؤ پھر کھل کے ہنسیں ہم دونوں

زین شکیل

*****************

ہو بھی سکتا ہے کبھی تم آؤ

ہو بھی سکتا ہے کہ تم خواب کی پوشاک پہن کر آؤ
اور اترو مرے آنگن میں کبھی
میں بھی دیکھوں تمہیں بند آنکھوں سے
تم کو محسوس کروں چپکے سے
ہو بھی سکتا ہے کوئی بات چھپائی ہو کسی لڑکی نے
ایک لڑکی جو کسی اور طرح ملتی تھی
اور بچھڑتی تھی کسی اور طرح
ہو بھی سکتا ہے کوئی قید ہو اک عمر کے زنداں میں کہیں
آنا چاہے وہ مگر آ ہی نہیں سکتا ہو
ہو بھی سکتا ہے جسے عمر تھما دی جائے
جس کو حد سے بھی سوا چاہا ہو
وہ جو اگر جھوٹ بھی بولے جائے
یوں لگے اس سے بڑا سچ ہی نہیں ہے کوئی
ہو بھی سکتا ہے تمہی تم ہو یہاں
دیر تک، دور تک، ہر لمحے میں صدیوں کی طرح پھیلے ہوئے
ہو بھی سکتا ہے کبھی پاس مرے ہوتے ہوئے، تم آؤ۔۔۔

زین شکیل

*****************

ہم ترا ہجر لکھا کرتے تھے دیواروں پر

ہے بڑی سختی سے لکھنا منع دیواروں پر
یہی پیغام تو لکھا ہے سبھی شہر کی دیواروں پر
لکھنے والے کو کڑی سے بھی کڑی ہو گی سزا
پھر بھی ہم لکھتے رہے شہر کی دیواروں پر
اک ترا ہجر، تجھے، اور تری باتوں کو
وہ بظاہر تو نظر آ ہی نہیں سکتا ہے 
پھر بھی ہر بار کے لکھنے پہ سزا پائی ہے
جانے کیسے ہوا قانون یہ ہم پر لاگو
اب کریں بھی تو کریں کیا کہ کوئی سنتا نہیں
ہم ترا ہجر کسی پیڑ پہ لکھ آئے تھے
اتنی صدیوں کے گزر جانے پہ اب تک ہے وہاں بے ثمری
اور دیوار پہ لکھنا ہے منع
جانے کس بات کا ڈر پھیل گیا شہر کے آثاروں پر
ہم ترا ہجر لکھا کرتے تھے دیواروں پر

زین شکیل

*****************

بخت کے ساتھ ہی ڈھل جاتے تو اچھا ہوتا

طاق راتوں میں لکھے بخت کا پھر جفت سے ہوتا بھی تعلق کیسے؟
بخت بھی ایک سے گر ہوں تو کہیں جفت ہوا جاتا ہے
بخت خفتہ ہے کئی صدیوں سے
ہم کہیں اور بھٹکتے ہوئے پھرتے ہیں کئی صدیوں سے
صدیوں پہلے ہی کہیں بخت میں تم لکھے تھے
اور پھر ساتھ کہیں لے گئے جاتے ہوئے صدیاں میری
اب تو ہمت بھی نہیں ہے کہ تمہیں ڈھونڈیں ہم
بختِ برگشتہ لیے پھرتے ہیں گلیوں گلیوں
ہم تو بس اتنا ہی کر سکتے ہیں
بخت بھی کتنا عجب ہے جس پر
بَس کبھی اپنا چلا سکتے نہیں
ہاتھ میں ہوتے ہوئے ہاتھ میں لے سکتے نہیں
بخت پہ بس جو چلا کرتا تو پھر ہجر کو ہم سخت سزا دے دیتے
اور ٹھہراتے اسے موت کی اک گھاٹی میں
یا اسے آگ لگا دیتے کسی جنگل میں
کیسے تم ہم سے کہیں کھو جاتے
کیسے چپ چاپ جدا ہو سکتے
بخت ڈھلنا تھا سو ڈھلتا ہی گیا
اور اب بخت رسیدہ ہی لیے سوچتے ہیں
بخت کے ساتھ ہی ڈھل جاتے تو اچھا ہوتا

زین شکیل

*****************

یہ دلاسہ بھی بہت ہے دل کو

جھوٹ چہرے پہ بنے نقش مٹا سکتا نہیں
بات دب جائے تو اک روز نکل آتی ہے
کوئی بچھڑے تو کہیں خواب میں مل جائے تو مل جائے فقط
ورنہ صدیوں کی اذیت تو نہیں جا سکتی
دن نکلتا ہے تو اک آس سی لگ جاتی ہے
آنکھ رستوں پہ لگی رہتی ہے
تیرے آنے کی کوئی راہ نظر آجائے
رات ہوتی ہے تو دل ڈرتا ہے
چاند خاموش کھڑا دیکھتا رہتا ہے فقط
بولتا ہی نہیں سنتا ہے مگر سب باتیں
کوئی تو ہے جو کوئی بات سنا کرتا ہے
یہ دلاسہ بھی بہت ہے دل کو
یہ تسلی ہے جو آباد کیے رکھتی ہے
ایک محجوب سا چہرہ ہے جو کھُلتا ہی نہیں
لیکن آنکھوں کا محاذی بھی بنا رہتا ہے
جس طرح، جیسا بھی، جس بھانت میں ہے، ہے تو سہی
یہ دلاسہ بھی بہت ہے دل کو

زین شکیل

*****************

روئے جانے کا سبب بھول گئیں ہیں آنکھیں

درد کو ضبط کی تحویل میں رکھنا ہی بہت موزوں ہے
ایک دیوار اگر ضبط کی گر جائے تو آنکھیں بھی اجڑ جاتی ہیں
کوئی بھولا ہوا جب لوٹ نہیں پاتا تو
کون اداسی کے سوا ہاتھ ملانے کے لیے آتا ہے؟
کوئی بچھڑا تو کہیں لوٹ نہیں پایا کئی صدیوں سے
گھر کی ویران فضا اب بھی سسکتی ہے یہاں
صرف روتی ہے، بلانا تو اسے بھول گئی
صدیوں پہلے جو ملیں، یاد کہاں رہتے ہیں
اور اک پل میں کہیں ملنے بچھڑنے والے
چند لمحات میں لے جاتے ہیں صدیاں کتنی
ٹھیک سے یاد نہیں ہے ہم کو
کون سا خواب کہاں ٹوٹا تھا صدیوں پہلے
اشک ریزی تھی فقط ایک ہی پیکر کے لیے
اب یہ عالم ہے کہ عادت سی ہوئی جاتی ہے
روئے جانے کا سبب بھول گئی ہیں آنکھیں

زین شکیل

*****************

کس کے ہاتھوں میں تلاشوں میں یہاں بخت رسا

وصل کی گٹھڑی کو کندھوں پہ اٹھائے ہوئے اب کون یہاں لاتا ہے؟
ہم تو بس ہجر کو بردوش کیے پھرتے ہیں
کون لاتا ہے یہاں خط جس میں
لوٹ آنے کا وہ بے نام سا وعدہ ہی فقط لکھا ہو
کون دیتا ہے رفاقت سے بھرے کچھ لمحے
کون ہونٹوں پہ سجائے ہوئے مسکان پلٹ آتا ہے
کون کہتا ہے کہ یہ ذات تمہاری ہے کئی صدیوں سے
کس لیے نیند خفا ہے ہمیں معلوم نہیں
لے گیا کون، کہاں، کب مرے خوابوں کو بھی معلوم نہیں
برگزیدہ سا کوئی دن کہیں موجود ہے ان صدیوں میں؟
تو کہاں ہے اے مرے بخت رسا
آ کے اِک بار تو مل
میں تجھے دیکھ تو لوں
کس کے ہاتھوں میں تلاشوں میں یہاں بخت رسا

زین شکیل

*****************

کیا بچھڑنے کا مہورت بھی ہوا کرتا ہے؟

صورتِ حال عجب ہوتی ہے
حال احوال جو ویرانوں میں کھو جاتا ہے
خاک اڑتی ہے تو آنکھوں میں تو پڑ جاتے ہیں کچھ ذرّے بھی
لوگ تو وصل کو تہوار سمجھ لیتے ہیں
اور مناتے ہیں بہت خوشیاں بھی
لوگ تو ہجر سے ڈرتے ہی نہیں
جس طرح عام سی تعطیل کا دن ہوتا ہے
اس طرح لوگ یہاں ہجر منا لیتے ہیں
اور بچھڑتے ہیں وہ اس شان کے ساتھ
جیسے معمولی سی اک بات ہوا کرتی ہے
جیسے اگلے ہی کسی لمحے انہیں ملنا ہو
لوگ جانے ہی نہیں ہجر کا مطلب شاید
ہجر پھیلا ہوا رہتا ہے کئی صدیوں پر
لوگ کیوں ہجر کو معمولی سمجھ لیتے ہیں
کیا بچھڑنے کا مہورت بھی ہوا کرتا ہے؟

زین شکیل

*****************

میٹھی نظروں سے اداسی نے ہمیں بھانپ لیا

پھر ہمیں ٹھیک سے پہچان لیا
ہم نے بھی مان لیا
کتنی الفت سے ہمارے وہ بہت پاس آئی
ہم نے پہچان لیا
کیا اثر تھا کہ جسے روک نہیں پائے ہم
ہم بچا ہی نہیں پائے خود کو
زندگی اتنی بھی معصوم ہوا کرتی ہے معلوم نہ تھا
جو اداسی کے کسی دھوکے میں آ سکتی ہے
اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا تھا
ایک میٹھی سی نظر کچھ بھی تو کر سکتی ہے
ہم نے بھی ٹھان لیا
اور پھر خود کو حوالے ہی کیا ہے اُس کے
کتنی صدیاں ہی اداسی کی نذر کیں ہم نے
میٹھی نظروں سے اداسی نے ہمیں بھانپ لیا
ہم نے بھی مان لیا

زین شکیل

*****************

اتنے انداز بدل لیتی ہے خاموشی بھی

بات ہو سکتی ہے خاموش ہی رہ جانے سے
خامشی کے بھی تو انداز ہوا کرتے ہیں
اس کا اپنا ہی علیحدہ سا کوئی لہجہ ہے
بات کرنے کے لیے رات بھی ہو سکتی ہے
رات تو ویسے بھی چپ چاپ پڑی رہتی ہے اک کونے میں
رات سرگوشی تو کر سکتی ہے
بات ہو سکتی ہے خاموشی سے
اور خاموشی کہیں شور مچا سکتی ہے
اور آواز بھی آتی ہی نہیں
خامشی شہر میں آجائے تو ناراض ہوئی رہتی ہے
اور لہجہ بھی دِکھا دیتی ہے
خامشی جسم کے اندر بھی ہوا کرتی ہے
روح میں بھی ہے علیحدہ سے کوئی خاموشی
روح اور جسم کی خاموشی کے مل جانے سے اک بات جنم لیتی ہے
اور پھر دور تلک پھیلتی جاتی ہے وہ خاموشی سے
اتنے انداز بدل لیتی ہے خاموشی بھی
جیسے صدیاں بھی تو خاموش پڑی رہتی ہیں
اور خاموشی سے ہر بات بتا دیتی ہیں

زین شکیل

*****************

ہم اسے یاد بہت کرتے ہیں خاموشی سے

ہم اسے بھول کے خوش تھے ہی نہیں
ہم نے ہر لمحہ بھلایا اس کو
اور بھُلاتے ہوئے ہر لمحے میں پھیلیں صدیاں
کوئی لمحہ بھی ہمیں یاد دلاتا ہی نہیں
ہم نے مانا ہی نہیں ہم نے اسے یاد کیا
اور ہم بھول گئے سب باتیں
اور پھر شور میں چپ چاپ کہیں بیٹھ گئے
ہم نے آوازوں میں اس دل کو لگانے کی بہت کوشش کی
ہم اسے بھول گئے ٹھیک طرح
ہم تو جنگل میں گئے تب بھی یہی کہتے رہے پیڑوں سے
اور کہساروں میں چلّا کے یہی بات کہی
ہم اسے بھول گئے ٹھیک طرح
لیکن آواز پہاڑوں سے پلٹ کر ہی نہیں آتی تھی
اور اگر آتی تو اک بھولی ہوئی یاد پلٹ آتی تھی
اور وہ بھی بڑی خاموشی سے
بھولتے بھولتے تھک ہار گئے
اور خاموشی سے اس بات کو تسلیم کیا 
ہم اسے یاد بہت کرتے ہیں خاموشی سے

زین شکیل

*****************

روح نے تم سے محبت کی ہے

دل ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں سب شہروں میں
ہر کوئی عشق کے رستوں پہ نکل پڑتا ہے جیسے چاہے
یہ عجب رسم سی چل نکلی ہے
دل گھسیٹا ہی گیا گلیوں میں
خاک میں خوب ملا
چاہے جانے کی یا پھر چاہتے رہنے کی ہی عادت سی پڑی ہے دل کو
دل تو ہر بات پہ رو پڑتا ہے
دل کو اپنے بھی کئی دکھ ہیں کہ جاتے ہی نہیں
دل کی آواز سے دھرتی بھی دہل جاتی ہے
لڑکھڑائی ہوئی رہتی ہے یہ آواز کبھی
دل محبت ہے، محبت سے بھرا رہتا ہے
لیکن اس دل میں کئی اور جگہیں ہوتی ہیں
اس میں آتی ہیں کئی صدیاں بھی
اس کی وسعت میں سمندر بھی تو آ سکتے ہیں
اس میں گر تم کو بساتے بھی تو گھل مل کہیں جاتے تم بھی
اس لیے ہم نے تمہیں روح سے اپنایا ہے
روح میں تجھ کو پرو رکھا ہے تسبیح کے دانوں کی طرح
روح تو دل سے کہیں گہری ہے
روح نے تم سے محبت کی ہے

زین شکیل

*****************

تم بھی ناراض ہوئے رہتے ہو

بے بسی ابر سا بن بن کے برس جاتی ہے
اور ہر چیز بھگو دیتی ہے
کتنے پیمان بھگوئے اس نے
کتنے امکان بھگوئے اس نے
کتنی روحوں کو کیا ہے گھائل
کتنے انسان بھگوئے اس نے
اور چپ چاپ کھڑی دیکھتی رہتی ہے تماشا ہی کئی صدیوں سے
ناسپاسی کو بلا لیتی ہے خاموشی سے
اور پھر ہاتھ ملا لیتی ہے
اور اک تم بھی تو محسوس نہیں کر سکتے
تم تو آتے ہو گلہ کر کے چلے جاتے ہو
تم بھی ناراض ہوئے رہتے ہو
تم سے روٹھیں تو کسی طور منائیں نا تمہیں
تم تو پہلے سے ہی ناراض ہوئے رہتے ہو

زین شکیل

*****************

میں نے خوش ہو کے ہی خوشیوں کو کیا تھا رخصت

پھر مرے گھر میں چلی آئیں تھیں کچھ خوشیاں بھی
ٹھیک سے میں نے بٹھایا تھا انہیں
اور خدمت بھی بہت کی ان کی
ان سے باتیں بھی بہت کیں میں نے
اور پھر ان کو ذرا جلدی تھی
شہر سے دور بہت جانا تھا
میں نے پھر خود سے ہی سوچا کہ میں مہمانوں کو
خالی ہاتھ اس طرح بھیجوں ، یہ مناسب تو نہیں
اس لیے میں نے سنبھالی ہوئی کچھ خوشیاں نکالیں کسی صندوق سے اور دے دیں نئی خوشیوں کو
باقی سب درد تھے صندوق سے جو میں نے نکالے ہی نہیں
میں نے خوشیوں سے چھپائے رکھے
اس طرح سے ہی کیا خوشیوں کو رخصت میں نے
وہ بھی خوش ہو کے گئیں اور گلے مل کے گئیں آخری بار
اور پہلے سے پڑی خوشیاں بھی خوش تھیں اس بار 
جن کو جانا تھا کہیں ساتھ نئی خوشیوں کے
اس لیے روک نہیں پایا انہیں جانے سے
چند لمحوں میں کیا تھا رخصت
اور لمحات بھی صدیوں جیسے
یوں گئیں پھر کبھی لوٹیں ہی نہیں
میں نے خوش ہو کے ہی خوشیوں کو کیا تھا رخصت!

زین شکیل

*****************

اتنا آساں تو نہیں ہجر سے ہجرت کرنا

تم سمجھتے تھے کہ دو چار قدم چلنا ہے
اور منزل پہ پہنچ جانا ہے
کتنا آسان سفر لگتا تھا
منجذب ہوتا گیا وقت بھی آسانی میں
ہم تو پہلے ہی کہا کرتے تھے
ہر قدم موت ہے ہم جانتے ہیں
تم سمجھتے ہی کہاں تھے ہم کو
تم کو جانا تھا کہیں اور مگر غلطی سے آنکلے انہی راہوں میں
ہم کو پہلے سے پتا تھا کہ بکھرنا ہے ہمیں
تم نے لمحات بھی کب چھوڑے ہیں
تم تو سب ساتھ ہی لے جاؤ گے ہم جانتے تھے۔۔۔۔
اور لمحات کو صدیوں میں بدلنے والے
کاش تم نے بھی کسی درد کو سمجھا ہوتا
پھر ہماری انہی صدیوں سے نکل کر نہیں جاتے تم بھی
تم تو آسانی سے کہتے ہو کوئی بات نہیں
اب تمہیں کس طرح سمجھائیں ہم
اتنا آساں تو نہیں ہجر سے ہجرت کرنا

زین شکیل

*****************

اے مرے ہوش رُبا

ضبط بے حال ہوا
درد بے چین ہوا
آگ سلگانے لگی 
راکھ بھی اڑنے لگی
زخم ناسور ہوئے جانے کو بیتاب ہوئے
درد رگ رگ میں کیے جانے لگا ہے گردش
ذہن نے دل پہ جو دیوار بنا رکھی تھی وہ گرنے لگی
سانس کا سینا ادھڑتا ہوا آتا ہے نظر
کپکپی آ گئی آواز میں اب صدیوں کی
آرزو ڈسنے لگی ہے ہم کو
حسرتیں ہنسنے لگیں ہیں ہم پر
اتنی شدت سے اداسی نے کوئی وار کیا 
جیسے نیزہ سا کوئی روح میں پیوست ہوا
اور کچھ اس طرح پیوست ہوا
روح کو بھی کوئی اب راہ نہیں ملتی نکلنے کے لیے
اس قدر کرب کا عالم ہے تمہیں کیسے کہیں
تو کہاں ہے؟ اے مرے ہوش رُبا!

زین شکیل

*****************

تم تو صدیوں سے کہیں پہلے ملے تھے ہم سے

راہ میں بکھرے ہوئے پتے اٹھا کر لانا
اور پھر لا کے کتابوں میں انہیں رکھ دینا
جانے کس بات کا احساس دلاتا تھا ہمیں
تم تو صدیوں سے کہیں پہلے ملے تھے ہم سے
اس سے بھی پہلے اداسی نے ہمیں اپنایا
اور اداسی بھی تو صدیاں کئی لے کر آئی
ہم کو نروان ملا دنیا سے
تب بھی محسوس کیا تھا ہم نے
صدیوں پہلے کی وہ صدیاں بھی تو گزری ہی نہیں ہیں اب تک
ہم تو معصوم ہوا کرتے تھے
شاید ایسے ہی ہمیں جینا تھا
اور جیتے بھی تو آئے ہیں کئی صدیوں سے
اور صدیوں میں اداسی کے سوا کچھ بھی نہ تھا
تم تو صدیوں سے کہیں پہلے ملے تھے ہم سے
اور پھر صدیوں نے رکھا ہے ہمیشہ ہی اداس

زین شکیل

*****************

آخری خط ہی تو پہلا خط ہے

کتنے دکھ درد ہیں صدیوں کے اداسی کی سیاہی سے ملا کر جو اتارے ہیں کسی کاغذ پر
اور پھر خط تمہیں لکھا ہے بہت آخر میں
ہو بھی سکتا ہے کہ تم تک یہ پہنچ ہی جائے
میرے لمحات تو تم ساتھ کہیں لے ہی گئے
اور پھر دے گئے صدیاں مجھ کو
بے تحاشہ سی، اداسی سے بھری چند ادھوری صدیاں
جو کہ صدیوں سے مکمل ہی نہیں ہو پائیں
ان کی تکمیل بتاؤ تو بھلا ممکن ہے
اک تمہاری ہی کمی ہے کہ جو پھیلی ہے مری صدیوں میں
اور اک میں ہوں کہ ان میں کہیں بکھرا ہوا ہوں
سر اِدھر، پاؤں اُدھر، روح تو جانے ہی کہاں ہے اپنی
کوئی آسانی نہیں، کوئی چارہ ہی نہیں
یوں بلایا بھی نہیں جا سکتا
پاس جایا بھی نہیں جا سکتا
خط مسلسل تمہیں لکھے بھی نہیں جا سکتے
اور ہر بات بتائی بھی نہیں جا سکتی
تم تو سننے بھی کہاں آتے ہو
اتنی صدیوں میں فقط ایک ہی خط لکھا ہے
جانے وہ کس طرح تم تک پہنچے
تم پڑھو یا نا پڑھو
ہم نے لکھا ہے تو بس لکھا ہے
اس میں لکھا ہے محبت کے متعلق کچھ کچھ
اور لکھا ہے اداسی کے متعلق سب کچھ
اور آخر میں یہ لکھا ہے کہ اب لوٹ آؤ
اس سے زیادہ مجھے لکھنا بھی نہیں آتا ہے
میں نے سیکھا ہے فقط سہنا ہی
اس سے اب اور زیادہ بھی نہیں لکھ سکتا
آخری خط ہی تو پہلا خط ہے

زین شکیل

*****************

یہ صدی بھی اداس ہے تم بن

اے مرے ہجر زدہ
اے مری آنکھ سے بہتے ہوئے شخص
تم کسی روز چلے آؤ یہاں
آ کے دیکھو تو مرے شام و سحر
آ کے دیکھو تو سہی
یہ صدی بھی تو نہیں گزری ہے پہلے کی طرح
اب تلک ویسے کی ویسی ہی مسلط ہے مرے لمحوں پر
آکے دیکھو تو سہی اجڑے ہوئے شہر کا نقشہ سا بنا جاتا ہے میرا چہرہ
تیرے بن کس طرح لڑتا رہوں ان صدیوں سے
میری سانسیں ہی مجھے جینے نہیں دیتی ہیں
میری آہیں ہیں کہ بس سانس نہیں لیتی ہیں
میری آنکھوں کے سمندر بھی تو اب منتقلِ دشت ہوئے جاتے ہیں
میرے جذبات بھی دم توڑ رہے ہیں دیکھو
صرف اک خوف ہے بس خوف ہے اور تم ہی نہیں
نا ہی موسم، نا فضائیں، نا بہاریں، نا گلاب
کوئی بھی شہرکہاں راس مجھے آتا ہے
اور مر جانا بھی بس میں ہی نہیں ہے میرے
اور جینے کی کوئی آس نہیں ہے تم بن
کتنی صدیوں سے تری راہ میں رکھے ہوئے بیٹھے ہیں نگاہیں اپنی
اس صدی میں ہی کہیں لوٹ آؤ
ساتھ لاؤ مرے لمحات سبھی
تم سے اس بار جو ہو پائے تو اب لوٹ آؤ
پچھلی صدیوں کی طرح، جو نہیں گزریں اب تک
یہ صدی ہے جو بہت ہی اداس ہے تم بن۔۔۔۔
یہ صدی بھی اُداس ہے تم بن

زین شکیل

*****************




(اختتام)





کتاب:  یہ صدی بھی اُداس ہے تم بن
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial










*****************





No comments:

Post a Comment