میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو


میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو
(غزلیں، نظمیں)

زین شکیل





انتساب

عصمت خان کے نام






*****************
غزلیں
*****************



خامشی کو ٹٹولتا ہوا تُو
بات میں زہر گھولتا ہوا تُو

آج بس غور سے سنا میں نے
میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو

میں پروتا ہوا تجھے ان میں
میرے الفاظ تولتا ہوا تُو

آج پھر سے مجھے نظر آیا
رنگ اُداسی میں گھولتا ہوا تُو

پھر وہی تھامتا ہوا اِک میں
پھر مسلسل ہے ڈولتا ہوا تُو

دے کے دستک میں کاش پھر دیکھوں
در کو چپ چاپ کھولتا ہوا تُو

زین شکیل

*****************

چل اس نگری میں چل بادل
سینے اندر ہلچل بادل

کب اس کے نام پہ برسے گا؟
یہ آنکھ ہوئی اب تھل، بادل!

اک نیندوں میں بے چین جھڑی
اک سپنوں میں بے کل بادل

ہے دور ڈگر اس پیتم کی
دو چار قدم تو چل بادل

ہم کیسے ٹھہریں زین وہاں
اس شہر میں ہے جل تھل بادل

تب سے ٹپکے چھت آنکھوں کی
بس ٹھہرا تھا اک پل بادل

اس عشق میں آگ ہی آگ پیا
اب ہجر میں بیٹھا جل بادل

زین شکیل

*****************

کھڑکیوں سے جھانکتی رہ جاؤ گی
تم مجھے یوں سوچتی رہ جاؤ گی

ہوتے ہوتے دور ہوتا جاؤں گا
دور سے تم دیکھتی رہ جاؤ گی

تم ندی میں پتھروں کو پھینک کر
دائروں کو دیکھتی رہ جاؤ گی

غرق ہو کر اک تصور میں مِرے
ہاتھ اپنا چومتی رہ جاؤ گی

یاد میں صدیوں تلک ہو جاؤں گا
لمحہ لمحہ بھولتی رہ جاؤ گی

نیند آ ہی جائے گی ہر شب مگر
خواب میں تم جاگتی رہ جاؤ گی

ہجر تم کو دور تک لے جائے گا
دیر تک تم ہانپتی رہ جاؤ گی

زین شکیل

*****************

چار سو پھیلتا جا رہا ہے سفر، کیا کہوں اب تمہیں
چاند کھڑکی سے آتا نہیں اب نظر، کیا کہوں اب تمہیں

اس نے پوچھا کہ کل شام کیسی اداسی تھی چھائی ہوئی
کل ہوا جب تمہارے شہر سے گزر، کیا کہوں اب تمہیں

جس نے ہاتھوں میں ہاتھوں کو دے کر ہماری اٹھائی قسم
سانحہ یہ ہوا کہ گیا وہ مُکر، کیا کہوں اب تمہیں

اب درختوں کے پتوں کی زردی پہ کیوں کالے بختوں کا غم
کس لئے ہو گئی شاخ بھی دربدر، کیا کہوں اب تمہیں

رات ایسی کہ جیسے ہو دن کی وہ مجبور بیوہ کوئی
دن پہ جیسے لگی ہو غموں کی مُہر، کیا کہوں اب تمہیں

اس نےمجھ سے یہ پوچھا کہ مجھ سے محبت تو ہے نا تمہیں
میں نے اس سے کہا کہ مِرے ہم سفر، کیا کہوں اب تمہیں

تم وہی تھے ،مرے سنگ دنیا سے ڈرتے، جھجھکتے نہ تھے
پھر اچانک گئے ساری دنیا سے ڈر، کیا کہوں اب تمہیں

یہ زمانہ مرے پاس آیا تو تھا، صرف جلدی میں تھا
میں نے بھی کہہ دیا، جاؤ پہلے گزر، کیا کہوں اب تمہیں

زین شکیل

*****************

کمال پر کمال، پھر کمال کر لیا گیا
ذرا سی بات تھی، بڑا ملال کر لیا گیا

میں خود کھڑا تھا منتظر کسی جواب واسطے
نہ جانے مجھ سے کس لیے سوال کر لیا گیا

یہ دو یا چار دن کا سوگ، سوگ ہے بھلا کوئی؟
تمہارے ہجر کو تو ماہ و سال کر لیا گیا

جو یادِ یار ماتمی لباس پہنے آ گئی
تو عین رو کے آنکھ کو بھی لال کر لیا گیا

وہ جُڑ کے میرے نام سے ڈرا ہوا تھا سو مجھے
کہا، ذرا خیال کر! خیال کر لیا گیا

چلو ہماری خیر ہے ابھی نہیں تو پھر سہی
تمہارے زخم کا تو اندمال کر لیا گیا!

ریاضتوں کا جو ثمر تھا اور کوئی لے گیا
ہمیں تو زین ؔیونہی بس نڈھال کر لیا گیا

زین شکیل

*****************

کب ٹھہر جانے پہ دُکھ ہوتا ہے
اب تو گھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

اتنا مانوس نہیں ہو جاتے
پھر بچھڑ جانے پہ دکھ ہوتا ہے

وہ گلی اب بھی ہے ویسی لیکن
بس گزر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

ایک دن ہو تو گزر بھی جائے
روز مر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

اب یہ بچپن تو نہیں سو ہم کو
ایسے ڈر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

تم جہاں ہم سے ملا کرتے تھے
اب ادھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

اس لئے پھول نہیں ہوتا میں
پھر بکھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

ہم تو مقتل بھی خوشی سے جائیں
اب کدھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

زین شکیل

*****************

وہ جو لگتا ہے ہمیں جان سے پیارا پاگل
وہ ہے لاکھوں میں فقط ایک ہمارا پاگل

تیری دریاؤں سی عادت ہی تجھے لے ڈوبی
میں بتاتا بھی رہا یہ ہے کنارا، پاگل

ہر کسی سے نہیں امید لگائی جاتی
ہر کوئی دے نہیں سکتا ہے سہارا، پاگل!

وہ بھی قسطوں میں دکھاتا ہے ادائیں اپنی
وہ بھی ہونے نہیں دیتا مجھے سارا پاگل

اس پہ کیا رونا، تمہیں کوئی سمجھتا ہی نہیں
مجھ سے آ کر تو کہو، میں ہوں تمہارا، پاگل!

ساتھ تم تھے تو ہمیں راس تھا پاگل پن بھی
اب ترے بعد کریں کیسے گزارا؟، پاگل!

دور تم جب سے ہوئے تب سے ہمارے حصے
بس خسارہ ہے، خسارہ ہے، خسارہ، پاگل!

زین شکیل

*****************

کیا آج مرا کیا کل سائیں
اب سنگ مرے تُو چل سائیں

اک چاہ میں تیری برسے تھے
دو نین ہوئے اب تھل سائیں

رکھ ہاتھ مسیحائی والا
یہ ہجر بڑا بے کَل سائیں

اک دھوپ غموں کی پھیلی ہے
یہ روپ نہ جائے جَل سائیں

اُس پار سکوں کا ڈیرہ ہے
اِس پار فقط ہلچل سائیں

کیوں آنکھ میں ساون رُت پھیلی
کیوں برسے یہ بادل سائیں

آ ہاتھ پکڑ دکھ زادوں کا
سکھ چین ملے دو پل سائیں

اک عمر اداسی میں ڈوبی
اک درد کا ہے جنگل سائیں

اب کون کرے گا اِک تجھ بن
ہر بار مصیبت حل سائیں

زین شکیل

*****************

جن پر بے ثمری کی تہمت لگ جائے
ان پیڑوں کے چھاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

بیٹے کے چہرے پر زردی کیوں چھائی؟
کیسے کیسے ماؤں کو دکھ ہوتے ہیں

شہروں میں جا بسنے والے کیا جانیں
ان لوگوں کے گاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

رستوں کی دشواری کیسے سمجھے گی
چھالوں کے بھی پاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

جانے کس کے غم میں بادل روتا ہے
کیا پُر درد گھٹاؤں کو دکھ ہوتے ہیں؟

عمریں گر بے جرم سزاؤں میں گزریں
پھر تو صرف جزاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

زین شکیل

*****************

آنکھیں بھی تو بھر آتی ہیں اکثر ہی مسکانے سے
ماں کتنی خوش ہو جاتی ہے میرے گھر آ جانے سے

ذہن و دل کا گوشہ گوشہ کب تک تازہ دم رہتا
بہتر تھا تم خود آ جاتے یوں مجھ کو یاد آنے سے

سونا سونا آنگن تو یوں ہی کھانے کو دوڑے ہے
سو دکھ بٹ جایا کرتے ہیں پیڑوں کو بتلانے سے

اب تو بنجر بنجر آنکھیں زیادہ چپ چپ رہتی ہیں
دل رونے لگتا ہے اس کے یادوں میں آ جانے سے

اب تو اک مدت سے کوئی خوابوں میں بھی نا آیا 
ہم بھی اب عاجز آئے ہیں شاموں کو گھر جانے سے

میری سانسوں کی جنبش سے تو بھی ڈر سا جا تا ہے
میں بھی ڈرتا رہتا ہوں اب تیرا دل بہلانے سے

میں یہ تم سے کہتا تھا ناں تم پاگل ہو جاؤ گے
پاگل، پاگل ہی رہتا ہے کتنا بھی سمجھانے سے

زین شکیل

*****************

جو بھی آیا تھا فیصلہ بابا
کر لیا میں نے حوصلہ بابا

آپ تو بات بھی نہیں کرتے
کیا کروں آپ سے گلہ بابا

جانے کب تک مجھے نبھانا ہے
اک مروت کا سلسلہ بابا

کوئی بے سائباں ہے مدت سے
کیا یہی ہے یہاں صلہ بابا

آپ کے بعد کچھ سہارے تھے
کوئی کب آپ سا ملا بابا

کاٹتا ہوں جو کٹ نہیں سکتا
زندگی کا یہ مرحلہ بابا

سچ کہوں آپ یاد آتے ہیں
کہہ رہا ہوں یہ برملا بابا

یہ سنا تھا کہ بھر ہی جاتے ہیں
پر کوئی زخم نا سِلا بابا

جھوٹ ہیں نیتیں زمانے کی
جھوٹ ہے سارا سلسلہ بابا

زین شکیل

*****************

اس طرح تیرے خیالوں میں رہا کرنا ہے
ہاتھ میرا ترے بالوں میں رہا کرنا ہے

اب کوئی داد و ستد بھی تو نہیں ہے ہم میں
تم نے کب تک یوں سوالوں میں رہا کرنا ہے

آبلہ پائی بھی منزل پہ ہی کام آئے گی
کوئی قصہ مرے چھالوں میں رہا کرنا ہے

تجھ کو خوشیوں نے بھی اک روز بھلا دینا ہے
میں نے ہر غم کے حوالوں میں رہا کرنا ہے

تو نے اب بھی مرے دن مجھ سے چرا لینے ہیں
میں نے اب بھی تری چالوں میں رہا کرنا ہے

زین شکیل

*****************

مرے پہلو میں رہ کر بھی کہیں رُوپوش ہو جانا
مجھے پھر دیکھنا اور دیکھ کر خاموش ہو جانا

قسم ہے چشمِ ذیبا کی مجھے بھولے نہیں بھولا
تجھے کلیوں کا ایسے دیکھ کر مدہوش ہو جانا

تجھے یہ شہر والے پھر مرے بارے میں پوچھیں گے
نظر سے مسکرانا اور پھر خاموش ہو جانا

زمانہ سانس بھی لینے نہیں دیتا ہمیں لیکن
ہمارے واسطے تم چین کی آغوش ہو جانا

نہ مجھ میں وصفِ موسیٰ تھے نہ میں محوِ تکلم تھا
مرا بنتا نہیں تھا اس طرح بے ہوش ہو جانا

مرے زخموں مرے نالوں کا اکلوتا محافظ ہے
مرے شانوں پہ تیرے ہجر کا بَردوش ہو جانا

سو اب اس نازنیں کی عادتوں میں یہ بھی شامل ہے
چمن میں رات کر لینا، وہیں گُل پوش ہو جانا

زین شکیل

*****************

سینے میں ایک درد پروتی ہیں بارشیں
دل میں اداسیوں کو سموتی ہیں بارشیں

ہوتے ہی شام ابر ٹھہرتے ہیں آنکھ میں
پھر اس کے بعد رات بھگوتی ہیں بارشیں

جانے یہ کس کے ہجر میں صدیوں سے قید ہیں
مدت سے کس کے درد میں روتی ہیں بارشیں

بھیگے ہوئے درخت بڑھائیں اداسیاں
کرتی بھی ہیں اداس بھی ہوتی ہیں بارشیں

کس نے کہا کہ تھم گئی برسات آج شب
آنکھوں میں رات بھر نہیں سوتی ہیں بارشیں

زین شکیل

*****************

درد سے رشتہ نبھانے کے لیے
رو پڑا تم کو ہنسانے کے لیے

یاد مجھ کو کیا نہیں کرنا پڑا
ایک تم کو بھول جانے کے لیے

میں نے سورج پر سیاہی پھینک دی
موم کا اک گھر بچانے کے لیے

آپ کا ملنا ضروری ہے بہت
پھر ہمیں ہم سے ملانے کے لیے

رابطہ کرنا پڑا ہے نیند سے
خواب آنکھوں میں سجانے کے لیے

آ قسم سے لوٹ کر آ جاؤں گا
آ مجھے واپس بلانے کے لیے

رنج میں بس یاد کرتا ہوں تمہیں
اک ذرا سا مسکرانے کے لیے

یہ جو مجھ دیوار میںدر ہے کھلا
راستہ ہے تیرے آنے کے لیے

وہ یقیناً "کُن" کہیں گے دیکھنا
عرض کی تھی لب ہلانے کے لیے

عشق تو ہوتا نہیں ہے دوستو
جیتنے یا ہار جانے کے لیے

اب تو بس یہ سوچتا ہوں رات دن
کیوں گئے تم یاد آنے کے لیے

زین شکیل

*****************

چاند کو اور بھی نکھار ملے
وہ اگر تجھ سے ایک بار ملے

آج کا دن عذاب تھا سچ میں
آج تو تم بھی بے قرار ملے

شہر میں بھی عجب اداسی تھی
سارے چہرے ہی اشکبار ملے

کون حیرت سجائے آنکھوں میں
کون اب تجھ سے بار بار ملے

میری حسرت ہے جب ملوں تجھ کو
تو مجھے محوِ انتظار ملے

کاش دریا مجھے عبور کرے
اور تُو اُس کو میرے پار ملے

سبز جھولے کی لاج رکھ سائیں
مجھ کو کاسے میں تیرا پیار ملے

زین شکیل

*****************

کس نے آخر من کا دیپ بجھایا ہے
سنّاٹا ہی کیوں آخر چِلّایا ہے

تم بھی کیسی کیسی باتیں کرتے ہو
کیسا کیسا تم نے ڈھونگ رچایا ہے

شاخیں بھی تو پیڑ کے دکھ میں روئی ہیں
پتوں نے بھی وافر شور مچایا ہے

آج ہماری آنکھیں اتنا برسی ہیں
آج برس کر ساون بھی پچھتایا ہے

ہجر کے ماروں کو یوں ڈسنا ٹھیک نہیں
ہم نے کالی راتوں کو سمجھایا ہے

آج ہمارے بھاگ جگے ہیں اے لوگو
آج ہمارا سانول ملنے آیا ہے

میں نے اس کی آنکھوں سے الفاظ چنے
اور اس کے ہونٹوں سے گیت بنایا ہے

زین شکیل

*****************

وہ آئینوں سے جو بے خبر ہے، حسین تر ہے
وہ جس پہ ٹھہری ہوئی نظر ہے، حسین تر ہے

جو دھوپ اوڑھے ہوئے بھی سایہ تو دے رہی ہے
وہ شاخ کتنی ہی بے ثمر ہے، حسین تر ہے

جو سر پہ دستِ کرم ہے ان کا تو رنج کیسا
پھر عمر جتنی بھی مختصر ہے، حسین تر ہے

وہ شہر ان کا کمال سے بھی کمال ہے پر
وہ ان کے در کی جو رہگزر ہے، حسین تر ہے

فشارِ جاں بھی قرارِ جاں ہی لگے ہے اب تو
جو مجھ پہ طاری ترا اثر ہے، حسین تر ہے

جو حق پہ بولے، زبان کھولے، سکوت توڑے
مرے لیے تو وہ معتبر ہے، حسین تر ہے

یہاں وہاں ہے، اِدھر اُدھر ہے، کدھر کدھر ہے
ترا تصّور جدھر جدھر ہے، حسین تر ہے

زین شکیل

*****************

مری جو تم سے قربت ہو چلی ہے
یہ میری وجہِ شہرت ہو چلی ہے

ابھی بھی وقت ہے تم لوٹ جاؤ
مجھے تم سے محبت ہو چلی ہے

ہماری زندگی کے چاند ہو تم
تمہیں تکنے کی عادت ہو چلی ہے

کوئی تو سیکھ لے مرہم لگانا
مجھے زخموں کی عادت ہو چلی ہے

تمہیں خاموشیوں سے بات کرتے
سنا ہے ایک مدت ہو چلی ہے

ابھی عدت میں بیٹھی ہیں یہ خوشیاں
غموں سے مجھ کو رغبت ہو چلی ہے

خدا جانے یہ کیسا مرحلہ ہے
اداسی بھی عبادت ہو چلی ہے

زین شکیل

*****************

تنہائی میں دیپ جلانا شہزادی
ایسے میری یاد منانا شہزادی

دیکھو آگے شام کا گہرا جنگل ہے
دیکھو زیادہ دور نہ جانا شہزادی

ہر اک شے سے دھول ہٹاناروزانہ
پھولوں سے گلدان سجانا شہزادی

تتلی کی ہر بات چھپانا پر پھر بھی
سارے جگنو پاس بلانا شہزادی

میں خوشبو میں رنگ ملا کر لاتا ہوں
تم کاغذ کا پھول بنانا شہزادی

کیسے تم کو روز منایا کرتا تھا
ساری باتیں بھول نہ جانا شہزادی

ان آنکھوں میں پیاس بھری ہے صحرا کی
تم آنکھوں سے پیاس بجھانا شہزادی

تیری خاطر لوٹ کے آئے شہزادہ
اب نہ ایسے خواب سجانا شہزادی

زین شکیل

*****************

تجھ کو ہر شعر میں تجسیم نہیں کرنا ناں
میں نے ہر بات کو تسلیم نہیں کرنا ناں

داغ ہیں پھر بھی ترا حسن مکمل تر ہے
ماہمِ من تجھے دو نیم نہیں کرنا ناں

اپنے اندر ہی کسی روز بسا لینا ہے
ضرب دے کر تجھے تقسیم نہیں کرنا ناں

عشق ہم نے تو تجھے مان لیا ہے مرشد
پر تجھے سجدہءِ تعظیم نہیں کرنا ناں

اک خوشی آ کے کئی زخم لگا جاتی ہے
زندگی یوں تجھے تسلیم نہیں کرنا ناں

سب مجھے باپ کی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں
ایک بس تم مجھے تقسیم نہیں کرنا ناں

زین شکیل

*****************

میں کہ پھر روئے بنا رات نہیں کرتا ناں!
جب کوئی مجھ سے تری بات نہیں کرتا ناں!

میں اسے اس لئے ہر بات بتا دیتا ہوں
آئینہ مجھ سے سوالات نہیں کرتا ناں!

اس لیے اس کے سبھی جھوٹ بھی سچ مانے ہیں
وہ بنا روئے کوئی بات نہیں کرتا ناں!

آپ بھی ویسے ہی پامال کیا مت کیجے
جیسے میں آپ کے جذبات نہیں کرتا ناں!

اتنے لوگوں میں مجھے یوں نہ دکھاؤ آنکھیں
اچھا بابا میں کوئی بات نہیں کرتا ناں!

زین شکیل

*****************

ترا شہر کتنا تھا معتبر مری آنکھ میں
کہ بسا ہوا تھا ترا جو گھر مری آنکھ میں

کوئی ابر تھا جو ابھی تلک نہ برس سکا
کوئی اشک بھی ہوا در بدر مری آنکھ میں

مرے آنسوؤں میں مری یہ ذات تو بہہ گئی
رہا ایک شخص ہی عمر بھر مری آنکھ میں

ذرا ٹھہر رات کی تیرگی ابھی صبر کر
کوئی کر رہا ہے ابھی سفر مری آنکھ میں

مری ہر نظر ہی بلندیوں سے پرے گئی
ہوا جانے کس کا ابھی گزر مری آنکھ میں

ابھی اس میں پھیلنے لگ گئی ہے اداس رت
ابھی ہو رہا ہے ترا اثر مری آنکھ میں

زین شکیل

*****************

یہ جو اب آس پاس موسم ہے
ہائے کتنا اداس موسم ہے

ہیں فسردہ تمام تر چہرے
جانے اب کس کو راس موسم ہے

یار، بیلی یہی سہیلی ہے
اک یہی غم شناس موسم ہے

تیرے اندر اداس ہوں میں جو
میرے اندر اداس موسم ہے

جس میں آنکھیں اداس رہتی ہوں
بس وہی سب سے خاص موسم ہے

زین شکیل

*****************

خود کو میں توڑ کے پھر جوڑ کے لاؤں! جاؤں؟
یعنی اب میں نہ کوئی بات سناؤں؟ جاؤں؟

تم بھی پہلی سی توجہ نہیں دیتے مجھ پر
جی تو کرتا ہے تمہیں اب نہ ستاؤں، جاؤں!

ایک مدت سے بلایا جو نہیں ہے تُو نے
اب یہ حسرت ہے ترے شہر میں آؤں، جاؤں!

شہر نے چھین لیا مجھ سے مِرا بھولا پن
سوچتا ہوں کہ میںاب گاؤں بھی آؤں، جاؤں!

اب تجھے روکنا اچھا بھی نہیں لگتا ناں
تو نے بھی رَٹ ہی لگا لی ہے کہ جاؤں، جاؤں؟

زین شکیل

*****************

تُو ایک بار مجھے رازداں بنا لیتا!!
میں آئینوں سے تِرا عکس بھی چرا لیتا!!

سنا ہے بات بنانے میں تو بھی ماہر ہے
سو کوئی بات مرے رُوبرو بنا لیتا!!

میں اپنی پھوٹی ہوئی آنکھ پر رہا راضی
میں تیرے خواب سے اب انتقام کیا لیتا!!

میں اس طرح سے تجھے ٹوٹنے نہیں دیتا
اگر تُو آ کے مجھے حالِ دل سنا لیتا!!

میں واجباتِ محبت پہ سوچتا بھی نہیں
میں اپنا آپ گنوا کر بھی تجھ کو پا لیتا!!

ذرا سی دیر پہ تُو نے اٹھا لیا محشر
میں سو گیا تھا تو آ کر مجھے جگا لیتا!!

زین شکیل

*****************

تمہاری بے رخی مجھ کو وبالِ جان لگتی ہے
مجھے میری اداسی بھی مرا ایمان لگتی ہے

کبھی آؤ تمہیں میں کھول کر سینا دکھاؤں گا
تمہارے بن گلی دل کی بڑی ویران لگتی ہے

جگہ تو ہے نہیں اس میں ہمیں پھر کیوں بسانا ہے
تمہارے دل کی آبادی ہمیں گنجان لگتی ہے

وہ اک مدت سے شرماتی ہے میرا نام آنے پر
بڑی ہو کر بھی وہ لڑکی مجھے نادان لگتی ہے

مری اپنی کہانی میں کوئی بھی موڑ آجائے
مجھے تیری محبت ذیست کا عنوان لگتی ہے

ہمارے بعد کوئی بھی ٹھہر پایا نہیں ہو گا
کسی کی آنکھ مدت سے بڑی ویران لگتی ہے

میں کتنے ہی حوالوں میں رہا ہوں پر نجانے کیوں
مجھے یہ شاعری ہی بس مری پہچان لگتی ہے

زین شکیل

*****************

تجھ سے بچھڑا رہوں گا، کیا کروں گا
خود سے روٹھا رہوں گا، کیا کروں گا

تُو تو رو کر بھی سرخرو رہے گی
میں جو روتا رہوں گا، کیا کروں گا

سانس تجھ کو پکارتی رہے گی
اتنا تنہا رہوں گا، کیا کروں گا

زین شکیل

*****************

جو میرے دل میں اداسی کو بھر کے جانے لگا
وہ دور جا کے مجھے اور یاد آنے لگا

یقیں کرو مری سانسیں اکھڑ گئیں اُس دم
وہ میرے پاس سے جس وقت اُٹھ کے جانے لگا

میں کوئی بات ستاروں سے کرنے والا نہیں
یہ چاند کس کی کہانی مجھے سنانے لگا

وہ دفن کر کے مجھے خوش ہے اور سوچتا ہے
بھلا ہوا کہ کوئی درد تو ٹھکانے لگا

جب اُس سے کچھ بھی نہیں بن سکا تو وہ آخر
ہنسی ہنسی میں مری بات بھی اڑانے لگا

زین شکیل

*****************

ذرا سی دیر مِرے ساتھ تم چلے آؤ!
ابھی تو شہر کو میں نے جواب دینا ہے

یہ اپنا طرزِ کرم اب کی بار بدلو ناں!
کہ اب بھی تم نے پرانا عذاب دینا ہے؟

ابھی تلک وہ مری آنکھ میں نہیں اترا
تمہاری آنکھ کو میں نے جو خواب دینا ہے

کبھی تمہارے ستم سامنے تو آئیں گے
کبھی تو تم نے خدا کو حساب دینا ہے

زین شکیل

*****************

وہ مانگتا ہے محبت کا اب صلہ مجھ سے
اسے رہا ہے سدا ہی کوئی گلہ مجھ سے

میں آج ٹوٹ کے رویا کسی کی یادوں پر
بہت خفا ہے مرا آج حوصلہ مجھ سے

کچھ اس لیے بھی مرے زخم اب نہیں بھرتے
کہ کٹ نہ جائے اذیت کا مرحلہ مجھ سے

میں ٹوٹ جاؤں اگر یاد تُو نہ آئے تو
سو ٹوٹتا نہیں یادوں کا سلسلہ مجھ سے

سو خود ہی مات کوئی ڈھونڈنے لگا ہوں میں
کہ لڑ پڑا ہے کسی غم کا قافلہ مجھ سے

زین شکیل

*****************

اکثر دل کا حال سنا کر روئے ہیں
اکثر کوئی بات چھپا کر روئے ہیں

ایسے رونا کون گنے گا بولو ناں
ہنسنے جیسی شکل بنا کر روئے ہیں

ہنستے چہرے دیکھ کے ہم نے جانا ہے
ہم ہی تیرے شہر میں آکر روئے ہیں

اب جو نا منظور ہے کم رونا سو ہم
دریا اپنی آنکھ میں لاکر روئے ہیں

ہر اک دکھ پر آج ہی ماتم کرنا تھا
ساری خوشیاں پاس بلا کر روئے ہیں

پہلے رو رو اشک بہائے پھر روئے
دیکھو ہم ترتیب لگا کر روئے ہیں

ایسے کیسے زین بھلا ہم رو دیتے
سب کو اب کی بار ہنسا کر روئے ہیں

زین شکیل

*****************

پھر آنکھوں نے خواب سجایا ہو گا ناں
پھر وحشت نے شور مچایا ہو گا ناں

میری آنکھ میں پھیل گئے ہیں پھر آنسو
اُس نے میرا سوگ منایا ہوا گا ناں

تُو نے بھی تو شہر میں بسنے کی خاطر
کیسا کیسا ڈھونگ رچایا ہو گا ناں

میں جو اتنے پاس سے تجھ کو دیکھوں گا
تو بھی کتنی دور سے آیا ہو گا ناں

یہ جو آدھی رات کو تارے روئے ہیں
پھر بادل نے چاند چرایا ہو گا ناں

آجا میری نیند کہیں سے آ بھی جا
وہ ملنے کو خواب میں آیا ہو گا ناں

جن پیڑوں کے سوکھ گئے ہیں پھل ، ان کو
اُس نے میرا حال سنایا ہو گا ناں

زین شکیل

*****************

روتے روتے مسکرانا چاہیے
درد کو ایسے نبھانا چاہیے

پا لیا حد سے سوا میں نے اسے
سوچتا ہوں اب گنوانا چاہیے

پھر اسے آنا نہیں ہے لوٹ کر
پھر اسے کوئی بہانہ چاہیے

چاہتا بھی ہے مجھے پھر کیوں اسے
ہر تعلق غائبانہ چاہیے

کیوں مجھے اس کی طلب رہنے لگی
وہ جسے سارا زمانہ چاہیے

عشق ہونا در حقیقت جیت ہے
اس میں سب کچھ ہار جانا چاہیے

ٹھیک ہے مصروفیت کا دور ہے
اس کو لیکن آنا جانا چاہیے

وہ پرانے زخم مجھ کو راس تھے
پھر مجھے چہرہ پرانا چاہیے

زین شکیل

*****************

درد دل میں سمو لیا جائے
آج تھوڑا سا رو لیا جائے

ہاتھ آیا تو میں نے یہ سوچا
اُس کا دامن بھگو لیا جائے

ہم تو بس اس خیال سے روئے
کیوں نہ آنکھوں کو دھو لیا جائے

کل ستاروں سے بات کر لیں گے
آج کی رات سو لیا جائے

تجھ کو آخر سمیٹ رکھنا ہے
کیوں نہ خود میں پِرو لیا جائے

اجنبی لگ رہی ہیں یہ خوشیاں
اب کسی غم کا ہو لیا جائے

زین شکیل

*****************
نظمیں
*****************



زندگی

یہ زندگی ،یہ عام زندگی، قرار زندگی
پکار زندگی ،نگار خانہء مراد اور
 فشار زندگی،بہار زندگی،خزاں کی رُت
پھر اس کے بعد پھر کہیں سدا بہار زندگی
مگر اداسیوں کے اشہبِ سیاہ پر یہاں
سوار زندگی، بڑی ہی بے قرار زندگی،
قطار زندگی، یہ تار تار زندگی مگر
کہیں پہ کم کہیں کہیں پہ بے شمار زندگی
حصار زندگی، وہ عارضی سے ایک جسم میں
کہیں پہ قید مدتوں سے اشکبار زندگی
کہیں پہ آرزو کی لہلہاتی آبشار اور
کہیں پہ بے پناہ درد کا خمار زندگی
ملال زندگی بڑی ہی پر ملال زندگی
کمالِ جستجو پہ آ ہوئی نڈھال زندگی
سنا رہی ہے کب سے اک فسانہء نشاطِ جاں
کہ لگ رہی ہے اب تو بس کوئی وبال زندگی
پرندگی کہوں کہ پھر درندگی اسے کہوں
کہ دے کے طاقتِ اڑان، کاٹ کر یہ بال و پر
ہمی سے پوچھتی نہیں ہے حال چال زندگی
کہیں پہ کوئی فیصلہ ابھی تلک نہ ہو سکا
کہ لاجواب ہے یا پھر فقط سوال زندگی
کسی کی چاہتوں کی بے بسی سمجھ نہیں سکی
ہے بے حسی کی قید میں بھی شرمسار زندگی
یہ رنج رنج چاہتیں، الم الم محبتیں
یہ بے سبب عداوتیں، نگاہ کی وضاحتیں
عذابِ بے کلی رگوں میں اس طرح اتر گیا
کہ بے لگام حسرتیں ،ہے بے مہار بندگی
کہیں خطاب ہے کہیں پہ ہے خطیب زندگی
کہیں صلیب پر لٹک گئی عجیب زندگی
کچھ اس طرح سمے خوشی کا ڈھل گیا عزیزِ من
کہ لفظِ غم دوام شد،یہ زندگی تمام شد

زین شکیل

*****************

نہیں ملے ناں!

تمہیں کہا تھا کہ پاس رہنا
کوئی بھی رُت ہو ،کوئی بھی موسم
اگر فلک سے کبھی جو مجھ پر
ان آفتوں کے پہاڑ ٹوٹیں
تو راس رہنا
تمہیں کہا تھا ناں پاس رہنا
یہ کیا کیا ہے؟
کسی کی باتوں آ گئے ناں
کسی کی مرضی ہی مان لی ناں
نہیں ملے ناں!
تمہیں کہا تھا جو تم نہ ہو گے
تو رو پڑیں گے
ہمیں سمیٹے گا کون آ کر
چنے گا آنکھوں سے کون آنسو
بہت کہا تھا،
بہت ہی زیادہ تمہیں کہا تھا
کہ مان تھا ناں!
نہیں سنا ناں!
جو مان توڑا یا آپ ٹوٹا
تمہیں کہا تھا کہ رو پڑیں گے
سو رو پڑے ناں۔۔
بہت دنوں سے اداس ہیں ہم
نہیں ملے تھے!
نہیں ملے ناں!

زین شکیل

*****************

اداس ہو گئی نظر

اداس ہو گئی نظر
کہ مدتوں سے دیکھنے کو
پھول پھول
ڈالیاں
کلی کلی ترس گئی
جو حسرتِ وصال تھی
وہ آنکھ سے کچھ اس طرح
برس گئی کہ کیا کہیں
حدودِ ضبط سے پرے
خیالِ آبرو نہیں
کمالِ جستجو نہیں
مگر یہ زعم ہے وہاں
ہزار ہا، کروڑ ہا، یہ شکر ہے، زمینِ دل
اجڑ گئی تو کیا ہوا
ابھی یہ بے نمو نہیں
اے خواہشوں کے،
حسرتوں کی
وادیوں کے دیوتا!!
اداس ہو گئی نظر۔۔۔!

زین شکیل

*****************

میں سراپا عشق ہوں محرماں

میں اسیر ہوں
میں اسیرِ زلفِ دراز ہوں
میں فقیر ہوں
میں فقیرِ شاہِ نجفؑ ہوں طیبہ کی خاک ہوں
میں نشیبِ حسرتِ دید ہوں
میں فرازِ عشق کا راز ہوں
مِرے محرماں!
میں محبتوں کی صداقتوں کا یقین ہوں
کہیں مدتوں سے میں یوں ہی گوشہ نشین ہوں
میں مکانِ فکر ہوں محرماں
کہیں عاشقی کی زمین ہوں
مجھے آئینے نے بتا دیا میں حسین ہوں۔۔۔
میں وجودِ ضبطِ طویل ہوں
میں اداسیوں کا مکین ہوں
مرے محرماں میں عجیب سا
مری بات بات عجیب سی
مرے دن عجیب سے رنگ کے
مری رات رات عجیب سی
میں نوائے شامِ فراق ہوں
میں نہایت اونچی اڑان ہوں
کہیں شاعری کی زبان ہوں
میں کہیں کہیں پہ گمان ہوں
میں سرورِ وجدِ وصال ہوں
میں عقیدتوں کا نشان ہوں!
کوئی شہر ہوں، کوئی دہر ہوں!
میں غبارِ ذات میں اک گھرا ہوا پہر ہوں
میں کسی کے خواب میں پھیلتا ہوا شہر ہوں
میں مٹھاس ِ لہجہء یادِ یار کا زہر ہوں
میں حسین سا کوئی قہر ہوں
میں نشاطِ وصلِ حبیب ہوں
میں مریضِ عشق ہوں محرماں
کہ میں آپ اپنا طبیب ہوں
میں ، غموں کے سینہء جاوداں میں جو گڑ گئی وہ صلیب ہوں
میں ہوں دسترس میں کسی کی
پر کسی اور کا میں نصیب ہوں
میں اداسیوں کا خطیب ہوں
نہ میں دور ہوں نہ قریب ہوں
 میں عجیب ہوں
مرے محرماں !
میں محبتوں کی اساس ہوں
کسی اور شہر میں اور ہی کسی شہر کو کہیں راس ہوں
کہیں عام ہوں کہیں خاص ہوں
میں سنہرے دشت کی پیاس ہوں
مرے محرماں میں لباس ہوں
میں لباسِ حسنِ مجاز ہوں
کہیں سوز ہوں کہیں ساز ہوں
میں محبتوں میں چھپا ہوا 
کوئی ایک سوز و گداز ہوں
 میں کسی غزل کی ردیف ہوں ،
کسی نظم کی کوئی داد ہوں
مرے محرماں، مرے  رازداں!
میں سراپا عشق کی بات ہوں۔۔۔!

زین شکیل

*****************

آملیں اس طرح

او مرے اجنبی،
یار بیلی مرے ہمنوا،
اے مری آنکھ کے ایک کونے میں ٹھہرے ہوئے اشک!
اشکِ عقیدت میں اے ڈولتے،
چیختے، دھاڑتے اک بھنور،
او مرے بے تکے، سانس لیتے مگر میرے بے جان جیون کے اوتار و سردار
آ پھر ملیں!
پھر ملیں اس طرح کہ نظامِ ملن
اپنی آسودگی کے مراحل سبھی چھوڑ کر دیکھنے لگ پڑے
دو محبت کے مارے ہوؤں کو۔۔
ملیں اس طرح جس طرح ڈار سے دو پرندے بچھڑ کر
علیحدہ علیحدہ مسافت جو صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہو
اسے طے کریں اور پھر
آخری سانس لینے کو عمروں پہ طاری سفرختم کرنے پہ
یوں ہی اچانک ملیں ایک ایسی جگہ
جس جگہ جسم کی قید سے پھر رہائی کا وقتِ غضب ناک بختوں سے باہر نکل کر
سواگت میں ان کے کھڑا ہو۔۔
کہ پھر اس سے آگے فقط روح کا مرحلہ ہو شروع
آ ملیں اس طرح
اس طرح اس گھڑی
جس گھڑی میں نا میں نا ہی تو
صرف ہم ہوں
مری آرزوؤں کے اے بادشہ
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے زمیں کا کوئی آخری ایک کونہ ملے آسماں سے
یا پھر
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے کوئی اور ملتا نہ ہو
اک فنا کی طرف ہے رواں یہ جہاں
اس جہاں کے جھمیلوں سے دامن بچا کے
تُو آ تو سہی
او مرے اجنبی یار جی
آ ملیں۔۔۔
اور ملتے رہیں
اس طرح کہ جدائی کا اپنا مقدر ہمیں دیکھ کر رو پڑے
ایک مدت سے بچھڑے ہوئے سانولا!
آ ملیں ۔۔۔۔ !

زین شکیل

*****************

MISTAKE

تن تنہا جو سنگ چلے تھے دنیا کے
تم نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہی کب تھا
لہجوں میں بھی اکتاہٹ چھوڑ آئے تھے
اپنوں سے رتّی بھر دوری کیا معنی؟
میرے کمرے میں بے چینی کا ڈھولک
تک دھن تک دھن تک دھنا دھن بجتا ہے
اس پر رقصاں تنہائی تھیّا تھیّا
اور تماشا میرے ٹوٹے خوابوں کا
اور تمہاری تعبیروں کی تصویریں
چھوڑو ! اب یہ باتیں تم سے کیا کرنی
اب خود ٹوٹے تو احساس ہوا ہے ناں
کس نے تھاما ہاتھ ذرا بتلاؤ تو
کس نے آن لگایا اپنے سینے سے
کتنا میں تم کو سمجھایا کرتا تھا
اپنے ہی بس اپنے ہوتے ہیں آخر
تب میری باتیں بےکار سمجھتے تھے
اب روتے رہنے سے کیا ہو گا پاگل؟
یہ تو تم نے پہلے سوچا ہوتا ناں!
تم نے مجھ کو غیر ضروری سمجھا تھا!!!

زین شکیل

*****************

سنو اے مضطرب میرے!

سنو اے مضطرب میرے!
اگر جنگل اداسی کا گھنا رستے میں آجائے
تو پھر ڈرنا نہیں اس سے
لباسِ خون آلودہ پہ اب کوئی بھروسہ بھی نہیں کرتا
تمہارے خط بڑے شاداب تھے سچ مچ
مگر زیادہ انہیں پڑھتا نہیں تھا میں
کہیں تم آنکھ سے بہہ بہہ کے اپنا عکس
ہی نہ توڑ ڈالو خود
فقط اس واسطے میں نے جلا ڈالے تمہارے خط
ابھی کل شام ہی آئی اداسی اور میری
بے کلی کے ہاتھ پر بوسہ دیا
اور میری بے چینی کے قدموں کو چھوا تھا
پھر مری آنکھوں سے میری روح میں اتری
بنا پوچھے
مگر اس میں مری مرضی بھی شامل تھی
یقیں جانو!
سواد آیا!
مری بے کیف سی بوجھل طبیعت میں
وہ کیسے رنگ بھرنے لگ گئی آہا۔۔۔۔مزہ آیا
مگر اے مضطرب میرے
تمہیں اس ذات کے سارے حوالوں سے ابھی کٹنا نہیں تھا چاہیے
کیونکہ
وہ جب چاہے
جہاں چاہے
جسے چاہے
ملا دے اس کو قدرت ہے
مری آوارگی کے اک پیاسے دشت کے اس آخری کونے میں اے بہتے ہوئے چشمے
مرے اے مضطرب اے میرے پژمردہ
تبھی شکوہ کرو اس سے کہ جب وہ دوست ہو جائے
اسے کب دیر لگتی ہے
کہ وہ بس "کن" ہی کہتا ہے
اسے بس "کن" ہی کہنا ہے۔۔۔۔

زین شکیل

*****************

بات سنو!

بات سنو! یوں چپ مت بیٹھو
دیواروں سے لگ کر رونا
آنکھیں پتھر ہو جانے سے
کتنا بہتر ہوتا ہے ناں۔۔
کچھ تو بولو ناں اب چندا
کہ میں آنکھیں پتھر ہونے
سے پہلے دیوار سے لگ کر
ڈھیر سا تیری یاد میں رو لوں
اپنے ان خاموش لبوں کو
کھولو ناں اور یہ بتلا دو
کیا یہ چپ چپ دیواریں بھی
آنسو پونچھنا جان گئیں ہیں؟؟
اب یہ دکھ سکھ بانٹیں گی ناں؟؟

زین شکیل

*****************

آمِلیں

آمِلیں اس طرح کہ
وچھوڑا ہمارا ملن دیکھ کر رو پڑے
محرماں!
آ ملیں اور جدائی کو ناراض کر دیں
مرے سانولا
آ ملیں۔۔!

زین شکیل

*****************

سن پاگل، بے چین سی لڑکی!

سن پاگل،
بے چین سی لڑکی!
یہ جو آنکھیں ہوتی ہیں ناں
اکثر دھوکا دے جاتی ہیں
اکثر دھوکا کھا جاتی ہیں
سن پگلی، سن جھلّی لڑکی!
جسم تو مٹی ہوتا ہے ناں
جسم کو مٹی ہو جانا ہے
تو پھر اس کی چاہت کیسی؟
پھر جسموں کی حاجت کیسی؟
سن کوئل کی میٹھی میٹھی
پیاری بولی جیسی لڑکی!
میٹھے بول سنا لینا تم
روح سے روح ملا لینا تم
وار کرے جب تنہائی تو
مجھ کو پاس بلا لینا تم!
میرے گھر کے آنگن میں اک
تنہا پیڑ پہ آنے والے
میٹھے پھل کے جیسی لڑکی!
میں اس پیڑ کے نیچے بیٹھا
پھر سے تم کو سوچ رہا ہوں!
آج مجھے تم یاد آئی ہو !

زین شکیل

*****************

اکثر ایسا ہو جاتا ہے

آنسو راہ بھٹک جاتے ہیں
آنکھیں بنجر ہو جاتی ہیں
سپنے مردہ ہو جاتے ہیں
نیندیں ماتم کر لیتی ہیں
اکثر ایسا ہو جاتا ہے
بھولی بسری یادیں آ کر
دل میں درد جگا دیتی ہیں
روح کو زخم لگا دیتی ہیں
بے چینی کے اس عالم میں
ساری رات گزر جاتی ہے
آنکھیں سرخ رہا کرتی ہیں
سر میں درد رہا کرتا ہے
اکثر ایسا ہو جاتا ہے

زین شکیل

*****************

تم سمجھ نہیں سکتے

آرزو کی مٹھی میں
چاہتیں مقید ہیں
بے ثبات جذبے ہیں
ہم نے سن یہ رکھا ہے
اسطرح کے کاموں میں
مصلحت ہی ہوتی ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دل کی سرزمینوں میں
با رہا یہ دیکھا ہے
اژدھامِ غم آ کر
مرقدِ محبت پر
ڈھول جب بجاتا ہے
ٹیس اٹھنے لگتی ہے
آنسوؤں کی جھانجر کو
پہن اپنے پیروں میں
رقص کرنے لگتی ہے
ضبط ٹوٹ جاتا ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دیکھ لو اداسی پر
انگلیاں اٹھاتے ہیں
لوگ اب شہر والے
تار تار جذبے ہیں
بے قرار سانسیں ہیں
پاک سی محبت کو
روندتے ہیں پیروں میں
لوگ اب شہر والے
یہ وبائے نفرت ہے
پھیلتی ہی جاتی ہے
شوق سے سجاتے ہیں
اپنے دل کے مندر میں
لوگ اب شہر والے
تم سمجھ نہیں سکتے۔
ربط کیا ، عداوت کیا؟
مفلسی ، امارت کیا؟
ضابطوں کی پابندی
قاعدوں کی حاجت کیا؟
ایک کاسہء مجبور
شاہ کی سخاوت کیا؟
برملا محبت کیا؟
بے سبب عقیدت کیا؟
عارضوں کے گھیرے میں
بے سکون لالی کیا؟
بکھرے بکھرے بالوں میں
بے کلی کی میّت کیا؟
زینؔ ایک مدت سے
ہم سمجھ نہیں پائے
تم کہاں سے سمجھو گے؟
تم سمجھ نہیں سکتے!

زین شکیل

*****************

کیسے نین ملائیں تم سے؟

گھر کے دروازے پر پھیلی بیل پہ لٹکی باتیں
بوسیدہ سی ایک محبت، اک بے نام اداسی
میں تو اب بھی تکتا ہوں، دالان تمہارے گھر کا
بھورے رنگ کا دروازہ بھی سیکھ گیا چپ رہنا
ساون تو بس دھول میں لپٹی یادیں دھونے آئے
آنکھوں میں برسات بھگو دیتی ہے منظر سارے
اور وہ اجڑا ، اجڑا سا گھر نین چرائے ہم سے
بات کرے نہ بیری لیکن من میں آگ لگائے!
دیکھو وہ جو ہار گیا تھا ہم سے، جیت گیا ہے!
بالکنی میں تم کو دیکھے عرصہ بیت گیا ہے!

زین شکیل

*****************

مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!

میں تم پر نظم لکھوں گا
جسے دنیا سنے گی، اور لے میں گنگنائے گی
مگر فرصت تو ملنے دو
مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!
دیدہءِ حیراں، پریشاں بھی ہے یکسر اور نالاں بھی!
محبت کے سوا کتنے بکھیڑے ہیں جہاں میں
جن کو تنہا جھیلنا پڑتا ہے جن سے رخ تو پھیرا جا نہیں سکتا
سلونی! گر تمہاری ان گھنی زلفوں سے میں اب کھیل نہ پایا۔۔
تو مجھ کو معاف کر دینا!!!
یہاں آسودگی کی قحط سالی ہے
یہاں بستی کے ہر اک موڑ پہ مقتل سجا ہے
خواہشوں اور حسرتوں کا روز قتلِ عام ہوتا ہے
یہاں سرکار گونگی ہے
یہاں قانون اندھا ہے
کسی مجبور نے بچے کی اپنے فیس بھرنی تھی
مگر وہ بھر نہیں پایا۔۔
کسی نادار نے بیٹی بیاہنی تھی مگر نا گھر میں دانے تھے نا کملے ہی سیانے تھے۔۔
مجھے گلیوں میں اکثر کھیلتے وہ صاف دل والے
مگر میلے کچیلے، اور گندے سے غلیظ، ادھڑے ہوئے ملبوس میں موجود ننگے نونہالوں کے
خوشی تقسیم کرتے کھلکھلاتے قہقہے بھی بین لگتے ہیں!!!!
انہیں یہ کون بتلائے کہ ان گلیوں کے کھیلوں میں ڈھکی خوشیاں جو ہیں وہ عارضی ہیں
اور پھر اس کھیل سے آگے انہیں احساسِ محرومی ستائے گا۔۔۔
بڑے مہنگے سے رنگیں اور افرنگی کسی مخمل کے بستر پراے محوِ استراحت میری محبوبہ!
مرے دل میں یہ خواہش ہے کہ میں ان صاف دل والے
گلی میں کھیلتے میلے کچیلے اور ملبوسِ دریدہ میں ڈھکے بچوں کے دل میں
زندگی کے رنگ بھر ڈالوں!
انہیں بھی زندگی جینے کا ڈھب آئے
انہیں بھی خواہشوں کو قتل ہونے سے بچانے کا سلیقہ ہو
سلونی! ہاں مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم اچھی لگتی ہو
مگر مجھ کو کسی کی زندگی میں کوئی محرومی،
کوئی رتّی برابر بھی کمی اچھی نہیں لگتی
مجھے ان بے کسوں اور بے بسوں کے نرم سینوں میں
غمی اچھی نہیں لگتی۔۔
کسی اَمّی کی آنکھوں میں
نمی اچھی نہیں لگتی
نہیں میں جانتا کیسے یہ تن تنہا کروں گا
مجھ سے روشن اک دیا ہو پائے گا بھی یا نہیں
لیکن مجھے اب اس ڈگر پہ چلتے جانا ہے
سلونی! اس لیے گر اب تمہاری ان غزال آنکھوں کو میں یوں ٹکٹکی باندھے ہوئے
(جیسے کہ پہلے دیکھتا تھا)
دیکھ نہ پایا
تو مجھ کو معاف کر دینا!!!
مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!
دیکھ لو ناں! اس جہاں میں اک محبت کے علاوہ بھی بکھیڑے ہیں،
بڑے صدمے ہیں اور اتنے جھمیلے ہیں
کہ اب ان سے اگر فرصت کبھی مجھ کو ملی
تو پھر
میں تم پر نظم لکھوں گا
جسے دنیا سنے گی، اور لے میں گنگنائے گی
مگر فرصت تو ملنے دو۔۔
مگر اس بار تم یہ نظم پڑھ لینا
کہ یہ نوحہ بھی میری ذات میں پیوست ہے
مجھ سے جڑا ہے
اور اسے تم اس طرح محسوس کرنا
جس طرح سے میں محبت کے علاوہ بھی کئی دکھ ہیں جنہیں محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔!!!!
سلونی!!!!

زین شکیل

*****************


(اختتام)






کتاب:  میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial

No comments:

Post a Comment