تمہارا کس سے پوچھتے


تمہارا کس سے پوچھتے
(آزاد غزلیں)

زین شکیل




انتساب

ذیشان علی، طلحہٰ سومرو، نور عمران اور سیدہ مہرین(گڑیا) کے نام





تجھے میری انائیں مار دیں گی
کبھی ناراض ہو کر دیکھ لینا

ہماری چشم کی حیرانیوں میں
اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

ہمیشہ ٹوٹتی ہے شام بن کر
محبت کے اسیروں پر قیامت

خوشی کو دیکھنے کی جستجو میں
کسی غم کا جنازہ پڑھ رہا ہوں

مرے خوابوں کو اکبر صفت کوئی
کسی دیوار میں چنوا گیا ہے

مجھے یہ چین غم کی ساعتوں میں
کسی دُکھ کے وسیلے سے ملا ہے

اب اس کے بعد اس کے رابطوں سے
ابھی تک رابطہ رکھا ہوا ہے

زین شکیل

*****************

تنہائی کا وقت بِتانا مشکل ہے
تم سے باتیں کرنا تو مجبوری ہے

تم اندھوں کے شہر میں آنکھیں بیچو گے
تم بھی بچوں جیسی باتیں کرتے ہو

دیکھو میری آنکھیں کتنا روتی ہیں
تم نے جب سے خواب میں آنا چھوڑا ہے

اکثر خط میں تم جو باتیں لکھتی تھیں
پیڑ پہ ان کے حرف تراشا کرتا ہوں

سارا تم کو یاد کیا تھا محنت سے
باقی سارا کچھ بھی یاد نہیں رکھا

وہ جو میری باتیں تم دہراتے تھے
اب میں ان کے گیت بنایا کرتا ہوں

زین شکیل

*****************

مایوسی امید سے پہلے ہو تو پھر
باقی رستے خود ہی کٹتے رہتے ہیں

تم کہتی ہو شہر میں جا کر بس جاؤں
یعنی گونگا، اندھا، بہرا، بن جاؤں

تم ہی شاید اک دن آ کر پانی دو
دیواروں پر پھول بنایا کرتا ہوں

روز اسی امید پہ چھت پر جاتا ہوں
آج کے چاند کو شاید تم نے دیکھا ہو

پیروں کو خود آپ سنبھالے رکھنا تھا
ریت اڑے تو آنکھوں میں پڑ جاتی ہے

کیونکر تم یوں آدھا آدھا آتے ہو؟
میں نے تم سے ساری باتیں کرنی ہیں

زین شکیل

*****************

وہ کہتی ہے باتیں کتنی لمبی ہیں
میں کہتا ہوںراتیں کتنی چھوٹی ہیں

وہ کہتی ہے میں نے سپنے دیکھے ہیں
میں کہتا ہوں سپنے، سپنے ہوتے ہیں

اس نے پوچھا، مجھ سے ملنے آئے ہو؟
میں یہ بولا، خود سے ملنا تھا مجھ کو

سارا شہر ہی گھائل پھرتا رہتا ہے
تم جو آنکھیں کاجل کرتے پھرتے ہو

اب بھی باتیں بکھری بکھری کرتا ہوں
اب بھی کوئی خواہش روتی رہتی ہے

اب بھی صحرا باقی ہے ان آنکھوں میں
اب بھی اندر بارش ہوتی رہتی ہے

زین شکیل

*****************

عشق یاد رکھتا ہے
راستہ اذیت کا

بات کرنے والوں کی
بات ہی نرالی ہے

درد سہتے رہنے میں
مصلحت تو ہوتی ہے


بے رُخی برتنے سے
اس کا جی نہیں بھرتا

ہم کسی کی باتوں کو
سرسری نہیں لیتے

خامشی کی منزل پر
لوگ چپ نہیں رہتے

آپ خامشی اپنی
توڑ کیوں نہیں دیتے

خواب نیند کا رستہ
بھول بھی تو جاتے ہی

آپ کی نگاہوں کے
رنگ کتنے پیارے ہی

آپ مان بھی جائیں
آپ بس ہمارے ہیں

زین شکیل

*****************

چپ چپ رہنا عادت بھی ہو جاتی ہے
روٹھے رہنا بنجر بھی کر دیتا ہے

ہم نے اپنی آنکھوں کو مجبوری میں
تیرے شہر میں سستے داموں بیچ دیا

میں نے کتنے ساون روئے میں جانوں
اس کے کتنے آنچل بھیگے وہ جانے

خالی خالی رہنے والے لوگوں میں
کتنی زیادہ آوازیں بھر جاتی ہیں

تم بھی آخر میرے بارے سوچو ناں
دیکھو میں نے تم کو کتنا سوچا ہے

اچھے خاصے لوگ بھی کھوئے رہتے ہیں
یادیں بھی ناں، کتنی پاگل ہوتی ہیں

زین شکیل

*****************

اس نے باتوں باتوں میں
تنہائی سے باتیں کیں

سارے آنسو رو دینا
ساون کی مجبوری تھی

ایک سمندر گہرا سا
آنکھوں میں بس جاتا ہے

یاد قضا ہو جائے تو
دکھ واجب ہو جاتے ہیں

یعنی میرے بارے میں
لوگ تمہیں بتلاتے ہیں

میں بھی تیرے بارے میں
لوگوں سے سن لیتا ہوں

زین شکیل

*****************

یہ مری زبان کو کیل کر کہاں لے گئے
مرے چارہ گر مجھے گفتگو پہ عبور تھا

مجھے وسعتوں سے نکال کر کہین دفن کر
یہ جو تیری حد کا خمار ہے مجھے راس ہے

کوئی خواب مردہ پڑا ہوا ہے وجود میں
مرے دل میں کتنی ہی حسرتوں کا ہجوم ہے


مرا عجلتوں میں گزرگیا تھا فراق بھی
ترے خواب تکنے کا وقت بھی نہیں مل سکا

یہاں جتنی راتیں بھی بچ گئیں ہیں حیات میں
چلو مل کے غم کی ریاضتوں میں گزار دیں

تری ذات ہی مِری شاعری کا ہے آئینہ
مِرے حرف تیری ہی یاد سے ہیں دُھلے ہوئے

زین شکیل

*****************

کسی کا دکھ نہیں تھا جب ہمیں تو
اداسی کیوں پلٹ کر آگئی تھی

اسی کی حکمرانی ہے ابھی تک
سو ہم دکھ کا قصیدہ لکھ رہے ہیں

ہمارے کان میں وہ کہہ گیا تھا
ہماری آنکھ سے اوجھل رہے گا

ہمیں یہ دیکھ کر لگتا نہیں پر
بہت اُجڑے ہوئے ہیں کیا بتائیں

وہی دستور چلتا آ رہا ہے
اٹھاتے ہیں گرا دینے سے پہلے

تمہارے واسطے اپنے خدا سے
خوشی کی بھیک رو رو مانگتے تھے

مجھے خوش دیکھ کر اے جینے والے
تجھے کیسے کہوں میں خوش نہیں ہوں

زین شکیل

*****************

تری آنکھ میں کسی بارگاہ کا عکس تھا
مرے کنجِ لب پہ اٹک گئی تھی دعا کوئی

وہ تمہارے ہجر کا ایک لمحہِ جاوداں
مجھے کہہ رہا تھا کہ میں کہیں نہیں جا رہا

جو کسی بھی حد میں نہ آسکے اسے یاد کر
یہ زماں مکان کا خوف بھی کوئی خوف ہے

مرے روبرو بھی تو ہو کہ خود کو میں دیکھ لوں
مرا اعتبار ہے آئینوں سے اٹھا ہوا

وہ جو آنسوؤں کی قطار تھی کوئی اور تھی
جو ترا تبسمِ ناز تھا مجھے یاد ہے

مری روح تک میںبکھر گئی کوئی فکر سی
کہ ہوا نے آج تمہارے نام پہ ضد نہ کی

مری نیند بھی ہے بذاتِ خود کوئی ہجر ہی
مجھے اب تلک ترے خواب سے بڑا عشق ہے

زین شکیل

*****************

آپ یاد کرتے ہیں
آپ کی محبت ہے

آپ سے یہ کہنا ہے
آپ یاد آتے ہیں

آپ سے نہیں کہنا
آپ جانتے ہیں سب

آپ خود چلے آئے
آپ ہی سے ملنا تھا

آپ سے خفا ہو کر
آپ کو ستانا ہے

آپ کا تصور ہے
آپ کھو نہیں جانا

آپ ہی کے لہجے میں
آپ کو سنا ہم نے

آپ ہر خوشی ہیں ناں
آپ زندگی ہیں ناں

آپ کی عنایت ہو
آپ جو ملیں ہم سے

آپ سے گزارش ہے
آپ دور مت ہونا

آپ کتنے سادہ ہیں
آپ کتنے سندر ہیں

آپ ہم سے پوچھیں ناں
آپ کتنے پیارے ہیں

آپ مان بھی جائیں
آپ بس ہمارے ہیں

آپ نے پکارا ہے
آپ کی مہربانی

آپ اب بہت خوش ہیں
آپ ٹھیک کہتے ہیں

آپ ہی کو سوچا ہے
آپ ہی کو چاہا ہے

آپ جس طرح چاہیں
آپ کو اجازت ہے

آپ کی قسم ہم کو
آپ سے محبت ہے

زین شکیل

*****************

کتنی خوش خوش رہتی ہے
میرے اندر ویرانی

بے چینی کا ڈھولک بھی
تک دھنا دھن بجتا ہے

دھوکا کھایا آنکھوں نے
چال چلی آوازوں نے

اک بے چینی رستے سے
واپس مڑ کر آئی ہے

وہ بھی اپنے جیسا تھا
ہم بھی تھوڑے پاگل تھے

اپنے ساتھ نہیں دیتے
اکثر ایسا ہوتا ہے

چاند کی اپنی مرضی ہے
اس پر زور نہیں چلتا

ایسے بھی اب کیا رونا
آنکھیں بنجر ہو جائیں

زین شکیل

*****************

چاردن کے جھگڑے میں
مجھ کو کھو نہیں دینا

آنکھ روٹھ جائے گی
مجھ کو رو نہیں دینا

عمر بیت جاتی ہے
رابطہ نبھانے میں

زین شکیل

*****************

مری ذات کتنی حسین تھی
ترے لوٹ جانے سے پیشتر

میں تو چپ کھڑا تھا ترے لیے
مجھے سب پتا تھا فریب ہے

مجھے لال رنگ کا آسماں
ہے ڈرا رہا ترے ہجر سے

تجھے مل بھی سکتا نہیں کہیں
میں سیاہ بخت لیے ہوئے

نہ خبر ہوئی مرے خواب میں
مجھے کون لینے کو آ گیا

مجھے بے خیالی کے جرم میں
ترے غم کی سخت سزا ملی

ترے نین یاد دلا گیا
مجھے لال رنگ کا آسماں

زین شکیل

*****************

درد بڑھانے کے فن میں
چاند پرانا پاپی ہے

اپنی مرضی ہے لیکن
لوٹ آتے تو اچھا تھا

چاہت میں اک بیماری 
جذبوں کی کمزوری ہے

سندر سندر چہرے بھی
کیوں بے داغ نہیں ہوتے

میں نے کب یہ سوچا تھا
وہ مجھ سے کھو جائے گا

نیندیں آ بھی جائیں تو
خواب جھگڑنے لگتے ہیں

میٹھی میٹھی باتیں کیوں
اب زہریلی لگتی ہیں

تُو تو آیا جایا کر
دل تیرا دربار پیا

ہم بھی تیری چاہت میں
جیون بیٹھے ہار پیا

زین شکیل

*****************

تجھے اب تلک مری بے بسی کا ملال ہے
تجھے سچ کہوں مجھے اب بھی تیری ہی فکر ہے

تری خامشی مری الجھنوں کو بڑھا گئی
سو کبھی سکوت بھی توڑ دے کوئی بات کر

مجھے رات سے کسی اور طرح کا عشق ہے
مجھے دن میں رات کی عادتیں ہیں پڑی ہوئیں

مجھے مل بھی جاتا تو پھر زوال ہی جھیلتا
چلو اک طرح سے یہ ٹھیک ہے وہ ملا نہیں

مِرے ساتھ مقتلِ غم میں جانے کی ضد نہ کر
مِری بات سُن تجھے کون دے گا تسلیاں؟

ذرا ٹھیک سے تو سنا نہیں پہ یقین ہے
کہ تمہارے بارے میں بَک رہی تھی ہوا کہیں

زین شکیل

*****************

مرے ساتھ چلنا ہے گر تو ہاتھ کو تھام لے
مجھے لمبی لمبی کہانیاں تو سنا نہیں

کسی اور ہاتھ میں تھام لے ترے فلسفے
کسی اور آنکھ سے دیکھ لے مرے خواب بھی

یہ جو عشق ہے یہ ہے ماورا تری عقل سے
یہ خدا کے بعد کی بات ہے تجھے کیا پتا

تُو بھی روشنی کو ہی دن سمجھتا ہے دوستا
یہ تو اور طرح کی رات ہے تجھے کیا پتا

مِرا رنگ روپ جلا کے جانے لگا ہے کیوں
ابھی لوگ دیکھنے آئیں گے ذرا بیٹھ جا

میں تڑپ تڑپ کے ترا ہی نام لیا کروں
تُو بھی دیکھ دیکھ ہنسا کرے اے تماش بیں

زین شکیل

*****************

ایک دفعہ کا ذکر ہے اک دن تم آئے
اس سے پہلے ہنستا بستا جیون تھا

تھوڑی باتیں تم کر لیتے تھوڑی ہم
لمبا وقت بھی تھوڑا تھوڑا کٹ جاتا 

گوری رنگت والے کالے لوگوں کی
روحوں کو اکثر بیماری لگتی ہے

اچھا خاصا غم بھی ڈھل ہی جاتا ہے
مسکانے کی ایک وجہ مل جانے سے

اب تو دکھ بھی اک جانب کب رہتا ہے
تھوڑا دل کے اندر تھوڑا باہر ہے

ہر ہر گام اذیت دیتا رہتا ہے
آنکھوں کا مجبوری میں رو دینا بھی

جانے کس لہجے میں اُس نے بولا تھا
میں نے ہنسنا ہے تیرے مر جانے پر

زین شکیل

*****************

تڑپ تڑپ کے کہہ رہا تھا کون یہ
مجھے تو میرے حال کی خبر کرو

جنازگاہ دیکھتی تھی بس مجھے
مجھے تو وہ بھی میرا مرگ ہی لگا

ہنسی خوشی ہی بات کر لیا کرو
یہ بات رو کے کل کسے کہو گے تم؟

وہ کون مضطرب پلٹ گیا جسے
یہ موت موت کھیلنے کا شوق تھا

تڑپ کے آج اپنی زندہ لاش پر
ذرا سا بین کر لیا تو کیا ہوا

یہ کچھ نہیں ہے زین بزدلی سوا
یہ اپنے جیسے دوسروں سے بھاگنا

یقین کر، کہ چاہتا تھا اور کچھ
اُداس کر دیا تجھے تو معاف کر

زین شکیل

*****************

تم مل جاؤ تو سچی ہو
ان سپنوں کی تعبیر پیا

میں نے پیڑوں سے دکھ سن کر
یہ جان عذاب میں خود ڈالی

اوپر اوپر سے لوگ ہیں کچھ
کچھ اور دلوں میں رکھتے ہیں

ابھی مجھ سے بات کرو سانول
پھر بعد میں چاہے رو لینا

میں کتنا پتھر دل ماہی
تو کتنا نازک پھول پیا

مجھے مرض شدید اناؤں کا
مرے اپنے کڑک اصول پیا

ہم تجھ سے محبت کرتے ہیں
تُو ہے سانسوں کا طول پیا

زین شکیل

*****************

بے کلی کا ستایا ہوا ایک بیمار دل صندلیں
تیری راہوں میں رکھا ہوا ہے، اٹھا لے ، خدا کے لیے

تجھ سے ملنے کی خاطر چنا تھا کسی خواب کا راستہ
کون ڈاکو چلے آئے آنکھیں ہماری چُرا لے گئے

بھول جا کہ تجھے رنج ہو گا مجھے یاد کرتے ہوئے
یاد اپنے طریقے سے آئے گی پر اس کو آنے تو دے

وقت بے چارہ، مجبور، کنجوس، مہلت نہیں دے سکا
بیٹھنا تھا ابھی بات کرنی تھی ہم نے گھڑی دو گھڑی

ہم نے روتے ہوئے رات کاٹی تو پھر یاد آیا ہمیں
نصف شب میں تو کچھ دیر ہنسنا بھی تھا، کیا غضب ہو گیا

اس لیے کچھ تسلی سے کٹ ہی رہی ہے مری زندگی
جان پہچان اچھی بنا رکھی ہے تیرے ہر درد سے

زین شکیل

*****************

رو کے کچھ بھی اکھاڑ نا پائے
ہنس رہے ہیں یہ کیا کِیا ہم نے

جب بہت تھک کے سو گئے تھے ہم
پھر نصیبوں نے در پہ دستک دی

اب کہ بستی کا المیہ یہ ہے
خواب کم، لوگ زیادہ رہتے ہیں

دیکھو ناراض یوں نہیں ہوتے
ایسا کرنے سے کچھ نہیں ملتا

پھر سے لے کر اُداس چہرے کو
خوامخواہ عید لوٹ کر آئی

ہم سے یوں دور جا کے، بولو ناں
کون سا انتقام لینا تھا؟

جانے کیا کر رہے ہیں تیرے بعد
نا ہی روتے ہیں نا ہی ہنستے ہیں

زین شکیل

*****************

مجھے کچھ ادھوری محبتوں کی سزا ملی
مجھے آدھی آدھی اذیتوں کا بھی فیض ہے

کوئی رات اجلی سی رات ہو کہ غزل کہوں
کوئی دن ہو میلا سا دن کہ نوحہ لکھوں ترا

سبھی لوگ شہر کے معتبر ہیں بنے ہوئے
میں کسی کو اس لیے گھاس بھی نہیں ڈالتا

میں بَکوں گا تلخ حقیقتیں، مجھے ڈر نہیں
جو خوشی سے تنگ ہے شہر میں، مرے منہ لگے

تجھے مہنگے مہنگے لباس جچتے ہیں، پر یہاں
کوئی دیکھتا نہیں مفلسوں کے سوا تجھے

زین شکیل

*****************

میں ہنس رہا ہوں اس لیے کہ آج میں
اداس ہی نہیں، بہت اداس ہوں

مجھے تو آج تک تمہارے بعد بھی
ذرا ذرا سی بات کا ملال ہے

کوئی بھی راہبر تمہاری راہ میں
نہیں ملا، تمہارا کس سے پوچھتے

میں سوچتا ہوں اپنا سایہ دیکھ کر
کہ شکر ہے کوئی تو میرے ساتھ ہے

چلو ناں زین اور جا بسیں کہیں
یہاں کوئی اُداس رہ نہیں رہا

زین شکیل

*****************

ابھی میں مسافتِ ہجر میں ہوں اٹا ہوا
ابھی میرے چہرے پہ گرد ہے ابھی چپ رہو

مجھے رنج دیتا ہے شہر والوں میں بیٹھنا
مرے پیشوا مجھے اس طرح ہی سکون دے

ذرا دور رہ، مرے پیچھے پیچھے نجانے کیوں
ابھی ہاتھ دھو کے پڑی ہوئی ہیں اُداسیاں

مجھے اپنے ساتھ شمار کرنے سے باز آ
مری داستان الگ ہے تجھ سے، خیال کر

ترا تنہا تنہا بھٹکتے رہنا عجیب ہے
مرے پاس آ مرے غمزدہ، مجھے مل کے رو

بھلا ٹھہر ٹھہر کے رونا بھی کوئی رونا ہے
سبھی غم کے دشت بھگو دے اب ذرا کھُل کے رو

زین شکیل

*****************

کسی شام سے بات نہیں کرنی
مجھے رات کے دکھ سمجھاتے ہیں

اسے دیر سے گھر کو جانا تھا
اسے رات کے تارے گننے تھے

تم اور کسی کی باتوں میں
آ کر ہی یہاں پر آتے ہو

مجھے چاند یہ بولا زین پیا
ابھی ضبط کرو، ابھی ضبط کرو

ابھی لوٹ کے جانا آساں ہے
ذرا سوچ سمجھ کر ساتھ چلو

ترے نام پہ سانسیں چلتی ہیں
مجھے دھڑکن گیت سناتی ہے

زین شکیل

*****************

رنج ہو یا خوشی ہو اے سانول
بس مجھے تُو دکھائی دیتا ہے

آج اس بات کا جواب تو دے
میری نیندیں اڑا کے کیا پایا

یوں تری فکر ہے کہ جیسے لوگ
روزی روٹی کی فکر کرتے ہیں

کاش تم بھی اداس ہو ہو کر
نام میرا بھی ریت پر لکھتے

اک بچھڑنے میں اور اے سانول
چھوڑ جانے میں فرق ہوتا ہے

جب بھی خود پر یقیں نہ آتا ہو
پھر تمہاری قسم اٹھاتا ہوں

زین شکیل

*****************

تجھے ڈر لگے جو سیاہ رات میں صندلیں
مجھے فون کرنا کہ جاگ لوں گا میں دیر تک

جنھیں رب سے ڈر بھی نہیں لگا انہیں کیا کہوں
یہ وطن تو اپنے ہی لوگ لوٹ کے کھا گئے

تجھے بے یقینی کی ساعتیں نہ اجاڑ دیں
نہ اداس رہ میں ضرور لوٹ کے آؤں گا

تجھے سبز رنگ کی رت میں ملنے کو آؤں گا
تری زلف زیادہ سیہ ہے میرے نصیب سے

بھلے روٹھ جاتا ہے جاں سے پھر بھی عزیز ہے
سو گلہ تو اتنا نہیں ہے جتنا کہ عشق ہے

زین شکیل

*****************

تُو گریزاں ہے کیوں محبت سے
چل کوئی اور بات کرتے ہیں

ہاتھ چوموں گلے لگاؤں میں
تیری باتیں کوئی سنائے تو

جیسے بچھڑے ملے ہوں صدیوں کے
ایسے آئیں اداسیاں ملنے

منتظر ہوں نئی قیامت کا
ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھا ہوں

گر انہیں ہی وفائیں کہتے ہیں
تجھ سے پھر لوگ بے وفا اچھے

پھر مراسم بھی کیوں اگر تُو نے
چھوڑ جانا ہے حوصلہ دے کر

زین شکیل

*****************

ذرا عاجزی کا لباس پہن کے دیکھ لے
یوں خدا کے لہجے میں بات کرنے سے باز آ

ترے ہونٹ ہلنے سے جان پڑتی ہے جسم میں
تری بات روح میں بیٹھ جاتی ہے دور تک

کوئی پاس بھی تو نہیں ہے اور ترے سوا
جسے اپنے غم کی کہانیاں میں سنا سکوں

میں سنوں میں خود کو بھُلا کے تجھ کو سنوں ابھی
ترے لب پہ کوئی بھی بات ہو تو سہی مگر

کوئی رات شام کی بات بھی نہیں سن رہی
مری آرزو مجھے تُو ہی کوئی جواب دے

زین شکیل

*****************

کہو کیا تم بھی ایسا سوچتے ہو؟
اُداسی بانجھ ہوتی ہے سُنا ہے

کوئی ایسا وظیفہ ہو کہ جس سے
سبھی بے چینوں کو موت آئے

میں جس رستے پہ چل نکلا ہوں صندل
اگر لوٹا نہیں تو صبر کرنا

بتاؤ اور کیا اب چاہتے ہو
تمہیں معصومیت سے بھی گلہ ہے

جہاں دنیا فنا ہوتی ہے ساری
قلندر اس سے آگے سوچتا ہے

جہاں پر انتہا ہے زندگی کی
وہیں پر ابتدا لکھا ہوا ہے

زین شکیل

*****************

اپنی حالت پہ بھی اب میں نہ ہنسوں؟
ٹھیک ہے یوں ہے تو پھر یوں ہی سہی

آؤ اِس راہ پہ بچھڑیں پھر سے
پھر کسی راہ میں ملنے کے لیے

چاہے ہم وقت سے پہلے پہنچیں
وقت تو کم ہی ملا کرتا ہے

پھر ہواؤں نے اڑایا تھا مذاق
ہنس پڑا تھا میں کہیں روتے ہوئے

لفظ کم کم ہیں مگر بھاری ہیں
بات چھوٹی ہے مگر زیادہ ہے

ڈھیٹ پن پر میں یہی سوچتا ہوں
کیسی مٹی سے بنا ہوں میں بھی

زین شکیل

*****************

مرے معتبر ابھی چپ نہ ہو ابھی بول کچھ
ابھی بات کر، ابھی بات کر، ابھی بات کر

کسی لمبی راہ کو دیکھ کر تجھے سوچنا
مجھے اک ہی کام سکھا گئیں تری قربتیں

تجھے سوچتے ہوئے عمر بھی تو گنوا ہی دی
کوئی ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکے

میں انا پرست بلا کا ہوں مری صندلیں
تجھے دور پھر بھی اناؤں سے ہے رکھا ہوا

نہ تجھے ہی راہ ملی کوئی نہ مجھے ملی
کہیںپھر سے بیٹھ کے سوچتے ہیں کہ کیا کریں

زین شکیل

*****************

کوئی کسی کے واسطے نہیں مرا تو کیا ہوا
ابھی تو دورِ ضبط ہے، ابھی بدن میں سانس ہے

ہزار بار بھی اگر فرار ہو لیا کریں
اداسیوں سے بھی کسے فرار مل سکا کبھی

کہیں کہیں پہ منتظر رہے تھے ہم مگر وہاں
کہیں کہیں سے کوئی بھی پلٹ کے آ سکا نہیں

سفر اگر اداس تھا تو کیا ہوا حریمِ جاں
تجھے بھی ایک شوقِ آگہی رہا تھا عمر بھر

سنا ہے جوڑنے کے فن میں تم ہو کارگر سوہم
کہیں کہیں سے ٹوٹ جائیں گے تمہارے واسطے

زین شکیل

*****************

جاگ جاتا ہوں تو اک حشر اٹھا دیتے ہیں
کاش یہ خواب اذیت کے سوا کچھ ہوتے

تو نہ مانے گا تو پھر کون مجھے مانے گا
بس یہی بات ستانے کے لیے کافی ہے

تُو جو اک رات مجھے سونپ گیا تھا تب سے
رات کے بعد کوئی دن نہیں آیا میرا

یاد آتے ہو تو آنکھیں ہی نہیں نم ہوتیں
گر رُلانا بھی نہیں یاد بھی آیا نہ کرو

اتنا پختہ ہے مگر اُس کا یقیں کچا ہے
چھوڑ جاتا ہے بہت سوچ سمجھ کر مجھ کو

زین شکیل

*****************

وہ جو مشہور ہے سخاوت میں
وہ خدا کے سوا نہیں کوئی

ایک در کھولنے کی خاطر ہی
کتنے در بند ہو گئے دیکھو

بھول جانے کے واسطے اس کو
ٹھیک سے یاد کر لیا میں نے

جتنے حساس لوگ ہوتے ہیں
عشق اُن کو گلے لگاتا ہے

ان سے کوئی بھی آ نہیں پاتا
بانجھ ہوتے ہیں چند رستے بھی

اب تری یاد کی طرح جاناں
مجھ سے اٹکھیلیاں نہیں ہوتیں

زین شکیل

*****************

بھلے عمر کتنی ہو مختصر، بھلے وقت کم ہی ملے مجھے
تجھے آدھے آدھے حروف میں مجھے سارا لکھنا ہے صندلیں!

یہی خواب آنے کا وقت ہے، یہ کسی کے آنے کا وقت ہے
پہ میں کیا کروں مِرا نیند سے، ابھی رابطہ نہیں ہو سکا

سبھی عمر بھر کی ریاضتیں، تجھے ایک پل میں ہی سونپتے
مگر اب نصیب کا فیصلہ نہیں اپنے حق میں تو کیا کریں

تھے زباں پہ چھالے پڑے ہوئے، وہ یہ چاہتا تھا صدائیں دوں
میں اُسے بلاتا تو کس طرح، مری بے بسی ہی نہ جا سکی

کبھی مجھ سے وہ بھی تو پوچھتا، مِرا حال اپنی زبان سے
سو وہ کر بھی سکتا ہے کیا بھلا جو ہو قید اپنی اناؤں میں

زین شکیل

*****************

اچھے خاصے لوگوں کو
روگ لگائے اپنوں نے

خوش رہنے کی خاطر تم
خوشیاں بانٹو لوگوں میں

تم جب اٹھ کر جاتے ہو
دکھ ملنے آ جاتے ہیں

یاد ہے مجھ کو تم اُس دن
مجبوری میں روئے تھے

تم تو مجھ پر مرتے تھے؟
اچھا، چھوڑو، جانے دو!

آخر کار جدائی ہے
چاہے خواب میں مل جائو

اُس کی چپ کو میں نے پھر
اپنی چُپ سے توڑ دیا

زین شکیل

*****************

ٹوٹ جانے کے واسطے لوگو
کافی ہوتا ہے ایک صدمہ بھی

پھر کسی کے لیے نہیں جیتا
جو بھی اک بار مر گیا تجھ پر

آخری باب لکھ دیا میں نے
ابتداؤں سے کچھ ذرا پہلے

تیری جانب نکل پڑا تھا میں
تھک گیا چین سے نہیں بیٹھا

آج بھی بے مراد لوٹ آئے
یہ مِرے خواب تیرے دَر جا کر

چاہے جیسی بھی ہے مگر دیکھو
ہے مری شاعری تمہارے نام

زین شکیل

*****************
(اختتام)
*****************






کتاب:  تمہارا کس سے پوچھتے
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial

2 comments: