ماہم - طویل نظم

کتاب : ماہم
(طویل نظم)
شاعر : زین شکیل
انتساب : ماہم کے نام

***********************




***********************



ماہم!

یہ ایسی کوئی ایک رومانوی داستاں تو نہیں ہے
جسے میں سناتا رہوں 
ان زمیں زاد مکّار، کذاب لوگوں کو
جو اپنے چہروں پہ مدت سے بے چہرگی اوڑھ کر پھر رہے ہیں
چلو خیر چھوڑو !
کہ ذکرِ حزیں بھی مناسب نہیں ہے یہاں
ایسے لوگوں کو پھر سوچنا
 اور پھر بحثنا بھی تو ایسا ہی ہے
جیسے خود کو اذیت میں رکھنے کا اک دوسرا نام ہو
آج ماہم میں پھر سے 
تمہاری ہی یادوں کو تھالی میں رکھے ہوئے
دیکھتا ہی رہا
اور چائے بنانے کی خواہش میں 
غم کو تمہاری ہی یادوں سے میں نے اُبالا دیا
اور پھر دیر تک میں اسی اک ابلتے ہوئے غم کو پیتا رہا
اور ماہم!
تمہارا یہ غم اب عجب سے کسی اک نئے غم کا پھر
پیش خیمہ سا لگنے لگا ہے مگر
میں اسے بھی کوئی مصلحت جان کر
خود ہی اپنے لبوں کو کسی طور سینے لگا ہوں 
اسی میں بھلائی نظر آ رہی ہے
مگر شور کرنے سے ہونا تو کچھ بھی نہیں 
اور تمہیں میری آواز
صدیوں پرانی،
 تھکی ہاری اور بے سری سی وہ آواز 
جس پر کسی غم کا پیوند ہے 
جس میں گہرا سا اک زخم ہے
 جو کہ بس ایک مدت سے ٹھہرا ہوا ہے
مجھے لگ رہا ہے کہ ٹھہرا رہے گا سدا
اور پھر میری آواز بھی تو تمہیں جا نہیں پا رہی 
اُف ۔۔۔
یہ کیسا اذیت کا مارا ہوا ایک بے چین دل ہے
کہ جس سے نکلتی ہوئی آہ بھی
کتنی بے سوز ہے 
جو ابھی تک تمہیں کچھ سنائی دیا ہی نہیں 
 یہ جو دل ہے نا ں دل
یہ ہمیشہ تمہیں اس طرح سے ہی آواز دیتا رہے گا
ہمیشہ تمہیں ہی بلاتا رہے گا
مگر تم سنو تو سہی 
اے مرے دل کی آسودگی!



******************



اے مری بین کرتی ہوئی خامشی!

رات پھر ،
رات کا ایک آغاز پھر 
اور پھر اختتامِ الم۔
ایسا بالکل نہیں ہے!
یہاں گر کوئی بات ہو بھی تو ہر بات کے ہر حوالے میں ٹھہری ہوئی
ایک بے چین سی رات ہے
رات پھراپنی ہیبت کو کاجل نما
 اپنی آنکھوں میں ڈالے ہوئے آگئی ہے
جو ٹھہری ہوئی ہے مسلسل
 اور اتنی مسلسل 
کہ سورج نکلنے پہ بھی میرے سر سے اترتی نہیں 
یہ عجب رات ہے
ماہمِ من !
تمہیں کیا وہاں سے نظر آ رہی ہے یہی رات
یا پھر کوئی بھی کسی بات کی رات
یا پھر کسی رات کی بات؟
یا پھر مقدر کی ساری لکیروں پہ چھائی ہوئی رات؟
بیحودگی بھی ترنم سے گائی گئی ہے کسی رات میں
اور راتوں کے الزام ایسے مسلط ہوئے ہیں کسی رات پرکہ
کوئی بھی ستارہ یا پھر چاند راضی نہیں اب
کسی رات کا بوجھ ڈھونے کی خاطر
تو پھر کس لیے رات؟
پھر سے نئی رات؟
اور اس کا آغاز پھر؟
اور پھر اختتامِ الم؟
ایسا بالکل نہیں ہے!
سنا تم نے کچھ میری ماہم!
 تمہیں رات کے پار جا کے
بتاؤ تو کیسا لگا ہے؟
وہاں بھی یہاں کی طرح کیا اسی رات کی طرح پھر رات ہے؟
کیا وہاں بھی کسی رات کا پھر سے آغاز ہے؟
اور پھر اختتامِ الم؟ 
یا کہ پھر ایسا بالکل نہیں ہے وہاں بھی یہاں کی طرح
میری ماہم؟
بتاؤ کہ میں ایک مدت سے راتوں کی الجھن سے باہر نہیں آ سکا ہوں
یہی رات 
ابھی تو نئی رات تھی 
اور میں تو وہی ہوں پرانا سا بے جان سایہ
جو پھر اس نئی رات سے اک پرانی 
یا پھر سے کسی اک نئی رات میں منتقل ہونے والا ہوں 
سو اس سے پہلے 
ذرا یہ سکوتِ مسلسل خدا کے لیے توڑ ڈالو
کہ مجھ کو ہر اک رات کی ساری بے چینیوں کو
کسی دن میں کر کے جمع رات سے ان کو تفریق کرنا ہے
اور یاد رکھنا کہ ہر رات ہر دوسری رات سے مختلف ہے
سو کچھ تو کہو
ایک مدت سے خاموش 
ماہم!



******************



تمہیں ہے قسم 

میری بربادیوں کی
جو تم میری آنکھوں سے بیتی ہوئی 
چاہتوں کی اذیت کے کانٹے چنو
تم کو میری محبت کے مندر،
وہ مندر،
کہ جس کو بڑے وحشیانہ طریقے سے روندا گیا تھا
 اسی ایک مسمار چاہت کے مندر پہ روتی ہوئی
ایک معصوم سی آرزو کی عزاداریوں کی قسم
میری سانسوں سے دکھ کی براتیں چنو!
تم کو میری صداقت کی گہرائی میں جس قدر بھی جواہر ملے تھے
انہی کی دمک کی قسم
میرے اندر کی تاریکیوں سے اجالوں کے ریشے نکالو
انہیں تو مری ساری تاریکیوں سے علیحدہ کرو
اور تمہیں ہے قسم
 میری آوارگی پہ مسلط اداسی کی اجڑی ہوئی مانگ کی۔
تم مری بے بسی کی جو بے جان تصویر ہے اس میں
چاہت کے رنگوں سے سانسیں بھرو
ماہمِ من !
تمہیں ہے قسم 
اور ہر اس قسم کی قسم
جس کو سننے کی خواہش میں تم نے کہا تھا 
اٹھاؤ قسم
اور ہر اس قسم کے بھرم کی قسم ہے تمہیں
اب مری یاد کے ہر دریچے میں جتنے بھی 
یادوں بھرے پھول بکھرے پڑے ہیں
چنو!
اور چن کر کسی اور ہی بے کلی کے ستائے ہوئے
دیوتاکی ہتھیلی پہ جا کر دھرو!
 کہ یہاں تو فقط حسرتوں کا ہی ماتم بپا ہے
یہاں سوگ ہی سوگ ہے
اور اس سوگ کی جتنی باریکیاں ہیں
انہیں میں تمہیں ایک پل میں بتانے سے قاصر ہوں
ماہم!
میں بے تابیوں کا ستایا ہوا 
چل پڑا ہوں تمہاری خوشی ڈھونڈنے
اور تم میری مظلوم و بے چین قسموں کوسنتی نہیں
مانتی بھی نہیں 
سو تمہیں اب تمہاری ہی اپنی قسم
میری مدت سے خاموش ماہم!
مجھے اس اذیت میں رہنا گوارا تو ہے پر
تمہارے سہارے بنا 
مجھ کو منظور بالکل نہیں ہے
سنا تم نے کچھ ؟
اے مسرت کی وادی میں موجود
ماہم!



******************



میں اجڑا ہوا

ہاں میں اجڑا ہوا
ماہمِ من!
میں سلگا ہوا
ہاں میں سلگا ہوا
میری ماہم!
میں بجھتا ہوا
وصل کی آخری اگربتی سے اٹھتا ہوا اک دھواں
میں دھواں
ہاں میں تڑپا ہوا
بےتحاشہ ہی تڑپا ہوا
اور ماہم!
میں بے چارگی کا بڑا مہتر و بہترین ایک ارفع و اعلیٰ نمونہ۔
میں بکھرا ہوا
میں تو دریاؤں کی پیاس میں
اور صحراؤں کی ہر انا کے بھنور میں
سرابوں کی مانند اٹکا ہوا
میں تو صدیوں سے دکھ کی ریاضت میں
اپنی عقیدت کے سارے حوالوں کے دھوکے میں آیا ہوا
تم سے مل کر کہیں خود سے بچھڑا ہوا
میری ماہم!
میں بچھڑا ہوا
اور پھر بے تحاشہ ہی بچھڑا ہوا
آج ماہم بتاؤ ذرا!
کیا کبھی میری بے مائیگی کو سراہا ہے تم نے؟
بتاؤ کبھی میری لاچاریوں کو اکٹھا کیا ہے؟
کبھی میری یادوں کے پھولوں کو چن کر
محبت کے گلدان میں بھی سجایا ہے؟
کیا پھر تمہاری محبت کی یہ روشنی
میرے دکھ کی شبوں میں بھی سوئی ہے؟
کیا پھر تمہاری یہی روشنی اک تذبذب میں یونہی
مری انگنت میں سے اک بے کلی کے پریشان سینے سے لگ کر 
کوئی ایک لمحہ بھی روئی ہے؟
ماہم!
مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے
ذرا اپنی میٹھی سی آواز کا رَس
مری اس سماعت کے ہر ایک کونے میں گھولو
کہ میں اپنی آواز سے 
کتنی صدیوں سے بچھڑا ہوا
ہاں میں بچھڑا ہوا
اپنی آواز کو سن سکوں



******************



یہ ہوائیں بھی بیوہ ہوئیں

اور صدائیں بھی بیوہ ہوئیں
یہ نوائیں بھی بیوہ ہوئیں
اور سب التجائیں بھی بیوہ ہوئیں
تم گھٹاؤں کا ماتم سنو 
میری ماہم!
یہ دیکھو ردائیں لٹیں 
اور ان کے لبوں سے نکلتی ہوئی چیخ
اور چیخ میں ایک اجڑی ہوئی داستاں
داستاں میں تھے جتنے بھی کردار
 سب تلخیوں اور بےچینیوں سے بھرے تھے
کہ جو سانس لیتے تو چلتی ہوا 
اور ہواؤں کو بیوہ ہوئے ایک مدت ہوئی
اور دیکھو دعائیں تو عدت میں بیٹھی ہوئی ہیں ابھی تک
وفائیں ،
وفاؤں کے بازار، گلیاں، محلے، سبھی چوک،
ان کے شہر اور ان کے وطن 
اور وفاؤں کی آنکھیں،
 اور آنکھوں میں موجود سرخی نما سوگ 
اور ایک بیمار سا، بدنصیبی کی چادر کو اوڑھے ہوئے
 اک عزادار دل ،
اور وفاؤں کے گہنے ،
سبھی چوڑیاں اور بد بخت کنگن
وفاؤں کی منقوح ساری کی ساری وفائیں
وفاؤں کی اپنی وفاؤں کی اولاد
اور ان کی اولاد کی سب وفائیں
وفاؤں کی بے چینیاں اور بیماریاں
اور وفاؤں کی ہر آرزو ، آبرو او ر فن 
اور فن کی وفائیں
سبھی کی سبھی دیکھو ماہم
یہ بیوہ ہوئیں 
اور جفائیں بھی بیوہ ہوئیں
اور ماہم جو میں ہوں
تمہاری کسی یاد سے باوضو ہو کے پھر 
ہجر کی بارگاہِ مقدس میں محوِ عبادت ہوں
اور اس عبادت کا ہر جوڑ پہلے سے ٹوٹا ہوا ہے
یہ پوجا بڑی سخت ہے 
میری ماہم!
میں کیسے بتاؤں تمہیں ؟
اف مری ساری بے چینیوں کی طلب
اب تمہیں کس طرح میں دکھاؤں
کہ کیسے عبادت کے دوران
میری مناجات اڑتی ہوئی جن ہواؤں میں
مقبولیت کی طرف تھیں رواں
وہ ہوائیں مری سب مناجات سے ڈر گئیں 
میری ساری کی ساری مناجات ، حاجات
اور میری آنکھوں میں موجود بینائیوں سے نکلتی ہوئی
روشنی کی شعائیں بھی بیوہ ہوئیں



******************



اور دل

میری ماہم!
یہ دل میرا بیمار دل
تم کبھی اس کی تیمار داری کرو
کہ تمہاری ہی خاطر یہ مدت سے بیمار دل
اور درختوں کہ ٹوٹے ہوئے زرد پتے
ہواؤں کی گستاخیوں سے پریشان 
اور راستے بدگمانی کے شربت کو بھر بھر کے پیتے ہوئے
اور رختِ سفر میں اداسی سے باندھے ہوئے وہ تمہارے ہی پیغام،
اشکوں کے ٹانکوں سے جوڑی ہوئی ہجر کی ساری راتیں،
غضب کی پشیمانیاں اور بلاؤں کی ویرانیاں
اور بے چینیاں
اور دل۔۔۔
میری ماہم، یہ دل
بے قراری کا دریا
سکھوں کا عدو
اور سلطانِ غم 
یہ اداسی کا ضرب المثل
اور بے چارگی کی علامت
یہ دل 
اور پھر دل کی بستی میں
 نوزائیدہ ایک چڑیا کی میت پہ عمروں کا ماتم
وہیں پر کہیں اک تمہارے، مرے
باہمی مشورے سے بنایا ہوا اک محبت کا گھر
جس میں موجود کمروں کی اک ایک دیوار پر
دکھ کی تصویر
دردوں کی کیلوں سے لٹکی ہوئی
اور دل
میری ماہم!
تمہاری محبت میں ویسا ہی پاگل
سکھوں کی طرف دیکھنے سے ڈرے
بزدلی کا یہ مظہر ،
یہ آوارگی کا لنگوٹی سجن
میرا دل اب بھی بس اک تمہارے لیے 
اور زیادہ تڑپنے، سلگنے، مچلنے،
مچل کر تمہاری ہی راہوں میں پھر راکھ کا ڈھیر ہونے کو تیار ہے
میری ماہم!
یہی دل 
تمہاری ہی باتوں میں آیا ہوا
میرا معصوم دل۔۔۔



******************



میری ماہم سنو !

اب یہاں تو سبھی کا محبت کے بارے الگ فلسفہ ہے
یہاں ہر کوئی میری چاہت کو 
اپنی ہی بے کار فہم و فراست سے بس دیکھتا ہے
مگر سوچتا کچھ نہیں 
یہ مرے یار بے کار میں سر کھپانے لگے ہیں
مری الجھنوں سے یہ ڈرتے تو ہیں
پر مسلسل جھگڑتے ہیں میری پریشانیوں سے
سکندر تو اس بات پر مجھ سے لڑنے لگا کہ 
میں اب شاعری چھوڑ دوں
میری ماہم!
بتاؤ میں کسے تمہیں چھوڑ دوں؟
یہ سکندر عجب ہے 
مقدر کا اپنے سکندر تو ہے
 اوراحساس کی ایک دولت کا مالک بھی ہے
بس یہ اپنی محبت کی بے چہرگی سے پریشان ہے
اور ڈرپوک ہے۔
یہ سکندر بڑا ہی عجب ہے
اداسی کی باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے
اور میری بے چینیوں سے پریشان ہے
میری ماہم!
سکندر بڑا مضطرب تھا مگر اب نہیں ہے
یہ میری محبت کی بے تابیوں کی عقیدت سمجھتا تو ہے 
مانتا پر نہیں
یہ مری شاعری کا تو بالکل بھی قائل نہیں 
یہ تمہارا بھی قائل نہیں
میری ماہم!
سکندر وسیع ہے 
مجھے زندگی کے وہ سب راستے جو فنا کی طرف جا رہے ہیں،
انہی پر مسلسل چلانے کی کوشش میں ہے پر
ابھی تک تو ناکام ہے
میری ماہم!
کہ ان راستوں پر تمہارا کوئی بھی نشاں جو نہیں 
اور تمہاری گلی کا ہر اک موڑ بدلا ہوا ہے
وہاں پر تمہارا جو گھر ہے
وہاں رات ہی رات ہے رات کی بات ہے
اور تم میری ماہم وہاں کیوں نہیں ہو؟؟
ذرا بادلوں سے نکل آؤ دیکھو
کہ برسات ہے
ہاں مری پیلی آنکھوں میں برسات ہے
اور اداسی مرے ابروؤں پہ سمٹ آئی ہے
اور پلکوں کو یہ نوچنے لگ گئی ہے
سنو تو ذرا ماہمِ من سنو!
میرے کانوں میں اب بھی سکندر کی آواز ہی گونجتی ہے
مجھے رات یہ دیر تک مارتی ہے
سکندر غضب ہے 
یہ ڈرپوک ہے 
اور اس سے بڑا یہ غضب ہے کہ وہ 
میرے خوابوں کی دنیا کا قائل نہیں
وہ بھی سچا ہے اپنی جگہ
میری ماہم!
مگر میں بھی سب جانتا ہو ں مگر 
مانتا بس نہیں ہوں
قسم سے وہ اس کی جو سچائیوں سے بھری ایک کذاب دنیا ہے
اس کا میں قائل نہیں ہوں!
سکندر تمہارے خیالوں کی ترتیب سے بے خبر ہے
تمہاری محبت کی اک کیفیت کا مزہ جان سکتا نہیں
میری دنیا کا قائل نہیں
یہ مجھے مان سکتا نہیں
اور تمہیں بھی یہ پہچان سکتا نہیں ہے
کہ جو مجھ سے بےچارگی کے سے انداز میں 
آ کے کتنے سلیقے سے کہنے لگا تھا کہ تم 
شاعری چھوڑ دو۔۔۔
میری ماہم!
بتاؤ میں کیسے تمہیں چھوڑ دوں؟؟؟



******************



ماہمِ من بتاؤ!

تمہیں آبرو کے جہاں میں مقید ہوئے ایک عرصہ ہوا
کیا تمہیں آبرو کے جہاں میں کبھی آرزو بھی ملی؟
اک تمہیں مجھ میں رہتے ہوئے ایک مدت ہوئی
میری انگڑائیوں کے سبب ہی تمہارے
کئی بال ٹوٹے
کئی مرتبہ
تم بھٹکتی رہی
اور مجھے میرے اندر کہیں کھوجتی ہی رہی
کیا کبھی میرے اندر تمہیں
 بے کلی کا لبادہ پہن کر بھٹکتی ہوئی 
خامشی سنگ، اپنی شبیہ بھی ملی؟
میری ماہم!
میں کھویا رہا
آبرو اور اس آرزو کی لڑائی میں
احساس مرتے گئے اور میں ۔۔۔۔
اپنے اندر ہی شدت کی گرمی میں
اپنی انا کی رضائی کو اوڑھے
 مکمل دکھوں کے پسینے میں ڈوبا ہوا
چین سے دیر تک یونہی سویا رہا
میری ماہم!
میں سویا رہا
حسرتیں جاگ اٹھیں 
اور سوتی نہیں ہیں
کہیں اور جانے سے پہلے مجھے
یہ بتاؤ،
کہ تم مجھ میں رہتی رہی تھی تو مجھ میں
جو دیوار تھی 
جس پہ روغن کیا تھا اداسی نے اک بے کلی کے کسی رنگ سے
کیا تمہیں اس میں میری تڑپتی ہوئی 
کوئی خواہش کہیں سرخرو بھی ملی؟؟؟



******************



میری بے چین ماہم!

اداسی ابھی تک مجھے اپنا مرشد ہی مانے ہوئے ہے
مرے ہاتھ پر بے کلی روز بوسے دیا کرتی ہے
اور ان کائناتوں میں سمٹی ہوئی ،
یا کسی خول میں بند ہو کر ،
کسی ایک ساعت میں اٹکی ہوئی،
جس قدر بے بسی ہے
وہ آ کر مرے پیر چھوتی ہے
اب بھی جہاں سے گزرتا ہوں 
ہر اس جگہ پر اداسی کے دھبے سے پڑ جایا کرتے ہیں،
مٹتے نہیں
جو کہ خود بھی کسی طور مٹنے پہ راضی نہیں ہیں
میں جس راستے پر چلوں
میری ماہم!
تو ہر راستہ ایسے گھبرا کے ہر دوسرے راستے سے یہ کہتا ہے
دیکھو دکھوں کا امام آرہا ہے
اداسی کا مرشد
غموں کا جہاں
 اور ہر زخم کا رازداں آ رہا ہے
چلو اپنی آنکھیں جھکا لو 
کہیں اس کو تکنے سے آنکھوں کے موسم نہ مر جائیں
نیندوں سے سپنے نہ ڈر جائیں
اور جن کو جانا تھا گھر
وہ کہیں پھر کبھی بھی نہ گھر جائیں
اے میری ماہم!
مرے مرتبے سے سبھی راستے بھی تو ڈرتے ہیں
اور میں بھی مستی میں سرشار ہو کر 
دکھوں کو مریدی میں لیتا ہوں
 اور آخری سانس تک
 اب مجھے اپنے اس مرتبے کو 
نبھانا ہے  شاید
 دکھوں کو بھی سینے لگانا ہے شاید
سنو اے مرے دکھ کی بنیاد،
میری محبت کی اے آخری ایک خواہش!
اداسی مجھے اپنا مرشد ہی مانے ہوئے ہے ابھی تک۔۔



******************



یہ میں مجنوایا گیا،

میری ہر رات لیلیٰ کی زلفوں سے لمبی،
 گھنی اور کالی سیاہ
میری ماہم!
یہ میں رانجھڑایا گیا،
میری ہر سانس میں کتنی ہیروں کے دکھ،
بھاگ بھریوں کے کتنے ہی پیوند 
اور بے بسی میں سمائے ہوئے بے کلی کے جزیروں کے غم۔
میری بے چینیوں میں بھی سسی کے غم کا تموّج
یہ میں ماہیوالوں کا رنج والم
یہ مری صاحبا اور سوہنی بھی مجھ سے خفا!
اس جہاں میں محبت کی جتنی الف لیلوی داستانیں ہیں
اور ان کے جتنے حوالے ہیں
 میں ان سبھی سے ستایا گیا
میری ماہم!
میں جانے کہاں سے بلایا گیا
اور تم سے ملایا گیا
اور مجھے کچھ خبربھی نہیں ،
کہ میں کیسے رلایا گیا؟
اور کیسے ستایا گیا؟
پھر تمہیں کس طرح یہ بتاؤں کہ کیسے 
مجھے ایک دیوانگی اور بے چارگی کا نمونہ بنا کر دکھایا گیا!
برملایا گیا!
اور مری مانگ میں پھر سے زخموں بھرا
ایک جھومر سجایا گیا
اور پھر مجھ کو سلطانِ رنج و الم کہلوایا گیا
میری ماہم!
میں منصور حلاج کب تھا؟
مگر پھر بھی مجھ کو تمہاری سبھی چاہتوں کے سبب
آرزوؤں کی سولی چڑھایا گیا
بےقراری کی اے داستاں 
میری ماہم بتاؤ!
میں ہر بار کیوں اس 
اداسی کے دھوکے میں لایا گیا؟؟



******************



میری ماہم!

مرے دل میں مرگِ محبت منانے کی سکت نہیں ہے
تمہیں مضطرب سی زمیں نے بھلا 
کس لیے کوکھ میں بھر لیا؟
کون سا آسماں لے اڑا ہے تمہیں ؟
کچھ کہوتو سہی
بولتی کیوں نہیں؟
ہاں میں مالا ہوں ٹوٹی ہوئی میرے موتی اکٹھے کرو
اور پھر مجھ کو بھی اس زمیں پر کہیں
رول دو
رولتی کیوں نہیں؟
دیکھو ماہم!
خزاؤں کی اپنی کہانی ہوا کرتی ہے
اور بہاروں کی اپنی علیحدہ کہانی ہوا کرتی ہے
غم کی اپنی خوشی ،
اور خوشیوں کے اپنے علیحدہ سے غم بھی ہوا کرتے ہیں
اور خیالات کی ایک دنیا بھی دنیا تو ہے
چاہے بے ربط ہو 
چاہے بے سود ہو
جس کی اپنی کوئی طرز و تشکیل 
اور چہرگی بھی نہ ہو
پر یہ ہے تو سہی
ہر جگہ ہر گھڑی 
اور اذہان پر بھی مسلط
الگ بات ہے تم نے مانا نہیں
فلسفہ بھی عجب تھا 
عجب ہے ابھی تک
خزاؤں کی شادی ہوئی
جانتی ہو نا ماہم!
خزاؤں کی شادی بھی گہری اداسی سے ہو ہی گئی
اور اداسی نے خود کو ہی حق مہر میں دے دیا
اب کچھ اس واسطے بھی اداسی کا گہرا تعلق خزاؤں سے ہے
تم نے پیڑوں سے جھڑتے ہوئے 
زرد پتوں کی چیخیں سنی ہیں کبھی؟
تم کبھی غور سے دیکھنا
ان کی زردی جو بیماریوں کی طرح
 ان کی نس نس میں بہتی ہے
یہ سانس کو ان کے اندر سے باہر
 کہیں پھینک دینے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے
اےمیری ماہم بتاؤ!
اداسی کی اولاد میری وراثت میں کیوں دی گئی؟
تم اگر جانتی ہو تو پھر تو یہ سب ٹھیک ہے
ورنہ میں تو ابھی تک کوئی ایک نقطہ بھی
 اپنے متعلق نہیں جانتا
جان پایا نہیں
اور جانے میں کچھ 
جان پاؤں گا بھی یا نہیں۔۔۔۔



******************



اے یقیں سے بھری میری ماہم!

بتاؤ کبھی تم نے بے اعتباری کی تہمت سہی؟
خیر چھوڑو سنو میری ماہم!
تمہیں آج میں نے بتانا ہے دیکھو
ردائیں تو معصوم ہوتی ہیں 
ان کے کئی رنگ ہوتے ہیں
اور یہ چھپانے کا فن جانتی ہیں
انہیں تو ازل سے چھپانے کا ہی 
حکم صادر ہوا ہے
یہ جس رنگ میں ہوں،
وفاؤں کو ڈھانپے ہوئے ہیں
جفاؤں سے بھاگی ہوئی ہیں
یہاں ایک اجلے ہوئے رنگ والی ردا
 میرے دکھ میں بھی شامل ہے
میری اداسی پہ پھیلی ہوئی ہے 
مجھے اس زمانے کی تپتی ہوئی دھوپ سے
یہ مسلسل بچانے کی کوشش میں ہے
اور میں بھی اسے ہی دکھوں کی تپش سے
مسلسل بچانے کی کوشش میں ہوں
میری ماہم!
دکھوں کی عدالت میں منصف بھی
 دکھ ہی ہوا کرتے ہیں
اور مجرم بھی دکھ
اور ملزم بھی دکھ
اور دکھوں کی وکالت بھی دکھ ہی کیا کرتے ہیں
یہ بھی کتنی انوکھی عدالت ہے ناں؟
کہ جہاں دکھ کی راحت، اذیت کا ہر فیصلہ بھی تو
 دکھ ہی ہوا کرتا ہے
یعنی آسان لفظوں میں 
ساری سزائیں بھی دکھ
اور جزائیں بھی دکھ
ماہمِ من!
اسی ایک دکھ کی عدالت کا
مجھ کو کٹہرا بنایا گیا ہے ۔
کبھی کوئی ملزم 
کبھی مدعی
اور کبھی کوئی مجرم
کبھی کوئی سچا یا جھوٹا گواہ
دکھ کی صورت ہی مجھ میں چلا آتا ہے
یعنی اک دکھ گیا اور پھر دوسرا۔۔۔!
میری ماہم!
مرے ان دکھوں سے بھرے جسم پر بھی دکھوں کے لگائے ہوئے
چند قدموں کے ایسے نشاں پڑ گئے ہیں کہ بس
کیا بتاؤں تمہیں!
اور کیسے بتاؤں تمہیں 
کہ اگر دل پہ بے اعتباری کہ تہمت لگے تو 
بھلا کیسے پیروں تلے سے زمیں بھاگ جاتی ہے
اور آسمانوں کے رستےبھی کھو جایا کرتے ہیں
اے میری ماہم !
وہ اجلے سے رنگوں بھری اور نزاکت کا پیکر
ردائے سکوں چاہتی ہے کہ میں
اپنے دکھ بھی اسی کے حوالے کروں
وہ چھپا لے انہیں۔۔
اور تم نے بھی ایسا ہی کچھ میری خاطر ہی چاہا ہوا تھا ناں؟
اے مضطرب، اے پریشان 
اے میری مجبور ماہم!



******************



اداسی یہاں

 آج پھر سے تمہارے اتارے ہوئے
کالے کپڑے پہن کر
چلی آئی ہے!



******************



یہ مقامات بھی سو رہے ہیں سبھی

اور مضافات بھی سو رہے ہیں
توقع بھی سوئی ہوئی ہے
توقع کی بنیاد بھی سو رہی ہے
اداسی ہی جاگی ہوئی ہے
اداسی تو کتنی ہی راتوں سے جاگی ہوئی ہے مسلسل
یہ سوتی نہیں
نہ سفر میں ،
سفر کے کسی رخت میں
نہ کسی تخت پر
نہ کسی بخت میں
میری ماہم!
تمہاری نگاہوں سے بہتی ہوئی 
وہ مجسم اداسی جو سوئی نہیں تھی
ابھی تک وہ جاگی ہوئی ہے
تمہاری نگاہوں سے بہہ کر
مری روح کے کونے کونے میں
ڈیرہ لگائے ہوئے 
اب تلک اپنے کاموں میں مصروف ہے
اونگھتی بھی نہیں
یہ مسلسل ہی بیدار ہے
میری ماہم!
تمہیں اب تمہارا سکوں سے یہ سونا مبارک رہے!



******************



اے مری ماہمِ مضطرب!

منتشر ہونے والوں سے پوچھو ذرا ٹوٹنے کی اذیت
مری ماہمِ معتدل!
شدتوں میں بھی جا کر ذرا اک نظر دیکھ لو
کہ ابھی تو وہاں کتنے پہلو ہیں جو ایک مدت سے خاموش ہیں
ماہمِ منجمد!
تم کبھی میرے جذبوں کی حدت سے پگھلو
کبھی میری باتوں میں اپنا تصور کرو
میرے لہجے میں خود کو تلاشو
کبھی ماہمِ من مجھے اپنے بختِ رسا میں بھی شامل کرو
میں محبت رسیدہ
کئی روز سے 
اپنی ہی ذات میں پھر بھٹکنے کو تیار
کاندھوں پہ زخموں بھری شال اوڑھے ہوئے
اورہاتھوں میں دکھ کا عَلَم 
اور آنکھوں میں بس اک تمہاری محبت کا چمکا ہوا نور
ہونٹوں پہ بس "میری ماہم"
یہی اک صدا۔
پھر تمہارے لیے اپنی جاں سے گزرنے کو تیار ہوں
تم مجھے بھی تو اپنی اداسی میں شامل کرو
اور مری ناسپاسی سے الجھو
مری جستجو کے قرینوں سے واقف رہو
ایک مدت سے اے مضطرب، معتدل، منجمد
اے مری پیاری ماہم!



******************



مری دلکش و دلنشیں ،

اے یقینوں بھری میری ماہم!
 بتاؤ ذرا کس طرح سے تمہیں 
میری چاہت کا آیا یقیں؟
تم گماں سے پرے کس لئے تھیں؟
یقیں کا دوپٹہ اتارا نہیں تم نے سر سے 
بتاؤ تو کیوں؟
کیوں تمہیں میری ہر بات سچی لگی؟
کیوں تمہیں ،جو خطاؤں بھری تھی مری ذات، اچھی لگی؟
اے مری ماہمِ خوش گماں !
اب یہاں لوگ بھی تو حقیقت پسندی کو ترجیح دینے لگے ہیں
بتاؤ بھلا ایسے عالم میں کیا ایسا ممکن بھی ہے؟
کہ حقیقت پسندی کا قائل بھی رہنا
مگر خواب سے بھی تعلق بنائے ہوئے 
چاہتوں کی گلی کو سجانا؟
سنو میری ماہم!
 مری جاں!
یہاں کوئی تم سا نہیں
اک ذرا سا بھی تم سا نہیں
یاں کوئی بھی تمہارے ہی جیسی کوئی بات کرتا نہیں
کر بھی سکتا نہیں
کوئی تم جیسا بنتا سنورتا نہیں
بن بھی سکتا نہیں
اور سنور بھی تو سکتا نہیں
میری ماہم!
تمہیں یاد ہے ناں کہ پچھلے دنوں
ان خزاؤں کی گہری اداسی سے شادی ہوئی تھی
اداسی، خزاؤں سے ناراض ہے آج کل
اور بہاروں ،
 ہواؤں ، 
فضاؤں پہ بھی اُس طرح سے ہی پھیلی ہوئی ہے
کہ جیسے خزاؤں پہ پھیلی ہوئی تھی
اداسی کے ہاتھوں کو پیلے ہوئے چند دن ہی ہوئے
اور یہ کیسے خزاؤں سے ناراض ہو کر
ہر اک شے پہ کتنی ڈھٹائی سے پھیلی ہوئی ہے
ذرا اس کے آنکھوں ہی آنکھوں سے کھا جانے والے 
یہ تیور تو دیکھو
مری ماہمِ دلنشیں!
اب تمہیں کیا فکر؟
تم تو خود اس اداسی سے ناراض ہو کر گئی
تم تو ساری خزاؤں، بہاروں، ہواؤں، فضاؤں سے
ناراض ہو کر گئی
اب تمہیں یہ منانے کی خاطر 
کریں گی ہزاروں جتن
اور پھر بھی تمہیں یہ کسی طور،  ماہم۔۔!
منا نہ سکیں گی
تمہیں یہ سبھی مل کے بھی
روزِ اول سے بھٹکی ہوئی 
اس سیاہ اور تاریک ، 
مکار، کذاب، جھوٹی، رذیل
 اور فانی سی دنیا میں
واپس بلا نہ سکیں گی!
مجھے اب تمہاری یہ ناراضیاں مار ڈالیں گی 
اے میری ماہم!
مجھے معاف کر نا
کہ جب سے اداسی کی شادی 
مرے، بے کلی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے،
ایک بے چین و مجبور جیون کی ساری خزاؤں سے ہونے کو تھی
تب سے میں 
بس تمہاری ہی راہوں میں ہاتھوں کو جوڑے کھڑا ہوں
سنو!
اب سنو،
میری ماہم!
کبھی تم مجھے اپنی خاطر ہی بس معاف کر کے تو دیکھو
مری حسرتوں کی طلب!
اب تمہاری یہ ناراضیاں مجھ پہ 
ایسے اترتی ہیں جیسے
کسی بدعائی ہوئی قوم پر
پھر عذابِ الٰہی اترنے لگے!
اب مجھے اس طرح سے ہی پھر معاف کر دو
کہ جیسے سدا معاف کرتی رہی تھی نا ں تم!
میری ماہم!



******************



چلو آؤ باتیں کریں

بیٹھ کر ایک دوجے کی پھر ڈھیر ساری وہ باتیں کریں
جو ابھی تک نہیں کر سکے ہیں
نہ تم نا ہی میں
اب تو ماہم!
بہت دن ہوئے میری باتوں میں
ترشی سی آنے لگی ،
یہ مرا لہجہء مضطرب کاٹنے لگ گیا ہے مجھے ہی
نجانے تمہیں اب یہ کیسا لگے
سچ بتاؤں تو یہ وقت بھی اب مجھے
 اک تمہارے ہی بے درد سے ہجر جیسا لگے
اور ارادوں میں جتنا بھی بدلاؤ آیا ہوا ہے
مجھے اب تلک وہ بھی ویسے کا ویسا لگے
اور بیداریوں کا سمے بھی مجھے 
خواب جیسا لگے
اور ماہم!
یہاں سردیاں آگئی ہیں
وہاں کے متعلق بتاؤ!
یہاں کچھ بھی ویسا نہیں 
تم نے جیسا تھا سوچا ہوا
درحقیقت یہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہے
یہاں جھوٹ کی کرسیوں پر سبھی لوگ
کتنے سلیقے سے بیٹھے ہوئے ہیں
یہاں کوئی سچا نہیں ماہمِ من!
یہاں جھوٹ کی کرسیوں پر ہیں جو لوگ بیٹھے ہوئے
جو لباس ان کے جسموں پہ ہے
جھوٹ کے سوت سے ہے بنا
اور مکاریوں سے سلا ہے 
بدن پر جو اک کھال ہے وہ الگ جھوٹ ہے
اور جسموں کے اندر کی پوچھو ہی مت
اور یہاں اب تو سچائیوں کی ذرا سی بھی وقعت نہیں
اور قیمت تو بالکل نہیں۔۔
لوگ اپنانے سے ڈر ہیں اسے
اور پھر جھوٹ جتنا بھی مہنگا ملے
لوگ ہر دام دینے کو تیار ہیں
جھوٹ لینے کو تیار ہیں
سو بتاؤ کہ ایسے میں سچائیوں کا بھلا کام کیا ہے یہاں؟
اک طرح سے یہ اچھا بھی ہے کہ یہاں تم نہیں
ماہمِ من!
یہاں پر تمہیں اپنی سچائیوں پر 
خوشی کی جگہ صرف افسوس رہتا
اگر تم یہاں اور زیادہ ٹھہرتی۔۔۔



******************



یہ لا حاصلی بھی عجب چیز ہے

دسترس اس سے زیادہ عجب ہے
یہ دنیا عجب ، 
کائناتوں میں بکھری ہوئی کائناتیں عجب
اور جو کچھ بھی ہے ان میں موجود 
جیسی بھی حالت میں ہے
ایک دوجے سے بڑھ کر عجب ہے
یہاں جیتنا بھی عجب
ہارنا اس سے زیادہ عجب
ہار کر جیتنا اور زیادہ عجب ہے
یہاں میری ماہم!
سبھی کچھ ہے حیرت میں ڈوبا ہوا
حسرتیں ،حسرتوں سے حسد کر رہی ہیں
عذاب اور عذابوں کی جتنی بھی اقسام ہیں
وہ قطاریں بنا کر ہماری ہی جانب چلی آ رہی ہیں
تمہیں علم ہے میری ماہم،
کہ پہلے کسی بھی عقیدےکا انکار کتنا عجب تھا؟
مگر اب یہاں تو فقط ماننا ہی عجب ہے
چلو خیر چھوڑو کہ یہ ساری باتیں عجب ہیں
یہاں ماننا اور انکار دونوں عجب ہیں
سنو میری ماہم!
تمہارا وہ آنابھی کتنا عجب تھا مگر
یوں تمہارے کہیں 
دسترس اور لاحاصلی ،
کائناتوں سے ،
اور ہارنے، جیتنے،
حسرتوں سے،
عذابوں سے،
اور ان کی اقسام سے،
اور عقیدوں کی تقلید و انکار سے 
دور جانے سے زیادہ 
عجب اور کچھ بھی نہیں لگ رہا ہے ابھی تک۔۔
سنا تم نے کچھ؟؟
اے مری حسرتِ زندگی 
میری ماہم!



******************



محبت کوئی کیمیائی عمل تو نہیں ہے مگر

اس کے ہونے سے
روشن ہے دل 
اور دل میں تمہارا وہی ایک گھر
میری ماہم!
کبوتر کی بولی سے کوئل کبھی
اس کا دکھ جان سکتی نہیں
اور کوئل کا نوحہ کوئی بھی سنے
اس کا دکھ جان سکتا نہیں۔
روز لمحہ بہ لمحہ قیامت کوئی ٹوٹ پڑتی ہے اور
روز لمحہ بہ لمحہ وہی ایک میں 
اپنے ٹوٹے ہوئے پیر لے کر وہاں سے
 گزرتا بھی ہوں
میں تو لا علم تھا کہ میں یوں اپنی ہستی سے
ڈرتا بھی ہوں
اک تمہارے لیے روز جیتا بھی ہوں اور پھر
روز مرتا بھی ہوں
جس سے رکنا ہو مجھ کو ہمیشہ وہی
کر گزرتا بھی ہوں
روز تم سے ملا کرتا ہوں اور
بچھڑتا بھی ہوں
اب تمہارا سہارا نہیں
 پر میں چلتا تو ہوں
اور گرتا بھی ہوں۔



******************



میری ماہم!

یہ کیسی محبت کی منزل ہے جس کا نشاں بھی نہیں ہے
فقط راستہ ہے
فقط ایک لمبا سا، تنگ اور ویران ،
کٹھنائیوں سے سجا،
اور دشواریوں سے بھرا راستہ
اور یہ لوگ ازلوں سے سُچے، سیانے ، کھرے اور دانا
یہ ہنہہ۔۔۔۔ ان پہ تُف۔۔ان پہ لعنت
یہ سب لوگ جیسے تماشائی ہیں
یہ مصائب میں آتے تو ہیں ہی مگر
ساتھ دینے نہیں
مشورہ یہ بڑے ہی سلیقے سے لاتے ہیں بس
اور احسن طریقے سے پھر پیش کرتے ہیں ایسے
کہ ان کے سوااور کوئی ہمارا ،
نہ دردی، نہ ساجن، نہ اپنا، نہ پیارا۔۔
مری بے کلی کی وجہ ، میری ماہم!
جسے میں نے چاہا کہ خاموش ہو
بولتا بس وہی ہے
جسے میں نے چاہا کہ کچھ تو کہے
بس وہی ایک خاموش ہے
اس کے خاموش رہنے سے میری تو 
یہ ساری دنیا ہی گونگی ہوئی،
میری اندھی زباں،
میرے اعصاب ٹوٹے ،
مرے دل میں دردِ شقیقہ،
مری آنکھ بہری ہوئی۔۔
میری ماہم!
ذرا پھر سے آواز دینا کہ
پل بھر سکوں کی کوئی سانس لوں
جی سکوں 
اور پھر
جس طرح تم سے ملنا تھا مل نہ سکا
ایک دن تم سے ویسے ملوں
اور پھر
خواب تکنے کی کوئی ضرورت نہ باقی رہے۔۔



******************



میں نے ماہم 

تمہیں جب بھی لکھا 
تو لفظوں نے مارا مجھے
میں نےتم کو سنا
تو مجھے میرے کانوں نے کوسا
جو دیکھا تمہیں 
تو مری آنکھ روٹھی رہی میری بینائیوں سے
تمہیں میں نے چھونے کی خواہش جو کی
تو تمہارے کسی لمس نے 
میرے تم کو ذرا سا ہی
 چھونے سے پہلے
مری روح پر جانے کتنے تمانچوں کی برسات کی
میں نے جب بھی تمہیں روکنے کی سعی کی
تو مجھ کو گزرنا پڑا 
اپنی جاں سے ہمیشہ
اگر میں نے خوابوں میں تم کو بلایا
تو کتنی شبیں مجھ کو روتے ہوئے کاٹنی پڑ گئیں
میں نے دن میں تمہیں چھپ چھپا کر تمہی سے اگر
دیکھنے کی ذرا سی بھی کوشش جو کی تو
کڑکتی ہوئی دوپہر نے
 مرے اس بدن کوجلایا
اگر میں نے سوچا تمہیں 
تو مرے ذہن سے دل کو آتی ہیں جتنی رگیں 
ان میں فالج کا حملہ ہوا
میں نے بس اک تمہاری خوشی کے لیے
ایسے ہنسنے کی کوشش جو کی تو مجھے
مسکراہٹ نے دیں بدّعائیں 
جو میں نے کبھی آنکھ کو 
اک تمہاری ہی صورت پہ یونہی مسلسل
 ٹکانے کی کوشش جو کی
تو مجھے آنسوؤں نے مری بزدلی کا ہی طعنہ دیا
میری ماہم!
مگر میں نے پھر بھی کبھی باز آنے کی کوشش نہیں کی
کبھی اس سے پہلے بھی یہ میرے بس میں نہیں تھا
نہ اب ہے ،
نہ شاید کبھی ہوسکے۔۔۔!



******************



اور ماہم!

سکندر ابھی تک یہی چاہتا ہے کہ میں
شاعری چھوڑ دوں
یعنی اب میں تمہیں چھوڑ دوں۔۔۔
اور احسن مجھے اک تمہارے نشے میں ہی
مدہوش رکھنے کی دھن میں مگن ہے
مجھے یہ مسلسل ہی اکسا رہا ہے
کہ لکھوں تمہیں 
اور زیادہ طویل ،
اور مسلسل تڑپتا رہوں
وہ یہ سب جانتا ہے کہ میرے جو الفاظ ہیں
یہ سرا سر اذیت سوا کچھ نہیں ہیں
مگر پھر بھی وہ چاہتا ہے کہ لکھوں 
تمہیں اور زیادہ
طویل اور مسلسل۔۔
مگر اس میں اک خاص یہ بات ہے کہ
وہ میری اذیت کو جامہ بنا کر 
پہنتا بھی ہے
اور مرے سنگ جلتا بھی ہے
میرے الفاظ گر روتے رہتے ہیں
احسن انہی سنگ روتا ہے پہروں تلک
اور میرے دکھوں میں
وہ اپنے سبھی درد پہچانتا ہے
اگر میں سراپا الم ہوں
تو احسن بھی دکھ ہے 
مسلسل، طویل اور مکمل۔۔
مگرمیری ماہم!
سکندر بھی اتنا مجھے چاہتا ہے
کہ جتنا یہ احسن۔
مگر اس کی چاہت کا اپنا الگ ایک انداز ہے
اور احسن کا اپنا الگ ایک انداز ہے
اس لیے دونوں مجھ سے جڑے ہیں
مرے ساتھ ہیں
 چاہے دونوں الگ ہی مزاجوں کے ہیں
پھر بھی میں اب تلک ان کے ہی سنگ ہوں
جس طرح یہ مرے سنگ ہیں
اور سنو بے خبر ماہمِ من!
کہ جب میری آنکھوں میں افسوس کے
رنگ بکھرے ہوئے تھے
جو دکھ ان میں پھیلا ہوا تھا
اسے تب سکندر نے محسوس اُتنا کیا
جس قدر میری آنکھوں سے بہتا ہوا دکھ
یہ احسن ابھی تک اسی طرح محسوس کرنے میں مصروف ہے
پر سکندر ابھی تک اسی دھن میں ہے
کہ میں اب شاعری چھوڑ دوں
اور احسن جو ہے میری چاہت کے 
سارے حوالوں کا اکلوتا دربان ہے
جو کہ ہر وار کو روکنے کی سعی میں ابھی تک
اسی طرح مصروف ہے
جس طرح تم مری نظم میں ہو
مسلسل،
طویل،
اور
مکمل۔۔۔!!!



******************



سنو میری ماہم!

عجب تو نہیں یہ زمانہ
مجھے بھی جو منصور حلاج کا جانشیں مان لے
اور مجھے بھی جنوں کا مقلّد تصور کرے
میرے احساس تصلیب کر دے
مرے دل میں آزردگی بھر دے
اور میری باتوں کو دیوانگی کا کوئی بے سُرا گیت سمجھے
مگر ایک صورت تو یہ بھی نکل سکتی ہے
کہ مری اس سنہری اداسی کو
بھگوان کا ایک انداز ہی مانا جائے
 کسی بھی عقیدے میں۔
یا میری بے چینیوں کو 
عبادت گنا جائے
ساری مبارک شبوں میں۔
یا پھر میری تحریر کو بھی
 صحیفہ سمجھ کے پڑھا جائے
ہر دور میں۔
یا مجھے اک مکمل ریاضت کہا جائے
صدیوں پرانی
مگرمیری ماہم!
عجب تو نہیں یہ زمانہ تمہیں
مجھ سے منسوب کرنے سے ڈر جائے
اور یہ تمہاری محبت کو ماتم کہے
اور تمہاری ہر اک بات کو یہ عزاریاں ہی سمجھ لے
تمہیں میرے سارے حوالوں سے کاٹے
یہاں کچھ عجب تو نہیں 
میری ماہم!
یہ دنیا عجب ہے مگر 
اس میں کچھ اور ہونا عجب تو نہیں
اور یہ بھی عجب تو نہیں
کہ مجھے تم سے ملنے کی خاطر
کئی اور دوجے وصالوں سے ہو کر گزرنا پڑے
اور لوگوں سے ملنا پڑے
اور مجبوریوں کو گلے سے لگانا پڑے
مجھ کو بسنا پڑے
اور بس کر اجڑنا پڑے
میری ماہم!
یہ دنیا مکمل ہی معجوب ہے
اور یہاں کچھ بھی ہونا عجب تو نہیں ۔۔۔



******************



اور خزاؤں کی شادی سے پہلے

تمہاری خوشی سے بڑی اور کوئی خوشی تو نہیں تھی
تمہارے غموں سے بڑا اور غم بھی نہیں تھا
سو گہری اداسی کی شادی
 خزاؤں سےجب سے ہوئی ہے
مجھے اب تمہاری کوئی بھی خوشی دیکھنے کو نہیں مل سکی
اور تم اک مکمل سے غم کی ہی صورت میں 
جانے کہاں سے 
یہاں آ گئی ہو
مسلسل ۔۔۔
مگر اس طرح سے نہیں 
جس طرح سے یہاں تھی
 خزاؤں کی شادی سے پہلے۔
تمہارے بنا میری ماہم!
مجھے یہ زمیں بانجھ لگنے گی
آسماں مجھ کو دشمن سمجھنے لگا
یہ ہوائیں مجھے زہر لگنے گیں
اور فضاؤں کو میں زہر لگنے لگا
میری ماہم!
تمہارے بنا مجھ کو اپنی ہی صورت سے گھن آ رہی ہے
مجھے اپنی باتوں پہ غصہ ہے
اپنی ہی آنکھوں سے نفرت ہوئے جا رہی ہے
مجھے اپنی سانسوں سے الجھن ،
میں اپنی سماعت پہ پچھتا رہا ہوں مسلسل
مجھے اپنے بازو جو ہیں تو سہی پر
کٹے لگ رہے ہیں
مجھے اپنے پیروں پہ ایسے کھڑے ہونا
 شرمندگی لگ رہا ہے
تمہارے بنا میری ماہم!
مری کوئی ہستی نہیں 
نا ہی مجھ سے یہ ہستی گنی جا رہی ہے
نہ مجھ سے کوئی اور ہی بات بھی اب سنی جا رہی ہے
تمہارے بنا 
اے مری مضطرب
میری آوارگی کی وجہ
میری بے چارگی کی نشانی
مری بے خبر 
میری ماہم!



******************



یہاں پر دکھوں کا بھی شجرہ نسب ہے

دکھوں کے بھی اجداد ہیں
اور اولاد بھی ہے دکھوں کی
دکھوں کی بھی ذاتیں ہیں
مذہب، عقیدے ہیں
ان کے بھی گھر ہیں
مکانات ہیں اور علاقے بھی ہیں
اور دکھوں کے مضافات بھی ہیں
دکھوں کی روحانی عبادات ہیں
اور روحانی مقامات بھی ہیں یہاں
دکھ حسیں بھی ہے
اے میری ماہم!
دکھوں سے کوئی بھی خوشی خوبصورت نہیں
یہ الگ بات ہے کہ خوشی کی طلب ہر کسی کو یہاں 
اپنے انداز سے،
 چاہے جتنی بھی ہے،
پر یہ ہے تو سہی
میری ماہم!
مری جاودانی بھی دکھ
زندگانی بھی دکھ
میرا ہر ایک قصہ،
مری ہر کہانی بھی دکھ
میری آواز دکھ 
اور مری بے زبانی بھی دکھ
میری آہیں بھی دکھ
اور آنکھوں سے بہتا ہوا 
ہے جو نمکین پانی بھی دکھ
میری ماہم!
تمہیں بھی تو دکھ ہی رہے
میری چالوں کے دکھ
میری چاہت سے بھرپور سارے 
حوالوں کے دکھ
اور میرے دکھوں کے ازالوں کے دکھ
اور مجھے بھی تمہاری طرح بے تحاشہ رہے ہیں
تمہارے سوالوں کے دکھ
اور تمہاری مثالوں کے دکھ
اور اپنی پریشانیوں میں تمہارے وہ الجھے ہوئے
اورشانوں پہ بکھرے ہوئے کالے بالوں کے دکھ
اب تلک ہیں مجھے اک تمہارے ہی نالوں کے دکھ
اور تمہاری وہ لمحوں کی چاہت کے دکھ
اور لمبی جدائی کی صدیوں کے دکھ
اور سالوں کے دکھ
مجھ کو زخموں کے دکھ تو نہیں ،
ہیں مگر اندمالوں کے دکھ
کون دیکھے،یا جانے، یا سمجھے
اسیروں کے دکھ
پائمالوں کے دکھ
اور ماہم!
دکھوں کے جو اجداد ہیں 
ان کو ہیں اپنی اولاد کے دکھ
دکھوں کی جو اولاد ہیں
ان کو ہیں اپنے اجداد کے کچھ علیحدہ سے دکھ
اور ہمارا تمہارا جو دکھ ہے ناں 
اے میری ماہم!
یہ دکھ جانے کس دکھ کی اولاد ہے
جانے کون اس کی اولاد ہے
دکھ تو دکھ ہے
ہمیں اس کے شجرے سے کیا
اس کے منسب سے کیا
اس کی منزل، مقامات، 
گھر یا مضافات سے کوئی مطلب نہیں ہے ہمیں
جس قدر بھی ملا ہے
مقدر میں لکھا ہوا تھا ازل سے
اسے اب سدا تم بھی تسلیم کرنا 
کہ جیسے میں اب اس کو تسلیم کرنے کے
آدھے مراحل تو طے کر چکا ہوں
اور آدھے مراحل ابھی راستے میں پڑے ہیں
مگر تم تو منزل سے آگے گئی ہو
تمہیں کیا فکر
بس ذرا میرے دکھ سے شناسائی رکھنا
کہ دکھ میں اداسی کا حملہ 
بڑا بے رحم بھی ہوا کرتا ہے



******************



میری ماہم!

مری آرزو 
اے مری زندگی
مجھ میں سکت نہیں
مجھ میں ہمت نہیں
میری بس! 
میری بس!!
میری بس!!!
اب میں مجبور ہوں
اب میں ریتوں رواجوں میں محصور ہوں
جانتی ہو نا تم
اور سمجھتی بھی ہو
کہ یہاں زیست کرنا ہے کتنا کٹھن
مجھ میں اب اور طاقت نہیں کہ لڑوں میں
زمانے سے پھر اب تمہارے لیے
یا کہ خود سے۔
یہ دنیا جو ہے جنگ کا ایک میدان سا بن گئی ہے
اگر تم یہاں پر جو ہوتی 
تو میں پھر تمہارے لیے اور لڑتا
میں اپنی یہ سانسیں تمہارے لیے
اپنے سارے حواس،
 اور احساس بھی ہار دیتا
مگر میں نہ تھکتا
مسلسل ہی لڑتا
 وفاؤں کی بھی لاج رکھتا
میں لڑتا بہت دیر تک اک تمہارے لیے۔
اس زمانے کے سارے رواجوں سے لڑتا جھگڑتا
تمہیں چھیننے کے لیے
اپنے جتنے بھی ہیں دوسرے  حق ، سبھی چھوڑتا
اور تمہیں ہی فقط اپنا اکلوتا حق مانتا
میں تمہیں جیتنے کے لیے
اپنا سب ہارتا 
میں تو اپنی یہ جاں بھی گنواتا
فقط تم کو پانے کی خاطر
مگر میری ماہم!
یہاں سے نجانے کہاں تم گئی
مجھ سے کیوں کھو گئی
اور ہنستے ہنساتے ہوئے جانے کیوں رو گئی
میری بس!
میری ماہم!
مری بس!
کہ اب مجھ میں لڑنے کی ہمت نہیں
میں نے اپنا سبھی کچھ تمہارے لیے کھو دیا
اور تم ۔۔۔ 
جانے کیوں رات سے پار 
دن سے پرے 
موسموں سے خفا
آرزوؤں سے بری الزمہ
آفتوں سے بہت دور
بے چینیوں سے بھی آگے
اداسی سے دامن بچا کر
یہاں کی ہر اک چیز سے 
توڑ کر اپنا ناتا
نجانے کہاں کھو گئی
میری بس!
مجھ میں اب اور ہمت نہیں
اک تمہارے سوا کچھ نہیں تھا 
جسے میں نے کھونا تھا
وہ کھو دیا
اور کچھ بھی نہیں
نہ ہی سکت 
نہ ہمت
مری بس۔۔
سنو میری ماہم!
یہاں تم نہیں نہ سہی
پر مری ہر اداسی 
مرے دکھ کے سارے حوالوں میں
میرے اندھیروں اجالوں میں
اب بھی کہیں تم ہو موجود پہلی طرح سے 
مگر
اب کے انداز تھوڑا سا ہے مختلف
تم کو سب معاف ہے
تم مجھے معاف کرنا
مری اس محبت کو 
مقبول و منظور کرنا
جہاں بھی رہو۔
میری ماہم، مری زندگی 
شاد رہنا سدا۔۔۔
اور آباد رہنا سدا۔۔۔
اور ماہم یہ ایسی کوئی ایک رومانوی داستاں تو نہیں ہے
جسے میں سناتا رہوں 
ان زمیں زاد مکّار، کذاب لوگوں کو
جو اس کو مانیں نہیں 
اور تمہارے لیے جو محبت ہے
اسکو یہ جانیں نہیں۔۔۔

************
اختتام
************
اسے کھونا مقدر تھا
اسے جانا تو پڑنا تھا
************
شاعر: زین شکیل

2 comments:

  1. کئی بار پڑھتے پڑھتے ہمت جواب دے گئی کئی بار اٹھ کے پانی پیا کیا بار آنسو پونجھے کئی بار ان میں اپنے درد نظر آئے ،،،کئی بار لگا اب مزید نہیں پڑھ سکوں گی ۔۔۔ ۔۔ بہت بہت ہمت یکجا کر کے اختتام کیا اب بیٹھی لکھنے والے کے درد محسوس کر رہی ہوں ،،، ایک سمندر نظر آ رہا ھے ،،، کبھی نا ختم ہونے والا ،،،، دکھوں کا سمندر ،،،،

    ReplyDelete
  2. بہت خوب جناب 🤟

    ReplyDelete