غزلیں


*****************
زین شکیل کی غزلیں
*****************

مری تھم تھم جاوے سانس پیا
مری آنکھ کو ساون راس پیا

تجھے سن سن دل میں ہوک اٹھے
ترا لہجہ بہت اداس پیا

ترے پیر کی خاک بنا ڈالوں
مرے تن پر جتنا ماس پیا

تُو ظاہر بھی، تُو باطن بھی 
ترا ہر جانب احساس پیا

تری نگری کتنی دور سجن
مری جندڑی بہت اداس پیا

میں چاکر تیری ازلوں سے
تُو افضل، خاص الخاص پیا

مجھے سارے درد قبول سجن
مجھے تیری ہستی راس پیا

زین شکیل

*****************

اس کے اندر تھیں وہ سبحانی باتیں، سبحان اللہ!
سائیں کی کرتی تھی، دیوانی، باتیں ، سبحان اللہ!

جب دونوں اک ہیں تو پھر یہ میں اور تُو کا جھگڑا کیا؟
پی وحدت کی مئے کر مستانی باتیں، سبحان اللہ!

جو تیرا، تُو اس کا، پھر وہ جو بولے، وہ تُو بولے
ساری سَچی، سُچی، لافانی باتیں ، سبحان اللہ!

وہ کہتا ہے میں منصوری، میں تبریزی، میں رومی
اس کے لب اور ایسی وجدانی باتیں! سبحان اللہ!

سائیں کی بس ایک نظر سے روح تلک دھل جاتی ہے
آنکھوں سے کرتا ہے روحانی باتیں، سبحان اللہ!

سبحان اللہ، ان کے آگے پتھر بھی بول اٹھتے ہیں!
کر اٹھی حیرت کی حیرانی، باتیں! سبحان اللہ!

ہائے صدقے، سوہنا، مٹھڑا سانول کرتا رہتا ہے
کیسی میٹھی، پیاری، یزدانی باتیں، سبحان اللہ!

زین شکیل

*****************

اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں
درد دریا کے کنارے تو نہیں ہوتے ناں

رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں

راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں

ہونٹ سینے سے کہاں بات چھپی رہتی ہے
بند آنکھوں سے اشارے تو نہیں ہوتے ناں

ہجر تو اور محبت کو بڑھا دیتا ہے
اب محبت میں خسارے تو نہیں ہوتے ناں

زین اک شخص ہی ہوتا ہے متاعِ جاں بھی
دل میں اب لوگ بھی سارے تو نہیں ہوتے ناں

زین شکیل

*****************

دل سے نکلی ہے یہ صدا، مرشد
تیرا لیتا ہوں نام یا مرشد

بے کلی پل رہی ہے سینے میں
ہاتھ دل پر ذرا لگا، مرشد

کیوں فضائیں ہیں پُر فریب اتنی
خوشبوؤں میں ہے کیوں وَبا ،مرشد؟

توشہء عاقبت ملے مجھ کو
ایسی دے دے کوئی دعا، مرشد

تہنیت غم نے دی گلے لگ کر
یہ معمّہ عجیب تھا ،مرشد

جاگتی جوت ہے ترا چہرا
رُخ سے کاکُل ذرا ہٹا، مرشد

عمر بھر کو تمہارے پہلو میں
چاہئیے اک ذرا سی جا، مرشد

سامنا ہے مجھے رذالت کا
ہو کرم کی ذرا نگاہ، مرشد

آپ کے نام زندگی کر دی
اور کرتے بھی ہم تو کیا، مرشد؟

کوئی ، آنسو بھی پڑھنے والا ہو
ہم بھی روئے ہیں بے صدا ،مرشد

یوں لگا عالمِ نزع تھا وہ 
ہو رہا تھا کوئی جدا، مرشد

ہم نے قصداً نہیں کیا کچھ بھی
ہم سے ہونا نہیں خفا، مرشد

اس طرح منہ تو پھیر کر مت جا
میری جتنی ہے، دے سزا، مرشد

سانس بھی ساتھ چھوڑ جائے گی
زندگی کیوں ہے بے وفا، مرشد

درحقیقت وصال ہے جیون
ہے فنا میں اصل بقا، مرشد

معاف کر دے تمام تقصیریں
مان بردوں کی التجا ، مرشد

زین شکیل

*****************

خامشی کو ٹٹولتا ہوا تُو
بات میں زہر گھولتا ہوا تُو

آج بس غور سے سنا میں نے
میرے لہجے میں بولتا ہوا تُو

میں پروتا ہوا تجھے ان میں
میرے الفاظ تولتا ہوا تُو

آج پھر سے مجھے نظر آیا
رنگ اُداسی میں گھولتا ہوا تُو

پھر وہی تھامتا ہوا اِک میں
پھر مسلسل ہے ڈولتا ہوا تُو

دے کے دستک میں کاش پھر دیکھوں
در کو چپ چاپ کھولتا ہوا تُو

زین شکیل

*****************

درِ سخا بھی ابھی تک ترا کھلا ہی نہیں
ہمارے لب پہ تو یوں بھی کوئی دعا ہی نہیں

ہمیں تو ایک اسی کی طلب ہی جاتی نہیں
کہ جسکا ایک محبت پہ اکتفا ہی نہیں

ابھی یہ لوگ مگن ہیں حروف تولنے میں
ابھی تو شہر نے لہجہ مرا سنا ہی نہیں 

مجھے تو یوں بھی مری جان سے عزیز ہو تم
یہ بات الگ ہے کوئی تم سا دلبربا ہی نہیں

بس ایک چھوٹا سا آنگن ، تمہاری یاد اور میں
مرے مکاں میں اداسی کی انتہا ہی نہیں

بچھڑ کے مجھ سے وہ شاید بہت اداس رہے
کبھی میں پہلے اسے چھوڑ کر گیا ہی نہیں

وہ چاہتا ہے کہ بس اس کی دسترس میں رہوں
اسی کے لب پہ مرے نام کی صدا ہی نہیں

اُسے اب اپنے ہی ہاتھوں گنوا کے سوچتے ہیں
ہمارا اُس کے علاوہ تو کوئی تھا ہی نہیں

زین شکیل

*****************

دل و نگاہ میں جو اس کی بال تھا تو کیا ہوا
چلو اگر اسے کوئی ملال تھا تو کیا ہوا

سخی تو جانتا تھا اس سے مانگ کیا رہا ہوں میں
لبوں پہ کوئی اور ہی سوال تھا تو کیا ہوا

ہنسی خوشی تمہارا درد بھی گلے لگا لیا
جو عمر بھر کے واسطے وبال تھا تو کیا ہوا

ترے سوا کسی کی سمت دیکھنا نہیں مجھے
وہ کوئی دوسرا جو با کمال تھا تو کیا ہوا

چلو یہ زعم ہے ہمیں کہ بس اسی کے ہی رہے
اسے جو سارے شہر کا خیال تھا تو کیا ہوا

میں تھک کےہی گرا تھا ، ہار تو نہیں تھی مان لی
جو تھوڑی دیر کے لیے نڈھال تھا تو کیا ہوا

زین شکیل

*****************

وہ جو لگتا ہے ہمیں جان سے پیارا پاگل
وہ ہے لاکھوں میں فقط ایک ہمارا پاگل

تیری دریاؤں سی عادت ہی تجھے لے ڈوبی
میں بتاتا بھی رہا یہ ہے کنارہ، پاگل

ہر کسی سے نہیں امید لگائی جاتی
ہر کوئی دے نہیں سکتا ہے سہارا، پاگل!

وہ بھی قسطوں میں دکھاتا ہے ادائیں اپنی
وہ بھی ہونے نہیں دیتا مجھے سارا پاگل

اس پہ کیا رونا، تمہیں کوئی سمجھتا ہی نہیں
مجھ سے آ کر تو کہو، میں ہوں تمہارا، پاگل!

ساتھ تم تھے تو ہمیں راس تھا پاگل پن بھی
اب ترے بعد کریں کیسے گزارہ؟، پاگل!

دور تم جب سے ہوئے تب سے ہمارے حصے
بس خسارہ ہے، خسارہ ہے، خسارہ، پاگل!

زین شکیل

*****************

دید محبت، طور محبت
حسن، تجلّی، نور محبت

ہار یہی سنگھار یہی ہے
مانگ کا ہے سندور، محبت

ہم نے تو ہر سو دیکھی ہے
پاس محبت، دور محبت 

ناز اسے ہر ایک ادا پر
کتنی ہے مغرور محبت

کس نے رکھا پاس وفا کا
صرف ہوئی مشہور محبت

بیت چلی ہیں کتنی صدیاں
اب تک ہے مہجور محبت 

ورد، وظیفہ، شام، سویرے
دفع محبت، دور محبت

زین بچھڑنا کب ممکن تھا
آن ہوئی مجبور محبت

زین شکیل

*****************

محبت کے سبھی موسم گزرتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ
سہارے، سب ستارے چاند سے گھبرا رہے ہیں تم چلے آؤ

کہا بھی تھا بچھڑ جانے سے اچھا تھا کبھی نہ تم ملے ہوتے
سنو! اب درد سارے طنز کرتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ

تمہارے ہجر کو آباد رکھا ہے مری آنکھوں نے رو رو کر
مرے آنسو حدوں کو پار کرتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ

ہوائیں سخت بے چینی کے عالم میں مرے چہرے کو چھوتی ہیں
مجھے اک ایک کر کے درد ملتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ

مجھے تم نے کہا تھا روح سے اب تو جدائی ہو نہیں سکتی
سو میری روح پر پیوند لگتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ

ہم اُس کے شہر کی ساری ہی دیواروں پہ یہ پیغام لکھ آئے
تمہارے شہر سے ہم ہاتھ ملتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ

بھلا میں کس طرح اب زینؔ غیروں سے گلہ کرنے چلا جاؤں
مرے اپنے بھی اب چہرہ بدلتے جا رہے ہیں تم چلے آؤ

زین شکیل

*****************

درد کی اوٹ میں پلکوں کو جھکا کر رونا
رونے والوں کو بہر طور ہنسا کر رونا

درد کو بانٹنے آ جائیں یہ جھونکے سارے
یوں مرا نام ہواؤں کو بتا کر رونا

لوگ لے لے کے مرا نام ستائیں گے ناں
آنسوؤں کی کوئی تمہید بنا کر رونا

اوس بکھری ہوئی پھولوں پہ بھلی لگتی ہے
اپنی آنکھوں کو بھی راہوں میں بچھا کر رونا

کوئی بھی دردادھر سے نہ اُدھر ہو پائے
آنسوؤں کی ذرا ترتیب لگا کر رونا

لوگ ہر بات پہ محشر سا اُٹھا دیتے ہیں
تم کبھی حال نہ اوروں کو سنا کر رونا

ایسے تنہائی میں مت رو کے گنواؤ مجھ کو
میں جو آ جاؤں تو سینے سے لگا کر رونا

بھیجنا ہاتھ پرندوں کے، غموں کے نوحے
یوں مرا سوگ ہواؤں میں منا کر رونا

زینؔ اس واسطے ٹھہری نہیں حالت اپنی
ایک ہی شخص کو خوابوں میں بُلا کر رونا

زین شکیل

*****************

تجھ کو ہر شعر میں تجسیم نہیں کرنا ناں
میں نے ہر بات کو تسلیم نہیں کرنا ناں

داغ ہیں پھر بھی ترا حسن مکمل تر ہے
ماہمِ من تجھے دو نیم نہیں کرنا ناں

اپنے اندر ہی کسی روز بسا لینا ہے
ضرب دے کر تجھے تقسیم نہیں کرنا ناں

عشق ہم نے تو تجھے مان لیا ہے مرشد
پر تجھے سجدہءِ تعظیم نہیں کرنا ناں

منتظر عمر تلک یار میں رہ لوں پر تم
آج بس شین الف میم نہیں کرنا ناں

اک خوشی آ کے کئی زخم لگا جاتی ہے
زندگی یوں تجھے تسلیم نہیں کرنا ناں

سب مجھے باپ کی جاگیر سمجھ بیٹھے ہیں
ایک بس تم مجھے تقسیم نہیں کرنا ناں

زین شکیل

*****************

کیا آج مرا کیا کل سائیاں
اب سنگ مرے تُو چل سائیاں

اک چاہ میں تیری برسے تھے
دو نین ہوئے اب تھل سائیاں

رکھ ہاتھ مسیحائی والا
یہ ہجر بڑا بے کَل سائیاں

اک دھوپ غموں کی پھیلی ہے
یہ روپ نہ جائے جَل سائیاں

اُس پار سکوں کا ڈیرہ ہے
اِس پار فقط ہلچل سائیاں

کیوں آنکھ میں ساون رُت پھیلی
کیوں برس پڑا بادل سائیاں

آ ہاتھ پکڑ دکھ زادوں کا
سکھ چین ملے دو پل سائیاں

اک عمر اداسی میں ڈوبی
اک درد کا ہے جنگل سائیاں

اے یار کرے گا اِک تجھ بن
اب کون مصیبت حل سائیاں

زین شکیل

*****************

دشت و ویراں میں کہیں کٹیا بسائے ہوئے لوگ
دیکھ کس حال میں رہتے ہیں ستائے ہوئے لوگ

بارشیں یوں بھی ہر اک زخم ہرا کرتی ہیں
یاد آتے ہیں نگاہوں سے بہائے ہوئے لوگ

منتظر اب یہاں خواہش ہے نہ میّت کوئی
اس قدر دیر سے لوٹے ہیں بلائے ہوئے لوگ

کیسے جائیں گے بھلا اب وہ تسلی کے بغیر
تیرے ملنے کو بڑی دور سے آئے ہوئے لوگ

خاک بس خاک میں ملنےکے لیے ہوتی ہے
ہم ہیں اس واسطے مٹی سے بنائے ہوئے لوگ

آنسوئوں کو تو بھرم بھی نہیں رکھنا آیا
میری آنکھوں سے نکل آئے چھپائے ہوئے لوگ

زین ہنس ہنس کے اسی بات کو رو دیتا ہوں
مجھ سے روٹھے ہوئے رہتے ہیں منائے ہوئے لوگ

زین شکیل

*****************

بیت چلی برسات وے سانول
آج تو کر لے بات وے سانول

تھام ہمارا ہاتھ بھی آ کر
دھول ہوئی یہ ذات وے سانول

راج کماری خاک تمہاری
دیکھ مری اوقات وے سانول

شام سے پہلے لوٹ کے آنا
آج نہ کرنا رات وے سانول

بھولےسے بھی بھول نہ پاؤں
تیری کوئی بات وے سانول

زین وہ ٹھہرے آن مقابل
کھالی ہم نے مات وے سانول

زین شکیل

*****************

یہ تو لوگوں نے یونہی بات بنائی ہوئی ہے
کون کہتا ہے تری مجھ سے جدائی ہوئی ہے

میں تو آنکھوں کو بھی پڑھنے کا ہنر جانتا ہوں
تو نے اک بات کہیں مجھ سے چھپائی ہوئی ہے

لوگ آتے ہیں مرے گھر کی زیارت کےلیے
میں نے تصویر تری گھر میں لگائی ہوئی ہے

یہ جو غم ہے نا ترے ہجر کا بکھرا ہوا غم
ہم نے اس غم سے پرے کٹیا بسائی ہوئی ہے

اب جو ہر بات ہواؤں نے بتائی ہے تجھے
میں نے ہر بات ہواؤں کو سنائی ہوئی ہے

میں اکیلا تو نہیں تیرا تصور ہے یہاں
اور کمرے میں اداسی بھی بلائی ہوئی ہے

ہم کہاں بکتے تھے ان وقت کے شاہوں کو کبھی
تیری حسرت ہمیں بازار میں لائی ہوئی ہے

زین شکیل

*****************

مرے پہلو میں رہ کر بھی کہیں رُوپوش ہو جانا
مجھے یوں دیکھنا اور دیکھ کر خاموش ہو جانا

قسم ہے چشمِ ذیبا کی مجھے بھولے نہیں بھولا
تجھے کلیوں کا ایسے دیکھ کر مدہوش ہو جانا

تجھے یہ شہر والے پھر مرے بارے میں پوچھیں گے
نظر سے مسکرانا اور پھر خاموش ہو جانا

زمانہ سانس بھی لینے نہیں دیتا ہمیں لیکن
ہمارے واسطے تم چین کی آغوش ہو جانا

نہ مجھ میں وصفِ موسیٰ تھے نہ میں محوِ تکلم تھا
مرا بنتا نہیں تھا اس طرح بے ہوش ہو جانا

مرے زخموں مرے نالوں کا اکلوتا محافظ ہے
مرے شانوں پہ تیرے ہجر کا بَردوش ہو جانا

سو اب اس نازنیں کی عادتوں میں یہ بھی شامل ہے
چمن میں رات کر لینا، وہیں گُل پوش ہو جانا

زین شکیل

*****************

اداسیوں کا اجاڑ موسم کبھی ستائے تو مجھ سے کہنا
نہ ان اندھیروں میں ہاتھ تم سے کوئی ملائے تو مجھ سے کہنا

مجھے یقیں ہے کہ مجھ سے بڑھ کر تمہیں کسی نے نہیں ہے چاہا
مری طرح سے کوئی تمہیں جب گلے لگائے تو مجھ سے کہنا

یہ بن سنور کر جو تم نے ماتھے پہ ایک جھومر سجا لیا ہے
مگر سجایا تھا جیسا میں نے کوئی سجائے تو مجھ سے کہنا

محبتوں میں عذاب لگتا ہے ہجر لیکن نہیں ہے ایسا
مگر نظر سے فراق تیری نظر ملائے تو مجھ سے کہنا

نہ ہر کسی پر یقین کرنا بغیر سوچے بغیر سمجھے
تمہیں کوئی بھی جو میرے بارے میں کچھ بتائے تو مجھ سے کہنا

میں تیری یادوں کی آخری حد میں نقش ایسے ہوا ہوں جاناں
خیال میرا تمہیں جو اک پل بھی بھول جائے تو مجھ سے کہنا

بہت کہا تھا یقین رکھنا کہ زین تم سے جدا نہیں ہے
اگر ذرا سا بھی میری باتوں میں فرق آئے تو مجھ سے کہنا

زین شکیل

*****************

اس کی آنکھوں کے سمندر میں اترنے کے سوا
کوئی چارہ بھی نہیں تھا ڈوب مرنے کے سوا

تم سمیٹو گے کہاں تک جائو اپنی راہ لو!
کچھ بھی تو آتا نہیں مجھ کو بکھرنے کے سوا

کیا مرے زخموں پہ مرہم بھی لگائو گے کہو؟
تم تو کرتے ہی نہیں کچھ بھی سنورنے کے سوا

ہم کہ بس قیدِ محبت میں پڑے ہیں آج بھی
سب کیا ہے مرحلہ یہ پار کرنے کے سوا

میری مرضی پوچھنے والے تمہیں معلوم ہے!
اور تم سے کیا کہوں گا میں ٹھہرنے کے سوا

اس کے سب جھوٹے دلائل ماند پڑنے لگ گئے
کچھ نہیں کر پائے گا اب وہ مکرنے کے سوا

زین شکیل

*****************

وہ آئینوں سے جو بے خبر ہے، حسین تر ہے
وہ جس پہ ٹھہری ہوئی نظر ہے، حسین تر ہے

جو دھوپ اوڑھے ہوئے بھی سایہ تو دے رہی ہے
وہ شاخ کتنی ہی بے ثمر ہے، حسین تر ہے

جو سر پہ دستِ کرم ہے ان کا تو رنج کیسا
پھر عمر جتنی بھی مختصر ہے، حسین تر ہے

وہ شہر ان کا کمال سے بھی کمال ہے پر
وہ ان کے در کی جو رہگزر ہے، حسین تر ہے

فشارِ جاں بھی قرارِ جاں ہی لگے ہے اب تو
جو مجھ پہ طاری ترا اثر ہے، حسین تر ہے

جو حق پہ بولے، زبان کھولے، سکوت توڑے
مرے لیے تو وہ معتبر ہے، حسین تر ہے

یہاں وہاں ہے، اِدھر اُدھر ہے، کدھر کدھر ہے
ترا تصّور جدھر جدھر ہے، حسین تر ہے

زین شکیل

*****************

کچھ اس طرح مری قسمت سنوار دی گئی ہے
کہ دل میں آپ کی صورت اتار دی گئی ہے

کسی بھی شام سے اب واسطہ نہیں رکھنا
تمہارے وصل کی خواہش بھی مار دی گئی ہے

اگر یہ کوئی سنے گا تو کیا وہ سوچے گا؟
کہ ایک عمر کسی در پہ ہار دی گئی ہے!

میں دوستوں سے کہوں کیا کہ فکرِ دنیا بھی
کسی کی یاد کے صدقے میں وار دی گئی ہے

اب اس طرح سے اجڑ کر کہیں پڑے ہوئے ہیں
کہ جیسے ذات بھی جوئے میں ہار دی گئی ہے

زین شکیل

*****************

تیرگی میں بھی روشنی ہے ناں
جو بھی ہے درد دائمی ہے ناں

اس قدر بے تکلفی، توبہ
سچ بتاؤ یہ دل لگی ہے ناں؟

میں جسے یاد آتا رہتا ہوں
وہ مرا دوست مطلبی ہے ناں!

اس نے بدلی ہوئی ہیں آنکھیں بھی
اس کے لہجے میں برہمی ہے ناں!

تُو نے بولاہے ، ہاں بچھڑنا ہے
"ہاں" کا مطلب، ہنسی خوشی، ہے ناں؟

میری آنکھوں میں جو بھی ہے چھوڑو
میرے سینے میں بے کلی ہے ناں!

تجھ سے لے کر تجھی تلک ہے بس
میری اتنی سی زندگی ہے ناں!

تو کہو آج کیاا رادہ ہے؟
آج کی شام سرمئی ہے ناں!

تُو مری تیسری محبت ہے
پہلی تُو، تُو ہی دوسری ہے ناں!

خامشی! کیوں تجھے گنواؤں میں؟
تو مجھے وجد میں ملی ہے ناں!

شاعری، درد، بے بہا چاہت
اب مرے پاس بس یہی ہے ناں!

اب ترے اور مرے بچھڑنے کا
فیصلہ بھی تو باہمی ہے ناں!

اب مجھے یاد تو نہ آؤ گے؟
یعنی یہ ہچکی آخری ہے ناں؟؟؟

زین شکیل

*****************

تنہائی میں دیپ جلانا شہزادی
ایسے میری یاد منانا شہزادی

دیکھو آگے شام کا گہرا جنگل ہے
دیکھو زیادہ دور نہ جانا شہزادی

ہر اک شے سے دھول ہٹاناروزانہ
پھولوں سے گلدان سجانا شہزادی

تتلی کی ہر بات چھپانا پر پھر بھی
سارے جگنو پاس بلانا شہزادی

میں خوشبو میں رنگ ملا کر لاتا ہوں
تم کاغذکاپھول بنانا شہزادی

کیسے تم کو روز منایا کرتا تھا
ساری باتیں بھول نہ جانا شہزادی

ان آنکھوں میں پیاس بھری ہے صحرا کی
تم آنکھوں سے پیاس بجھانا شہزادی

تیری خاطر لوٹ کے آئے شہزادہ
اب نہ ایسے خواب سجانا شہزادی

زین شکیل

*****************

میں گُن جو عشق کے گانے لگا ہوں
جنوں کا فیض اب پانے لگا ہوں

بڑا مضبوط ہوں اندر سے لیکن
تمہیں دیکھا تو گھبرانے لگا ہوں

کسی کی یاد کے گھنگرو پہن کر
ابھی میں رقص فرمانے لگا ہوں

مجھے محسوس ہوتا جا رہا ہے
تمہیں تھوڑا سا یاد آنے لگا ہوں

ارے! اتنے خفا کیوں ہو رہے ہو
ابھی آیا تھا ، بس جانے لگا ہوں

پرے ہٹ جا غمِ دنیا کہ اب میں
مکمل طیش میں آنے لگا ہوں

کسی روٹھے ہوئے کو پھر منانے
میں خود سے روٹھ کر جانے لگا ہوں

مجھے کیوں چھوڑ کر جاتے نہیں ہو؟
تمہیں، لگتا ہے راس آنے لگا ہوں!

غمو ں! آؤ سواگت کے لیے سب
یہاں میں خود کو بلوانے لگا ہوں

سمجھ سے ماورا ہے عشق و الفت
یہی میں خود کو سمجھانے لگا ہوں

نگاہیں عرش کی جانب لگی ہیں
زمیں کو وجد میں لانے لگا ہوں

زین شکیل

*****************

خود ہنگامہ آرا ہے یا بد ہنگام محبت
کیونکر ہے مدت سے یارو تشنہ کام محبت

چاہ، خلوص، مروت، خدمت سارے روپ تمہارے
دیکھو تو ہیں جگ میں کتنے تیرے نام محبت

خواہش اٹھنے لگتی ہے تو مر جاتی ہے فوراً
بول ہمارے پاس ہے کیا اب تیرا کام محبت

اک ہم ہیں اور ایک زمانہ آتش زن صدیوں سے
اور کرے گی تُو ہم کو کتنا بدنام، محبت!

جو تھا، جتنا تھا، جیسا تھا قدموں میں رکھ چھوڑا
جانے کس لمحے پائے گی تُو انجام، محبت

جذبوں کی سچائی میں گر فرق ذرا آ جائے
ایسے میں اکثر ہو جاتی ہے ناکام، محبت

تُو تھی سادہ، کملی جھلّی، پھر کیوں بدلے چہرے؟
جا اب زیادہ چھڑ ہمیں مت، اے مادام محبت!

بس اک بار خلاصی ہو تو اس کے بعد کبھی پھر
بھولے سے بھی لیں گے نہ ہم تیرا نام محبت

اس سے بڑھ کر حیف نہیں اب میں تجھ پہ کر سکتا
آہ محبت، وائے محبت، بد فرجام محبت

زین ہمارے پاس متاعِ درد بچی ہے، جس میں
اک بے سود اداسی ہے اور اک بے نام محبت

زین شکیل

*****************

نہ مجھ سے اور کوئی بات مانی جائے گی
خدا کی ذات بڑی ذات مانی جائے گی

سو تُو نے دکھتی ہوئی رگ پہ پیر رکھا ناں
تجھے پتہ تھا تری بات مانی جائے گی

میں کیا کروں یہ مرےعشق کی حمیّت ہے
تمہاری بے رخی سوغات مانی جائے گی

رہیں گے سارے ہی لمحات محترم تیرے
نہ میرے دن نہ مری رات مانی جائے گی

زین شکیل

*****************

اس طرح تیرے خیالوں میں رہا کرنا ہے
ہاتھ میرا ترے بالوں میں رہا کرنا ہے

اب کوئی داد وستد بھی تو نہیں ہے ہم میں
تم نے کب تک یوں سوالوں میں رہا کرنا ہے

اب بھی وہ پیچ وہی خم ہیں تری زلفوں کے
ہم نے اب خیر اجالوں میں رہا کرنا ہے

آبلہ پائی بھی منزل پہ ہی کام آئے گی
کوئی قصہ مرے چھالوں میں رہا کرنا ہے

تجھ کو خوشیوں نے بھی اک روز بھلا دینا ہے
میں نے ہر غم کے حوالوں میں رہا کرنا ہے

میرے خوش فہم تجھے اب یہ غلط فہمی ہے
میں نے کب تیرے خیالوں میں رہا کرنا ہے!

تو نے اب بھی مرے دن مجھ سے چرا لینے ہیں
میں نے اب بھی تری چالوں میں رہا کرنا ہے

زین شکیل

*****************

دشتِ غم سے گزر کے آیا تھا
یار میں بن سنور کے آیا تھا

ایک مجھ جلد باز کی خاطر
تو بھی کتنا ٹھہر کے آیا تھا

پھر سے مقتل میں لے گئے مجھ کو
دار سے ہی اتر کے آیا تھا

تجھ سے ملنے اناؤں سے اپنی
آج میں لڑ جھگڑ کے آیا تھا

روٹھنے والے اک تری خاطر
میں کسی سے بچھڑ کے آیا تھا

کس طرح اس کے سنگ چلتا میں
وہ زمانے سے ڈر کے آیا تھا

زین شکیل

*****************

چاند کو اور بھی نکھار ملے
وہ اگر تجھ سے ایک بار ملے

آج کا دن عذاب تھا سچ میں
آج تو تم بھی بے قرار ملے

شہر میں بھی عجب اداسی تھی
سارے چہرے ہی اشکبار ملے

کون حیرت سجائے آنکھوں میں
کون اب تجھ سے بار بار ملے

میں جو اپنے وجود سے گزروں
تو مجھے میرے آر پار ملے

میری حسرت ہے جب ملوں تجھ سے
تو مجھے محوِ انتظار ملے

کاش دریا مجھے عبور کرے
اور تُو مجھ کو میرے پار ملے

سبز جھولے کی لاج رکھ سائیاں
مجھ کو کاسے میں تیرا پیار ملے

زین شکیل

*****************

رات گھر میں اتر گئی ہو گی
وہ بھی دانستہ ڈر گئی ہو گی

کیسا ماتم بپا ہے سینے میں
آرزو کوئی مر گئی ہو گی

میرے اجزا سمیٹنے والی
میرے اندر بکھر گئی ہو گی

اب اسے یاد میں نہیں ہوں گا
اب طبیعت بھی بھر گئی ہوگی

جانتا ہوں مرے بہانہ جُو
پھر قیامت گزر گئی ہو گی

دل کی بستی اجاڑنے والو
چھوڑ بھی دو اجڑ گئی ہو گی

زین شکیل

*****************

کمال پر کمال، پھر کمال کر لیا گیا
ذرا سی بات تھی، بڑا ملال کر لیا گیا

میں خود کھڑا تھا منتظر کسی جواب واسطے
نہ جانے مجھ سے کس لیے سوال کر لیا گیا

یہ دو یا چار دن کا سوگ، سوگ ہے بھلا کوئی
تمہارے ہجر کو تو ماہ و سال کر لیا گیا

جو یادِ یارماتمی لباس پہنے آ گئی
تو عین رو کے آنکھ کو بھی لال کر لیا گیا

وہ جُڑ کے میرے نام سے ڈرا ہوا تھا سو مجھے
کہا، ذرا خیال کر، خیال کر لیا گیا!

چلو ہماری خیر ہے ابھی نہیں تو پھر سہی
تمہارے زخم کا تو اندمال کر لیا گیا!

ریاضتوں کا جو ثمر تھا اور کوئی لے گیا
ہمیں تو زین ؔیونہی بس نڈھال کر لیا گیا

زین شکیل

*****************

درد دل میں سمو لیا جائے
آج تھوڑا سا رو لیا جائے

ہاتھ آیا تو میں نے یہ سوچا
اُس کا دامن بھگو لیا جائے

ہم تو بس اس خیال سے روئے
کیوں نہ آنکھوں کو دھو لیا جائے

کل ستاروں سے بات کر لیں گے
آج کی رات سو لیا جائے

تجھ کو آخر سمیٹ رکھنا ہے
کیوں نہ خود میں پِرو لیا جائے

اجنبی لگ رہی ہیں یہ خوشیاں
اب کسی غم کا ہو لیا جائے

زین شکیل

*****************

پھر آنکھوں نے خواب سجایا ہو گا ناں
پھر وحشت نے شور مچایا ہو گا ناں

میرے آنسو پھیل گئے ہیں آنکھوں میں
اُس نے میرا سوگ منایا ہوا گا ناں

تُو نے بھی تو شہر میں بسنے کی خاطر
کیسا کیسا ڈھونگ رچایا ہو گا ناں

میں جو اتنے پاس سے تجھ کو دیکھوں گا
تو بھی کتنی دور سے آیا ہو گا ناں

یہ جو آدھی رات کو تارے روئے ہیں
پھر بادل نے چاند چرایا ہو گا ناں

آجا میری نیند کہیں سے آ بھی جا
وہ ملنے کو خواب میں آیا ہو گا ناں

میں تو بس یہ سوچ کے گھر سے نکلا ہوں
اس نےمجھ کو آج بلایا ہو گا ناں

جن پیڑوں کے سوکھ گئے ہیں پھل ، ان کو
اُس نے میرا حال سنایا ہو گا ناں

زین شکیل

*****************

اس بار بھی میں وجہِ خسارہ سمجھ گیا
آخر دلِ تباہ دوبارہ سمجھ گیا

کچھ وہ بھی اب مزید مسیحا نہیں رہا
کچھ یوں ہوا کہ میں بھی اشارہ سمجھ گیا

تم کس طرح سے جیت گئے یہ پتا نہیں
اچھا تو اس طرح سے میں ہارا سمجھ گیا

خود کو بھی اب سراب ہی لگنے لگا ہوں میں
گرداب کو میں آج کنارہ سمجھ گیا

تم نے کہا کہ تم بھی نہیں اپنے آپ کے
میں سادہ لوح خود کو تمہارا سمجھ گیا

ہوتا رہا قصور یہی ایک عمر بھر
بے آسروں کو میں جو سہارا سمجھ گیا

زین شکیل

*****************

محبت آزماتی ہے مجھے تم یاد آتے ہو
جدائی اب ستاتی ہے مجھے تم یاد آتے ہو

محبت کے سنہرے باغ میں بے چین سی کوئل
کوئی جب گیت گاتی ہے مجھے تم یاد آتے ہو

اذیت ہوکہ راحت ہو کوئی کیسی بھی منزل ہو
تمہاری یاد آتی ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

کوئی تسکیں شدہ چہرہ نہیں بھاتا، نگاہ لیکن
تمہیں رو کر بلاتی ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

نہیں جب تم یہاں ہوتے، اداسی ظلم کرتی ہے
مجھے اتنا رلاتی ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

مجھے لوری سناتی ہیں مری تنہائیاں شب بھر
اداسی گنگناتی ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

کسی معصوم حسرت پر کوئی روتی ہوئی بچی، 
کبھی جب مسکراتی ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

زین شکیل

*****************

تمہیں دل نے پکارا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو
کہاں تجھ بن گزارا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

تمہارے بن رگوں میں زہر بھرتی ہے اداسی بھی
خسارہ ہی خسارہ ہے مجھے تم یاد آتے ہو

محبت نے لبادہ اوڑھ رکھا ہے فقیری کا
زمانہ کب گوارہ ہے مجھے تم یاد آتے ہو

محبت میں بھلا اسباب کیسے وسوسے کیسے
مرا سب کچھ تمہارا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

مجھے تنہائیوں سے ڈر نہیں لگتا کہ اب مجھ کو
تمہارا ہی سہارا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

وہ جتنے عکس تھے آنکھوں میں سارے بھول بیٹھا ہوں
تمہیں دل میں اتارا ہے، مجھے تم یاد آتے ہو

زین شکیل

*****************

ہوا کے لمس دیکھا کر، گنا نہ کر
مری تحریر کے آنسو چنا نہ کر

میں تیری آنکھ کے تیور سمجھتا ہوں
فقط خاموش بیٹھا کر، کہا نہ کر

اداسی کے سوا کیا ہے،مرے دل میں 
یہ اک بے چین جنگل ہے، گلہ نہ کر

ترا مل کر بچھڑنا مار دیتا ہے
مجھے تُو خواب میں بھی اب ملا نہ کر

مرے جو درد ہیں یونہی مہکنے دے
لگا تو شوق سے مرہم، سہا نہ کر

تجھے اب ماتمی چہروں سے الفت کیوں؟
تجھے میں نے کہابھی تھا، ہنسا نہ کر

تری آواز گھائل ہی نہ ہو جائے
صدائیں دشت میں مجھ کو دیا نہ کر

مری آوارگی تجھ کو نہ لے ڈوبے
تومیرے ساتھ بیٹھا کر، چلا نہ کر

زین شکیل

*****************

درد سے رشتہ نبھانے کے لیے
رو پڑا تم کو ہنسانے کے لیے

یاد مجھ کو کیا نہیں کرنا پڑا
ایک تم کو بھول جانے کے لیے

میں نے سورج پر سیاحی پھینک دی
موم کا اک گھر بچانے کے لیے

آ گئی گرمی مرے جذبات میں
دیپ چاہت کا جلانے کے لیے

آپ کا ملنا ضروری ہے بہت
پھر ہمیں ہم سے ملانے کے لیے

رابطہ کرنا پڑا ہے نیند سے
خواب آنکھوں میں سجانے کے لیے

آ قسم سے لوٹ کر آؤں گا میں
آ مجھے واپس بلانے کے لیے

رنج میں بھی یاد کرتا ہوں تمہیں
بس ذرا سا مسکرانے کے لیے

یہ جو مجھ دیوار میں درہے کھلا
راستہ ہے تیرے آنے کے لیے

وہ یقیناً "کُن" کہیں گے دیکھنا
عرض کی تھی لب ہلانے کے لیے

بخت میں اک وصل تھا لکھا ہوا
ہجر کو سینے لگانے کے لیے

عشق تو ہوتا نہیں ہے دوستو
جیتنے یا ہار جانے کے لیے

اب تو بس یہ سوچتا ہوں رات دن
کیوں گئے تم یاد آنے کے لیے

زین شکیل

*****************

کسی فراق میں رکھے ہوئے وصال کے دن
ہیں مدتوں سے کہیں لاپتہ کمال کے دن

جسے عروج پہ جا کر مشقتوں سے ملا
وہ شخص مجھ سے کہیں کھو گیا زوال کے دن

یہی دعا ہے رہیں سبز ہی ترے موسم
خدا کبھی نہ دکھائے تجھے ملال کے دن

یہ عمر بھر کی ریاضت بھی کام آ نہ سکی
جواب دے نہ سکا میں کسی سوال کے دن

تصورات کی راتوں میں سوگ برپا ہے
کہیں پہ قتل ہوئے ہیں مرے خیال کے دن

یہ جانتا ہوں کہ ممکن نہیں وہ لوٹ سکے
گزارتا ہوں مگر زین احتمال کے دن

زین شکیل

*****************

وہ مانگتا ہے محبت کا اب صلہ مجھ سے
اسے رہا ہے سدا ہی کوئی گلہ مجھ سے

میں آج ٹوٹ کے رویا کسی کی یادوں پر
بہت خفا ہے مرا آج حوصلہ مجھ سے

کچھ اس لیے بھی مرے زخم اب نہیں بھرتے
کہ کٹ نہ جائے اذیت کا مرحلہ مجھ سے

میں ٹوٹ جاؤں اگر یاد تُو نہ آئے تو
سو ٹوٹتا نہیں یادوں کا سلسلہ مجھ سے

سدا رہوں میں اسی بدگمان کے، صدقے
کہ جس کو چاہئیے اظہار برملا مجھ سے

سو خود ہی مات کوئی ڈھونڈنے لگا ہوں میں
کہ لڑ پڑا ہے کسی غم کا قافلہ مجھ سے

زین شکیل

*****************

زندگی ہو گئی ہے خفا ان دنوں
کوئی رہنے لگا ہے جدا ان دنوں

کاٹ کھانے کو دوڑے ہے یہ خامشی
کوئی دیتا نہیں ہے صدا ان دنوں

مستقل بن گئی سوچ حیرت کدہ
کر رہا ہے وفا، بے وفا ان دنوں

درد سارے مجھے راس آنے لگیں
دے رہا ہے کوئی یہ دعا ان دنوں

ڈھونڈنے لگ گیا ہوں میں خود کو کہیں
مجھ کو ملتا نہیں راستہ ان دنوں

ایک جھونکا تری یاد کا بھول کر
دینے آیا مجھے آسرا ان دنوں

آج سارے شہر کو خبر ہو گئی
زین میرا نہیں وہ رہا ان دنوں

زین شکیل

*****************

ذرا سی دیر مِرے ساتھ تم چلے آؤ!
ابھی تو شہر کو میں نے جواب دینا ہے

یہ اپنا طرزِ کرم اب کی بار بدلو ناں!
کہ اب بھی تم نے پرانا عذاب دینا ہے؟

ابھی تلک وہ مری آنکھ میں نہیں اترا
تمہاری آنکھ کو میں نے جو خواب دینا ہے

کبھی تمہارے ستم سامنے تو آئیں گے
کبھی تو تم نے خدا کو حساب دینا ہے

زین شکیل

*****************

میں کہ پھر روئے بنا رات نہیں کرتا ناں!
جب کوئی مجھ سے تری بات نہیں کرتا ناں!

میں اسے اس لئے ہر بات بتا دیتا ہوں
آئینہ مجھ سے سوالات نہیں کرتا ناں!

اس لیے اس کے سبھی جھوٹ بھی سچ مانے ہیں
وہ بنا روئے کوئی بات نہیں کرتا ناں!

پارسائی پہ مری اس لیے شک ہے اس کو
برملا میں جو کرامات نہیں کرتا ناں!

آپ بھی ویسے ہی پامال کیا مت کیجے
جیسے میں آپ کے جذبات نہیں کرتا ناں!

اتنے لوگوں میں مجھے یوں نہ دکھاؤ آنکھیں
اچھا بابا میں کوئی بات نہیں کرتا ناں!

زین شکیل

*****************

آسمانوں سے بلایا بھی نہیں جا سکتا
اب ا سے حال سنایا بھی نہیں جا سکتا

وہ مناتا جو نہیں روٹھے ہوئے لوگوں کو
اس سے اب روٹھ کے جایا بھی نہیں جا سکتا

اس کو تاروں میں کوئی خاص نہیں دلچسپی
چاند کو توڑ کے لایا بھی نہیں جا سکتا

جس کی تعبیر میں ہاتھوں میں لئے پھرتا ہوں
اب اسے خواب میں لایا بھی نہیں جا سکتا

اُس سے ہم ترکِ تعلق بھی نہیں کر سکتے
بات کو اور بڑھایا بھی نہیں جا سکتا

تم نے تاخیر بہت کی ہے صدا دینے میں
مجھ سے اب لوٹ کے آیا بھی نہیں جا سکتا

زین شکیل

*****************

تیرا دکھ دوبارہ دیکھا جائے گا
جو بھی ہو گا یارا دیکھا جائے گا

پہلے آنکھیں دریا دیکھا کرتی تھیں
اب کی بار کنارہ دیکھا جائے گا

سب سے پہلے میں اس کو جھٹلاؤں گا
جو بھی تجھ سے پیارا دیکھا جائے گا

دو روحوں کا اک ہو جانا لازم ہے
تب ہی منظر سارا دیکھا جائے گا

میری آنکھیں رو رو کر یہ کہتی ہیں
کون اب تجھ سے پیارا دیکھا جائے گا

خوشیاں آدھی آدھی دیکھی جائیں گی
دکھ سارے کا سارا دیکھا جائے گا

پہلے سے اب ان باتوں پر کیا لڑنا
جو جیتا جو ہارا دیکھا جائے گا

میں جب بھی سارا ٹوٹا تو پھر اس دن
میرا پارہ پارہ دیکھا جائے گا

زین شکیل

*****************

سینے میں ایک درد پروتی ہیں بارشیں
یوں بھی اداسیوں کو سموتی ہیں بارشیں

ہوتے ہی شام ابر ٹھہرتے ہیں آنکھ میں
پھر اس کے بعد رات بھگوتی ہیں بارشیں

جانے یہ کس کے ہجر میں صدیوں سے قید ہیں
مدت سے کس کے درد میں روتی ہیں بارشیں

بھیگے ہوئے درخت بڑھائیں اداسیاں
کرتی بھی ہیں اداس بھی ہوتی ہیں بارشیں

کس نے کہا کہ تھم گئی برسات آج تو
آنکھوں میں رات بھر نہیں سوتی ہیں بارشیں

زین شکیل

*****************

چل چپ کر بات نہ کر ڈھولا
مری گھائل ذات نہ کر ڈھولا

بیٹھی ہوں دریچے میں کب سے
اب آ جا لوٹ کے گھر ڈھولا

بھرتی ہوں اڑانیں سمت تری
مجھے لگ گئے پریم کے پَر ڈھولا

اب بین دیواریں کرتی ہیں
میرا کر گئے سُونا گھر، ڈھولا

رس گھول ناں میرے کانوں میں
کبھی مجھ سے باتیں کر ڈھولا

کہیں تیرا لمس نہ کھو جائے
مِرے دل سے جائے نہ ڈر ڈھولا

کبھی سن عرضی مجھ کملی کی
پڑی آن میں تیرے دَر ڈھولا

زین شکیل

*****************

مجھے لے چل اپنے سنگ پیا
مِری آنکھ میں تیرے رنگ پیا

تجھے چھین لیا اس دنیا نے
مری اس دنیا سے جنگ پیا

ترے نام کی مالا جپتا ہے
مرا روم روم انگ انگ پیا

اک بس اتنی سی خواہش ہے
مجھے رنگ میں اپنے رنگ پیا

اب مجھ کو میں سے تُو ، کر دے
میں اپنے آپ سے تنگ پیا

زین شکیل

*****************

تمہاری بے رخی مجھ کو وبالِ جان لگتی ہے
مجھے میری اداسی بھی مرا ایمان لگتی ہے

کبھی آؤ تمہیں میں کھول کر سینا دکھاؤں گا
تمہارے بن گلی دل کی بڑی ویران لگتی ہے

جگہ تو ہے نہیں اس میں ہمیں پھر کیوں بسانا ہے
تمہارے دل کی آبادی ہمیں گنجان لگتی ہے

وہ اک مدت سے شرماتی ہے میرا نام آنے پر
بڑی ہو کر بھی وہ لڑکی مجھے نادان لگتی ہے

مری اپنی کہانی میں کوئی بھی موڑ آجائے
مجھے تیری محبت ذیست کا عنوان لگتی ہے

ہمارے بعد کوئی بھی ٹھہر پایا نہیں ہو گا
کسی کی آنکھ مدت سے بڑی ویران لگتی ہے

میں کتنے ہی حوالوں میں رہا ہوں پر نجانے کیوں
مجھے یہ شاعری ہی بس مری پہچان لگتی ہے

زین شکیل

*****************

مری زباں کے سبھی حرف تولنے والے
خموش کیوں ہیں مِرے دوست بولنے والے

بتا، نا! اب وہ ترا ساتھ کیوں نہیں دیتے
قدم قدم پہ ترے ساتھ ڈولنے والے

نہ جانے کون سی نگری میں جا بسے آخر
وہ یار لوگ وہ بانہوں کو کھولنے والے

خموش رہ کے بھی باتیں ہزار کرتے ہو
ہنر کہاں سے تجھے آئے بولنے والے

تجھے ہی ڈھونڈتی رہتی ہیں بے اثر آنکھیں
نگاہِ شوق میں تاثیر گھولنے والے

زین شکیل

*****************

چپ رہ کر بھی یار پکارا جا سکتا ہے
ان آنکھوں میں چاند اتارا جا سکتا ہے

ساری لہریں تیرے صدقے دے سکتا ہوں
سارا دریا تجھ پر وارا جا سکتا ہے

پھر تم سے ہی ایک محبت ہو سکتی ہے
پھر سے تم کو جیت کے ہارا جا سکتا ہے

تجھ کو تکنے اور تجھے تکتے رہنے سے
آنکھوں سے اس بار نظارا جا سکتا ہے

اس کے عارض دیکھ کے میں نے اکثر سوچا
مکھ چندا کا اور نکھارا جا سکتا ہے

اشکوں میں موجود مسافر شاید تجھ کو
آنکھوں کے اُس پار اتارا جا سکتا ہے

تو بچھڑا ہے اور میں اتنا ہی سمجھا ہوں
اب تیرے بن وقت گزارا جا سکتا ہے

زین شکیل

*****************

تُو ایک بار مجھے رازداں بنا لیتا!!
میں آئینوں سے تِرا عکس بھی چرا لیتا!!

سنا ہے بات بنانے میں تو بھی ماہر ہے
سو کوئی بات مرے رُوبرو بنا لیتا!!

میں اپنی پھوٹی ہوئی آنکھ پر رہا راضی
میں تیرے خواب سے اب انتقام کیا لیتا!!

میں اس طرح سے تجھے ٹوٹنے نہیں دیتا
اگر تُو آ کے مجھے حالِ دل سنا لیتا!!

میں واجباتِ محبت پہ سوچتا بھی نہیں
میں اپنا آپ گنوا کر بھی تجھ کو پا لیتا!!

ذرا سی دیر پہ تُو نے اٹھا لیا محشر
میں سو گیا تھا تو آ کر مجھے جگا لیتا!!

زین شکیل

*****************

خود کو میں توڑ کے پھر جوڑ کے لاؤں! جاؤں؟
یعنی اب میں نہ کوئی بات سناؤں؟ جاؤں؟

تم بھی پہلی سی توجہ نہیں دیتے مجھ پر
جی تو کرتا ہے تمہیں اب نہ ستاؤں، جاؤں!

ایک مدت سے بلایا جو نہیں ہے تُو نے
اب یہ حسرت ہے ترے شہر میں آؤں، جاؤں!

شہر نے چھین لیا مجھ سے مِرا بھولا پن
سوچتا ہوں کہ میں اب گاؤں بھی آؤں، جاؤں!

اب تجھے روکنا اچھا بھی نہیں لگتا ناں
تو نے بھی رَٹ ہی لگا لی ہے کہ جاؤں، جاؤں؟

زین شکیل

*****************

اک بجھارت میں نہ الجھاؤ، چلو چھوڑو بھی
ایک ہی بات نہ دہراؤ، چلو چھوڑو بھی

تم تو اک لمحہ بھی ناراض نہیں رہتے تھے
اب کے تاخیر ہوئی ، آؤ، چلو چھوڑو بھی

اب ندامت سے بھلا ہو گا تمہیں کیا حاصل
بھر ہی جائیں گے کبھی گھاؤ، چلو چھوڑو بھی

میں نے تو ضبط کی ترتیب لگا رکھی ہے
تم مسلسل تو نہ یاد آؤ، چلو چھوڑو بھی

دیکھو میں کب سے یونہی کان چھوئے بیٹھا ہوں
اچھا ناں! مان بھی اب جاؤ، چلو چھوڑو بھی

زین شکیل

*****************

ترا وہ نگاہوں سے بولنا، نہیں بھولنا
مری ہر نگاہ کو تولنا، نہیں بھولنا

یہ کلی کا کھِلنا تو خوب ہے مرے دوستا
مجھے اس کا آنکھوں کو کھولنا، نہیں بھولنا

کبھی اور کوئی نشہ کیا تو نہیں مگر
تری یاد میں مرا ڈولنا، نہیں بھولنا

مجھے اپنا کہنا وہ باتوں باتوں میں بھول سے
ترا رَس وہ کانوں میں گھولنا، نہیں بھولنا

ترا سارا شہر مِرے خلاف کھڑا تھا پر
مِرے حق میں اک ترا بولنا، نہیں بھولنا!

تِرا اک نظر مجھے دیکھنا وہی پیار سے
ہے مجھے قسم مرے ڈھولنا، نہیں بھولنا

زین شکیل

*****************

میرا جیون اداس کر گئے ناں
وقفِ خوف و ہراس کر گئے ناں

میں نے دکھ خود سے دور رکھے تھے
تم انہیں آس پاس کر گئے ناں

لے گئے حسرتوں کا پہناوا
خواہشیں بے لباس کر گئے ناں

سکھ اداسی کے گیت گاتے ہیں
درد سے روشناس کر گئے ناں

زین اپنی بجھی سی باتوں سے
ساری بستی اداس کر گئے ناں

زین شکیل

*****************

تجھ سے بچھڑا رہوں گا، کیا کروں گا
خود سے روٹھا رہوں گا، کیا کروں گا

تُوتو رو کر بھی سرخرو رہے گی
میں جو روتا رہوں گا، کیا کروں گا

سانس تجھ کو پکارتی رہے گی
اتنا تنہا رہوں گا، کیا کروں گا

زین شکیل

*****************

کسی کی آنکھ سے نکلے ستارے بانٹ لینے تھے
کنارے بٹ نہیں سکتے سہارے بانٹ لینے تھے

محبت میں کبھی نقصان تو ہوتا نہیں لیکن
سمجھنا تھا یہی تو پھر خسارے بانٹ لینے تھے

جسے تم نے بھلایا ہے وہی اک شخص تھا ایسا
کہ جس نے مسکرا کر دکھ تمہارے بانٹ لینے تھے

سو اب نظروں کا شکوہ کیوں؟یہ پہلے سوچ لیتے نا
نگاہیں بانٹ لینی تھیں، اشارے بانٹ لینے تھے

کہاں تھا ناں کہ میرےبن کٹھن ہوجائے گا جینا
سو میری مان لینی تھی، گزارے بانٹ لینے تھے

جسے فرصت نہیں ملتی ہمارے پاس آنے کی
کہاں پھر زین اس نے غم ہمارے بانٹ لینے تھے

زین شکیل

*****************

یہ جو اب آس پاس موسم ہے
ہائے کتنا اداس موسم ہے

ہیں فسردہ تمام تر چہرے
جانے اب کس کو راس موسم ہے

یار،بیلی یہی سہیلی ہے
اک یہی غم شناس موسم ہے

تیرے اندر اداس ہوں میں جو
میرے اندر اداس موسم ہے

جس میں آنکھیں اداس رہتی ہوں
بس وہی سب سے خاص موسم ہے

زین شکیل

*****************

آنسو دھانی ہو جاتے ہیں
آنچل پانی ہو جاتے ہیں

تیری چاہ میں مرنے والے
لوگ کہانی ہو جاتے ہیں

کچھ ایسے بھی چہرے ہیں جو
یاد زبانی ہو جاتے ہیں

کھیل وہ کھیلیں؟ جس میں ہم تم
راجہ رانی ہو جاتے ہیں

آوازیں گم ہو جاتی ہیں
حرف نشانی ہو جاتے ہیں

زین چلو ہم خاموشی سے
بات پرانی ہو جاتے ہیں

زین شکیل

*****************

کھو گئے جانے کہاں لوگ پرانے والے
تو نے دیکھےہیں کہاں جان سے جانے والے

پھر کہانی میں وہی موڑ ہے آنے والا
مار دیتے ہیں مجھے لوگ زمانے والے

میرے گاؤں میں تو بس ایک یہی خامی ہے
لوٹ کر آتے نہیں شہر کو جانے والے

اس کے لہجے میں مقیّد ہے بلا کی ٹھنڈک
اور الفاظ سبھی دل کو جلانے والے

تو حقیقت کے تناظر میں کبھی مل مجھ سے
خواب ہوتے ہیں فقط نیند میں آنے والے

راہزن کا تو کوئی خوف نہیں تھا ہم کو
راستہ بھول گئے راہ بتانے والے

زین شکیل

*****************

کس نے آخر من کا دیپ بجھایا ہے
سناٹا ہی کیوں آخر چِلایا ہے

تم بھی کیسی کیسی باتیں کرتے ہو
کیسا کیسا تم نے ڈھونگ رچایا ہے

شاخیں بھی تو پیڑ کے دکھ میں روئی ہیں
پتوں نے بھی وافر شور مچایا ہے

آج ہماری آنکھیں اتنا برسی ہیں
آج برس کر ساون بھی پچھتایا ہے

ہجر کے ماروں کو یوں ڈسنا ٹھیک نہیں
ہم نے کالی راتوں کو سمجھایا ہے

آج ہمارے بھاگ جگے ہیں اے لوگو
آج ہمارا سانول ملنے آیا ہے

میں نے اس کی آنکھوں سے الفاظ چنے
اور اس کے ہونٹوں سے گیت بنایا ہے

زین شکیل

*****************

ترا شہر کتنا تھا معتبر مری آنکھ میں
کہ بسا ہوا تھا ترا جو گھر مری آنکھ میں

کوئی ابر تھا جو ابھی تلک نہ برس سکا
کوئی اشک بھی ہوا در بدر مری آنکھ میں

مرے آنسوؤں میں مری یہ ذات تو بہہ گئی
رہا ایک شخص ہی عمر بھر مری آنکھ میں

ذرا ٹھہر رات کی تیرگی ابھی صبر کر
کوئی کر رہا ہے ابھی سفر مری آنکھ میں

مری ہر نظر بھی بلندیوں سے پرے گئی
ہوا جانے کس کا ابھی گزر مری آنکھ میں

ابھی اس میں پھیلنے لگ گئی ہے اداس رت
ابھی ہو رہا ہے ترا اثر مری آنکھ میں

زین شکیل

*****************

جو میرے دل میں اداسی کو بھر کے جانے لگا
وہ پاس رہ کے مجھے اور یاد آنے لگا

یقیں کرو مری سانسیں اکھڑ گئیں اُسی دم
وہ میرے پاس سےجب جب بھی اٹھ کے جانے لگا

میں کوئی بات ستاروں سے کرنے والانہیں
یہ چاند کس کی کہانی مجھے سنانے لگا

ابھی جمے بھی نہیں عشق میں ہمارے قدم
تو کیوں یہ شہر ہمیں دار پر چڑھانے لگا

وہ دفن کر کے مجھے خوش ہے اور سوچتا ہے
بھلا ہوا کہ کوئی درد تو ٹھکانے لگا

اب اس سے کچھ بھی تو کہنا مجھے نہیں ہے کہ وہ
ہنسی ہنسی میں مری بات بھی اڑانے لگا

زین شکیل

*****************

اکثر دل کا حال سنا کر روئے ہیں
اکثر کوئی بات چھپا کر روئے ہیں

ایسے رونا کون گنے گا بولو ناں
ہنسنے جیسی شکل بنا کر روئے ہیں

ہنستے چہرے دیکھ کے ہم نے جانا ہے
ہم ہی تیرے شہر میں آکر روئے ہیں

اب جو نا منظور ہے کم رونا سو ہم
دریا اپنی آنکھ میں لا کر روئے ہیں

ہر اک دکھ پر آج ہی ماتم کرنا تھا
ساری خوشیاں پاس بلا کر روئے ہیں

پہلے رو رو اشک بہائے پھر روئے
دیکھو ہم ترتیب لگا کر روئے ہیں

ایسے کیسے زین بھلا ہم رو دیتے
سب کو اب کی بار ہنسا کر روئے ہیں

زین شکیل

*****************

درد کی ہی اساس ہوں میں تو
کتنی صدیوں کی پیاس ہوں میں تو

زائچے میں بھی میرے لکھا ہے
درد کا اقتباس ہوں میں تو

آپ خوش فہمیوں میں مت رہنا
جانے کس کس کو راس ہوں میں تو

صرف آنکھیں ہی لال ہیں نا بس؟
تم سے زیادہ اداس ہوں میں تو

تم نے زیادہ سمجھ لیا ہے ناں
صرف تھوڑا سا خاص ہوں میں تو

زین شکیل

*****************

خواب میں بھی ترا خیال رہا
یوں بھی سونا مرا محال رہا

وہ کسی اور کا بھی ہو نہ سکا
مجھ کو اس بات کا ملال رہا

اس کی آنکھوں میں اشک جمتے گئے
میرے لب پر بھی اک سوال رہا

تم تو کچھ دیر اشکبار رہے
میں بڑی دیر تک نڈھال رہا

میرے ماتم پہ آ گئیں خوشیاں
موت کا سانحہ کمال رہا

کیوں مرے دن اجڑ اجڑ کے بسے
کیوں مری رات پر زوال رہا

زین وہ پاس ہی رہا نہ مرے
بن کے بس جان کا وبال رہا

زین شکیل

*****************

کوئی لمحہ اجڑ جانے کی باتیں
کرو مجھ سے بچھڑ جانے کی باتیں

پھر ان کے پاس جب بھی بیٹھ جاؤں
نہیں کرتا میں گھر جانے کی باتیں

مری آنکھوں میں دیکھو اور پڑھ لو
کوئی صحرا بکھر جانے کی باتیں

کبھی تو چاند کرتا ہی رہا تھا
سمندر میں اتر جانے کی باتیں

حقیقت جانتا ہوں زندگی کی
کرو نہ مجھ سے مر جانے کی باتیں

یہاں وہ ٹھہر کے کرتا رہا تھا
یہاں سے بھی گزر جانے کی باتیں

نہیں کرتا کوئی اب مجھ سے آ کر
مری قسمت سنور جانے کی باتیں

زین شکیل

*****************

مری جو تم سے قربت ہو چلی ہے
یہ میری وجہِ شہرت ہو چلی ہے

ابھی بھی وقت ہے تم لوٹ جاؤ
مجھے تم سے محبت ہو چلی ہے

ہماری زندگی کے چاند ہو تم
تمہیں تکنے کی عادت ہو چلی ہے

تمہیں یوں احتیاطاً بھولنے پر
جنوں سے مجھ کو نسبت ہو چلی ہے

کوئی تو سیکھ لے مرہم لگانا
مجھے زخموں کی عادت ہو چلی ہے

تجھے خاموشیوں سے بات کرتے
سنا ہے ایک مدت ہو چلی ہے

ابھی عدت میں بیٹھی ہیں یہ خوشیاں
غموں سے مجھ کو رغبت ہو چلی ہے

خدا جانے یہ کیسا مرحلہ ہے
اداسی بھی عبادت ہو چلی ہے

زین شکیل

*****************

سبھی موسم ہمارے ہیں چلے آؤ
ملن کے استعارے ہیں چلے آؤ

ہمیں شکوہ زمانے سے نہیں اب بھی
کہ ہم اب بھی تمہارے ہیں چلے آؤ

اداسی بین کرتی ہےتمہارے بن
کہاں اپنے گزارے ہیں چلے آؤ

مری آنکھیں بھی اب خوابوں سے خائف ہیں
خسارے ہی خسارے ہیں چلے آؤ

تمہیں ہم نے سلیقے سے بتانا ہے
تمہارے ہیں، تمہارے ہیں، چلے آؤ

زین شکیل

*****************

اب کیسے بتائیں، تمہیں کیسا نہیں سوچا
ہم نے تو تمہیں دوسروں جیسا نہیں سوچا

لوگوں نے بنا رکھی ہیں باتیں ترے بارے
اب ہم نےترے بارے میں ویسا نہیں سوچا!

تو نے بھی ہمیں چاہنے جیسا نہیں چاہا
ہم نے بھی تجھے سوچنے جیسا نہیں سوچا

تو پاس نہیں اور تجھے پاس نہ پا کر
تو ہم سے جدا ہے کبھی ایسا نہیں سوچا

تو نے بھی مجھے سوچ کے کاٹے تھے کئی دن
کیا تو نے مجھے اب کبھی ویسا نہیں سوچا؟

تجھ کو بھی میں بدلا ہوا لگتا ہوں کہیں سے
میں نے بھی تجھے ویسے کا ویسا نہیں سوچا

اظہارِ محبت پہ مجھے اس نے کہا تھا
ایسے نہیں دیکھا تجھے، ایسا نہیں سوچا

زین شکیل

*****************

دل نے رنج و ملال اپنائے
ہم نے سارے زوال اپنائے

دیکھ بیٹھا ہوا ہوں میں اب تک
صرف تیرا خیال اپنائے

تجھ سا اب دوسرا نہیں ہےناں
کون تیرا جمال اپنائے

اس کو سارے جواب ازبر تھے
اس نے پھر بھی سوال اپنائے

رائیگاں ہو گئے سبھی آخر
ہم نے جتنے کمال اپنائے

زین شکیل

*****************

ساتھ کسی کا چھوٹ گیا دل بیٹھ گیا
پیار کا مندر ٹوٹ گیا دل بیٹھ گیا

نیندوں کو تعبیر کی حسرت مار گئی
آنکھ میں سپنا پھوٹ گیا دل بیٹھ گیا

یاد تری رہ جانی تھی سو رہ گئی ہے
ہاتھ سے دامن چھوٹ گیا دل بیٹھ گیا

شام بھی مجھ سے موڑ کے چہرہ دور گئی
اور یہ دن بھی روٹھ گیا دل بیٹھ گیا

اور یہ ٹکڑے کون سمیٹے گا آخر
دیکھ میں کتنا ٹوٹ گیا دل بیٹھ گیا

زین شکیل

*****************

وہاں جھوٹوں پہ سب راضی تھے لیکن
یہاں پر ہم ہی للکارے گئے بس

تمہارا شہر سارا کیسے جیتا؟
زبردستی ہمی ہارے گئے بس؟

تجھے اے زندگی اب کیا بتائیں
ہمارے جان سے پیارے گئے بس

ابھی بس چاند کا دم ٹوٹنا ہے
ابھی تم دیکھنا تارے گئے بس

ہمیں منصور ٹھہرایا گیا ہے
ہمیں پتھر نہیں مارے گئے بس

بلائیں کس طرح تیری ٹلیں گی
ترے صدقے میں ہم وارے گئے بس

زین شکیل

*****************

تنہائی بھی سہہ لیتا ہوں روتا ہوں
سب آنکھوں سے کہہ لیتا ہوں روتا ہوں

کچھ تیری مستی بھی شامل ہوتی ہے
اپنی موج میں بہہ لیتا ہوں، روتا ہوں

ہنس کر ویرانے بھی اپنا لیتے ہیں
ویرانوں میں رہ لیتا ہوں، روتا ہوں

ہنستے ہنستے میں آنکھوں سے بہتا ہوں
جب آنکھوں سے بہہ لیتا ہوں، روتا ہوں

میرے جیسا پاگل ہو گا کون بھلا
سب باتیں جب کہہ لیتاہوں، روتا ہوں

زین شکیل

*****************

درد کو کر بحال ڈال دھمال
روح کا اندمال ڈال دھمال

یہ جو کانٹوں کی شال ہے مرے یار
اپنے کاندھوں پہ ڈال، ڈال دھمال

اب کبھی "تو" بھی ہو اتار غرور
خود سے "میں" کو نکال ڈال دھمال

جسم کا بوجھ ڈھو لیا مری مان
کر کے اب انتقال ڈال دھمال

بے سُری زندگی میں کیا ہے سرور
تال سے جوڑ تال ڈال دھمال

حسرتِ زندگی کا ڈھونگ بھی جھوٹ
چھوڑ رنج و ملال ڈال دھمال

مست ہو، ہوش کو فریب ہی مان
رقص کر خاک ڈال، ڈال دھمال

سانس بھی لے تو اس طرح مرے یار
دم دما دم دھمال، ڈال دھمال

زین شکیل

*****************

جو بھی آیا تھا فیصلہ بابا
کر لیا میں نے حوصلہ بابا

آپ تو بات بھی نہیں کرتے
کیا کروں آپ سے گلہ بابا

جانے کب تک مجھے نبھانا ہے
اک مروت کا سلسلہ بابا

کوئی بے سائباں ہے مدت سے
کیا یہی ہے یہاں صلہ بابا

آپ کے بعد کچھ سہارے تھے
کوئی نہ آپ سا ملا بابا

کاٹتا ہوں جو کٹ نہیں سکتا
زندگی کا یہ مرحلہ بابا

سچ کہوں آپ یاد آتے ہیں
کہہ رہا ہوں یہ برملا بابا

یہ سنا تھا کہ بھر ہی جاتے ہیں
پر کوئی زخم نہ سِلا بابا

جھوٹ ہیں نیتیں زمانے کی
جھوٹ ہے سارا سلسلہ بابا

زین شکیل

*****************

آنکھیں بھی تو بھر آتی ہیں اکثر ہی مسکانے سے
ماں کتنی خوش ہو جاتی ہے میرے گھر آ جانے سے

ذہن و دل کا گوشہ گوشہ کب تک تازہ دم رہتا
بہتر تھا تم خود آ جاتے یوں مجھ کو یاد آنے سے

سونا سونا آنگن تو یوں ہی کھانے کو دوڑے ہے
سو دکھ بٹ جایا کرتے ہیں پیڑوں کو بتلانے سے

اب تو بنجر بنجر آنکھیں زیادہ چپ چپ رہتی ہیں
دل رونے لگتا ہے اس کے یادوں میں آ جانے سے

اب تو اک مدت سے کوئی خوابوں میں بھی آیا نہ
ہم بھی اب عاجز آئے ہیں شاموں کو گھر جانے سے

میری سانسوں کی جنبش سے تو بھی ڈر سا جا تا ہے
میں بھی ڈرتا رہتا ہوں اب تیرا دل بہلانے سے

میں یہ تم سے کہتا تھا ناں تم پاگل ہو جاؤ گے
پاگل، پاگل ہی رہتا ہے پاگل کو سمجھانے سے

زین شکیل

*****************

جن پر بے ثمری کی تہمت لگ جائے
ان پیڑوں کے چھاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

بیٹے کے چہرے پر زردی کیوں چھائی؟
کیسے کیسے ماؤں کو دکھ ہوتے ہیں

شہروں میں جا بسنے والے کیا جانیں
ان لوگوں کے گاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

رستوں کی دشواری کیسے سمجھے گی
چھالوں کے بھی پاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

جانے کس کے غم میں بادل روتا ہے
کیا پر درد گھٹاؤں کو دکھ ہوتے ہیں؟

عمریں گر بے جرم سزاؤں میں گزریں
پھر تو صرف جزاؤں کو دکھ ہوتے ہیں

زین شکیل

*****************

دیکھ لے گی ہوا ترا لہجہ
کس قدر ہے تھکا ترا لہجہ

میں نے اِس میں تجھے اتارا ہے
تو نے دیکھا نہیں مرا لہجہ

ساری آواز جل گئی لیکن
بچ گیا تھا ہرا بھرا لہجہ

اس کا لہجہ کمال لہجہ ہے
خوبصورت غزل سرا لہجہ

کتنے خاموش تھے وہ تیرے لب
کتنا مانوس تھا ترا  لہجہ

لینے آیا تھا مجھ سے جو باتیں
لے گیا چھین کر مرا لہجہ

زین وہ سونپ کر گیا مجھ کو
اس قدر زہر سے بھرا لہجہ

زین شکیل

*****************

میری گھائل ذات ہوئی ہے لگتا ہے
پھر سے شاید مات ہوئی ہے لگتا ہے

ان آنکھوں میں پھیل گئی ہے لالی سی
آنکھوں سے برسات ہوئی ہے لگتا ہے

بل ماتھے پر اور پرایا سا لہجہ
پھر سے کوئی بات ہوئی ہے لگتا ہے

یہ کٹنے کا نام نہیں کیونکر لیتی
اس کی رات سے بات ہوئی ہے لگتا ہے

زین شکیل

*****************

جو ستارہ اداس ہے لوگو
وہ مرا غم شناس ہے لوگو

اس کی خوشبو بکھر رہی ہے ناں
وہ مرے آس پاس ہے لوگو

مجھ سے آخر کسے محبت ہے
کون اتنا اداس ہے لوگو

تم اِ سے شاعری سمجھتے ہو
میرے دل کی بھڑاس ہے لوگو

میری بنتی نہیں ہے خوشیوں سے
غم ہی میری اساس ہے لوگو

اب مجھے زخم سے محبت ہے
اب مجھے درد راس ہے لوگو

وہ کسی روز حال پوچھیں گے
دل ابھی محوِ یاس ہے لوگو

زین شکیل

*****************

مرے وجود سے تیرا خمار ڈرتا ہے
کہ مجھ سے اب بھی ترا انتظار ڈرتا ہے

میں نوچ لوں نہ کہیں اس کے جسم سے خود کو
وہ کر رہا ہی نہیں اعتبار، ڈرتا ہے

میں کونے کونے پہ وحشت سجایا کرتا ہوں
سو مجھ سے شہر ترا بار بار ڈرتا ہے

غموں نے جب سے چنا ہے مجھے سدا کے لیے
قریب آتے ہوئے غمگسار ڈرتا ہے

راہِ وفا کا یہ دستور ہے اگر اس پر
جو ایک بار ڈرا بار بار ڈرتا ہے

یہی کہا تھا مرا ہاتھ تھام لے پاگل
یہ تجھ سے ہو نہ سکا چھوڑ یار ڈرتا ہے

زین شکیل

*****************

آنکھ کے کنارے پر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا
آنسوؤں کے دھارےپر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا

ڈوبتی ہوئی نبضیں، ڈوب ہی تو جانی تھیں
ہم تمہیں پکارے پر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا

حسرتِ محبت میں آپ کے بنا لمحے
ہم نے بھی گزارے پر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا

آپ نے خدا جانے کیوں نہ ہم کو اپنایا
آپ تھے ہمارے پر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا

ہم بھی اور کیا کرتے، عمر کاٹ دی اپنی
آپ کے سہارے ،پر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا

مانگ کر تمہارے دکھ اور اپنے سارے سکھ
ہم نے تم پہ وارے پر، کچھ نہیں تھا ہو سکتا

زین شکیل

*****************

درد آزاد ہونے والا ہے
ہجر آباد ہونے والا ہے

اس سے کہہ دو ذرا ٹھہر جائے
وہ مجھے یاد ہونے والا ہے

چھوڑ کر دور جا رہے ہو تم
کوئی برباد ہونے والا ہے

زلف اس کی سنورنے والی ہے
قابلِ داد ہونے والا ہے

روح میری ادھڑنے والی ہے
زخم ایجاد ہونے والا ہے

لگ رہا ہے مجھے کہ وہ اِمشب
محوِ فریاد ہونے والا ہے

زین شکیل

*****************

کس نے ہنستی ہوئی تصویر کے آنسو پونچھے
کاش کوئی مری تقدیر کے آنسو پونچھے

وہ کچھ ایسے کسی تمہید سے باہر نکلا
اور اُس نے مری تحریر کے آنسو پونچھے

کون اس آبلہ پائی پہ لگائے مرہم
کون پیروںپڑی زنجیر کے آنسو پونچھے

نیند کے درد سبھی بانٹنے والاآخر
کس طرح خواب کی تعبیر کے آنسو پونچھے

ایک مدت سے سزا کاٹ رہا ہوں ،اب تو
کوئی آ کر مِری تقصیر کے آنسو پونچھے

سب فسوں ٹوٹ گئے زین زباں کےآخر
اب کوئی لہجہء تسخیر کے آنسو پونچھے

زین شکیل

*****************

ٹھکرا دی تھی بستی ساری یاد کرو
جب تم تھے جذبوں پر طاری یاد کرو

کُل کتنے دکھ سکھ تھے تیرے اور مرے
جتنے بھی تھے باری باری یاد کرو

کیا غم ہے گر تم کو راجہ یاد نہیں
سندرتا کی راج کماری یاد کرو

تم ساحل سے پہلے ہم کو آن ملے
تھا آنکھوں سے دریا جاری یاد کرو

بچھڑے تھے ہم عین کہانی بیچ مگر
تم اُس سے پہلے کی ساری یاد کرو

سہرا باندھے دکھ آئے گا پاس کبھی
کہتے تھے ناں؟ بات ہماری یاد کرو!

مجھ بھولے کو اب یہ آ کر کون کہے
جاں سے تھی میں تجھ کو پیاری، یاد کرو

زین شکیل

*****************

کس کو کس کس لمحے کھونا ہوتا ہے
چاہت میں یہ اکثر ہونا ہوتا ہے

تم نے مجھ سے ملنا کیونکر چھوڑا ہے
مجھ کو تم سے مل کر رونا ہوتا ہے

تم کہتے ہو آ جاؤ، میں کیوں آؤں
تم نے بھی تو رونا دھونا ہوتا ہے

لوگ بھی کھل کر اس سے کھیلا کرتے ہیں
دل بھی جیسے ایک کھلونا ہوتا ہے

دھیرے دھیرے سب تارے سو جاتے ہیں
پھر آخر میں مجھ کو سونا ہوتا ہے

میرے بستر پر سونا آسان نہیں
اس پر دکھ کا ایک بچھونا ہوتا ہے

پیار پہ آخر بس اپنا کب چلتا ہے
ہو جاتا ہے جب یہ ہونا ہوتا ہے

زین شکیل

*****************

پھر سے تیرا ہو جانا ہی بہتر ہے
یعنی تنہا ہو جانا ہی بہتر ہے؟

پل پل ہنسنے والے اب یہ سمجھے ہیں
کچھ لمحوں کو رو جانا ہی بہتر ہے

مل جل کر تارے سمجھانے آئے ہیں
سو جاؤ اب سو جانا ہی بہتر ہے

بالوں سے آنکھوں تک آ کر یہ سوچا
ان آنکھوں میں کھو جانا ہی بہتر ہے

اس کی اجڑی یادوں کے اک صحرا میں
کھویا ہوں اور کھو جانا ہی بہتر ہے

زین شکیل

*****************

تو نے آخر رُلادیا مجھ کو
قہقہوں میں اُڑا دیا مجھ کو

میں تو ہر موڑ پر میسر تھا
تو نے کیسے گنوا دیا مجھ کو

میرے اندر تجھے نہیں پھونکا
باقی سارا بنا دیا مجھ کو

اب اگلتا ہوں ،سانس لیتا ہوں
زہر اتنا پلا دیا مجھ کو

یاد رکھا تھا مدتوں اس نے
بس اچانک بھلا دیا مجھ کو

تو بھی آخر زمانے جیسا ہے
اپنا چہرہ دکھا دیا مجھ کو

زین شکیل

*****************

مسلسل ہی بھلایا جا رہا ہوں
میں لکھ لکھ کر مٹایا جا رہا ہوں

مجھے سننے پہ جو راضی نہیں ہے
اسے پھر بھی سنایا جا رہا ہوں

مجھے ہر طور ہے مٹی میں ملنا
نگاہوں سے بہایا جا رہا ہوں

محبت نے سیاست سیکھ لی ہے
سلیقے سے ستایا جا رہا ہوں

عجب ہے ہاتھ اس کا تھامنا بھی
اٹھا کر پھر گرایا جا رہا ہوں

جہاں پر امتحاں بنتا نہیں ہے
وہیں پر آزمایا جا رہا ہوں

مجھے کیا گیت سمجھی ،زین، دنیا؟
جو اتنا گنگنایا جا رہا ہوں

زین شکیل

*****************

اتنا سوچا، اتنا سوچا، حیرت ہے!
پھر بھی خط میں کچھ نہ لکھا، حیرت ہے!

تم عرصہ پہلے کی باتیں کرتے ہو
سچ مچ اتنا عرصہ بیتا؟ حیرت ہے!

اب زخمی سے خوابوں کی تعبیریں کیا؟
کیوں نیندوں نے دھوکا کھایا، حیرت ہے!

دیواروں پر کچھ سائے چپ بیٹھے تھے
بدلی میں چھپ چندا بولا، حیرت ہے!

عرصہ بیتا تم تو بالکل ویسے ہو
کیوں آنکھوں سے بادل برسا، حیرت ہے!

میری تحریریں بھی رویا کرتی ہیں
تم نے مجھ کو ہنستے دیکھا، حیرت ہے!

میں نے جب یہ پوچھا کس نے دستک دی
حیرت سے دروازہ بولا، حیرت ہے!

زین شکیل

*****************

آرزو کا کوئی پندار بدل کر آئے
میری خاطر کوئی اک بار بدل کر آئے

شہر والوں کو تماشہ ہے تو پھر یونہی سہی
کون حسرت سرِ بازار بدل کر آئے

وہ بھی تو نت نئے کردار کے گرویدہ تھے
اس لیے ہم کئی کردار بدل کر آئے

میں یہ سب کچھ اسے اک بار میں کیسے سونپوں
اس سے کہہ دو کہ کئی بار بدل کر آئے

ہم تو آنکھوں سے ہی پہچان لیا کرتے ہیں
آپ چہرہ یونہی بے کار بدل کر آئے

کب تلک یوں ہی انہیں روز پکاروں یارو
اب تو ان کا کوئی انکار بدل کر آئے

میرے کپڑوں سے ہے الجھن تو سنو ہم جاکر
یوں گئے اور مری سرکار، بدل کر آئے

زین شکیل

*****************

بادل کِن مِن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا
جینا تجھ بِن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

دو دن دنیا تَکّ دِھنا دِھن دِھن لَک لَک
باقی دو دِن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

اس نگری میں کون ہمارا اپنا ہے
اک تیرے بِن، تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

بنجاروں کی رات یونہی کٹ جاتی ہے
تارے گِن گِن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

جب دیکھا اک دُکھ کہیں نہ سُکھ پایا
عمر بھی کم سِن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

انگاروں پر پیر دھرا دیوانوں نے
انگارے دِھن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

طبلہ دِھن دِھن تَکّ غزل میں، مِی رقصم
دِھن لَک لَک دِھن تَکّ دِھنا دِھن تا نا نا

زین شکیل

*****************

بجھ بیٹھے جو دیپ جلاؤ، چلتا ہوں
بیتی باتیں مت دہراؤ، چلتا ہوں

میرا ملنا تم کو راس نہیں تو پھر
تنہائی کو پاس بلاؤ، چلتا ہوں

میں بھی وقتِ رخصت، رسماً بول آیا
اب میرے گھر تم بھی آؤ، چلتا ہوں

اچھا تم سے ملنے پھر آجاؤں گا
اب جلدی ہے مان بھی جاؤ، چلتا ہوں

دیکھ کے مجھ کو فوراً چہرہ لال ہوا
بابا غصّے میں مت آؤ، چلتا ہوں

بیت رہی ہے شب مجھ کو گھر جانا ہے
تم جانے کس لمحے آؤ، چلتا ہوں

زین شکیل

*****************

ایسےویسے، ویسے ، ایسے کیسے ہیں
دیکھو ناں یہ لوگ بھی کیسے کیسے ہیں

شب بھر گن گن تارے حاصل یہ نکلا
تیرے سارے وعدے تیرے جیسے ہیں

اب میں گاؤں سے کم نکلا کرتا ہوں
تم بتلاؤ شہر میں سارے کیسے ہیں

کیا تم نے نزدیک سے دیکھی تنہائی؟
اس کے سارے روپ ہی میرے جیسے ہیں

اب بھی تیری باتیں خود سے کرتے ہیں
جیسا ہم کو چھوڑ گئے تھے ویسے ہیں

زین شکیل

*****************

جلتی کو مت اور جلاؤ، آجاؤ
مت سورج سے آنکھ ملاؤ، آجاؤ

سوچوں کا دریا تم کو لے ڈوبے گا
دیکھو اتنی دور نہ جاؤ، آجاؤ

شہر کے لوگ تو چیخ پکار نہیں سنتے
میرے کان میں بات بتاؤ، آجاؤ

تم بھی تو بیتاب تھے مجھ سے ملنے کو
دور کھڑے ہو مت شرماؤ، آجاؤ

میں نے تم کو دیکھ کے بازو کھولے ہیں
میرے سینے سے لگ جاؤ، آجاؤ

لوگ کہیں تقسیم مجھے نہ کر ڈالیں
جلدی آؤ، آ بھی جاؤ، آجاؤ

بعد میں دل کی بات تمہیں سمجھاؤں گا
پہلے آ کر تم سمجھاؤ، آجاؤ

یوں میں تم کو روز بلایا کرتا ہوں
آؤ، آؤ، آؤ، آؤ، آجاؤ

زین شکیل

*****************

جب کبھی بے شمار سوچتا ہوں
تیرے نقش و نگار سوچتا ہوں

اس لئے اشک تھم نہیں پاتے
میں تمہیں بار بار سوچتا ہوں

آنکھ سے بہہ گئیں سبھی سوچیں
اتنا زار و قطار سوچتا ہوں

یاد کرتا ہوں پہلے وعدوں کو
پھر ترا اعتبار سوچتا ہوں

یہ ترا کاج ہی نہیں چپ رہ
اے دلِ بے قرار، سوچتا ہوں!

واقعی رائیگاں گیا ہوں میں
ہو کے تجھ پر نثار سوچتا ہوں

خود پہ تو اختیار تھا ہی نہیں
تجھ کو بے اختیار سوچتا ہوں

اس نے پوچھا بتا کہاں جائیں؟
میں یہ بولاکہ یار، سوچتا ہوں!

زین شکیل

*****************

شام، دریا، ندی، کنارے، تم
مجھ کو لگتے ہو کتنے پیارے تم

اور اک ہم کہ بس تمہارے ہی
اور اک تم کہ بس ہمارے تم

کیوں مری آنکھ سن نہیں پائی
کیوں نہیں آنکھ سے پکارے تم

میں تمہیں بھول ہی نہیں پاتا
ہو گئے یاد مجھ کو سارے تم

کون سا آسمان تھا بولو
یوں کہاں سے گئے اتارے تم

مجھ کو یونہی حسین لگتے ہیں
چاندنی شب، اُداس تارے، تم

ہجر کا کون سا یہ عالم ہے
بس مجھے دے گئے خسارے تم

اب کہ رونا بھی فن میں شامل تھا
اس لئے رو پڑے بیچارے تم

زین شکیل

*****************

جب اسے حال سنا لیتا ہوں
اپنی آنکھوں کو جھکا لیتا ہوں

دیر تک تم کو سنا کرتا ہوں
پھر کوئی گیت بنا لیتا ہوں

وہ بھی باتوں میں چلی آتی ہے
میں بھی باتوں میں لگا لیتا ہوں

جب بھی آتی ہے کبھی خوابوں میں
میں اسے پاس بٹھا لیتا ہوں

آنکھ لگنے سے ذرا سا پہلے
اس کی تصویر اٹھا لیتا ہوں

پھر کہیں جا بھی نہیں سکتا ناں
جب اسے پاس بلا لیتا ہوں

وہ مرا سب کو بتا دیتی ہے
میں اسے پھر بھی چھپا لیتا ہوں

ہجر میں درد مزہ دیتے ہیں
غم کو اعزاز بنا لیتا ہوں

زین شکیل

*****************

اب تو گھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے
یوں ٹھہر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

اتنا مانوس نہیں ہو جاتے
پھر بچھڑ جانے پہ دکھ ہوتا ہے

وہ گلی اب بھی ہے ویسی لیکن
بس گزر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

ایک دن ہو تو گزر بھی جائے
روز مر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

اب یہ بچپن تو نہیں سو ہم کو
ایسے ڈر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

صاف گوئی تھی مناسب پھر بھی
بس مُکر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

تم جہاں ہم سے ملا کرتے تھے
اب ادھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

اس لئے پھول نہیں ہوتا میں
بس بکھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

ہم تو مقتل بھی خوشی سے جائیں
اب کدھر جانے پہ دکھ ہوتا ہے

زین شکیل

*****************

چار سو پھیلتا جا رہا ہے سفر، کیا کہوں اب تمہیں
چاند کھڑکی سے آتا نہیں اب نظر ، کیا کہوں اب تمہیں

اس نے پوچھا کہ کل شام کیسی اداسی تھی چھائی ہوئی
کل ہوا جب تمہارے شہر سے گزر، کیا کہوں اب تمہیں

جس نے ہاتھوں میں ہاتھوں کو دے کر ہماری اٹھائی قسم
سانحہ یہ ہوا کہ گیا وہ مُکر، کیا کہوں اب تمہیں

اب درختوں کے پتوں کی زردی پہ کیوں کالے بختوں کا غم
کس لئے ہو گئی شاخ بھی در بدر، کیا کہوں اب تمہیں

رات ایسی کہ جیسے ہو دن کی وہ مجبور بیوہ کوئی
دن پہ جیسے لگی ہو غموں کی مُہر ، کیا کہوں اب تمہیں

اس نےمجھ سے یہ پوچھا کہ مجھ سے محبت تو ہے نا تمہیں
میں نے اس سے کہا کہ مِرے ہم سفر، کیا کہوں اب تمہیں

تم وہی تھے ،مرے سنگ دنیا سے ڈرتے، جھجھکتے نہ تھے
پھر اچانک گئے ساری دنیا سے ڈر، کیا کہوں اب تمہیں

یہ زمانہ مرے پاس آیا تو تھا، صرف جلدی میں تھا
میں نے بھی کہہ دیا ، جاؤ پہلے گزر، کیا کہوں اب تمہیں

زین شکیل

*****************

ہم نے سوچا تمہیں ہر گھڑی اور پل، اور کیا سوچتے
اور کرنے کو کچھ بھی نہ تھا آج کل ، اور کیا سوچتے

آج سوچا تو آنکھوں کو بہنے سے روکا گیا ہی نہیں
پھر یہ سوچا کہ اب تم کو سوچیں گے کل، اور کیا سوچتے

میں نے تم سے فقط ساتھ چلنے کا پوچھا تھا اس واسطے
میں نے سوچا تھا تم بھی کہو گے کہ ،چل، اور کیا سوچتے

پہلے سوچا کہ اُس سے مقدر تو مل جائے گا ،ورنہ ہم
خود ہی دیں گے نصیبوں پہ پھر خاک مَل، اور کیا سوچتے

تم نے بھی سوچ رکھا تھا شامِ عزاداری ء عشق کا
ہم بھی سورج کے ہی ساتھ جائیں گے ڈھل ، اور کیا سوچتے

تم نے سوچے بنا ایک پل میں ہی صدیاں بھلا کیسے دیں؟
ہم نے تم کو ہی سوچا تھا ہر ایک پل، اور کیا سوچتے

زین شکیل

*****************

کھڑکیوں سے جھانکتی رہ جاؤ گی
تم مجھے یوں سوچتی رہ جاؤ گی

میں تمہارے پاس ٹھہروں گا نہیں
دور سے تم دیکھتی رہ جاؤ گی

جس طرح سے چاہتا تھا میں تمہیں
اس طرح سے چاہتی رہ جاؤگی

تم ندی میں پتھروں کو پھینک کر
دائروں کو دیکھتی رہ جاؤ گی

غرق ہو کر اک تصور میں مِرے
ہاتھ اپنا چومتی رہ جاؤ گی

یاد میں صدیوں تلک ہو جاؤں گا
لمحہ لمحہ بھولتی رہ جاؤ گی

نیند تو ہر رات میں آجائے گی
خواب میں تم جاگتی رہ جاؤ گی

ہجر تم کو دور تک لے جائے گا
دیر تک تم ہانپتی رہ جاؤ گی

زین شکیل

*****************

چل اس نگری میں چل بادل
سینے اندر ہلچل بادل

کب اس کے نام پہ برسے گا
یہ آنکھ ہوئی اب تھل بادل

اک نیندوں میں بے چین جھڑی
اک سپنوں میں بے کل بادل

ہے دور ڈگر اس پیتم کی
دو چار قدم تو چل بادل

اس شہر سے گزریں گے کیسے
اس شہر میں ہے جل تھل بادل

تب سے ٹپکے چھت آنکھوں کی
بس ٹھہرا تھا اک پل بادل

اس عشق میں آگ ہی آگ پیا
اب ہجر میں بیٹھا جل بادل

زین شکیل

*****************

ہر ایک بات زباں کے تلے دبا آیا ہوں
میں اس کے پاس بڑی دور سے چلا آیا ہوں

میں قیدِ ذات میں رہ کر کبھی نہ چل پاتا
میں اس لئے ہی کہیں ذات کو چھپا آیا ہوں

اب آئینے کو بڑی حیرتوں سے دیکھتا ہوں
میں اپنا آپ کسی موڑ پر بھلا آیا ہوں

وہ جس میں تم ہی نہ تھے وہ نصیب کیا کرتا
میں تیرے بعد کہیں بخت کو سُلا آیا ہوں

خود اپنی ذات کے اک دشت میں بھٹکتا رہا
میں قافلے کو صحیح راہ پہ چلا آیا ہوں

زین شکیل

*****************

قابلِ داد ہو گئے کیسے
تم بھی آباد ہو گئے کیسے

سوچتا ہوں تمہیں بھلا کر میں
تم مجھے یاد ہو گئے کیسے

آپ معصوم سی دعا بن کر
لب پہ آباد ہو گئے کیسے

ہم تو خاموش ہی رہے بر سوں
جانے برباد ہو گئے کیسے

دشت کی دھجیاں اڑی ہوں گی
شہر ایجاد ہو گئے کیسے

تم تو معصوم تھے محبت میں
اتنے استاد ہو گئے کیسے

جن سوالوں کو میں بھلا بیٹھا
آپ کو یاد ہو گئے کیسے

زین ہم نے تو سکھ بنائے تھے
درد ایجاد ہو گئے کیسے

زین شکیل

*****************

جس کا چاہا جیسے دل
اس نے توڑا ویسے دل

رفتگاں کی یاد کو
بھول جاتا کیسے دل

رو رہی ہے آنکھ کیوں
ہنس رہا ہے کیسے دل

مشترک ہیں عادتیں
جیسے تم ہو ویسے دل

کر رہا ہے منّتیں
جانے کیسے کیسے دل

زین ویسے ہی کرو
کہہ رہا ہے جیسے دل

زین شکیل

*****************

یہیں پہ تھا میں کدھر گیا ہوں
مجھے سمیٹو بکھر گیا ہوں

غموں کی آندھی یہاں سے گزری؟
کہ میں ہوا سے گزر گیا ہوں؟

تم ابتدا لے کے آ گئے تھے
میں انتہا سے گزر گیا ہوں

تری ہی آواز آ رہی تھی
تری گلی میں ٹھہر گیا ہوں

جہاں وہ پہنچا پلک جھپکتے
میں رفتہ رفتہ اُدھر گیا ہوں

بس اُس نے دریا کی سمت دیکھا
میں ہونٹ سی کر اُتر گیا ہوں

پرانے یارو نئے سفر میں
مجھے پکارو ٹھہر گیا ہوں

گرفت محسوس ہو رہی ہے
کسی نظر سے گزر گیا ہوں

زین شکیل

*****************

شام کا پہلا تارہ میں ہوں
رات کے دُکھ کا چارہ میں ہوں

میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے
تیرے بس میں سارا میں ہوں

آج تو سنجیدہ ہو جاتے
آج تمہارا سارا میں ہوں

جیت سکے ہو کب لوگوں سے
تم سے تو بس ہارامیں ہوں

حکم ہے رو کر ہنس دینے کا
اُس کا ایک اشارہ میں ہوں

زین مجھے اب کون سمیٹے
کب سے پارہ پارہ میں ہوں

زین شکیل

*****************

چین دے دوں قرار دوں امّاں
خود کو میں تجھ پہ وار دوں امّاں

جیت رکھوں تمہارے قدموں میں
اور خود کو میں ہار دوں امّاں

شہرتیں، دولتیں، سبھی اعزاز
تیرے قدموں پہ وار دوں امّاں

عمر کیا دے کے جان بھی اپنی
تیرا صدقہ اتار دوں امّاں

بس یہی ایک آرزو ہے مری
تیری دنیا سنوار دوں امّاں

جس بھی شیشے میں تیرا پیکر ہو
آئینہ وہ نکھار دوں امّاں

تیری چاہت پہ سر جھکا ڈالوں
اپنی خواہش کو مار دوں امّاں

خواب میں جب بھی زین ڈر جاؤں
چیخ کر میں پکار دوں، امّاں

زین شکیل

*****************

تمام حرف بڑے ہی کرخت بولے تھے
ہمارے ساتھ مگر تم بھی سخت بولے تھے

مجھے تو شامِ جدائی وہ یاد ہے جب ہم
خموش دونوں تھے لیکن درخت بولے تھے

یہ اور بات کہ سویا رہا نصیب اپنا
ہمارے حق میں کئی اور بخت بولے تھے

تمہی نہیں تھے جسے سب سے منفرد کہتا
ہمارے ساتھ سبھی لوگ سخت بولے تھے

یہ زندگی ہے حقیقت میں زندگی لوگو
کہ سر تھا تن سے جدا، پھر بھی لخت بولے تھے

زین شکیل

*****************

ہر شخص کو حالات سنانے نہیں جاتا
تنہائی سے اب ہاتھ ملانے نہیں جاتا

ناراض تو ہو جاؤ مگر ذہن میں رکھنا
میں روٹھنے والوں کو منانے نہیں جاتا

پیڑوں کے تلے بیٹھنا معمول ہے یوں ہی
ہر بات پرندوں کو سنانے نہیں جاتا

جذبات کو تابندگی دے دیتے ہو آ کر
میں روز تمہیں یوں ہی بلانے نہیں جاتا

آتے ہیں مجھے روز سنانے تِری باتیں
میں چھت سے پرندوں کو اڑانے نہیں جاتا

پہلے ہی پریشان رہا کرتا ہے دریا
میں اور اداسی کو بڑھانے نہیں جاتا

آتا ہے عقیدت کا قرینہ مجھے ،اچھا!
دَر دَر پہ چراغوں کو جلانے نہیں جاتا

وہ مجھ سے کبھی بات بھی کرنے نہیں آیا
میں اس سے کبھی آنکھ ملانے نہیں جاتا

اصرار جو کرتے ہو تو کچھ سوچ ہی لوں گا
ورنہ میں کہیں خواب سجانے نہیں جاتا

مانا کہ میں خاموش رہا کرتا ہوں لیکن
میں اس سے کوئی بات چھپانے نہیں جاتا

زین شکیل

*****************

درد بھی راس ہونے لگتا ہے
جب کوئی پاس ہونے لگتا ہے

خود کو پھر عام کرنا پڑتا ہے
جب کوئی خاص ہونے لگتا ہے

جس سے میں دور ہونے لگتا ہوں
وہ مِرے پاس ہونے لگتا ہے

زین شکیل

*****************

یہ ستارے جو لبِ بام نکل آتے ہیں
اس طرح آپ کے پیغام نکل آتے ہیں

کیا کروں ذہن کہیں اور لگاؤں پھر بھی
خود بخود آپ کے اوہام نکل آتے ہیں

جب بھی وہ پیار سے لیتا ہے مرا نام کبھی
لوگ پھر کیوں مرے ہم نام نکل آتے ہیں

وہ جو منہ پھیر کے ہر روز چلا جاتا ہے
اُس کو پھر مجھ سے کئی کام نکل آتے ہیں

ذات کی قید میں اک عمر انہیں رکھتا ہوں
پھر بھی جذبے کئی بے نام نکل آتے ہیں

زین شکیل

*****************

عشق دریا میں نہیں کوئی کنارا یارا
تو نے کس موڑ پہ آ مجھ کو پکارا یارا

کس طرح چاند سجا آ کے ترے ماتھے پر
کیسے اترا تری آنکھوں میں ستارا یارا

جیت کا جشن بھی چھپ چھپ کے منایا تو نے
دیکھ میں کیسے ترے سامنے ہارا یارا

چیخنے لگ گئی اندر کی اداسی مجھ میں
میں نے رو رو کے تجھے اتنا پکارا یارا

ایک بھی پل نہیں کٹتا تھا تجھے دیکھے بن
اب ترے بعد کریں کیسے گزارا یارا

میں تو اب بھی ہوں تری آنکھ سے اوجھل منظر
تُو تو اب بھی ہے مجھے جان سے پیارا یارا

تم بھی اب شہر کی باتوں میں چلے آتے ہو
اب تمہیں کیسے کہوں میں ہوں تمہارا یارا

زین شکیل

*****************

تمہیں دل سے مٹا دینے کا موسم تھا
سو کیا کرتے بھلا دینے کا موسم تھا

ہوا کے زور سے ڈرنا بھی کیا ڈرنا
دیا یوں بھی بجھا دینے کا موسم تھا

ہوائیں ماتمی ہونے لگیں کیونکر
ابھی تو مسکرا دینے کا موسم تھا

زباں تو چپ رہی آنکھیں نہ رہ پائیں
تمہیں سب سے چھپا دینے کا موسم تھا

اسی خاطر تمہیں ہم نے بُلایا ہے
انا کا در گرا دینے کا موسم تھا

مجھے ہی اُس نے افسانہ بنا ڈالا
کوئی قصہ سنا دینے کا موسم تھا

زین شکیل

*****************

بس گئی پھر دل کی بستی خواب میں
دیکھ لی جب ایک ہستی خواب میں

نیند کی وادی تو جل تھل ہوگئی
آنکھ اب کتنا برستی خواب میں

ایک کو میلے سے لے آیا تھا میں
ایک گڑیا ہے ترستی خواب میں

کتنی مہنگی پڑ گئی ہے جاگ کر
تھی یہ دنیا کتنی سستی خواب میں

اب بلندی پر پہنچ جاؤں گا میں
دیکھ لی ہے میں نے پستی خواب میں

وقت کی بے درد ناگن تُو کبھی
کاش مجھ کو صرف ڈستی خواب میں

ہو گیا میں جاگ کر کتنا غنی
کس لئے تھی تنگ دستی خواب میں؟

زین شکیل

*****************

جب بھی کوئی بات چھپانا پڑتی ہے
تب بھی ساری بات سنانا پڑتی ہے

تم بھی تو بس شام کا وعدہ کرتے ہو
ہم کو دن میں شام سجانا پڑتی ہے

بادل چھت سے روز ہی روٹھا رہتا ہے
مجھ کو خود برسات چرانا پڑتی ہے

جب سے وہ شوقین ہوا انگاروں کا
پانی میں بھی آگ جلانا پڑتی ہے

 تنہائی کو بات بتاتا ہوں کچھ اور
لوگوں کو کچھ اور بتانا پڑتی ہے

وہ جو مجھ کو یاد کبھی نہ ہو پائی
اب مجھ کو وہ بات بھلانا پڑتی ہے

ان گالوں کی پیاس بجھانے کی خاطر
آنکھوں سے اک بوند گرانا پڑتی ہے

پہلے تجھ کو خواب میں دیکھا کرتا ہوں
پھر خود کو تعبیر بتانا پڑتی ہے

زین شکیل

*****************

جانے کیا دھڑکتا ہے یار میرے سینے میں
بھر گیا ہے کون اتنا پیار میرے سینے میں

اس نے چھین لی آخر جیت میری آنکھوں سے
رہ گئی ہے باقی اب، ہار میرے سینے میں

اس قدر موثر ہے، عشق میرا مولاسے
خواہشیں جو دیتا ہے،مار میرے سینے میں

بے پناہ محبت سے میں انہیں بلاتا ہوں
پھر بھی بس نہیں پاتے، یار میرے سینے میں

پر کٹا تخیل تھا، سوچ کے پرندوں کا
اس لئے ہی آبکھری، ڈار میرے سینے میں

زین شکیل

*****************

جنوں کو محترم کرنے لگے ہو
سو یوں خود پر ستم کرنے لگے ہو

ابھی تو ایک لہجہ کم ہوا ہے
ابھی سے آنکھ نم کرنے لگے ہو

زمانہ نام لیتا ہے تمہارا
زمانے پر کرم کرنے لگے ہو

بتا دو جرم ہم سے کیا ہوا ہے
جو ہم سے بات کم کرنے لگے ہو

اداسی زین روتی جا رہی ہے
یہ اب کیسا ستم کرنے لگے ہو

زین شکیل

*****************

اے دوست محترم ہوں ذرا احتیاط کر
میں واصلِ کرم ہوں ذرا احتیاط کر

میرے سبب سے عشق کی وحشت ہے چار سو
میں حاصلِ ستم ہوں ذرا احتیاط کر

نقش و نگارِ حُسن مرے مت بگاڑ، سن
میں دین ہوں دھرم ہوں ذرا احتیاط کر

بے چین دن ہوں اور ہوں شامِ فراق بھی
میں ایک چشمِ نم ہوں ذرا احتیاط کر

اب بات بات پر تو اٹھایا نہ کر مجھے
میں یار کی قسم ہوں ذرا احتیاط کر

بے ضابطہ نہیں کہ مری آبرو نہ ہو
باقاعدہ الم ہوں ذرا احتیاط کر

پاتی ہے بس حیات مری ذات سے اجل
میں موت کا جنم ہوں ذرا احتیاط کر

زین شکیل

*****************

دل کی کوئی بھی بات بتایا نہ کر مجھے
میں نے کہا بھی تھا کہ ستایا نہ کر مجھے

ڈرتا ہوں میری لو سے ترا گھر نہ جل اٹھے
شب میں دیا جلا کے بلایا نہ کر مجھے

میں خود بھی دیکھتا ہوں اداسی کے خال و خد
قصے اداسیوں کے سنایا نہ کر مجھے

پھولوں نے مستعار لیا تھا مرا بدن
پھولوں کی نازکی سے چرایا نہ کر مجھے

خود آپ اپنے شوق سے بکھرا ہوں دشت میں
چن چن کے میری خاک، اٹھایا نہ کر مجھے

میں خط نہیں کہ آگ مٹا دےوجودِمَن
ٹکڑوں میں چاہے بانٹ، جلایا نہ کر مجھے

میں گیت تو نہیں ہوں مجھے بھول بھال جا
اپنے حسیں لبوں پہ سجایا نہ کر مجھے

زین شکیل

*****************

ہمارےبارے میں دنیا اسے بتاتی رہے
وہ آ زمانے چلی ہے تو آزماتی رہے

اب اس کا ہجر مری جان ہی نہ لے جائے
اسے کہو کہ مرے شہر آتی جاتی رہے

یقیں کرو کہ مجھے اب یقیں نہیں کرنا
ہوا سناتی ہے جو کچھ مجھے سناتی رہے

تری شبوں میں نہ اتریں عذابِ ہجر کبھی
مگر دعا ہے تجھے چاندنی ستاتی رہے

یہ انتظار ہے کیا بھانولی سے پوچھ کبھی
جو اپنے گھر کو یونہی دیر تک سجاتی رہے

لباس شہر سے لاکر ضرور پہنو مگر
خیال رکھنا کہیں سادگی نہ جاتی رہے

میں بھول جاؤں اگر زین اپنی ذات کبھی
کسی کی یاد مجھے آئینہ دکھاتی رہے

زین شکیل

*****************

شہر والوں کی کوئی بات نہ موڑی اس نے
میری ہر آس بڑے شوق سے توڑی اس نے

اب تو چپ رہنے سے ہوہی گئی اس کو نفرت
میری عادت بھی مرے ساتھ ہی چھوڑی اس نے

دل پہ کیا کیا نہ قیامت ہوئی برپا مت پوچھ
بھیگے بالوں سے جو اک شام نچوڑی اس نے

زین شکیل

*****************

پھر پریشان کر دیا گیا ہوں
کتنا ویران کر دیا گیا ہوں

یعنی میں سانس لے نہیں سکتا
یعنی بے جان کر دیا گیا ہوں

معجزے مجھ کو عام لگتے ہیں
اتنا حیران کر دیا گیا ہوں

تو بھی مشکل سے ہو گیا مشکل
میں بھی آسان کر دیا گیا ہوں

اس سے پہلے بھی دشت جیسا تھا
اور سنسان کر دیا گیا ہوں

زین پہلے تو میں سیا نا تھا
اب تو نادان کر دیا گیا ہوں

زین شکیل

*****************

پیار جتانے آ جانا تھا
آج ستانے آ جانا تھا

بھول چکے ہو یوں لگتا ہے
یاد دلانے آ جانا تھا

شوق سے بچھڑو لیکن پہلے
ہاتھ چھڑانے آجانا تھا

آج مری تم نے مجھ سے ہی
ذات چرانے آجانا تھا

روٹھ چکا ہوں تم سے کل کا
آج منانے آجانا تھا

آج بھی تم نے ہنستے ہنستے
نیر بہانے آجانا تھا

زین گلی میں آخر تم نے
خاک اڑانے آ جا نا تھا

زین شکیل

*****************

تری نگاہ میں کیوں ابر آ ٹھہرتا ہے
یہ کس کے ہاتھ پہ رنگِ حنا ٹھہرتا ہے

میں جس کے واسطے ہر اہتمام کرتا ہوں
وہ شخص مجھ سے بڑی دور جا ٹھہرتا ہے

یہ پیڑ جھک کے اسے دیکھتے ہی رہتے ہیں
جب ان کی چھاؤں میں وہ دلربا ٹھہرتا ہے

یہ لوگ شہر کے جھک جھک کے مجھ سے ملتے ہیں
وہ شخص جب بھی مرے پاس آ ٹھہرتا ہے

زین شکیل

*****************

اک تری یاد کو بس رختِ سفر جانا ہے
ہم نے پتھر کو بہر طور گہر جانا ہے

جس طرح کٹتی گئی رات بھی خاموشی سے
اس طرح ہم نے کسی شام گزر جانا ہے

چاند کو ہم نے بتانا ہے ترے بارے میں
آج تو ہم نے بڑی دیر سے گھر جانا ہے

زین اس کو تو اجاڑا ہے کئی صدیوں نے
ایک لمحے میں کہاں اس نے سنور جانا ہے

اور پھر میرے سوا کون سہے گا اس کو
اور پھر اس کے سوا میں نے کدھر جانا ہے

زین مالاسا ہمیں اس نے پرو رکھا ہے
ہم نے چپ چاپ کسی روز بکھر جانا ہے

زین شکیل

*****************

پھیلی ہے جو آنکھوں میں وہ لالی تو نہیں ہے
موجود ہے تُو دل میں خیالی تو نہیں ہے

تعویز محبت سے بچاؤ کا بھلا کیوں؟
میں نے یہ مصیبت کبھی پالی تو نہیں ہے

دل تیرے تبسم کا طلبگار رہا ہے
ورنہ وہ کسی در کا سوالی تو نہیں ہے

میں خاص سے لوگوں میں بڑا عام ہوں لیکن
توخوب سہی اتنا مثالی تو نہیں ہے

چاہا ہے مجھے اُس نے محبت سے بھی زیادہ
کیا یہ بھی مری خام خیالی تو نہیں ہے؟

واقف ہوں فقط میں ہی نگاہوں کے ہنر سے
یہ بات کہیں تو نے اچھالی تو نہیں ہے؟

میں نے تو ترے خط بھی جلائے نہیں اب تک
تو نے بھی کوئی یاد سنبھالی تو نہیں ہے؟

شاید تری دستک سے ہی کھل جائے کوئی دَر
اب زینؔ یہاں گھر کوئی خالی تو نہیں ہے

زین شکیل

*****************

تو سمندر، کوئی دھارا تو نہیں ہو سکتا
یہ محبت ہے کنارا تو نہیں ہو سکتا

دور ہونے سے محبت تو نہیں مر جاتی
پاس رہنا کوئی چارہ تو نہیں ہو سکتا

گرد چہرے پہ مسافت کی بھی ہو سکتی ہے
اب میں ہر کھیل میں ہارا تو نہیں ہو سکتا

میرے جیتے بھی تمہارا جو نہیں ہو پایا
میرے مرنے پہ تمہارا تو نہیں ہو سکتا

تو نے اس شہر کے آداب تو سیکھے لیکن
یوں مِری جان گزارا تو نہیں ہو سکتا

دل کو یہ کہہ کے دلاسہ میں دیے جاتا ہوں
ہر کوئی شخص ہمارا تو نہیں ہو سکتا

زین شکیل

*****************

اس کی آنکھوں میں کوئی خواب ہمارا بھی نہیں
اور پلکوں پہ کوئی چاند اتارا بھی نہیں

ہم بھی چپ چاپ اسے جاتے ہوئے دیکھتے تھے
اس نے دیکھا بھی نہیں، ہم نے پکارا بھی نہیں

ایسی تعبیر کو لے کر میں کہاں پھرتا رہوں
اس کے ملنے کا تو خوابوں میں اشارہ بھی نہیں

تیری گلیوں میں تو ہم چاند لیے گھومتے تھے
اب تو ہاتھوں میں کوئی ایک ستارہ بھی نہیں

تم سے ملنا بھی بہر حال ہمیں ہے تو سہی
اس قدر بھیڑ میں لیکن یہ گوارہ بھی نہیں

زین شکیل

*****************

مرے پاس آ مرے ہمنوا ابھی عید ہے
تو گلے تو مل ذرا مسکرا ابھی عید ہے

یہ جو دل جو ہے نا، یہاں رنجشوں کو جگہ نہ دے
اسے صاف رکھ، مرے دوستا ابھی عید ہے

تو جو پھول ہے کسی باغ کا سو مہک ذرا
تُو غموں کی دھوپ کو بھول جا ابھی عید ہے

یہ جو عید ہے یہ وصال رُت کی نوید ہے
اسے دردِ ہجر میں مت گنوا ابھی عید ہے

یہ جو زین غم کی بڑھاس ہے ، کسے راس ہے
سبھی درد بھول کے مسکرا ابھی عید ہے!

زین شکیل

*****************

ہم ہی ہو جائیں ترے شہر ، در بدر کیونکر
جب دلاسہ ہی نہیں ہے تو کوئی در کیونکر

اور کیا شہر میں تنہا کوئی رہتا ہی نہیں
زین آتی ہے اداسی یہ مرے گھر کیونکر

زین شکیل

*****************

سوچ رہا ہوں تجھ سے ناتا توڑوں میں
آپ پھر اپنے ٹکڑے کیسے جوڑوں میں

آپ تو میری ہستی کا سرمایہ ہیں
آپ سے ملنا جلنا کیسے چھوڑوں میں

آپ بذاتِ خود آئے ہیں بسم اللہ
دوسری جانب چہرہ کیسے موڑوں میں

زین شکیل

*****************

درد جتنے ہیں میرے ذاتی ہیں
یہ ادھارے نہیں قسم لے لو

وہ جو تم دے کے بھول جاتے ہو
وہ سہارے نہیں قسم لے لو

اک ترے بعد رات آ ٹھہری
دن گزارے نہیں قسم لے لو

تیری خاطر جہاں سے لڑتے ہیں
اب بھی ہارے نہیں قسم لے لو

جس قدر بھی حسیں مناظر ہیں
تم سے پیارے نہیں قسم لے لو

زین شکیل

*****************

آ سہانی سی شام والے آ
اے سنہری سے نام والے آ

آ کہ اب صبر ہو نہیں سکتا
ضبط کے اہتمام والے آ

آ کہ بکنے پہ میں بھی راضی ہوں
آ جا اچھے سے دام والے آ

مجھ پہ چین و سکوں نہیں جچتا
درد کے انتظام والے آ

آ مری تشنگی کا چارہ کر
آ نگاہوں کے جام والے آ

آ کہ مدت گزر گئی اب تو
میرے دل میں قیام والے آ


زین شکیل

*****************

میں بھی دن رات سرابوں میں پڑا رہتا ہوں
آنکھ کھلنے پہ بھی خوابوں میں پڑا رہتا ہوں

میں نے وعدے تو ترے گن کے نہیں رکھے تھے
جانے پھر کیسے حسابوں میں پڑا رہتا ہوں

تجھ سے پہلے بھی عذابوں میں پڑا رہتا تھا
تو نہیں ہے تو عذابوں میں پڑا رہتا ہوں

میری محفل میں تو بس دکھ ہی پڑے رہتے ہیں
اتنا اچھا ہوں خرابوں میں پڑا رہتا ہوں

جب وہ ملنے کی کوئی بات نہیں کرتا ناں
میں بھی چپ چاپ حجابوں میں پڑا رہتا ہوں

زین شکیل

*****************

تیرے بنا تو اب ہم خوش خوش کیا رہتے
تیرے بنا تو ہے خود غرضی، خوش رہنا

چاہو جہاں رہو تم پردیسی ساجن
میری فقط ہے اتنی عرضی، خوش رہنا

تم بھی کرو ہو افسانوں جیسی باتیں
چھوڑو سبھی یہ باتیں فرضی، خوش رہنا

تم نے یہاں سے ہجرت کی بس ٹھانی ہے؟
اچھا چلو تمہاری مرضی، خوش رہنا

زین شکیل

*****************

روتے روتے مسکرانا چاہئیے
درد کو ایسے نبھانا چاہئیے

پا لیا حد سے سوا میں نے اسے
سوچتا ہوں اب گنوانا چاہئیے

پھر اسے آنا نہیں ہے لوٹ کر
پھر اسے کوئی بہانہ چاہئیے

چاہتا بھی ہے مجھے پھر کیوں اسے
ہر تعلق غائبانہ چاہئیے

کیوں مجھے اس کی طلب رہنے لگی
وہ جسے سارا زمانہ چاہئیے

عشق ہونادر حقیقت جیت ہے
اس میں سب کچھ ہار جانا چاہئیے

کر لیا تسلیم میں نے ہجر کو
اس کو لیکن آنا جانا چاہئیے

وہ پرانے زخم مجھ کو راس تھے
پھر مجھے چہرہ پرانا چاہئیے

زین شکیل

*****************

تمہارے واسطے جنجھوڑنے پڑے سگریٹ
تم آ گئے تو مجھے توڑنے پڑے سگریٹ

اداس شام وہی اور رقصِ تنہائی
با ایں ہمہ بھی مجھے چھوڑنے پڑے سگریٹ

 میں اس سے پہلے تو بد عہد ہی رہا لیکن
یہ آج کس کے سبب موڑنے پڑے سگریٹ

بنا گیا تھا دھواں اک فصیل یادوں کی
مجھے بھی سر کی جگہ پھوڑنے پڑے سگریٹ

نہ ٹوٹ جائے کوئی سلسلہ کسی لمحے
تمہاری یاد سے پھر جوڑنے پڑے سگریٹ

زین شکیل

*****************

ہمارے پاس آؤ مسکراؤ
ہمیں دکھڑے سناؤ مسکراؤ

تمہارے دل میں بسنا چاہتے ہیں
ہمارا گھر بساؤ مسکراؤ

مری آنکھیں ترستی ہیں خدارا
کبھی نظریں ملاؤ مسکراؤ

کوئی قصہ پرانا سا سمجھ لو
ہمیں تم بھول جاؤ مسکراؤ

ہماری بھی تو آنکھیں مسکرائیں
کبھی تم لب ہلاؤ مسکراؤ

اداسی جان کو ڈستی رہے گی
چلو سب بھول جاؤ مسکراؤ

زین شکیل

*****************

گزر چکا ہوں کسی لامکاں سے،پہلے ہی
یقین کر لیا میں نے گماں سے پہلے ہی

مجھے زمین پہ رہنے کا شوق ہی کب تھا
گرا ہوا ہوں کسی آسماں سے، پہلے ہی

یہ آپ اپنے کرم اپنے پاس ہی رکھئیے
میں مل چکا ہوں کسی مہرباں سے، پہلے ہی

مریدِ عشق ہوں دکھلاؤ مت درِ دنیا
میں منسلک ہوں کسی آستاں سے، پہلے ہی

سو اب وہ مجھ کو یونہی خرچ کرتا رہتا ہے
بچا کے رکھا تھا جس نے، ضیاں سے پہلے ہی

یہ کس لیے ہے جگر زخم زخم بولوتو
یہ تیر کس نے چلایا، کماں سے پہلے ہی

اُسی نے دیر لگا دی تھی زین آنے میں
میں آگیا تھا کوئے دلبراں سے، پہلے ہی

زین شکیل

*****************

تیرے پہلو میں شام کرتا ہوں
رات کا اہتمام کرتا ہوں

مانتا ہوں میں ہجر کو مرشد
ہجر کا احترام کرتا ہوں

اک تجھے یاد پھرتری باتیں
بس یہی ایک کام کرتا ہوں

مور کے پنکھ ہیں کتابوں میں
حسن کا احترام کرتا ہوں

یار بدلے ہوئے ہیں سو میں بھی
دور سے ہی سلام کرتا ہوں

لفظ ہونٹوں پہ آ نہیں پاتے
جب بھی تم سے کلام کرتا ہوں

ہے محبت مجھے پرندوں سے
زین میں نیک کام کرتا ہوں

زین شکیل

*****************

بکھری ہیں میرے گھر میں وہ بے رنگ چوڑیاں
کرتی ہیں میرے ساتھ سدا، جنگ، چوڑیاں

برسوں سے میرے کان میں کھن کھن ہے آج بھی
کرتی ہیں کتنا شور وہ بے ڈھنگ چوڑیاں

سُونی کلائیاں بھی نشانی ہیں سوگ کی
ہر سو خوشی تھی جب تھیں ترے سنگ چوڑیاں

تو نے کسی کے نام کے کنگن پہن لیے
کرتی رہیں گی تجھ کو سدا تنگ چوڑیاں

جاتے ہوئے وہ میز پر کیوں زین دھر گیا
یہ سوچتی ہیں اب بھی مرے سنگ چوڑیاں

زین شکیل

*****************

دیکھو ہم نے چاند ستارہ لکھا ہے
لیکن تم کو سب سے پیارا لکھا ہے

میری جاں لینے کو لوگ آ جاتے ہیں
جب بھی تم کو جان سے پیارا لکھا ہے

ڈوبا ہے جو ایک منافع ،تُو ہی تھا
خود کو تیرے بعد خسارہ لکھا ہے

تم تو مجھ سے آدھا ملنے آئے تھے
میں نے پھر بھی تم کو سارا لکھا ہے

خط میں بھی ہم اور بھلا اب کیا لکھتے
ہم نے خود کو صرف تمہارا لکھا ہے

جس کے دم سے زینؔ اداسی قائم ہے
میں نے اس کو ایک سہارا لکھا ہے

زین شکیل

*****************

سارے موسم ہیں یہاں اب تو سزاؤں والے
جانے کس دیس گئے لوگ دعاؤں والے

جانے تم کس لیے مغرور ہوئے پھرتے ہو
تم نے دیکھے ہی نہیں لوگ اداؤں والے

ابر بھی ہو کے گریزاں ہی گزر جاتا ہے
پیڑ بھی جل ہی گئے شہر کے، چھاؤں والے

کون اب درد کی جلتی ہوئی لُو روکے گا
سارے آنچل ہی دریدہ ہیں، ہواؤں والے

زین شکیل

*****************

ہو سکتی نہیں جس کی کوئی بات علیحدہ
اس شخص سے اب کیسے کریں ذات علیحدہ

تم ہم سے تو ہم تم سے کریں کوئی گلہ کیوں
پہلے تو ہوا کرتے تھے حالات علیحدہ

ہر شخص کو ہر بات بتاتا ہے وہ لیکن
کرتا ہی نہیں مجھ سے کوئی بات علیحدہ

آ ٹھہرتی ہے دل میں اداسی کی کوئی رُت
آنکھوں میں لگی رہتی ہے برسات علیحدہ

تم بھی تو نہیں کرتے رہے ہجر کا ماتم؟
کیا تم نے گزاری ہے کوئی رات علیحدہ؟

وہ شخص، زمانے میں کہیں کھویا ہوا ہے
ہے جس کی زمانے سے ہر اک بات علیحدہ

اچھا نہیں لگتا اسے تنہائی میں رہنا
اب کیسے کریں اس سے ملاقات علیحدہ

زین شکیل

*****************

جذبہء عشق ہے بے جان نہیں ہو سکتا
اب میں ہر بات پہ حیران نہیں ہو سکتا

یوں مجھے چھوڑ کے ہر روز چلے جاتے ہو
جیسے میرا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا

ایک مدت سے کوئی خواب نہیں آیا ہے
آنکھ جتنا کوئی ویران نہیں ہو سکتا

ہے ترے ذکر سے دنیا مری اجلی اجلی
اب میں راہوں سے پریشان نہیں ہو سکتا

ایک ہی شخص رگ ِجاں میں سمایا ہوا ہے
ہر کوئی شخص مری جان نہیں ہو سکتا

میری یادوں میں وہ تا دیر تڑپنے والا
میرے زخموں سے تو انجان نہیں ہو سکتا

زین شکیل

*****************

وہ بہت دور کھڑی تھی، جو تھی!
اتنی حیرت بھی بڑی تھی، جو تھی!

تھا وہ بے فیض کوئی در، جو تھا
اور وہ اُس پہ پڑی تھی، جو تھی!

خود سے مل کر یہ کھُلا ہے مجھ پر
تیرے ملنے کی گھڑی تھی، جو تھی!

کس طرح تجھ کو بتاؤں، تجھ بن
رات وہ کتنی بڑی تھی، جو تھی!

دیکھنے کو میں اسے آ یا تھا
وہ بھی بے چین کھڑی تھی، جو تھی!

اب تری زلف بھی یاد آتی ہے
بے وجہ مجھ سے لڑی تھی، جو تھی!

زین شکیل

*****************

مری ذات مجھ سے جدا نہ کر، مجھے مل کبھی
یونہی خود کو مجھ سے خفا نہ کر، مجھے مل کبھی

یہ جو شام ہے یہ سجی ہے تیرے خیال سے
سو یہ وقت یونہی قضا نہ کر، مجھے مل کبھی

کہیں تجھ سے دور میں رہ سکوں، کہیں بس سکوں
مرے حق میں ایسی دعا نہ کر، مجھے مل کبھی

یہ جو شہر ہے یہ تماش بینوں کا شہر ہے
یہاں ہر کسی سے ملا نہ کر، مجھے مل کبھی

مرے سوہنیا مری چاہتوں کا حساب رکھ
مرا ہر کسی سے گلہ نہ کر، مجھے مل کبھی

زین شکیل

*****************

مجھے ہنسنا نہیں آتا، ملو مجھ سے
کوئی چہرہ نہیں بھاتا، ملو مجھ سے

وہ اک زخمِ جدائی جو دیا تم
سہا مجھ سے نہیں جاتا، ملو مجھ سے

تمہارے بن اداسی ہی اداسی ہے
سو میں تنہا کہاں جاتا، ملو مجھ سے

مرا غیروں سے کب ہے واسطہ کوئی
مرا بس تم سے ہے ناتہ، ملو مجھ سے

جو تم آتے تو کوئی بات بھی ہوتی
کسے میں زخم دکھلاتا، ملو مجھ سے

زین شکیل

*****************

پھر تو پیڑوں سے بھی دو نام مٹا دینے تھے
تو نے گر عہد مرے دوست بھلا دینے تھے

آج ہی چاند نے بادل میں نہاں رہنا تھا
آج ہی رات نے تارے بھی سُلا دینے تھے

آگ میں جھونک کے جانا تھا مری آنکھوں کو
جاتے جاتے مرے جذبے بھی جلا دینے تھے

میرے کہنے کا کہاں اس نے بھرم رکھنا تھا
اس نے محفل سے کہاں لوگ اٹھا دینے تھے

اے مرے خوفزدہ ! رات میں آجاتے ناں!
میں نے راہوں میں کئی دیپ جلا دینے تھے

میرے انکار نے کرنا تھا مجھے ہی رسوا!
اس نے اک پل میں کئی اشک بہا دینے تھے

یہ سمندر ہی اجازت نہیں دیتا ورنہ
میں نے پانی پہ ترے نقش بنا دینے تھے

جانے کیوں آبِ محبت میں مجھے ہی اس نے
گھول کر درد کے تعویز پلا دینے تھے!

زین شکیل

*****************

پھٹے ہوئے لباس سے تو شخصیت نہ تولیے
خدا کا خوف کھائیے ، نہ بد کسی کو بولیے

کوئی دلیل معتبر نہیں ہے عشق سامنے
محبتوں کی جھیل میں یوں زہر تو نہ گھولیے

اداس ہے نظر تو روح میں بھی اک فشار ہے
اجڑ چکے بہت ہمیں مزید تو نہ رولیے

ہے جسم و جاں کو ڈس رہا یہ سلسلہ سکوت کا
حضور آپ چپ کھڑے ہیں کیوں؟ لبوں کو کھولیے!

یہ کیا کہ رقصِ خامشی رہے ہمارے چارسُو
ذرا سماعتوں میں رَس محبتوں کے گھولیے

جو ڈس گئے، تو اب یہ اپنے آپ پر ملال ہے
کہ پالتے رہے تھے آستیں میں ہم سپولیے

دھیان اس کا اور ہی طرف تھا پھر بھی جانے کیوں
وہ مجھ سے کہہ رہی تھی، جی میں سن رہی ہوں بولیے

زین شکیل

*****************

زمانے بھر کو نہ دکھ سناتے، مجھے بتاتے!
قریب ایسے نہ رنج آتے، مجھے بتاتے!

ترس رہی تھی تمہاری آواز کو سماعت
سو جھوٹی باتیں ہی تم بناتے، مجھے بتاتے!

بہت کہا تھا تمہیں زمانہ نہیں سہے گا
سو یوں نہ ہوتا جو پاس آتے، مجھے بتاتے!

کوئی جو روٹھا تو رو پڑے ناں، تمہیں کہاتھا
مجھے رلاتے، مجھے ستاتے، مجھے بتاتے!

بڑی محبت سے پیش آتا، تمہیں ہنساتا
پھر ایک چاہت کا گھر بناتے، مجھے بتاتے!

ہے میرے دل میں بھی بےقراری، قسم تمہاری
یونہی اکیلے نہ خوں جلاتے ، مجھے بتاتے!

تمہاری خاطر میں لوٹ آتا، تمہاری سنتا
بس اک دفعہ تم مجھے بلاتے، مجھے بتاتے

زین شکیل

*****************

آج پھر ہوش ٹھکانے لگے ہیں
آپ کو دل سے بھلانے لگے ہیں

ہم جسے سب کو بتاتے رہے تھے
آپ وہ بات چھپانے لگے ہیں

میں کہاں ہوں، مجھے لائو کہیں سے
وہ بڑی دور سے آنے لگے ہیں

اے غمِ دنیا ذرا ٹھہر تو جا
ہم انہیںرو کے منانے لگے ہیں

نیند تم ہی نہ چلی جانا کہیں
آج وہ خواب میں آنے لگے ہیں

وہ تو سج دھج کے بھی اجڑا ہی رہے
ہم بھی کس گھر کو سجانے لگے ہیں

تو نے پل بھر میں جو اک بات سنی
مجھ کو کہنے میں زمانے لگے ہیں

ایک تعبیر مٹانے کے لئے
خواب کو آگ لگانے لگے ہیں

دیکھ لو سانس نکلنے لگی ہے
ہم تمہیں چھوڑ کے جانے لگے ہیں

زین شکیل

*****************

دل اپنا رنجور ہوا ہے، حد ہے ناں
تُو بھی ہم سے دور ہوا ہے، حد ہے ناں

تک تک راہیں ہار گئی ہے اک داسی
اک راجہ مہجور ہوا ہے، حد ہے ناں

اس نے چاہے جھوٹ ہی بولاہو مجھ سے
دل پھر بھی مغرور ہوا ہے، حد ہے ناں

مدت سے جو درد جگر میں مخفی تھا
مانگ کا اب سیندور ہوا ہے، حد ہے ناں

ہر جانب ہے صرف انا الحق کی آواز
ہر ذرہ منصور ہوا ہے، حد ہے ناں

دل بھٹکا تھا ایک تجلّی کی خاطر
اور اب جل کے طور ہوا ہے، حد ہے ناں

اب تو اپنی نیند بھی زخمی زخمی ہے
ہر سپنا معزور ہوا ہے، حد ہے ناں

زین شکیل

*****************

تمہیں یہ ظلم کرنا آ گیا ہے؟
محبت سے مکرنا آ گیا ہے؟

وہی بس! ہاں وہی! کرتی تھی جو تم
مجھے وہ جادو کرنا آ گیا ہے

خدا جانے یہ کیسے ہو گیا پر
مجھے دل میں اترنا آ گیا ہے

بتاؤ آئینے توڑے ہیں کتنے
تمہیں جو یوں سنورنا آ گیا ہے

تمہاری آس میں جیتے ہوئے اب
ہمیں بھی روز مرنا آ گیا ہے

وہاں سے اب گزرنا پڑ رہا ہے
جہاں تم کو ٹھہرنا آ گیا ہے

مجھے بھی تیری یادوں کی گلی میں
خموشی سے بکھرنا آ گیا ہے

زین شکیل

*****************

درِ سخا بھی ابھی تک ترا کھلا ہی نہیں
ہمارے لب پہ تو یوں بھی کوئی دعا ہی نہیں

ہمیں تو ایک اسی کی طلب ہی جاتی نہیں
کہ جسکا ایک محبت پہ اکتفا ہی نہیں

ابھی یہ لوگ مگن ہیں حروف تولنے میں
ابھی تو شہر نے لہجہ مرا سنا ہی نہیں 

مجھے تو یوں بھی مری جان سے عزیز ہو تم
یہ بات الگ ہے کوئی تم سا دلبربا ہی نہیں

بس ایک چھوٹا سا آنگن ، تمہاری یاد اور میں
مرے مکاں میں اداسی کی انتہا ہی نہیں

بچھڑ کے مجھ سے وہ شاید بہت اداس رہے
کبھی میں پہلے اسے چھوڑ کر گیا ہی نہیں

وہ چاہتا ہے کہ بس اس کی دسترس میں رہوں
اسی کے لب پہ مرے نام کی صدا ہی نہیں

اُسے اب اپنے ہی ہاتھوں گنوا کے سوچتے ہیں
ہمارا اُس کے علاوہ تو کوئی تھا ہی نہیں

زین شکیل

*****************

یوں کہانی تو سنانی نہیں آتی مجھ کو
کیا کروں بات گھمانی نہیں آتی مجھ کو

کر دیا کرتے ہیں آنسو مرے غم کو ظاہر
اک نشانی بھی چھپانی نہیں آتی مجھ کو

عشق کرتب تو نہیں ہے مِرے معصوم صِفَت
جھیل میں آگ لگانی نہیں آتی مجھ کو

تم بھی اب دن میں ملاقات کی زحمت کرنا
چاندنی رات چرانی نہیں آتی مجھ کو

اپنی جانب تجھے کس ڈھب سے کروں گا مائل
اک توجہ بھی دلانی نہیں آتی مجھ کو

وہ جو پہلے بھی بتاتے ہوئے دل ڈرتا تھا
اب بھی وہ بات بتانی نہیں آتی مجھ کو

دن نکلنے کو ہے سو جاؤ خدارا اب تو
کوئی پریوں کی کہانی نہیں آتی مجھ کو

زین شکیل


*****************



لگتی ہے ہر بار قسم سے

یہ دنیا بے کار قسم سے



اکثر بوجھ بنے رہتے ہیں

سارے رشتے دار قسم سے



دنیا بھی جھوٹی لگتی ہے

سچے ہیں بس یار قسم سے



دیکھو ناں بس میں کرتا ہوں

تم سے اتنا پیار قسم سے



تیرے میرے بیچ زمانہ

بن بیٹھا دیوار قسم سے

دل کملا، دل پاگل، جھلّا
آنکھیں زار و زار قسم سے

ہم دونوں کو آخر دے گا
یار! وچھوڑا مار قسم سے

زین شکیل

*****************



ہر طرف ان کے جلووں کی برسات ہے، واہ کیا بات ہے!

آج چھٹنے کو پھر ابرِ ظلمات ہے، واہ کیا بات ہے!



حالتِ وجد میں پھر مری ذات ہے، واہ کیا بات ہے!

ان کے ہونٹوں پہ بس اک مری بات ہے، واہ کیا بات ہے!



آج پھر خواب میں ان کے ملنے کا مجھ کو اشارہ ملا

برگذیدہ بہت آج کی رات ہے، واہ کیا بات ہے!



گر مزاجِ محبت میں تلخی کا عنصر ذرا بھی نہ ہو

اہلِ دل کے لیے یہ بھی سوغات ہے، واہ کیا بات ہے!



بال شانوں پہ بکھرے ہوئے،آنکھ کجلائی، اُف کیا بنے!

حُسن بیٹھا لگا کر نئی گھات ہے، واہ کیا بات ہے!

دیر تک میری نظمیں پڑھیں اس نے پھر جھوم کر یہ کہا
ہائے کیا بات ہے! یار کیا بات ہے! واہ کیا بات ہے!

زین شکیل

*****************

چلتا پھرتا ہوا وہ تم نے جو غم دیکھا تھا
کون کہتا ہے کہ تم نے مجھے کم دیکھا تھا

آئینہ آج اٹھایا تو بہت روتے رہے
اپنی صورت کی جگہ ہم نے الم دیکھا تھا

آج کی رات وحی درد بھری اترے گی
آج پھر آپکی آنکھوں کو جو نم دیکھا تھا

اب جو ہر بات پہ روتے ہوئے ہنس دیتا ہے
جانے اس شخص نے کس طرز کا غم دیکھا تھا

تھام کر ہاتھ سلیقے سے گرا دیتے تھے
شہر والوں کا کئی بار کرم دیکھا تھا

عشق میں دو کا تصور نہیں ہو سکتا ناں
ہم نے اک ذات میں اک ذات کو ضم دیکھا تھا

زین شکیل


*****************

حیرتِ عشق سے نکلوں تو کدھر جاؤں میں
ایک صورت نظر آتی ہے جدھر جاؤں میں

یہ بھی ممکن ہے کہ ہر سانس سزا ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے جدائی میں سنور جاؤں میں

یوں مسلسل مجھے تکنے کی نہ عادت ڈالو
یہ نہ ہو آنکھ جو جھپکو تو بکھر جاؤں میں

کیا ترے دل پہ قیامت بھی بھلا ٹوٹے گی؟
گر تجھے دیکھ کے چپ چاپ گزر جاؤں میں

دیکھو انجام تو دینے ہیں امورِ دنیا
جی تو کرتا ہے ترے پاس ٹھہر جاؤں میں

تھام رکھا ہے جو تُو نے تو سلامت ہے بدن
تُو اگر ہاتھ چھڑا لے تو بکھر جاؤں میں

جس قدر بگڑا ہوا ہوں میں یہی سوچتا ہوں
کب ترے ہاتھ لگوں اور سُدھر جاؤں میں

کون ہے ، بول مرا، میری اداسی ! تجھ بن
تُو بھی گر پاس نہ آئے تو کدھر جاؤں میں

یہ مری عمر فقط چاہ میں تیری گزرے
مر نہ جاؤں جو ترے دل سے اتر جاؤں میں

زین شکیل

*****************

یہی ملال مجھے بولنے نہیں دیتا
تمہارا حال مجھے بولنے نہیں دیتا

بہت خوشی میں بہت ہی اداس رہتا ہوں
غموں کا کال مجھے بولنے نہیں دیتا

تمہاری یاد بہت چیختی ہے آ آ کر
کوئی خیال مجھے بولنے نہیں دیتا

وہ میرے حق میں بھی قفلِ زبان توڑے گا
یہ احتمال مجھے بولنے نہیں دیتا

مری نظر سے وہ ہر بات جان لیتا ہے
یہی کمال مجھے بولنے نہیں دیتا

میں بولتا تو قسم سے شہر میں چھا جاتا
کوئی وبال مجھے بولنے نہیں دیتا

وہ جب بھی پوچھتا ہے خواب کیوں سجاتے ہو
تو یہ سوال مجھے بولنے نہیں دیتا

زین شکیل


*****************





دیا ہم بھی جلا لیتے، جو تم آتے

ذرا سا مسکرا لیتے، جو تم آتے



کسی کو دیکھنے بالکل نہیں دیتے

کہیں خود میں چھپا لیتے، جو تم آتے



تو پھر اب کیا ہوا جو روشنی کم ہے

کوئی جگنو بلا لیتے، جو تم آتے

اگر صحرا مِرا گھر ہے تو پھر کیا ہے
گلی دل کی سجا لیتے، جو تم آتے

تمہیں ، تم بھی میسر ہو نہیں پاتے
تمہیں تم سے چرا لیتے ، جو تم آتے

ہمیں اس درد میں تسکین مل جائے
یہ ہم تم سے دعا لیتے، جو تم آتے

زین شکیل

*****************

دل مچلنے لگا ہے بولو کچھ
چاند ڈھلنے لگا ہے بولو کچھ

درد مجبور آدمی بن کر
ہاتھ ملنے لگا ہے بولو کچھ

کون ہے بن کے میرا سایہ جو
ساتھ چلنے لگا ہے بولو کچھ

تم جو بولے تو چین آیا تھا
درد ٹلنے لگا ہے، بولو کچھ


زین شکیل


*****************

جابجا بکھرتی ہے شب اداس لوگوں کی
آنکھ میں اترتی ہے شب اداس لوگوں کی

بادلوں میں رکھتی ہے دکھ کئی زمانوں کے
دیر تک برستی ہے شب اداس لوگوں کی

چھپ کے ایک تکیے میں اشک روتے رہتے ہیں
اس طرح گزرتی ہے شب اداس لوگوں کی

درد شب اسیروں سے خوب عشق کرتا ہے
درد میں نکھرتی ہے شب اداس لوگوں کی

بے قرار حالت میں مضطرب سے اس دل کے
صحن میں ٹہلتی ہے شب اداس لوگوں کی

بے کلی کے مارے یہ دن کا بین سنتے ہیں
آہ بھرتی رہتی ہے شب اداس لوگوں کی

زین شکیل

*****************



میری ہر بات پہ حیران نہ ہونا پاگل
کچھ بھی ہو جائے پریشان نہ ہونا پاگل

جیسے میں ٹوٹے ہوئے خواب لیے پھرتا ہوں
اس طرح تم کبھی ویران نہ ہونا پاگل

لوگ پھر اور مصائب میں دھکیلیں گے تمہیں
ہر کسی کے لیے آسان نہ ہونا پاگل

تیری وسعت مجھے تسکین عطا کرتی ہے
یوں ہرے رہنا بیابان نہ ہونا پاگل

مجھ کو آواز کبھی دو گے تو لوٹ آؤں گا
مطمئن رہنا پریشان نہ ہونا پاگل

ایسے تنہائی میں رہ کر نہ گنوانا خود کو
اپنے ہی واسطے نقصان نہ ہونا پاگل

زین شکیل

*****************

محبت تھی یہ نادانی نہیں تھی
ہمیں تو خود پہ حیرانی نہیں تھی

مرے دل سے محبت تھی اسے بس
مری صورت کی دیوانی نہیں تھی

محبت میں بڑی کٹھنائیاں تھیں
میسر کوئی آسانی نہیں تھی

بڑا ہی متقی لہجہ تھا اس کا
بس اس کی بات یزدانی نہیں تھی

تمہاری آنکھ نم ہونے سے پہلے
ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی

بقا ملتی تو تم کو سونپ دیتے
ہماری عمر لافانی نہیں تھی

زین شکیل

*****************

تمہاری یاد اتاری ہے دور تک خود میں
اداس ہونے کی صورت نکال لی میں نے

تم آؤ کام سبھی کل پہ ڈال دیتا ہوں
تمہارے واسطے فرصت نکال لی میں نے

نہیں تھا خواب میں بھی حوصلہ بچھڑنے کا
سو خواب سے تری فرقت نکال لی میں نے

وہ پوچھ بیٹھا تھا کیا لائے ہو مری خاطر
تو جھٹ سے ساری محبت نکال لی میں نے

زین شکیل


*****************





پیارا ہے، دلربا ہے وہ چاہیں نہیں تو کیا کریں
پھیلا ہے چار سو وہی سوچیں نہیں تو کیا کریں

نازوں سے پاس آئے گا، لاڈوں سے وہ منائے گا
ایسی ادائیں دیکھ کر، روٹھیں نہیں تو کیا کریں

پوچھا تھا اس نے آج یہ روتے ہو کیوں تو یہ کہا
دکھ وہ جو بے حساب ہیں، بھولیں نہیں، تو کیا کریں

وہ کوئی چاند تو نہیں ابر میں جا چھپے گا جو
نظروں سے ہٹ نہ پائے وہ، دیکھیں نہیں تو کیا کریں

کہتا ہے بس جدا ہمیں، سارے شہر سے اِک وہ شخص
سارے ہی لوگ اب ہمیں پرکھیں نہیں تو کیا کریں

رگ رگ میں دوڑتا ہے جو، سانسوں میں جس کا وِرد ہے
جاں سے اسے عزیز تر، مانیں نہیں تو کیا کریں

زین شکیل

*****************



میری یادیں سنبھال رکھتے ناں
کچھ تو میرا خیال رکھتے ناں

اس طرح چیخنے سے کیا ہوگا
کوئی خود میں کمال رکھتے ناں

واقعی روئے تھے مری خاطر؟
اپنی آنکھیں تو لال رکھتے ناں

دوریاں بے سبب بڑھیں اپنی
رابطہ تو بحال رکھتے ناں

زین شکیل

*****************



بے زبانوں سے کسی طور صدائیں مانگوں
شوق سے اپنے لیے روز سزائیں مانگوں

تو بھی کیوں ایک ہی امید لگائے رکھے
میں بھی کب تک ترے ملنے کی دعائیں مانگوں

شاید اب یوں ہی اندھیروں سے نکل آئوں میں
سوچتا ہوں ترے چہرے کی ضیائیں مانگوں

ہجر کی دھوپ کڑی جب بھی جلاتی ہے بدن
میں تڑپ کر ترے دامن کی ہوائیں مانگوں

پہلے خود جرمِ محبت کی سزا ئیں مانگیں
اب بتائو کہ میں کس منہ سے جزائیں مانگوں

تُو بھی کیا سادہ ہے لوگوں پہ یقیں کرتا ہے
جا تری خیر رہے، رب سے دعائیں مانگوں

زین شکیل

*****************



زخم سارے ہی بھر دیے میں نے
سُکھ تری سمت کر دیے میں نے

وہ مرے سنگ تھا اداس تو پھر
رابطے ختم کر دیے میں نے

دکھ اٹھائے تو اپنے سارے سُکھ
اس کی چوکھٹ پہ دھر دیے میں نے

اب تم آئے ہو خواب لینے کو
جانے کس کو کدھر دیے میں نے

نوچتی تھیں بدن تری یادیں
ان کے ناخن کتر دیے میں نے

اب تجھے صبح تک ستائے گی
رات کے کان بھر دیے میں نے

زین وہ یاد بھی نہ رکھے گا
جتنے احسان کر دیے میں نے

زین شکیل

*****************



سسک رہا تھا مِرا اک سوال، تُو چپ تھا
رہا تھا دل میں یہی اک ملال، تُو چپ تھا

اداس کرتی گئیں وہ تری اداس آنکھیں
میں پوچھتا بھی رہا حال چال، تُو چپ تھا

میں جب بلند رہا تو بھی ہمکلام رہا
سو مجھ پہ آن پڑا جب زوال، تُو چپ تھا

جو تیرا ثانی مجھے مل گیا تو شکوہ کیوں؟
میں ڈھونڈتا تھا تری جب مثال، تُو چپ تھا

اب اپنے درد کا کیونکر ڈھنڈورا پیٹتا ہے؟
میں کر رہا تھا جو تب اندمال، تُو چپ تھا

مرا دریدہ بدن دیکھ کر نہ اب رونا
کہا تھا کر لے مری دیکھ بھال، تُو چپ تھا

مِرے بدن کے تجھے زخم اب ستاتے ہیں
میں دکھ کی اوڑھے ہوئے جب تھا شال، تُو چپ تھا

تجھے ہی شام و سحر کا حساب دیتے ہوئے
گزر گیا تھا مرا ایک سال، تُو چپ تھا

یہ تیرے اور مِرے ربط کے مٹانے کو
زمانہ چلتا رہا ایک چال، تُو چپ تھا

زین شکیل

*****************



دھڑکنوں کا سینے میں کب سے بین جاری ہے، کتنی سوگواری ہے!
غم کی سسکیاں لے کر بے کلی پکاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

جب بھی وہ ملے مجھ سے حال چال کے بدلے پوچھتا ہے بس اتنا
یار یہ بتاؤ تم، کتنی بےقراری ہے؟ کتنی سوگواری ہے؟

اک ملنگ نے مجھ سے یہ کہا کہ لوگوں میں آیا جایا کر پاگل!
جزوِ لازمی ہے ناں یہ جو دنیا داری ہے، کتنی سوگواری ہے!

کوئی کیسے سمجھے گا کس طرح گزرتے ہیں رات دن اذیت میں
زینتِ مقدر ہے جتنی آہ و زاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

شام ہے، اداسی ہے، روح بھی تو پیاسی ہے، بات گو ذرا سی ہے
چاند ہے گواہ کیسے میں نے شب گزاری ہے، کتنی سوگواری ہے

میں تو خود پریشاں ہوں جو بھی ہو گیا رخصت لوٹ کر نہیں آیا
اک مرا اکیلا پن اور ہجر جاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

اِس کے پاس آنے سے ہاتھ بھی ملانے سے ڈر رہے تھے سارے لوگ
وہ جو اپنے اندر تک ہم نے خود اتاری ہے، کتنی سوگواری ہے!

زین شکیل

*****************



کچھ بھی ہو سکتے تھے، تسخیر نہیں ہونا تھا!
ہم کو یوں درد کی تصویر نہیں ہونا تھا!

وہ تو تم آئے تو تھوڑا سا یقیں پختہ ہوا
ہم نے تو قائلِ تقدیر نہیں ہونا تھا!

حوصلہ ہار کے جینا بھی کوئی جینا ہے
گر ہی پڑنا تھا تو تعمیر نہیں ہونا تھا!

پاگلا !دیکھتے رہنا تھا روانی کو فقط
ایسے، دریا سے بغلگیر نہیں ہونا تھا!

چاہتے ہم تو تجھے روک ہی لیتے لیکن
یوں ترے پائوں کی زنجیر نہیں ہونا تھا!

میں جو رانجھا نہ ہوا اس پہ گلہ کیوں لوگو
اُس نے ویسے بھی مری ہیر نہیں ہونا تھا!

جیسے اُس شخص کی، اشکوں سے کہانی لکھی
زین یوں اُس نے تو تحریر نہیں ہونا تھا

زین شکیل

*****************



پھول روتے ہیں تو دیتی ہے دہائی تتلی
تُو نے کیا سوچ کے پھولوں سے اڑائی تتلی

مجھ گُلِ ہجر زدہ کو تو ہوا نے روندا
مجھ سے ملنے کو بڑی دیر سے آئی تتلی

میری وہ رات بھی رو رو کے کٹی جب اُس نے
قید مٹھی میں مجھے کر کے دکھائی تتلی

میں نے بے رنگ سا کاغذ پہ بنایا اک پھول
اُس نے اِ س پر بھی محبت سے بٹھائی تتلی

ہائے، پَر نوچنے والے یہ تجھے کیا معلوم
کس قدر جتن سے ہم نے تھی کمائی تتلی

اپنی میّت کو کیا دفن اکیلے میں نے
میرے مرنے کی خبر بعد میں لائی تتلی

تم نے اک بار جو آخر پہ بنائی خط میں
خط جلا ڈالا مگر ہم نے بچائی تتلی

زین وہ رنگ محبت کے لٹاتی جاوے
مدتوں بعد بڑے وجد میں آئی تتلی


زین شکیل


*****************

13 comments:

  1. ماشااللہ،مولا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائیں۔۔۔بہت ہی عمدہ کلام ہے،زبردست تخیل،مولا آپ کے قلم میں برکتیں عطا فرمائیں،سدا ہنستے مسکراتے آباد رہیے آمین۔۔۔اور اچھا اچھا لکھتے رہیے

    ReplyDelete
  2. ماشااللہ،مولا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائیں۔۔۔بہت ہی عمدہ کلام ہے،زبردست تخیل،مولا آپ کے قلم میں برکتیں عطا فرمائیں،سدا ہنستے مسکراتے آباد رہیے آمین۔۔۔اور اچھا اچھا لکھتے رہیے

    ReplyDelete
  3. ماشااللہ لازوال اشعار ہیں بہت خوب

    ReplyDelete
  4. ماشاء اللَّهَ. اللَّه کرے زور قلم اور زیادہ.

    ReplyDelete
  5. بہت ہی عمدہ
    ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  6. بہت ہی عمدہ کلام
    ماشاءاللہ
    ہمیشہ مسکراتے رہئیے

    ReplyDelete
  7. Bhai Jan app Blogger Main Fonts tu install Karo Saray Lafaz tutay Huway Show Ho rahay hain.

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ اردو زبان انسٹال کریں موبائل فون میں مسئلہ حل ہو جائے گا ۔

      Delete
  8. ماشاءاللہ بہت عمدہ بہت اعلی کیا خوب لکھتے ہیں آپ کی ساری پوئٹری پڑھی اور شیئر بھی کی

    ReplyDelete
  9. دلوں میں گر کر جانے والی شاعری 👏

    ReplyDelete
  10. بہت بہت بہت عمدہ کام
    اس تمام کاوش کیلئے اللہ تعالیٰ آپکو اجر عطا کریں۔ بہترین ویب سائٹ ہے

    ReplyDelete
  11. پڑھ کر تعریف کیے بنا نہ رہ سکی
    بہت ہی عمدہ دل چھونے والی

    ReplyDelete
  12. وااااااااااااہ اااااااااہ کیا حسین شاعری ہے پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی سلامت رہیں شاد و آباد رہیں

    ReplyDelete