مادام - نثر

مادام
(نثر)

تم اس قدر محبتوں سے لبریز ہو مادام!... جی چاہتا ہے ہر محبت پر محبت دوں گوشہء فکر کے گنبد میں گونجنے لگ جاتی ہو ناں! قسم سے پیار سا آجاتا ہے! میٹھے مربع جات میں ڈوبی! شدید شیریں...! تم سچ میں ان حد کمال ہو! 
٭
مادام! جیسے بہار سی آگئی ہے۔تمہارا آنا ہی بہاریں لے آنا ہوا ہے خزاؤں میں بہار دیکھ کر مزہ آیا! آہا۔۔۔ جھاڑا ہے اور تم۔۔۔۔ہوا چاہے تو شہد میں گھل کر کانوں میں سنسناتی پھرے پر تمہاری آواز سے شیریں تو کچھ بھی نہیں لگ رہا۔ طبیعت میں کیسا دلکشی کا تعویز تم نے گھول دیا ہے۔ تم آئی ہو اور آتما محبت کے دلنشیں سحر میں ڈوب گئی ہے صرف اور صرف اس لیے کہ آج تم آئی تھی اور آج بھی تم آئی ہو۔۔ دعائیں جتنی بھی ہیں مستجاب رہیں خدا کرے۔ تم بہت محبوب ہو بہت زیادہ معطر بھی، محبت کے صندل کا جنگل ہو۔ میری اداسیوں میں تمہارا سواگت ہے۔۔سلونی!
٭
مادام! عشق بن کائنات کا وجود بے معنی ہے۔ قریں آنے کے لیے اپنی ذات کھو دینا پڑتی ہے۔ اختلاف کو حق ماننا پڑتا ہے ہونے کی نفی لازم ہو جاتی ہے اور یار ملزوم ہو جاتا ہے۔ سچ کہوں تو میرے من کو تم اچھا لگنے کے تمام مراحل طے کر چکی۔۔۔ بس اس سے آگے میں ہوں۔۔۔۔۔سلونی!
٭
مادام! اداس رتیں ٹھہر جایا کرتی ہیں گزر جانے کے بعد بھی۔۔۔۔ اور ان میں رہنا ممکن تو ہوتا ہے سہل نہیں۔۔ تمہاری فہم و فراست سے بھی ماورا ہیں جتنی بھی کسی سِحِر کی اقسام ہو سکتی ہیں۔۔۔ سلونی!!!! تم خود ایک بے حد حسین منتر کا اثر ہو۔۔۔ تمہیں خود بھی معلوم نہیں۔۔یار تم سچ میں جادو ہو جادو۔۔۔!!! میری چاروں اور بکھرا ہوا مسلسل سرخ جادو۔۔۔۔!!!
٭
مادام! عشق بن کائنات کا وجود بے معنی ہے۔ قریں آنے کے لیے اپنی ذات کھو دینا پڑتی ہے۔ اختلاف کو حق ماننا پڑتا ہے ہونے کی نفی لازم ہو جاتی ہے اور یار ملزوم ہو جاتا ہے۔ سچ کہوں تو میرے من کو تم اچھا لگنے کے تمام مراحل طے کر چکی بس اس سے آگے میں ہوں۔۔۔۔سلونی!
٭
مادام! سردی ہے مگر دھند نہیں۔۔دکھ کی فضیلت جان لینا عرفانِ محبت کی افضل ترین منازل میں سے ایک ہے آسودہ حالی بے مائیگی سے جڑی ہے یا نہیں۔۔۔یہ جاننے میں ابھی میں کامیاب نہیں ہو سکا۔۔۔سلونی! تم مجھے دھند والی سردی میں زیادہ یاد آؤ گی۔۔۔۔اس سردی میں جتنا یاد آتی ہو اس سے کہیں زیادہ۔۔۔۔
٭
مادام! آج تو جی چاہ رہا ہے میں تمہارے بل بل جاؤں۔۔۔ تمہارے بال بگاڑ دوں.. اپنی گودی میں لے کر بچوں کی طرح گال کھینچوں اور محبت کی لالی ان میں اتار دوں۔۔ اور تمہارے گال محبت کی نرماہٹ اور گرماہٹ سے مہکنے اور دہکنے لگ جائیں۔۔ اففف تمہاری کجلائی آنکھوں کے گرد کاجل کی بکھری سیاحی جان لیوا ہے یقین مانو سلونی! واقعتاً میرا کملا جی چاہ رہا ہے تمہارے بل بل جاؤں، تمہیں رگ و پے میں اتار لوں۔۔۔!
٭
مادام! تمہیں لکھا۔۔۔ہاں تمہیں لکھا افق کے پار کا کوئی منظر یا پھر دریا کی آخری بوند۔ تمہیں ہی تو لکھا ریت کا نم ذرہ یا پھر آگ سے نکلنے والا ایک شعلہ سا۔۔۔ سلونی! بات یہی نہیں کہ بس تم اتنی سی ہو۔۔بات تو در اصل محسوس ہونے کی ہے اور محسوس کرنے کی حد بھی تو نہیں ہے جہاں تم ہوتی ہو بے حد ہوجاتی ہو۔جیسے تم دھک دھک دھک دھک دھک دھک دھک دھک دل میں چل رہی ہو۔۔۔تم سمجھ رہی ہو نا سلونی! میں تم سے کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔۔۔بالکل وہی جو تم سننا چاہ رہی ہو۔۔۔محبت۔۔
٭
مادام! جیسے بہار سی آگئی ہے۔ تمہارا آنا ہی بہاریں لے آنا ہوا ہے خزاؤں میں بہار دیکھ کر مزہ آیا! آہا۔۔۔ جھاڑا ہے اور تم۔۔۔ہوا چاہے تو شہد میں گھل کر کانوں میں سنسناتی پھرے پر تمہاری آواز سے شیریں تو کچھ بھی نہیں لگ رہا۔۔ طبیعت میں کیسا دلکشی کا تعویز تم گھول دیا ہے۔تم آئی ہو اور آتما محبت کے دلنشیں سحر میں ڈوب گئی ہے صرف اور صرف اس لیے کہ آج تم آئی تھی اور آج بھی تم آئی ہو۔۔ دعائیں جتنی بھی ہیں مستجاب رہیں خدا کرے تم بہت محبوب ہو۔ بہت زیادہ معطر بھی، محبت کے صندل کا جنگل ہو۔میری اداسیوں میں تمہارا سواگت ہے۔۔سلونی!
٭
مادام! سردی ہے مگر دھند نہیں۔۔دکھ کی فضیلت جان لینا عرفان کی افضل ترین منازل میں سے ایک ہے آسودہ حالی بے مائیگی سے جڑی ہے یا نہیں۔۔یہ جاننے میں ابھی میں کامیاب نہیں ہو سکا۔۔۔سلونی! تم مجھے دھند والی سردی میں زیادہ یاد آؤ گی۔۔۔اس سردی میں جتنا یاد آتی ہو اس سے کہیں زیادہ۔۔
٭
مادام! محبت کی تاریخ میں اجتناب، اضطراب سے کبھی بھی بہتر نہیں رہ پایا سلونی! غم کے مضافات میں اتنی خوشیاں ہیں کہ تمہاری سوچ، فکر، تصور اور وجدان کی آخری حدیں بھی ان مسرتوں کے سامنے ہیچ ہیں۔۔۔تمہاری خم دار اور کان کی بالی میں الجھی ہوئی لَٹ کی کناریوں کی قسم تمہیں کبھی اتنی خوشی نہیں ملے گی کہیں بھی سوائے مجھ غم میں سمانے کے۔۔۔
٭
مادام! موسم بیت رہا ہے دھند والا۔۔ حسرتیں حسرتوں میں جمع کیوں ہونے لگتی ہیں۔۔۔ تمہیں سچ میں سنگھار کرنا نہیں آتا۔۔۔جھلّی۔۔۔سادی ۔۔۔آؤ تمہاری ساری انگلیوں میں خوشیوں کے چھلے پہنا دوں۔۔۔ محبت کے دھاگے سکھ کی شال میں پرو کر تمہارے کندھوں پہ اوڑھا دوں۔۔کہیں گزرتا ہوا سرد موسم اور یخ بستہ ہوائیں تم پر اپنے آثار ہی نہ چھوڑ جائیں کہیں۔۔۔سلونی!
٭
مادام! سنہری اداسی تمہیں بلا رہی ہے۔جاودانی ءِ جذبات تمہیں کھینچ رہی ہے۔۔۔ اپنی جانب سے میری جانب۔۔ تم۔۔۔تم۔۔۔۔تم۔۔۔۔ بس محبت سے بھر جاؤ محبت سے بھر دو۔۔۔میری حریمِ جاں میری شاداب محبت۔۔۔سلونی۔۔۔ میری پہلی آواز اور میرے ہر شکوے کی مٹھاس ۔۔۔میری رسیلی اداسی۔۔۔
٭
مادام! تھام لینے کی تسکین سمجھنا چاہتی ہو ناں تم؟ تو اپنی اطراف دیکھو ہر سو میرے خالی و سوالی ہاتھ تمہیں تمہاری جانب پھیلے نظر آئیں گے۔۔ کسی مصروف صدی سے نکل کر ایک لمحہ بس ایک لمحہ ہی سہی میرا ہاتھ تھام کر دیکھ لینا۔۔ تمہارے ہر مضطرب وسوسے کی قسم..سکون، بس اک لمس کی بدولت تمہاری روح تک میں سرائیت کر جائے گا... سلونی! ذرا سا اور قریب تو آؤ۔۔۔
٭
مادام! میرے کمرے میں کتابوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کتنی ہی ڈائیریاں یوں ہی بے ربط پڑی ہیں۔ کوئی سرہانے کے پاس تو کوئی میز پر ایک جیکٹ اتار کر سائیڈ پر رکھی تو دوسری سامنے پڑی نظر آئی اسے اپنی جگہ پر رکھنا یاد نہیں رہا۔۔ بک شیلف میں کتابیں رکھیں۔۔ مگر سمجھ نہیں آ رہا کس ترتیب سے لگاؤں۔۔ کچھ وقت چاہئیے مگر دے نہیں پا رہا۔۔ سوچ رہا تھا تم ہوتی تو ہر بے ترتیبی سمیٹ لیتی۔۔۔ تم آجاؤ میری ذات کی بے ترتیبیوں کو بھی تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ اب لوٹ آؤ۔۔ اور میرے اداس اور بے ترتیب کمرے میں ایک سائیڈ پر پڑی میری سیاہ شال بھی تمہارے ہاتھوں سے ہی اپنی جگہ پر محفوظ ہونا چاہتی ہے۔۔۔ سلونی! سنا تم نے کچھ؟؟؟ مجھ سے جڑی ہر شے تمہاری منتظر ہے۔۔۔۔
٭
مادام ! دیکھو۔۔۔ یہ جو ناراضیاں ہوتی ہیں نا بعض اوقات بڑی خوبصورت ہوا کرتی ہیں۔ مگر اکثر ایسا ہو جاتا ہے جب یہ تکلیف دینے لگ جاتی ہیں۔ خوبصورت اس لحاظ سے ہوتی ہیں جب چاہنے والا یہ چاہتا ہو کہ محبت خفا خفا سی رہے تا کہ اسے غصے میں جی بھر کے دیکھ لیا جائے۔ اور تکلیف دہ اس صورت میں ہوتی ہیں جب چاہنے والا محبت کی نظر چاہتا ہو۔ سلونی! مجھے کیا معلوم، تمہیں گلاب اور موتیے کے گجروں کی مہک منا پائے گی یا نہیں۔۔ البتہ تم سے بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میری مان لو، مجھ سے مان جاؤ۔ تمہاری ناراضی میری آنکھوں میں جلن بن کر ڈیرہ لگا لیتی ہے۔ پھر کسی دن ناراض ہو جانا سلونی! میرا تم سے وعدہ ہے جی بھر کے تمہیں غصے میں دیکھتا رہوں گا۔ مناؤں گا بھی نہیں اور اتنا دیکھوں گا کہ تم مجھ سے مان جاؤ گی۔۔مگر پھر کسی اور دن ناں! ۔آج نہیں۔اے میری جاگیرِ دل کی مالکن 
٭
مادام! کسی کی آنکھیں بھلا اتنی خوبصورت بھی ہو سکتی ہیں۔۔۔ کاش یہ میں ایک اندازے سے نکل کر پہلے ہی سوچ لیتا۔۔ گالوں سے لالی پھسلتی ہوئی دکھائی دینے لگے تو ایسے میں دل کو سنبھالنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔۔ اور اس بات کا اندازہ مجھے اچھی طرح ہو چکا ہے۔۔سیاہ ملبوس میں تمہیں آفت لگنے کا حق کس نے دیا؟ سلونی! اب ایسا بھی کیا کہ کوئی اور آنکھ کی پتلی تک کو بھی بھا نہ سکے۔۔۔ سارے جادو تو کر دیے تم نے بس صرف نظر آ کر۔۔۔۔ تم ناں۔۔۔۔بہت ڈیش ہو ۔۔ بہت وہ ہو تم۔۔۔وہ۔۔۔۔ ہنہہہ کیا کہوں اب تمہیں۔۔۔ جب کوئی تم سے زیادہ حسین ہے ہی نہیں تو کہوں بھی کیوں؟؟؟؟

٭
مادام! او مادام! 
سوال سوال ہوتے ہیں ضروری نہیں ہر سوال کا جواب اس جنم میں دینا ممکن ہو۔۔۔ اور یہ جنم بھی تو سوال ہے۔۔ اور تمہاری محبت کوئی سوال تو بالکل نہیں۔۔ جس کا جواب میں اس جنم میں دوں یا پھر اگلے جنم میں۔۔ سلونی! تمہاری محبت تو سراپا جواب ہے۔۔۔ میری بے چینیوں کا.. بیتابیوں کا۔۔۔ بے قراریوں کا۔۔۔ اور میری ہر خواہش کا۔۔۔ تمہارے کہے بنا بھی میں نے تمہیں بے تہاشہ دیکھنا ہے اور دیکھتے رہنا ہے۔۔۔ اور تمہارے لبوں کے نیچے جو تل ہے۔۔۔۔ بارہا اس کا میرے خیالات میں آتے رہنا ۔۔۔۔ کوئی سوال تو نہیں۔۔۔۔ تھوڑا عجیب ہے بس۔۔۔ مگر اچھا ہے بہت اچھا ہے۔۔۔ جیسے میرا اور تمہارا ساتھ ہر سوال کا جواب ہے اسی طرح میں تمہاراجواب ہوں۔۔۔ اور تم میرا جواب۔۔۔ مگر ہمارا سوال کہیں نہیں ہے۔۔ ہمارا سوال کوئی نہیں ہے ۔۔۔ اے میری محبت میں گرفتار و بے قرار سلونی!

٭

مادام! دل بےچین ہوجاتا ہے۔۔۔۔  جب بھی تمہاری آواز نہیں آ رہی ہوتی کسی جانب سے بھی۔۔۔۔  نوچ لینے کی دھمکی جب جب یاد آنے لگتی ہے تو دل بے چین ہو جاتا ہے۔۔۔۔  آرزوئیں بھی کبھی بھلا کم ہو پائی ہیں؟ بے کار اذیت سہتے رہنا دیوانوں کے ہاں عقلمندی میں شمار ہوتا ہے۔۔۔۔ دل کی باتیں بہت عجیب ہوتی ہیں سلونی! پر سننے کے لیے بھی تو عجیب ہونا پڑتا ہے ناں اور کہنے کے لیے؟؟؟ بات بس اتنی سی ہے کہ جب تم نظر نہیں آتیں تو دل بے چین ہو جاتا ہے۔۔۔۔  کیا تم نے بے چینی کا سبق ہجر کے اسکول میں نہیں پڑھا ؟؟؟ میری پر سکون مادام۔۔۔۔ !!!

٭

زین شکیل

1 comment: