مِرا محور اُداسی ہے




مِرا محور اُداسی ہے
(غزلیں، نظمیں)

زین شکیل





انتساب

حسنین شکیل اور حمزہ پرویز کے نام






*****************
غزلیں
*****************

اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں
درد دریا کے کنارے تو نہیں ہوتے ناں

رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں

راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اُتارے تو نہیں ہوتے ناں

ہونٹ سینے سے کہاں بات چھپی رہتی ہے
بند آنکھوں سے اشارے تو نہیں ہوتے ناں

ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے
اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں

زینؔ اک شخص ہی ہوتا ہے متاعِ جاں بھی
دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں

زین شکیل

*****************

جب کبھی بے شمار سوچتا ہوں
تیرے نقش و نگار سوچتا ہوں

اس لئے اشک تھم نہیں پاتے
میں تمہیں بار بار سوچتا ہوں

آنکھ سے بہہ گئیں سبھی سوچیں
اتنا زار و قطار سوچتا ہوں

واقعی رائیگاں گیا ہوں میں
ہو کے تجھ پر نثار سوچتا ہوں

خود پہ تو اختیار تھا ہی نہیں
تجھ کو بے اختیار سوچتا ہوں

زین شکیل

*****************

اتنا سوچا، اتنا سوچا، حیرت ہے!
پھر بھی خط میں کچھ نہ لکھا، حیرت ہے!

تم عرصہ پہلے کی باتیں کرتے ہو
سچ مچ اتنا عرصہ بیتا؟ حیرت ہے!

اب زخمی سے خوابوں کی تعبیریں کیا؟
کیوں نیندوں نے دھوکا کھایا، حیرت ہے!

دیواروں پر کچھ سائے چپ بیٹھے تھے
بادل میں چھپ چندا بولا، حیرت ہے!

عرصہ بیتا تم تو بالکل ویسے ہو
کیوں آنکھوں سے بادل برسا، حیرت ہے!

میری تحریریں بھی رویا کرتی ہیں
تم نے مجھ کو ہنستے دیکھا، حیرت ہے!

میں نے جب یہ پوچھا کس نے دستک دی
حیرت سے دروازہ بولا، حیرت ہے!

زین شکیل

*****************

پھر سے تیرا ہو جانا ہی بہتر ہے
یعنی تنہا ہو جانا ہی بہتر ہے؟

پل پل ہنسنے والے اب یہ سمجھے ہیں
کچھ لمحوں کو رو جانا ہی بہتر ہے

مل جل کر تارے سمجھانے آئے ہیں
سو جاؤ اب سو جانا ہی بہتر ہے

اُس کی آنکھیں دیکھ کے سوچا کرتا ہوں
ان آنکھوں میں کھو جانا ہی بہتر ہے

اُجڑی اُجڑی یادوں کے اک صحرا میں
کھویا ہوں اور کھو جانا ہی بہتر ہے

زین شکیل

*****************

ساتھ کسی کا چھوٹ گیا دل بیٹھ گیا
پیار کا مندر ٹوٹ گیا دل بیٹھ گیا

نیندوں کو تعبیر کی حسرت مار گئی
آنکھ میں سپنا پھوٹ گیا دل بیٹھ گیا

یاد تری رہ جانی تھی سو رہ گئی ہے
ہاتھ سے دامن چھوٹ گیا دل بیٹھ گیا

شام بھی مجھ سے موڑ کے چہرہ دور گئی
اور یہ دن بھی روٹھ گیا دل بیٹھ گیا

اتنے ٹکڑے کون سمیٹے گا آخر
دیکھ میں کتنا ٹوٹ گیا دل بیٹھ گیا

زین شکیل

*****************

دل نے رنج و ملال اپنائے
ہم نے سارے زوال اپنائے

دیکھ بیٹھا ہوا ہوں میں اب تک
صرف تیرا خیال اپنائے

کون دعویٰ کرے محبت کا
کون تیرا جمال اپنائے

اس کو سارے جواب ازبر تھے
اس نے پھر بھی سوال اپنائے

رائیگاں ہو گئے سبھی آخر
ہم نے جتنے کمال اپنائے

زین شکیل

*****************

وہ لمحوں میں اجڑ جانے کی باتیں
کرو مجھ سے بچھڑ جانے کی باتیں

سنو! اتنے پریشاں کس لیے ہو؟
نہیں کرتا میں گھر جانے کی باتیں!

مری آنکھوں میں دیکھو اور پڑھ لو
کوئی صحرا بکھر جانے کی باتیں

کبھی تو چاند کرتا ہی رہا تھا
سمندر میں اتر جانے کی باتیں

حقیقت جانتا ہوں زندگی کی
کرو مت مجھ سے مر جانے کی باتیں

وہ مجھ سے بارہا کرتا رہا تھا
یہاں سے بھی گزر جانے کی باتیں

نہیں کرتا کوئی اب مجھ سے آ کر
مری قسمت سنور جانے کی باتیں

زین شکیل

*****************

لگتی ہے ہر بار قسم سے
یہ دنیا بے کار قسم سے

اکثر بوجھ بنے رہتے ہیں
سارے رشتہ دار قسم سے

دنیا بھی جھوٹی لگتی ہے
سچے ہیں بس یار قسم سے

دیکھو ناں بس میں کرتا ہوں
تم سے اتنا پیار قسم سے

تیرے میرے بیچ زمانہ
بن بیٹھا دیوار قسم سے

دل کملا، دل پاگل، جھلّا
آنکھیں زار و زار قسم سے

ہم دونوں کو آخر دے گا
یار! وچھوڑا مار قسم سے

زین شکیل

*****************

دیا ہم بھی جلا لیتے، جو تم آتے
ذرا سا مسکرا لیتے، جو تم آتے

زمانے کی نگاہوں سے بچا لیتے
تمہیں سب سے چھپا لیتے، جو تم آتے

تو پھر اب کیا ہوا جو روشنی کم ہے
کوئی جگنو بلا لیتے، جو تم آتے

اگر صحرا ٹھکانا ہے تو پھر کیا ہے
گلی دل کی سجا لیتے، جو تم آتے

تمہیں ، تم بھی میسر ہو نہیں پاتے
تمہیں تم سے چرا لیتے ، جو تم آتے

ہمیں اس درد میں تسکین مل جائے
یہ ہم تم سے دعا لیتے، جو تم آتے

زین شکیل

*****************

یہی ملال مجھے بولنے نہیں دیتا
تمہارا حال مجھے بولنے نہیں دیتا

بہت خوشی میں بہت ہی اداس رہتا ہوں
غموں کا کال مجھے بولنے نہیں دیتا

تمہاری یاد بہت چیختی ہے آ آ کر
کوئی خیال مجھے بولنے نہیں دیتا

کبھی وہ آئے گا اپنے لبوں کو کھولے گا
یہ احتمال مجھے بولنے نہیں دیتا

مری نظر سے وہ ہر بات جان لیتا ہے
یہی کمال مجھے بولنے نہیں دیتا

میں بولتا تو مجھے آنکھ پر بٹھاتے سب
کوئی وبال مجھے بولنے نہیں دیتا

وہ پوچھتا ہے کہ تم خواب کیوں سجاتے ہو؟
تو یہ سوال مجھے بولنے نہیں دیتا

زین شکیل

*****************

میری ہر بات پہ حیران نہ ہونا پاگل
کچھ بھی ہو جائے پریشان نہ ہونا پاگل

جیسے میں ٹوٹے ہوئے خواب لیے پھرتا ہوں
اس طرح تم کبھی ویران نہ ہونا پاگل

لوگ پھر اور مصائب میں دھکیلیں گے تمہیں
ہر کسی کے لیے آسان نہ ہونا پاگل

تیری وسعت مجھے تسکین عطا کرتی ہے
سبز ہی رہنا بیابان نہ ہونا پاگل

میں نہ ہو کر بھی سدا پاس رہوں گا تیرے
مطمئن رہنا پریشان نہ ہونا پاگل

ایسے تنہائی میں رہ کر نہ گنوانا خود کو
اپنے ہی واسطے نقصان نہ ہونا پاگل

زین شکیل

*****************

محبت تھی یہ نادانی نہیں تھی
ہمیں تو خود پہ حیرانی نہیں تھی

مرے دل سے محبت تھی اسے بس
مری صورت کی دیوانی نہیں تھی

محبت میں بڑی کٹھنائیاں تھیں
میسر کوئی آسانی نہیں تھی

بڑا ہی متقی لہجہ تھا اس کا
بس اس کی بات یزدانی نہیں تھی

تمہاری آنکھ نم ہونے سے پہلے
ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی

بقا ملتی تو تم کو سونپ دیتے
ہماری عمر لافانی نہیں تھی

زین شکیل

*****************

دھڑکنوں کا سینے میں کب سے بین جاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
غم کی سسکیاں لے کر بے کلی پکاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

جب بھی وہ ملے مجھ سے حال چال کے بدلے پوچھتا ہے بس اتنا
یار یہ بتاؤ تم، کتنی بےقراری ہے؟ کتنی سوگواری ہے؟

اک ملنگ نے مجھ سے یہ کہا کہ لوگوں میں آیا جایا کر پاگل!
ساتھ ساتھ رکھا کر، یہ جو دنیا داری ہے، کتنی سوگواری ہے!

کوئی کیسے سمجھے گا کس طرح گزرتے ہیں رات دن اذیت میں
زینتِ مقدر ہے، جتنی آہ و زاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

شام ہے، اداسی ہے، روح بھی تو پیاسی ہے، بات گو ذرا سی ہے
کس طرح کہوں کیسے میں نے شب گزاری ہے، کتنی سوگواری ہے

میں تو خود پریشاں ہوں جو بھی ہو گیا رخصت لوٹ کر نہیں آیا
اک مرا اکیلا پن اور ہجر جاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

میرے پاس آنے سے ہاتھ بھی ملانے سے ڈر رہے تھے سارے لوگ
روح کے بہت اندر، ہم نے خود اتاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

زین شکیل

*****************

ہم کو تو بے حال کیا تھا عشق کے بیری جوگاں
کیسی کیسی بات بنا لی شہر کے سارے لوگاں

نازک نازک کم سن جندڑی، برسوں لمبے صدمے
بن دیکھے، بن سوچے سمجھے حشر اٹھایا روگاں

اب جو ہنس بھی دیں تو پہروں رونا پڑ جاتا ہے
مدت پہلے مار دیا تھا ہم کو یار کے سوگاں

دو روحوں کی یکجائی کو، جھیلا کرب مسلسل
درد مقدر کر ڈالا ہے روحوں کے سنجوگاں

دو دل والوں کی خواہش کو کون سمجھنے والا
پیروں میں روندا چاہت کو ان بے دردی لوگاں

زین شکیل

*****************

کسی بے دھیانی میں کھو کے مجھ کو گنوا نہیں
میں ترا نصیبِ ازل ہوں اب یہ بھُلا نہیں

مِرے سینے لگ کے بہت ہی روئے گا دیر تک
ابھی رابطہ ترے غم کا مجھ سے ہُوا نہیں

مرا ساتھ دینا ہے گر تو ہاتھ کو تھام لے
مجھے لمبی لمبی کہانیاں تو سنا نہیں

جو میں حرف حرف میں درد بھی نہ سمو سکوں
تو یہ جھوٹ موٹ کی شاعری ہے، عطا نہیں

ابھی عشق میں کوئی معجزہ نہیں ہو رہا
مجھے آئینے میں تمہارا چہرہ دِکھا نہیں

میں کسی کو کچھ بھی نہ دے سکوں گا حریمِ جاں
کہ ترے سوا مِرے پاس کچھ بھی بچا نہیں

زین شکیل

*****************

کھا رہا ہے یقیں کو عجب سا گماں، بولتے کیوں نہیں؟
جل رہا ہے یہ دل اُٹھ رہا ہے دھواں، بولتے کیوں نہیں؟

اِ ک سوالی تھا، شب بھر سخی کا جو در کھٹکھٹاتا رہا
اور کہتا رہا صاحبِ آستاں، بولتے کیوں نہیں؟

اک زمانہ تھا سر پہ اٹھاتے تھے اور چومتے تھے قدم
اب تمہاری حمایت میں وہ آسماں، بولتے کیوں نہیں؟

کب تلک شہر والوں کے، میں ان سوالوں سے تنہا لڑوں؟
کس لیے چپ کھڑے ہو یہ تم میری جاں، بولتے کیوں نہیں؟

وہ جو میرے لیے اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار تھے
اب کہاں ہیں سبھی وہ مرے مہرباں، بولتے کیوں نہیں؟

 لوگ پیروں تلے روند دیتے ہیں اور دیکھتے بھی نہیں
زینؔ جی بولنا ہو جہاں تم وہاں، بولتے کیوں نہیں؟

زین شکیل

*****************

ہمیں شکوہ تو ہے اس زندگی کا
تو پھر اب کیا کریں اس بے دلی کا

مکمل کب ہوئی تھی بات پچھلی 
سوال اُٹھا تمہاری بے رُخی کا

ہماری عمر پر پھیلا ہوا ہے
کسی کا ساتھ تھا بس دو گھڑی کا

سبھی چہروں پہ ہے اک موت چھائی
زمانہ ہی نہیں زندہ دلی کا

تِرے بن ہو گئی برباد کتنی
مجھے افسوس ہے تیری گلی کا

گنوا بیٹھا تجھے مدہوشیوں میں
جنازہ پڑھ رہا ہوں بے خودی کا

مجھے خود داریوں نے مار ڈالا
تماشا بن گیا بے چارگی کا

زین شکیل

*****************

جب بھی تم چاہو مجھے زخم نیا دیتے رہو
بعد میں پھر مجھے، سہنے کی دعا دیتے رہو

ٹھیک سے سوچ سمجھ کر مجھے رخصت کرنا
یہ نہ ہو بعد میں رو رو کے صدا دیتے رہو

ٹھیک ہے مان لیا ہے کہ خطا تھی میری 
جیسے تم چاہو، میں حاضر ہوں، سزا دیتے رہو

چھوڑ جاؤ گے تو رو دھو کے سنبھل جاؤں گا
پاس رہ کر مجھے غم حد سے سوا دیتے رہو

روٹھ کر وہ جو تمہیں خود ہی منا لیتا ہے
زینؔ تم اس کو دعا سب سے جُدا دیتے رہو

زین شکیل


*****************
نظمیں
*****************

مرا محور اداسی ہے

تمہاری روح کا عالم
تمہی جانو
زمانے بھر کے رسم و راہ کو
جی جان سے مانو
مرا کوئی دخل کیسے؟
ترا نعمل البدل کیسے؟
مری آنکھوں کی بجھتی کربلا
اے یار پیاسی ہے
مرا محور اداسی ہے

زین شکیل

*****************

آج ضبط رویا ہے

عشق کے جزیرے میں
بے پناہ محبت کا
ایک ہی گھروندہ تھا
ایک ہی ٹھکانا تھا
بے پناہ چاہت کا
ایک ہی سہارا تھا
جس کو بے خیالی میں
اک انا کی ضِد لے کر
تم نے آج کھویا ہے
آج ضبط رویا ہے!!!

زین شکیل

*****************

وہی کیا ناں آپ نے!

بہت کہا تھا آپ سے
ذرا سا رحم کھائیے
ہمیں نہ چھوڑ جائیے
یہ دشت دشت رہگزر
یہ خواب خواب زندگی
کہ آپ کے بنا سفر
سراب ہے، عذاب ہے
بڑا ہی درد ناک ہے
کہ جھونکا ءِ خیال بھی
ملے کبھی جو راہ میں
تو پوچھتا ہے آپ کا
اسے میں کیا جواب دوں؟
گناہ دوں؟ ثواب دوں؟
میں کون سا حساب دوں؟
بہت کہا تھا آپ سے
کہ آپ کے بنا ہمیں
یہ زندگی ستائے گی
ہمیں نہ راس آئے گی
تو ہو گئے ناں آپ گم!
سو کر گئے ناں آنکھ نم!
مگر کسے سنائیں اب
جو خدشہء جدائی تھا
جو دردِ بے حساب تھا
وہی دیا ناں آپ نے!
وہی کیا ناں آپ نے!
بہت کہا تھا آپ سے۔۔۔

زین شکیل

*****************

محرماں تمہارے بن

کس طرح سے کاٹوں میں
راہ زندگی والی
سخت بے کلی والی
آرزو کی بستی میں
عمر بے بسی والی
محرماں تمہارے بن
دیکھنا وہ خوابوں کا
خواب دیکھتے رہنا
کیسے رات کرتا ہوں
کس طرح سے سوتا ہوں
کتنا درد ہوتا ہے
پھوٹ پھوٹ روتا ہوں
محرماں تمہارے بن
بار بار ضد کرنا
ایک چھوٹے بچے کا
ہر عجیب خواہش پر
میں بھی اس کی ہی مانند
آرزوئیں کرتا ہوں
دور تک بھٹکتا ہوں
دیر تک تڑپتا ہوں
تم کو یاد کرتا ہوں
مجھ سے ہر قسم لے لو
لمحہ بھر تمہارے بن
میرا جی نہیں لگتا
اور سوچتا ہوں میں
عمر کیسے گزرے گی
محرماں تمہارے بن!

زین شکیل

*****************

لوٹ کر چلے آؤ

لوٹ کر چلے آؤ
بات ہی تو کرنی ہے
بس تمہاری بانہوں میں
رات ہی تو کرنی ہے
تم تو کہہ گئے تھے ناں
ساتھ چل نہیں سکتے
بات کر نہیں سکتے
رات کر نہیں سکتے
کیا کریں کہ پاگل دل
کچھ نہیں سمجھ پایا
کچھ سمجھ نہیں سکتا
ہم مگر جدا تم سے
ذات کر نہیں سکتے
تم سے ہٹ کے کوئی بھی
بات کر نہیں سکتے
تم سے ہم جدا یہ دن
رات کر نہیں سکتے
تم نظر نہیں آتے
ہم اداس رہتے ہیں
ہم نے ٹھان لی ہے بس
ہر خوشی تمہارے اب
ساتھ ہی تو کرنی ہے
لوٹ کر چلے آؤ
بات ہی تو کرنی ہے
   
زین شکیل

*****************

ایسی بھی اب کیا جلدی تھی

ایسی بھی اب کیا جلدی تھی
من میں بسنے والے لوگو!
دیکھو منوا ٹوٹ گیا رے
ضبط کا دامن چھوٹ گیا رے
ہم سے وعدہ ٹوٹ گیا ہے
آپ ایسے مسکائے کیوں تھے؟
دل میں آن سمائے کیوں تھے؟
گر جانا تھا آئے کیوں تھے؟؟؟

زین شکیل

*****************

پھربہت درد ہوا

پھر ترا ہجر لگا سینے سے
پھر تری یاد کفن پہنے ہوئے لوٹ آئی
پھر کسی درد بھری سسکی نے تھپکی دے دی
پھر اذیت کی کوئی شال گری کاندھوں پر
پھر کسی پھول کی میت کو کہیں دفن کیا خوشبو نے
پھر یہ دل، مٹھی میں آیا ہوا دل رونے لگا
پھر تمہیں کیسے بتائیں کہ بہت درد ہوا۔۔۔۔
درد اتنا کہ ان اشکوں کے بھی آنسو نہیں تھمتے پل بھر
ہجر کی ذات بھی وسعت کو ہی ترجیح دیا کرتی ہے
تھام لیتی ہے مرا ہاتھ جدا ہوتی نہیں
دن خفا رہنے لگا رات خفا ہوتی نہیں
کون سی رات ہے جب آنکھ مری روتی نہیں
یہ تھکی ہاری ہوئی بد بختی
جاگ اٹھی ہے جو اب سوتی نہیں
جب ترا ہجر گلے لگتا ہے
تب یہ کہتا ہوں کہ 
ہجرا ! 
ذرا آہستہ سے مل
دیکھ میںپہلے ہی ٹوٹا ہوں مجھے اور نہ توڑ
اس سے ملنے کے لیے کب سے سفر میں ہوں
کہ جس سے مل کر
میں نے اس ذات کو تکمیل عطا کرنی ہے
اور اسے ضبط کی تفصیل بھی بتلانی ہے
بس ذرا دھیرے سے مل اے ہجرا!
مت مجھے توڑ مجھے اس کی طرف جانا ہے
اس سے مل کر یہی اک بات بتانی ہے اسے
اور بتانی بھی ہے تفصیل کے ساتھ
اور پھر سسکیاں لیتے ہوئے رونا ہے،
اسے کہنا ہے!
پھر ترا ہجر لگا سینے سے
پھر یقیں جان بہت درد ہوا۔۔۔

زین شکیل

*****************

وہ عورت ذات تھی

وہ عورت ذات تھی
اس میں وفا کے سب عناصر پائے جاتے تھے
وہ بیٹی تھی محبت کی
اسے چاہت سوا اب اور آتا ہی نہیں تھا کچھ
وہ لڑکی تھی وہ بھاگوں والی لڑکی تھی
دعا سی تھی، عطا سی تھی،
ارادت کی فضا سی تھی،
اسے آسودگی کی چاہ تھی لیکن
اسے آسودگی نہ مل سکی تھی
اور پھر وہ دور جا نکلی کہیں تنہا
اکیلی اور بہت بے چین
بوسیدہ سے رستوں پر سفر کرتی
تھکن اوڑھے ہوئے پچھلے سفر کی
اک کنارا پار کر کے دوسری جانب
وہ پژ مردہ
وہ عورت ذات
وہ بیٹی
ہوا ئے سرد کے بپھرے ہوئے اندھے بہاؤ سے
اب اس سے اور زیادہ لڑ نہیں پائی
وہ جیسے کانچ کی ٹوٹی ہوئی اک آہ
جیسے بجھنے والی آخری شمع کی حسرت
یا کسی مجبور رستے کی مسافت تھی
کہ جس میں بے کلی کا ربط بھی ویسا ہی تھا
جیسا ہے اب مجھ میں!
اور اس میں سادگی کے سب مناظر پائے جاتے تھے
وہ عورت ذات تھی
اس میں وفا کے سب عناصر پائے جاتے تھے

زین شکیل

*****************

ہم سودائی اب تک جان نہیں پائے

ہم سودائی اب تک جان نہیں پائے
کس کے سینے لگ کر کتنا رونا تھا
کس سے کتنی بات چھپایا کرنی تھی
کس کو کتنی بات بتایا کرنی تھی
کس کی آنکھ میں چھپ کر بیٹھے رہنا تھا
کس کے دل میں شام گزارا کرنی تھی
ہم معصوم طبیعت والے آوارہ
اب تک بالکل بھی یہ جان نہیں پائے
بن پوچھے کس کس کے خواب میں جانا تھا
کس کو اپنا حال سنایا کرنا تھا
کس کو آنکھوں پار اتارا کرنا تھا
ہم سودائی اب تک جان نہیں پائے

زین شکیل

*****************

اداس کر کے کہاں گئے ہو

مکان والو!
زمین والوں کو چھوڑکر تم کہاں گئے ہو؟
اے آسمانوں کے راستوں میں بھٹکنے والو
کہاں رکے تھے؟
تمہیں اداسی کے پار جانے کا شوق کیوں تھا؟
زبان کھولو!
کہ خاک ہونے سے خاک ہوتا نہیں ہے جیون
وہ ایک منزل کہ دو قدم پہ پہنچ تو سکتے تھے تم بھی ہم بھی 
کہ ساتھ چلنے کے تم نے وعدے تو کر لئے تھے مگر بتاؤ 
کہ دو قدم وہ کہاں چلے ہو؟
زبان والو!
ذرا بتاؤ کہاں پہ کرنی تھی بات کس سے، کہاں پہ کی تھی؟
کہی تھی کس سے؟ وہ بات کیا تھی؟
اے کان والو!
وہ جس کی باتیں ہنسی ہنسی میں اڑا گئے ہو وہ کس اذیت میں ذیست کرنے نکل پڑا ہے
کوئی خبر ہے؟؟
کہ جس نے عمروں کی بے حسی کو ،
اسی محبت کی بے بسی کو حروف دے کر بیاں کیا تھا
تمہاری خاطر
تمہیں سنانے کے واسطے ہی لہو جلا کر
 اداسیوں کے اجاڑ خانے سے لفظ لا کر
تمہیں سنانے کے واسطے ہی عذاب جھیلے تھے شاعری کے
اسے ہی سن کر ہنسی ہنسی میں اڑا گئے ہو!
اے کان والو!
یہ کیا کِیا ہے؟
نظر ملانی تھی کس سے تم نے، ملائی کس سے؟
اے آنکھ والو!
نظر اٹھا کر جھکانے والو!
نگاہ والوں سے اے نگاہیں چرانے والو!
ذرا بتاؤ کہ کس نگر میں ہماری آنکھوں کو لے گئے ہو؟
کہاں پہ جا کر چھپا دیا ہے؟
تمہاری چاہت میں خون رسنے لگا ہے لیکن
کسی کی جانب نہیں یہ اٹھنے کی تاب رکھتیں
کسی بھی صورت
کسی بھی لمحے
حصار ٹوٹے اداسیوں کا
تو ہم بھی حسرت کے آئینوں پر
گرائیں پتھر
حصار ٹوٹے تو ہم بھی بولیں
مگر ابھی تک حروف جامد ہیں، آنکھ نم ہے،زبان چپ ہے۔۔
اداسیوں کے گڑھے میں ہم کو گرانے والو!
ہماری مردہ سی حسرتوں کو جناز گاہوں میں لانے والو!
زبان کھولو!
کہ آخری بار پوچھتے ہیں
سو آخری بار ہی بتا دو
اداس کر کے کہاں گئے ہو؟
مکین تم بن اجڑ چکے ہیں،
مکان والو!

زین شکیل

*****************

مجھے تم یاد آتے ہو

اداسی بین کرتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی
مجھے تم یاد آتے ہو
یہ نیناں روز روتے ہیں
مجھے تم یاد آتے ہو
تمہیں واپس بلاتے ہیں
مجھے تم یاد آتے ہو
مرے تم پاس ہو کر بھی
مجھے تم یاد آتے ہو
بڑی بوجھل طبیعت ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
جدائی جان لیتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے ہنسنا نہیں آتا
مجھے تم یاد آتے ہو
مری ہر سانس کہتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے اتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے کتنا رُلاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو

زین شکیل

*****************

وہی ہوا ناں

جو تم نے تھاما تھا ہاتھ میرا
ہم ہی تم نے گرا دیا نا
تمہیں کہا تھا
کہ گرد آنکھوں میں پڑ گئی گر تو لوٹ آنا
ہماری آنکھوں کو ساتھ لے کر
سفر پہ جانا!
تم آئے، آ کر
ہماری آنکھوں سے خواب ہی لے گئے ہمارے
نمی سجا کر ہم اپنی آنکھوں میں کس کو دیکھیں ؟
کسے دکھائیں گے خواب بولو!
ہمیں ہماری نظر میں تم نے گرا دیا ناں
ابھی محبت کی داستاں بھی
تھی نا مکمل
ابھی تو ہمارا بھی ذکر آنا تھا داستاں میں
سو اس سے پہلے ہی ختم کر کے کہانی ساری
یہ تم نے نقطہ لگا دیا ناں
بہت کہا تھا کہ پاس رہنا
نہ دور ہو کر اداس کرنا، 
اداس رہنا
ہمیں ہمیشہ ہی راس رہنا
سو دور ہو کر، قرار کھو کر
اداسیوں کا ہمیں فسانہ بنا دیا ناں
تمہیں تو پہلے ہی زین ہم نے
بتا دیا تھا
بھلا وہ دے گا
جہاں بھی لکھے گا نام تیرا
مٹا بھی دے گا
جو بے تحاشہ اسے میسر اگر ہوئے تم
گنوا بھی دے گا
تمہیں مکمل وہ کاغذوں پر
لکھا کرے گا
جلا بھی دے گا
زمانے بھر کے وہ سامنے پھر
تمہیں فسانہ بنا بھی دے گا
تمہیں تو پہلے ہی ہم نے سب کچھ
بتا دیا تھا
نہیں کہا تھا؟
سو دیکھ لو اب کہ اس نے سب کچھ
وہی کیا ناں
وہی ہوا ناں!!

زین شکیل

*****************

یوں ترے ہجر میں ہم روئے ہیں

یوں کسی درد سے لڑتے ہوئے گزریں راتیں
اس طرح دل میں کوئی ٹیس اٹھی
جیسے حسرت کوئی بازار میں رہ جاتی ہے
جیسے بچہ کوئی سوتے ہوئے ڈر جاتا ہے
یوں اداسی نے مجھے اپنایا
جیسے بیوہ کسی آزار سے لگ جاتی ہے
اور ہر بات پہ بیٹھےہوئے رو پڑتی ہے
ہم نے کچھ ایسے تمہیں یاد کیا
جیسے بچے کسی تختی پہ کوئی سبق لکھیں
اور پھر یاد کریں پہروں تک
پھر ذرا سا جو اسے بھولیں تو
ڈانٹ پڑجاتی ہے رو دیتے ہیں
پھر کبھی بھول نہیں پاتے ہیں
ہم نے کچھ ایسے تمہیں یاد کیا
جیسے بیمار طبیعت کو شفا یاد آئے
ہم نے یادوں سے وضو کر کر کے
اک ترے نام کی تسبیح بھی کی
یوں ترا ہجر منایا ہم نے
جیسے بارش کی جھڑی لگ جائے
جس کے تھم جانے کا امکان نہ ہو
یوں ترے ہجر میں ہم روئے ہیں!

زین شکیل

*****************

اک ترا دکھ ہی نہیں تھا کہ پریشاں ہوتے

یہ جو پہناوا ہے زخموں پہ، مداوا تو نہیں
یہ جو آنکھیں ہیں، ترے نور سراپا کی قسم
اس قدر پھوٹ کے روئی ہیں کہ اب یاد نہیں
کون سا درد کہاں آن ملا تھا ہم کو
کس جگہ ضبط پریشان ہوا پھرتا رہا
نہ ہمیں راس رہا ہجر نہ ملنے کی گھڑی
اب تمہیں کیسے کہیں زخم پہ مرہم رکھو
اب تمہیں کیسے کہیں ہم سے کہیں آ کے ملو
اب تمہیں کیسے کہیں آنکھ سے بہتے ہوئے شخص
اب ہمیں اور کئی دکھ بھی تو ہو سکتے ہیں!!!

زین شکیل

*****************

محبت کے درختوں کا بھی اپنا بخت ہوتا ہے

محبت کے درختوں سے کوئی پتہ بھی گر جائے
ہوا کو چوٹ لگتی ہے
عجب وحشت کے عالم میں ہوا یوں سنسناتی ہے
اسے رستہ نہیں ملتا
کوئی تو دشت ہو ایسا جہاں دیوار ہو غم کی
جہاں وہ سر پٹخ  ڈالے
مگر بے درد آندھی کو خبر شاید نہیں کہ جب
محبت کے درختوں سے کوئی پتہ اگر ٹوٹے
تو اک اک شاخ کو اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے
جڑوں کی آخری حد تک بلا کا درد رہتا ہے
ہوا کو اس سے کیا مطلب
اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے
ہوا تو شور کرتی ہے
اور اس کے شور سے کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں
اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ بے چارہ
سلگتی دھوپ میں تنہا، تھکا ہارا، کھڑا
نہ بیٹھ سکتا ہے
نہ آنسو پونچھ سکتا ہے
مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے
اپنی جگہ قائم
فقط خاموش اور ساکت
مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے
وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص اس پر لکھ دیا کرتا
کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادوں کی صورت میں۔۔
سنو!
تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو
تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا
نا میرا نام اپنے ساتھ، نا اپنا علیحدہ سے
محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے
اُسے پڑھنا بھی آتا ہے
تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں
کہ اُس کا بخت اپنا ہے
تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو تو بہتر ہے۔
جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں
تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو
انہیں کیو نکر ستاتی ہے
وہ اپنے درد سے عاجز تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟
محبت کے درختوں سے گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو
اُٹھاؤ!
اپنے آنچل میں سمیٹو
اور واپس لوٹ کر آؤ!!
سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے!

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

ملو مجھ سے
کہ ملنا ہے مجھے تم سے
کسی شاداب نگری کےکسی برباد خطے کے
بڑے ویران کونے میں
کسی بے چین لمحے میں، بڑے بیتاب سینے سے
لگانا ہے تمہیں میں نے
جہاں پر ہجر کے موسم بھی اپنا رخ بدلتے ہوں
جہاں پر آرزوؤں کا کبھی نہ خون ہو پائے
جہاں تم سے بچھڑنے کا کوئی بھی راستہ نہ ہو
جہاں پر خواب تعبیریں بھی اپنے ساتھ لاتے ہوں
جہاں پر آنکھ کھلتی ہو تو میرے سامنے تم ہو
جہاں پر نیند بھی مجھ کو تمہارے ساتھ آتی ہو
تمہارے ساتھ ہونے سے خزاں بھی کھلکھلا اُٹھے
فضا بھی مسکرا اٹھے،
جہاں نہ بھوک اور افلاس سے بچے بلکتے ہوں
جہاں سر کی ردا لاچار کا ماتم نہ کرتی ہو
جہاں نہ شہر جلتے ہوں
جہاں نہ بے سروپا آفتوں سے لوگ مرتے ہوں
جہاں پر دوسروں کے خون سے نہ پیاس بجھتی ہو
جہاں پر صرف بے پایاں محبت کا بسیرہ ہو
جہاں بس نین ملتے ہوں، دلوں کو چین آجائے
جہاں بیٹھے بٹھائے اک حسیں پر پیار آجائے
تو ساری عمر بس اس اک حسیں کے نام ہو جائے
تو سوچو تم!
کسی شاداب نگری کا کوئی برباد سا خطہ
کوئی ویران سا کونہ
سدا آباد ہو جائے
تمہیں سینے لگا کر دل کی بیتابی ٹھہر جائے
یہ کہنا ہے مجھے تم سے
زمانے کے جھمیلوں سے
بچا کر اپنی نظروں کو
چھڑا کر ہاتھ دنیا سے
وہاں اک بار آجاؤ کہ اب بھی منتظر ہوں میں
جہاں تم سے بچھڑنے کا کوئی بھی راستہ نہ ہو
یہی ہر خط میں لکھتا ہوں
ملو مجھ سے
کہ ملنا ہے مجھے تم سے
بڑے بیتاب سینے سے
لگانا ہے تمہیں میں نے
ملو مجھ سے

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

ملو مجھ سے
کہ مجھ سے اب کوئی ملتا نہیں ویسے
کہ جیسے تم ملے مجھ سے
ملو مجھ سے کہ بے چینی نہیں جاتی
سنائی دینے لگتی ہیں مجھے خاموشیاں ایسے
کہ جیسے دل کی دھڑکن سانس کے ٹکڑوں سے مل کر
بے سروپا اور اک بے ضابطہ ترتیب سے بس شور کرتی ہو
ملو مجھ سے کہ اب راتیں عجب سرگوشیاں کرتی ہیں مجھ سے
 اور کچھ ایسی عجب باتیں سناتی ہیں
جنہیں میں سن تو لیتا ہوں
 مگر سہتے ہوئے کانوں سے اتنا خون رستا ہے
 کہ مقتل گاہ کا منظر سا بن جاتی ہیں آنکھیں بھی
جگر کے پار سے بھی درد کی آواز آتی ہے
تمہیں میں یاد کرتا ہوں
میں سب کچھ بھول کر اک بس تمہیں ہی یاد کرتا ہوں
مگر کب تک، کہاں تک اور پھر کیسے سہوں سب کچھ تمہارے بن
کہوں کس سے؟
ملوں کس سے؟
کہ مجھ سے اب کوئی ملتا نہیں ویسے
کہ جیسے تم ملے اک بار ہی مجھ سے
ملو مجھ سے!

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

ملو مجھ سے کہ بے ترتیب ہوں ترتیب دے جاؤ!
ملو مجھ سے کہ میرا جسم بھی اب سرد ہے سانسیں رکی ہیں
 آؤ اب جذبات کی حدت سے میری روح میں
 اک روح کو تحلیل کر دو اور
محبت کی اس آمیزش سے میری سانس کو تحریک دے جاؤ!
ملو مجھ سے کہ لکھنا ہے تمہیں میں نے
خود اپنے دل کے صفحوں پر غزل کی شکل میں یا پھر
 نظم کے اک نرالے انگ میں ایسے
 کہ جس کی بحر بھی تم ہو، تمہی تشبیہ، تمہی ہو استعارہ بھی!
ملو مجھ سے کہ دانستہ تمہی سے روٹھ کر میں نے
تمہیں اتنا منانا ہے کہ پھرتم روٹھ نہ پاؤ
کبھی مجھ سے!
یہ بے ترتیبیاں میری
مجھے اک ناگ کی مانند ڈستی ہیں
بڑا نقصان کرتی ہیں
مری رگ رگ میں اتنا زہر بھرتی ہیں
کہ جس کے درد سے پھر روح کی آ ہ و بکا سونے نہیں دیتی،
میں رونا چاہتا ہوں یہ مجھے رونے نہیں دیتی!
میں بے ترتیب ہوں اتنا کہ بےترتیبیاں میری
تمہیں آواز دیتی ہیں
 تڑپتی ہیں تمہارا نام لیتی ہیں
سسکتی ہیں تمہیں واپس بلاتی ہیں
کہ لوٹ آؤ!
ملو مجھ سے میں بے ترتیب ہوں ترتیب دے جاؤ!
ملو مجھ سے!

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

مجھے معلوم ہے مجبور ہو
مہجور ہو
میری حدوں سے دور ہو
یا پھر
کسی بھی کام میں مصروف ہو
تم مل نہیں سکتے
مگر پھر بھی
گزارش ہے
ملو مجھ سے!

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

اِسے چاہو تو میری
آخری خواہش سمجھ لو
پر
ملو مجھ سے

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

ملو مجھ سے
نگاہوں کے اشاروں سے پرے ہو کر
زمانے کے فشاروں سے پرے ہو کر
گلوں سے اور بہاروں سے پرے ہو کر
کسی بے چین دریا کے کناروں سے پرے ہو کر
ان آنکھوں سے نکلتی آبشاروں سے پرے ہو کر
ہمارے دل میں پھیلے اک گھنے غم کے سیہ جنگل میں بکھری ،درد کے پیڑوں کی شاخوں
اور رستوں میں کہیں بکھری پڑی کچھ سخت جھاڑوں سے پرے ہو کر، 
ملو مجھ سے
خساروں سے پرے ہو کر
اکیلے تم ، اکیلا میں
ملو مجھ سے
 ہزاروں سے پرے ہو کر
زمیں کی وسعتیں محدود ہیں
پھر بھی جدائی کیوں نگاہیں پھاڑ کر تکنے لگی ہے رہگزر ایسے
کہ جیسے آسمانوں میں بھی اک پھیلی ہوئی ایسی جدائی ہے
مسلسل جو ہمیں باور کراتی ہے کہ جیسے لامکاں کی وسعتوں میں بھی نہیں ممکن تمہیں ملنا
تمہیں ملنے کی خاطر آسرے کی سخت حاجت ہے
مگر میں تم سے کہتا ہوں
کوئی بھی آسرا لے کر
کسی محتاج لمحے کی کسی ٹوٹی ہوئی ساعت میں اب
تم سے نہیں ملنا۔
مگر تم جس قدر چاہو ، جہاں چاہو
ملو مجھ سے
مگر دیکھو،
سہاروں سے پرے ہو کر

زین شکیل

*****************

ملو مجھ سے 

ملو مجھ سے،
کہ مدت سے نہیں دیکھا تمہیں میں نے!
تمہیں سوچا بہت ہے پر تمہارا سامنا کرنے کی حاجت ہے
تمہارے سامنے اک بار پھر خاموش رہ کر چیخنا ہےاور تمہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
یہی اک بات کہنی ہے
مجھے اب بھی محبت ہے
مگر پہلے سے زیادہ ہے
ملو مجھ سے !
مجھے اک بار پھر سے پوچھنا ہے
کون سے انداز میں بالوں کوکنگھی سے بناؤں جس سے میں اچھا لگوں تم کو
مجھے اک بار پھر سے پوچھنا ہے
 کیا تمہیں میں یاد آتا ہوں؟
مجھے یہ پوچھنا ہے کیا ہوا اُس ڈائری کا جس میں میرے شعر لکھے تھے
تمہیں سب یاد تھے ناں !
کیا تمہیں وہ یاد ہیں اب بھی؟
تمہیں مل کر مجھے خود آپ اپنی ذات سے ملنا ہے
خود سے پھر تمہارے بارے میں
میں نے ضروری بات کرنی ہے
تمہارے نام میں نے پھر سے اپنی ذات کرنی ہے
ملو مجھ سے،
کہ مدت سے نہیں دیکھا تمہیں میں نے!

زین شکیل

*****************

ملکہ عالیہ

وہ تھی کون اک
ملکہِ عالیہ، 
دل محل میں سجے تخت پر جو کہ 
مرجان، یاقوت، موتی، زمرّد، عقیقِ یمن سے جڑے تخت سے بھی حسیں تھا
وہ مسند نشیں تھی۔۔۔۔۔
وہ پہنے ہوئے پریم کا تاج سر پر
لبوں سے لٹاتی رہی تھی جواہر محبت کے احساس میں جو بندھے تھے
وہ تھی کون ایسی 
کہ جس کی نگاہوں کا منتر بدن توڑ دیتا تھا
وہ جس کے گالوں کا بس سانولا پن ہی کافی تھا محشر اٹھانے کی خاطر
وہ تھی کون جس کی ہر اک بات
میٹھی تھی، لہجہ بھی شیرینیوں سے بھرا تھا
وہ دل کش وہ دل سوز اور دل گدازی کی حد سے سوا تھی
وہ تھی کون ایسی کہ 
اب جو نہیں ہے تو لگتا ہے کچھ بھی نہیں ہے
یہاں بھی، وہاں بھی، کہیں بھی مکاں میں
کہیں لامکان میں اگر ہے بھی کچھ تو 
وہ فہم و فراست، وہ وجدان کی حد سے بس ماورا ہے
سو اس سے شروع تھا سبھی کچھ 
سبھی کچھ وہیں کا وہیں آ گیا ہے
وہ تھی کون آغاز تھی 
جو کہ انجام ہے اب
وہ تھی کون جس کے لیے لفظ شرمندہ شرمندہ سے ہیں ابھی
جو کبھی بھی نہیں تھے 
مگر اب تو آبِ نداست بہانا بھی بے سُود ہے
وہ جو تھی ملکہِ عالیہ
دل محل کی مکیں
اور اکلوتی وارث،
کہیں بھی نہیں ہے!!
مگر دل محل بھی تو اب اک کھنڈر میں ہی تبدیل سا ہو چکا ہے
وہ جو بھی تھی بس اس کے ہونے سے میں بادشہ تھا 
اور احساس و جذبات کی سلطنت پر حکومت چلاتا رہا تھا
اور اس کی محبت کے سر سبز باغات، 
اس کی سبھی کائناتوں کا بھی اور سبھی موسموں کا 
بس اکلوتا میں بادشہ تھا۔۔ 
مگر اب نہیں ہوں ۔۔
نہیں ہوں۔۔۔
میں کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زین شکیل

*****************

پھر سے!

لو ہاں یاد تمہاری آگئی
اور سارے کی ساری آگئی
پہلے جگ کے دُکھ کیا کم تھے
اب سَر پر یہ منڈلائے گی
پورے زور سے چلائے گی
دھاڑیں مار کے روئے گی اب
دل کا دشت بھگوئے گی اب
پہلے ہی بے چین بہت تھا
بے کل ساری رین بہت تھا
تھوڑے سے آنسو باقی ہیں
یہ بھی چھین کے لے جائے گی
خود غرضی کی ماری آگئی
لو ہاں یاد تمہاری آگئی
پھر سے یاد تمہاری آگئی

زین شکیل

*****************

خط

سلام عرض ہے جنابِ من ! 
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر،
 میں ٹھیک ہوں میں خیریت سے ہوں 
اب آپ کی بھی خیریت کا خط ملے تو جان پاؤں آپ ٹھیک ہیں، مزے میں ہیں ، 
یہ جانتے ہوئے کہ خیریت کا خط کبھی نہیں لکھیں گے آپ !
اور جانتے ہوئے کہ آپ خیریت سے ہیں، مزے میں ہیں
مگر میں پھر بھی منتظر ہوں اور منتظر رہوں گا جانے کب تلک!
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر،
میں مضطرب نہیں، میں غم زدہ نہیں ، یہ بے کلی مجھے ستا نہیں رہی
یہ بسی بھی میرے پاس آ نہیں رہی
طبیعت اب بڑی ہی پر سکون ہے، 
رگوں میں خون کی جگہ قرار دوڑتا ہے اب
مجھے تو کوئی رات یاد ہی نہیں
وہ یاد ہے ناں آپ کو کہ جب اداس ہو کے میرا نام کتنی بار لے کے مجھ سے آپ پوچھتے تھے کیا کرو گے میرے بن؟
اگر تمہیں ملوں نہیں؟ 
اگر تمہیں دِکھوں نہیں؟
تو دل کی بات کس کے پاس جا کے تم سناؤ گے؟ 
مری طرح سے کون نام لے گا اس طرح ؟
مجھے جو دل کی ساری باتیں یاد تھیں حرف حرف
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر
مجھے تو اب وہ دل کی کوئی بات یاد ہی نہیں!
جنابِ من! عزیزِ جاں!
گلی میں چلتے چلتے کل ، نہ جانے کس خیال میں چلا گیا تھا دور تک
بڑا حسیں خیال تھا! 
حقیقتاً فراق ہے، خیال میں وصال تھا مگر وہ باکمال تھا
میں اس قدر کسی دھیان میں مگن ہوا کہ راستوں سے بے خبر بڑی ہی دور تک چلا
بڑی ہی دیر تک چلا کہ پھر حواس کی جو بے شمار ٹھوکریں لگیں تو گر پڑا
بڑی بُری طرح گرا 
گلی بھی سوچتی تو ہو گی کیا عجیب شخص ہے
مگر خیال میں وہ آپ تو نہیں تھے اے جنابِ من!
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر
کبھی کبھی۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں مجھ کو خط نہیں لکھیں گے آپ 
پھر بھی جانے کس لیے یہ لکھ رہا ہوں آپ کو
میں یہ بھی جانتا ہوں میرا خط کبھی نہیں ملے گا آپ کو 
میں آپ کو کبھی یہ بھیج پاؤں گا نہیں 
کہ میں تو جھوٹ بولتا نہیں تو پھر یہ خط ہی کیوں؟؟؟
جنابِ من! عزیزِ من!
سلامتی ، دعائیں ۔۔۔
والسلام

زین شکیل

*****************

بلا کی بدحواسی ہے
مِرا محور اُداسی ہے


(اختتام)




کتاب:  مِرا محور اُداسی ہے
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial



























































*****************


No comments:

Post a Comment