کہا بھی تھا زمانہ دیکھتا ہے


کہا بھی تھا زمانہ دیکھتا ہے
(غزلیں، نظمیں)

زین شکیل




انتساب

شاہنواز علی بٹ کے نام





***************
غزلیں
***************



محبت کا تماشا دیکھتا ہے
کہا بھی تھا زمانہ دیکھتا ہے

تعلق پر بھی انگلی اٹھ گئی ناں!
مجھے اب گھور کے کیا دیکھتا ہے؟

سو میں اُس کی ضرورت بن چکا ہوں
وہ بس اب میرا چہرہ دیکھتا ہے

اُسے غافل سمجھنا مت مری جاں
وہ نہ دیکھے تو سارا دیکھتا ہے

زمیں والوں کو روتے اور مرتے
وہ کتنی دور بیٹھا دیکھتا ہے

میں اپنی دُھن میں پتھر پھینکتا ہوں
مجھے غصے سے دریا دیکھتا ہے

میں صدقے جاؤں اُس کے دیکھنے پر
وہ کیسے اتنا پیارا دیکھتا ہے

کھڑا ہے آئینے کے سامنے وہ
اور اک پیاسے کو پیاسا دیکھتا ہے

نظر سے دور ہو جا سُکھ کی دیوی
تجھے اک دکھ کا مارا دیکھتا ہے

بلا کی خون ریز آنکھیں ہیں اُسکی
وہ کوئی ایسا ویسا دیکھتا ہے؟

زین شکیل

***************

عشق میں خاک جو دَر دَر کی اڑانے لگ جائیں
وہ بھلا کیسے تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں

ہم کہیں جائیں تری سمت چلے جاتے ہیں
جیسے رستے ہی تری سمت کو جانے لگ جائیں

ایسے بے مہر ہیں پہلے تجھے ڈھونڈیں ہر سُو
اور پاتے ہی تجھے پھر سے گنوانے لگ جائیں

حسنِ یزداں کا کہا کیا کہ یہی چاہتا ہے
ایک دیوار سے سارے ہی دِوانے لگ جائیں

ہم اسیران محبت کا یہی کام ہے بس
زخم میں رنگ بھریں، درد کمانے لگ جائیں

مثلِ درویش تجھے ماننے والے کچھ لوگ
آستانے سے ترے ہم کو اُٹھانے لگ جائیں

رات دن بس اسی صورت ہی کٹے جاتے ہیں
اک تجھے یاد کریں، تجھ کو بھلانے لگ جائیں

ایسی تاریک شبوں بیچ پڑے ہیں جن میں
نیند بھی جبر کرے، خواب ڈرانے لگ جائیں

یوں ترے ہجر میں ہم رکھیں بہت اپنا خیال
اشک ہی پینے لگیں، درد ہی کھانے لگ جائیں

اے مرے ہوش رُبا شہر کو مت چھوڑ کے جا
یہ نہ ہو لوگ ترے شہر سے جانے لگ جائیں

کاش کہ حشر میں رو رو کے ترے سارے ستم
میرے کاندھوں کے فرشتے بھی سنانے لگ جائیں

زینؔ اب دل میں فقط ایک یہی حسرت ہے
وہ مرے نام کو لکھ لکھ کے مٹانے لگ جائیں

زین شکیل

***************

تُو مرے غم کو سمندر سے بھی گہرا کہتا
مان لیتا میں وہی تُو مجھے جیسا کہتا

اتنی عجلت میں کوئی بات بنائی نہ گئی
تُو مجھے چھوڑ چلا تھا، میں تجھے کیا کہتا؟

کاٹ دیتا میں اِسے سہتے ہوئے عمر اپنی
میں ترے درد کو ہر طور سنہرا کہتا

تھا تری ذات کا صحرا مرے اندر ورنہ
اتنی جرات کہ سمندر مجھے پیاسا کہتا

کیوں بھلا چاند ستاروں سے ملاتا تجھ کو
میں تو اے محرمِ جاں بس تجھے تجھ سا کہتا

لے چلا تھا تُو مجھے مجھ سے بہت دور کہیں
جانے والے اے تجھے کاش میں تنہا کہتا

تیرے نہ آنے پہ چُپ چاپ رہا ہوں، اور تُو
میں نہ آتا تو نجانے مجھے کیا کیا کہتا

زین شکیل

***************

جو کچھ تمہارے واسطے سوچا، نہیں ہوا
ہم آہ کرتے رہ گئے چرچا نہیں ہوا

رب جانے اب وہ لوٹ کے آئے بھی یا نہیں
ہم نے تو اُس عزیز کو پرکھا نہیں ہوا

شاید ہمارے ساتھ ہوا ہاتھ کر گئی !
شاید تمہارے لمس کا دھوکا نہیں ہوا !

وہ شخص ایک عمر سے ماتم کناں ہے اور
اُس نے سیاہ رنگ بھی پہنا نہیں ہوا

اچھا ہوا کہ تجھ کو تو آسانیاں ملیں
تجھ سے بچھڑ کے جو ہوا، اچھا نہیں ہوا

میں اب بھی تیرے ہاتھ میں موجود ہوں تمام
وہ وقت ہوں کہ جو ابھی گزرا نہیں ہوا

اک زخم تیری یاد کا اُترا وجود میں
پھر اور کوئی زخم یوں گہرا نہیں ہوا

بھیجا ہے برسوں بعد مجھے اُس نے ایک خط
اور اُس میں ایک حرف بھی لکھا نہیں ہوا

زین شکیل

***************

تم اپنا حال سنا کر نہیں گئے تھے مجھے
میں سو رہا تھا اٹھا کر نہیں گئے تھے مجھے

تو کیا تمہیں میں بہت یاد آیا کرتا تھا؟
میں مان لوں کہ بھُلا کر نہیں گئے تھے مجھے؟

 تمام رات میں تنہا جلا تو جلتا رہا
چلے گئے تھے بجھا کر نہیں گئے تھے مجھے

میں پھر اجڑتا نہیں گر تو اور کیا کرتا؟
مرے ہی گھر میں بسا کر نہیں گئے تھے مجھے

غموں نے چاٹ لیا ہے بڑے سکون کے ساتھ
غموں سے تم جو بچا کر نہیں گئے تھے مجھے

کہاں چلے تھے، کوئی عہد نا کوئی پیماں
کوئی بھی بات بتا کر نہیں گئے تھے مجھے

میں جانتا تھا مجھے ڈھونڈ شونڈ لو گے تم
یہ شکر ہے کہ گنوا کر نہیں گئے تھے مجھے

زین شکیل

***************

میرے اندر تمہارا سایا ہے
یونہی رب نے مجھے بنایا ہے

بن بتائے کہاں سے یوں آ کر
تُو مرے دل میں آ سمایا ہے

میں ابھی بات سن کے آتا ہوں
خامشی نے مجھے بلایا ہے

میرے ہونٹوں کی مسکراہٹ نے
میرے اندر کا دکھ چھپایا ہے

ہم نے جس کو تمام خوشیاں دیں
پھر اُسی نے ہمیں رُلایا ہے

کھا رہے ہیں تمہارا غم جاناں
اور کچھ بھی نہیں کمایا ہے

اتنا اجڑا ہوا نہ تھا پہلے
تُو نے کیسا یہ گھر بسایا ہے

اُس نے کل پہلی مرتبہ مجھ کو
آخری بار ہی بلایا ہے

زین شکیل

***************

میرے سینے میں جانے کیا ٹوٹا
جو بھی ٹوٹا بہت بُرا ٹوٹا

آندھیوں سے لڑا جو کتنی دیر
ایسا پھر گِر کے وہ دِیا ٹوٹا

تم تو بس ٹوٹ ٹوٹ کر روئے
میں تو سارا ہی برملا ٹوٹا

وہ مجھے جب ملا رہا خاموش
میں اُسے جب کبھی ملا، ٹوٹا

رہ گئی دل میں زندگی باقی
ایسے ٹوٹا اگر تو کیا ٹوٹا

ایک دیوی بچھڑ گئی، افسوس
اور پھر اُس کا دیوتا ٹوٹا

کیوں بدلتے نہیں ہو تم موضوع؟
کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ٹوٹا!

ایک ٹوٹے کا ٹوٹنا کیسا؟
کیوں مِرا دل دُکھا ہوا، ٹوٹا؟

زین شکیل

***************

محسن کی اک نظم وہ اب بھی پڑھتی ہو گی
آئینوں سے آنکھ چراتی پھرتی ہو گی

جب بھی بھیگا کرتی ہو گی وہ بارش میں
بارش کو وہ کتنی اچھی لگتی ہو گی

خود تو انا کے خوف سے بات نہیں کر پاتی
 جن سے بات کروں میں، ان سے جلتی ہو گی

میری غزلوں والی ایک کتاب کو پڑھتے
اپنے گھر کے صحن میں ٹہلا کرتی ہو گی

کہتی ہو گی کتنا بے تُکّا لکھتا ہے
پھر بھی میری ساری غزلیں پڑھتی ہو گی

مجھ کو اپنے من کا راجہ کہنے والی
اب تو مجھ کو گھٹیا لڑکا کہتی ہو گی

کون اٹھانے والا ہو گا ہاتھ پکڑ کے
اب کس عذر سے چلتے چلتے گرتی ہو گی

میرے ذکر پہ ہنستی ہو گی سب لوگوں میں
لیکن تنہائی میں چھپ کر روتی ہو گی

روٹھ کے مجھ سے اتنا دور چلی جائے گی
مجھ کو کیا معلوم تھا اب وہ ایسی ہو گی

میرے ساتھ ہمیشہ رونے ہی روتی تھی 
میرے خیال میں اب تو وہ خوش رہتی ہو گی

میرے کچھ آثار تو اُس میں اب بھی ہوں گے
ٹوٹے پھوٹے لفظ تو وہ بھی لکھتی ہو گی

اب اس کو دیکھے بھی عرصہ بیت چکا ہے
جانے وہ کس حال میں ہو گی، کیسی ہو گی

زین شکیل

***************

مجھ کو مجھ سے کبھی جدا نہ لگے
کوئی تجھ سا ترے سوا نہ لگے

کچھ نہیں کہہ سکا اِسی خاطر!
یار! اُس کو کہیں برا نہ لگے

ہے وہ میرے وجود میں موجود
اب مجھے وہ بھی دوسرا نہ لگے

میرے مولا اُسے بچا رکھنا
بس اُسے شہر کی ہوا نہ لگے

میں اُسے بھول بھال ہی جاؤں
ایسی کوئی مجھے دعا نہ لگے

دور تو ہو گیا بہت لیکن
وہ مجھے اب بھی بے وفا نہ لگے

وہ جو معصوم چہرے والا ہے
نظرِ بد اُس کو اے خدا، نہ لگے

زین شکیل

***************

روزنِ فکر کے بیچ اور مری بات کے بیچ
سلسلہ وار اُتر آ تُو مری ذات کے بیچ

وہ جسے عمرِ مسلسل سے نفی تُو نے کیا
اب تلک بکھرا پڑا ہوں میں اُسی رات کے بیچ

سوچتے کچھ ہوں، تجھے سوچنے لگ جاتے ہیں
آ دھمکتا ہے کہیں سے تُو خیالات کے بیچ

ایسے بے گھر ہیں مری جان تجھے کیا معلوم
ہم کہ رہ پائے نہیں اپنی ہی اوقات کے بیچ

جاہ و حشمت کا بھی، جا رعب کہیں اور جما!
ایسے آتے نہیں درویش محلات کے بیچ

چپ رہے کچھ نہ کہا اور تجھے تکتے رہے
جانے کیا تھا ترے بے ربط سوالات کے بیچ

اس لیے حوصلے ٹوٹے نہیں اب تک اپنے
جیت کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کسی مات کے بیچ

رات بھر پھر تجھے رہ رہ کے جو یاد آتی رہی
دیکھ لے کچھ تو اثر تھا ناں مری بات کے بیچ

زین شکیل

***************

آنکھوں میں انتظار پرونا نہیں ہمیں
بس کہہ دیا ناں آپ کو کھونا نہیں ہمیں

خوابِ اُداس آج تو آنکھوں سے دور ہو
جاگیں گے اُس کی یاد میں، سونا نہیں ہمیں

ہم ہاتھ جوڑتے ہیں ہمیں یوں نہ چھوڑیے
دل کی زمیں میں درد کو بونا نہیں ہمیں

ہم چھوڑ چھاڑ جائیں گے دنیا بھی ایک دن
پھر یاد آ بھی جائیں تو، رونا نہیں ہمیں!

اے ہجرِ یار دیکھ لے ہم تھک کے گر پڑے
اب اور تیرا بوجھ بھی ڈھونا نہیں ہمیں

آپ اپنی جھیل آنکھوں کا کچھ تو کریں خیال
اب اپنے آنسووں میں ڈبونا نہیں ہمیں

زین شکیل

***************

تجھ کو ہر درد سے بچاتے ہوئے
رو پڑا ہوں تجھے ہنساتے ہوئے

ایک دن آپ تھک ہی جائیں گے
یوں مرا صبر آزماتے ہوئے

اُس کے چھ مرتبہ بہے آنسو
سب کو میری غزل سناتے ہوئے

یاد کتنا نہیں کیا ہم نے
ہر گھڑی آپ کو بھلاتے ہوئے

کیا عجب یار تھا مِرا، جس نے
ہاتھ چھوڑا مجھے اٹھاتے ہوئے

سچ بتاؤں تو ڈر رہا ہوں، تجھے
آئینے کے قریب لاتے ہوئے

سخت بوسیدگی ٹپکتی تھی
رہ دیا وہ بھی گھر سجاتے ہوئے

زین شکیل

***************

تھم نہ جاؤ بارشو!
جی جلاؤ بارشو!

سنگ یادِ یار کے
لوٹ آؤ بارشو!

ہر دفعہ رونا ہی کیا
مسکراؤ بارشو!

ابر میری آنکھ کے
دیکھ جاؤ بارشو!

اُس کو تم سے پیار تھا
مت بھلاؤ بارشو!

رِم جھمے سُر چھیڑ دو
گیت گاؤ بارشو!

پیاس ہے بس پیاس ہے
آؤ جاؤ بارشو!

کس لیے ناراض ہو؟
مان جاؤ بارشو!

زین شکیل

***************

پھر ہو کے خفا ہم کو دل آزار کرو گے؟ بیمار کرو گے؟
جو ہم کو بھلانے کی سعی یار کرو گے! بے کار کرو گے!

اس شہر میں اپنی تو کوئی جان نہیں ہے، پہچان نہیں ہے!
تم اور مِرے راستے پُر خار کرو گے؟ دشوار کرو گے؟

آئے ہو جو دل میں تو ٹھہر جاؤ مری جاں، رُک جاؤ مری جاں!
اب ضد جو پلٹ جانے کی ہر بار کرو گے! بیزار کرو گے!

لوٹ آئی تری یاد بھی بن کر کوئی دلہن، کرتی ہوئی چھن چھن
پائل کی مرے کان میں جنھکار کرو گے، یوں وار کرو گے؟

چُن چُن کے، اُٹھا خود کو جو، لائے ہیں ترے پاس، آئے ہیں ترے پاس
اب تم بھی کھڑی ہجر کی دیوار کرو گے؟ دُکھ دار کرو گے!

تم سب سے یہ کہتے ہو کہ جب زین نہیں تھا، بے چین نہیں تھے!
اب یوں مرے جذبات کا پرچار کرو گے؟ سنگسار کرو گے؟

لب پر مرے چاہت کا جو اظہار نہیں ہے! انکار نہیں ہے!
ہر روز محبت کا جو اظہار کرو گے، کیا پیار کرو گے!

کس شخص کی باتوں کو اڑاؤ گے ہنسی میں؟ جب میں نہیں ہونگا
پھر دوستو! کیسے مجھے بیدار کرو گے؟ کیا یار کرو گے؟

زین شکیل

***************

باقی جو کچھ ہے مجھے سخت سزا لگتا ہے
میری آنکھوں کو وہی شخص بھلا لگتا ہے

اُس کے آنسو بھی مناجات کی صورت ہیں کہ وہ
جب بھی روتا ہے مجھے محوِ دعا لگتا ہے

خامشی، اُس سے مجھے جوڑے ہوئے رکھتی ہے
درمیاں میں کوئی بولے تو بُرا لگتا ہے

اور پھر اٹھ ہی گیا اُس کا دعاؤں سے یقیں
اب تو وہ شخص خدا سے بھی خفا لگتا ہے

لمحہ لمحہ مجھے یاد آتے ہوئے شخص! بتا!
میں تجھے بھول سکوں گا؟ تجھے کیا لگتا ہے؟

زین شکیل

***************

تمام لوگ حسیں ہیں تو کوئی بات نہیں
اور ان میں ہم ہی نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں

تم اپنے ہونٹوں سے ہر گز ہنسی ہٹانا مت
جو ہم تمام حزیں ہیں تو کوئی بات نہیں

مکانِ دل میں سدا ہی قیام ہے اُن کا
مقیمِ عرشِ بریں ہیں تو کوئی بات نہیں

تُو یہ بھی دیکھ کہ افلاک چھان آتے ہیں
وہ لوگ خاک نشیں ہیں تو کوئی بات نہیں

سو ہم غضب کے اداکار ہیں، ہنسے تو سہی
جو درد دل میں مکیں ہیں تو کوئی بات نہیں

ہمیں بھی سطحِ زمیں چھوڑنی تو ہے اک دن
جو یار زیرِ زمیں ہیں تو کوئی بات نہیں

ہمیں تو خود بھی نہیں یاد، کون تھے ؟کیا تھے؟
تمہیں بھی یاد نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں

زین شکیل

***************

وہ کھلونا ہوں جسے توڑ دیا جاتا رہا
اور پھر تیرے لیے جوڑ دیا جاتا رہا

کیا تجھے بھول گیا؟ عہد فراموش، مرے!
تیری اُمید پہ سب چھوڑ دیا جاتا رہا

میں تو اک پُتلی تماشے کا ہی کردار تھا بس
میرے ہاتھوں ہی مجھے توڑ دیا جاتا رہا

ہم جو خاموش رہے پھر بھی زباں کاٹی گئی
باقی لوگوں کو تو بس چھوڑ دیا جاتا رہا!

پہلے رستوں پہ ترے مجھ کو چلایا جاتا
پھر تری رَہ سے مجھے موڑ دیا جاتا رہا

کتنے مجبور تھے ہم پھر بھی ذرا یاد تو کر،
اک تجھے چھوڑ کے سب چھوڑ دیا جاتا رہا

زین شکیل

***************

تم نے جو کچھ مجھے کہا، چھوڑو!
میں نے کچھ بھی نہیں سنا، چھوڑو!

جس کو چاہو بٹھاؤ پاس اپنے
جس کو چاہو اُسے اُٹھا چھوڑو

اب مجھے اور دکھ نہیں سہنا
نام دل سے مِرا مٹا چھوڑو

کب کہا تھا کہ میرے پاس آ کر
تم مِرے زخم ہی دُکھا چھوڑو

اب یہی بس اصولِ دنیا ہے
جو بھی بھولے اُسے بھُلا چھوڑو

میں تو وہ ہوں کہ کچھ نہ بولوں گا
جیسے چاہو مجھے گنوا چھوڑو

اچھا بس جا رہا ہوں، چلتا ہوں
میرے پیچھے کوئی دعا چھوڑو

زین شکیل

***************

کوئی بھی تیرے جیسا کیوں نہیں ہے
یہاں سب کچھ ہی اچھا کیوں نہیں ہے

بنا جس کے بہلتا ہی نہیں تھا
یہ دل اب اُس سے بہلا کیوں نہیں ہے

کھرچ ڈالا ہے بس اِس پیش و پس میں
کہ اپنا زخم گہرا کیوں نہیں ہے

گڑے ہیں چار سُو جھنڈے ہمارے
یہاں ہر شخص رسوا کیوں نہیں ہے

جب اُس پر بار تھی عادت ہماری
ہمیں پھر اُس نے روکا کیوں نہیں ہے

تمہیں اِس بد رَوش بد خُو جہاں سے
گلہ جو ہے تو زیادہ کیوں نہیں ہے

سنو! اے نابغہ اس بار تم نے
مِرے بارے میں سوچا کیوں نہیں ہے

بلا کا اضطراب و بے کلی ہے
دلِ بیمار رُکتا کیوں نہیں ہے

دیوار و دَر کو چُپ کیوں لگ گئی ہے
یہ کمرہ مجھ پہ ہنستا کیوں نہیں ہے

تمہارے ہوتے ویسا کیوں ہوا تھا
تمہارے بعد ایسا کیوں نہیں ہے

تجھے کیا ہو گیا ہے زین، شب بھر
جو اب جاگے تو روتا کیوں نہیں ہے

زین شکیل

***************

کھو جانے کا، کھو دینے کا مطلب جانتے ہو؟
پھر اس حال میں جی لینے کا مطلب جانتے ہو؟

"لا" کی منزل پا لینا آسان نہیں ہوتا
کیا ہو کر بھی نہ ہونے کا مطلب جانتے ہو؟

ویسے تو ہر چیز فنا کی جانب چلتی ہے
زندہ رہ کر مر جانے کا مطلب جانتے ہو؟

ساری باتیں کہہ دیتے ہو کس آسانی سے
کیا تم میرے چُپ رہنے کا مطلب جانتے ہو؟

چھوڑ کے جانے والے تم کو کیسا ہے اب ڈر؟
اللہ حافظ کہہ دینے کا مطلب جانتے ہو؟

بے حالی ہے، بے حالی، یہ بے حالی ہے بس!
ہنستے ہنستے رو پڑنے کا مطلب جانتے ہو؟

زین شکیل

***************

ملنے ولنے بھی نہیں وہ ہمیں آیا شایا
ہم نے تو خط بھی نہیں اُس کا جلایا شایا

جی نہیں اب بھی مِرا دل یہ نہیں مان رہا
کوئی شوئی نہیں وہ شخص پرایا شایا

اس لیے ہم کو ملی آج اُداسی واسی
تجھ سے دِل وِل جو مری جان لگایا شایا

وہ بچھڑ کر ہمیں اب تک نہیں بھولا شُولا
ہم نے بھی دل سے نہیں اُس کو بھلایا شایا

اُس نے پوچھا کہ فقط لفظ گری کرتے ہو؟
زین! کیا تم نے کوئی درد کمایا شایا؟

زین شکیل

***************

زخم برپا نئی حیرانی کیے دیتے ہیں
درد ہی درد کی درمانی کیے دیتے ہیں

خود ہی لے آتے ہیں ہر زخم ترے ناخن تک
ہم ترے واسطے آسانی کیے دیتے ہیں

ایک نپٹا کے پلٹتا ہوں تو اگلے لمحے
غم، کھڑی پھر سے پریشانی کیے دیتے ہیں

آنکھ سے بہتے ہوئے اشک کو پانی نہ سمجھ
یہ تو غم ہے جسے ہم پانی کیے دیتے ہیں

شہر کے شور و شغب سے بھی اگر اُلجھن ہے
آ تجھے دل میں ہی ویرانی کیے دیتے ہیں

یہ تِرا ہجر کوئی مسئلہ کب ہے لیکن
اِس پہ ہم پھر نظرِ ثانی کیے دیتے ہیں

زین شکیل

***************

یہ مسئلہ تو دَر و بام کا نہیں جانم
کہ وقت صبح کا یا شام کا نہیں جانم

مِری تو ساری ریاضت ہی رائیگاں ٹھہری
سو واقعی مَیں کسی کام کا نہیں جانم!

تجھے میں کیسے ملوں شب میں زخم گنتے ہوئے
یہ وقت بھی مِرے آرام کا نہیں جانم

مجھے تو چاہیے بس تُو، بس ایک تُو اور تُو
کوئی بھی شخص تِرے نام کا نہیں جانم

مِرے خلاف اُداسی نہیں سُنے گی کچھ
سو فائدہ کسی الزام کا نہیں جانم

جو راہِ عشق پہ نکلے ہیں اپنی مرضی سے
تو کوئی خوف بھی انجام کا نہیں جانم

مجھے تو ہجر میں وافر سکوں میسر ہے
تمہارا وصل کسی کام کا نہیں جانم

زین شکیل

***************

روؤں یا دعا کروں؟ اے مرے اُداس دل
تجھ سے کیا گلہ کروں؟ اے مرے اُداس دل

اُس کے بعد کا سفر مجھ سے کٹ نہیں رہا
کچھ تو بول کیا کروں؟ اے مرے اُداس دل

کس کو یاد میں رکھوں؟ کس کو بھول جاؤں میں؟
اور کسے سُنا کروں؟ اے مرے اُداس دل

راستہ سراب تھا حافظہ عذاب ہے
کس طرح ہنسا کروں؟ اے مرے اُداس دل

اُس کے بعد زندگی، زندگی تو ہے نہیں
تیرا اب میں کیا کروں؟ اے مرے اُداس دل

زین شکیل

***************

پھر خیالات سے گزری ہے سواری تیری
میں نے الفاظ میں تصویر اتاری تیری

اور کرتے بھی تو کیا لوٹ کے آنا ہی پڑا
آنکھ کچھ ایسے ہمیں رو کے پکاری تیری

سب کو درپیش ہیں یاں مسئلے اپنے اپنے
کوئی کرتا ہی نہیں بات، ہماری تیری

سرخ آنکھوں کو بتا غور سے دیکھا ہے کبھی
ان میں رہتی ہے مری جان خماری تیری

مجھ سے کہتی ہے بتا تُو ہے مکمل کس کا
میں تو اب بھی ہوں فقط سارے کی ساری تیری

زین شکیل

***************

آپ ہنس کر ملا نہیں کرتے
پھول ایسے کھلا نہیں کرتے

خود سے رہتے ہیں دیر تک ناراض
آپ سے بھی گلہ نہیں کرتے

درد ہوتے ہیں کس قدر باذوق
ہر کسی کو ملا نہیں کرتے

ایک ، دو پھر بھی رہ ہی جاتے ہیں
زخم سارے سلا نہیں کرتے

زین شکیل

***************

کھا رہا ہے ترا ملال مجھے
درد کرنے لگا نڈھال مجھے

چھوڑ دے میرے حال پر مجھ کو
مار ڈالے گا اندمال مجھے

تو بھی میرے بنا ادھورا ہے
پھر سے خوش فہمیوں میں ڈال مجھے

اب بڑی دور لے کے جائے گا
آگیا ہے ترا خیال مجھے

یہ رہائی مجھے نہیں منظور
اپنی آنکھوں سے مت نکال مجھے

میری تصویر لے کے گلیوں میں
ڈھونڈتا ہے کوئی زوال مجھے

اِک اُسی کے بغیر دنیا میں
زین ہر سانس ہے وبال مجھے

زین شکیل

***************

پھر سے آ کر کوئی احسان جتاتے جانا
ہو سکے گر تو ہمیں تم بھی بھلاتے جانا

اب یہ دروازہ کھلا دیکھ کے لوگ آئیں گے
تم ناں! جاتے ہوئے زنجیر لگاتے جانا

تم نہ سمجھو گے مگر یہ تو سمجھ جائیں گے
میری ہر بات پرندوں کو سناتے جانا

زندگی میں مجھے ناراض کیے رکھا ہے
میری میت کو ہی رو رو کے مناتے جانا

زین رُک رُک کے جو دیکھا بھی تو حاصل نا وصول
اب کسی موڑ پہ رُکنا نہیں! جاتے جانا!

زین شکیل

***************

جب بھی چھوڑ کے جائے کوئی پہلے اشک بہاتا ہوں
’’چپ کر جھلّے کچھ نئیں ہوتا‘‘  پھر خود کو سمجھاتا ہوں

لگتا ہے کچھ بھول رہا ہوں جب بھی گھر سے نکلوں تو
سارا رخت اٹھا لیتا ہوں خود کو گھر چھوڑ آتا ہوں

جو سننے کو ترس رہے ہیں اُن سے بات نہیں کرتا
جو آواز نہیں سن پاتے اُن کو روز بُلاتا ہوں

میری بے تُکّی، گھٹیا سی اور فضول سی باتوں کو
وہ بھی سن کر ہنس دیتا ہے، میں بھی چپ ہو جاتا ہوں

زین میں اُس سے صحیح سلامت ملنے جاتا ہوں اور وہ
آدھا مجھ کو لے جاتا ہے، آدھا واپس آتا ہوں

زین شکیل

***************

کیا سانحہ ہوا کہ سبھی کچھ بھُلا گیا
کون اندرونِ جسم کے پُرزے ہِلا گیا

اُس سے ملوں تو اُس کو دِکھائی نہ دے سکوں
میں اپنا آپ اس لیے گھر میں سُلا گیا

بچھڑا تو کہہ گیا کہ ’’اکیلے نہیں ہو تم‘‘
پھر میرا ہاتھ، ہاتھ سے میرے مِلا گیا

اُس شخص کے لیے بھی دعائیں ہی بس کروں
تھوڑا ہنسا کے جو مجھے زیادہ رُلا گیا

دل میں جگہ جگہ پہ تِرے نقش دیکھ کر
آیا ہوا خیال بھی واپس چلا گیا

زین شکیل

***************

جیسے بس اب ہر اک دکھ میں ہوتے ہوں غمخوار آنسو
چھوٹی چھوٹی بات پہ نکلیں ایسے زار قطار آنسو

یعنی میری درد ریاضت ساری ہی بے فیض رہی؟
جذبوں کی ہر شدت ضائع، یعنی سب بے کار آنسو؟

وہ ہر بار اداس پلٹ کر جاتا ہے ہم سے مل کر
جب آتا ہے، ہوتے ہیں ان آنکھوں میں ہر بار آنسو

 جانے کیوں وہ میری آنکھیں دیکھے جاتا ہے، پاگل 
ان میں باقی بچے ہوئے ہیں اب تو بس دو چار آنسو

اب تو یہ معمول ہوا پر ایک زمانہ وہ بھی تھا
جب اپنی آنکھوں میں آتے تھے بس کبھی کبھار آنسو

زین شکیل

***************

رُتِ مضمحل کی اساس میں نہ ملا کرو
میں ہوں تشنہ خود، مجھے پیاس میں نہ ملا کرو

مرے دل پہ پہلے ہی کتنے صدموں کا بوجھ ہے
مجھے تم تو شامِ اداس میں نہ ملا کرو

کبھی اب یقین کی منزلوں پہ ملو ذرا
مجھے تم گماں و قیاس میں نہ ملا کرو

مجھےبکھرے بکھرے سے بال یوں بھی پسند ہیں
مجھے ماتمی سے لباس میں نہ ملا کرو

یہ جو غم کو مجھ سے لگاوٹیں ہیں مُدام ہیں
مگر آپ حالتِ یاس میں نہ ملا کرو

کہیں تجھ سے مل کے یہ زخم پھر سے نہ کھِل اٹھیں
مجھے شہرِ درد شناس میں نہ ملا کرو

زین شکیل

***************

یہ تو لوگوں نے یونہی بات بنائی ہوئی ہے
کون کہتا ہے تری مجھ سے جدائی ہوئی ہے

میں تو آنکھوں کو بھی پڑھنے کا ہنر جانتا ہوں
تو نے اک بات کہیں مجھ سے چھپائی ہوئی ہے

لوگ آتے ہیں مرے گھر کی زیارت کے لیے
میں نے تصویر تری گھر میں لگائی ہوئی ہے

ہم نے بس ایک ترے غم کو منانے کے لیے
شہر سے دور کہیں کٹیا بسائی ہوئی ہے

اب جو ہر بات ہواؤں نے بتائی ہے تجھے
میں نے ہر بات ہواؤں کو سنائی ہوئی ہے

میں اکیلا تو نہیں تیرا تصور ہے یہاں
اور کمرے میں اداسی بھی بلائی ہوئی ہے

ہم کہاں یوں سرِ بازار تھے بِکنے والے
تیری حسرت ہمیں بازار میں لائی ہوئی ہے

یہ بھی کیا چھین کے لے جائے گی دنیا مجھ سے؟
میں نے اک یاد جو مشکل سے کمائی ہوئی ہے

زین شکیل

***************
نظمیں
***************



دل بچہ ہے

دل بچہ ہے!
دل اک چھوٹا سا بچہ ہے !
دل ازلوں سے معصوم صِفَت!
اسے دن کا غم اسے رات کا غم
اسے آنکھوں کی برسات کا غم
اسے چبھنے والی ہر اک چھوٹی سے چھوٹی سی بات کا غم
دل ساون ہے دل بادل ہے
دل آوارہ دل پاگل ہے

دل بات شعور کی کب مانا، دل پاگل جھّلا دیوانہ
دل یار، سجن، دل بیلی ہے
پر دل کی ذات اکیلی ہے
دل ہنستا ہے دل روتا ہے،دل کتنے خواب پروتا ہے
دل اس دنیا سے تنگ بہت
دل اپنا مست ملنگ بہت
غم کیونکر دل کے ساتھ آیا، دل کن لوگوں کے ہاتھ آیا
رہے کوئی نہ دل میں ڈر ڈھولا
دل پاک خدا کا گھر ڈھولا
دل ثور، حرا، دل طور سجن، دل مجنوں دل منصور، سجن
دل خاص عقیدت والا ہے
دل پاک محبت والا ہے
دل ازلوں سے معصوم صِفَت!
دل اک چھوٹا سا بچہ ہے !

زین شکیل

***************

جان تیری مرضی ہے

چاہتوں کی باتوں کے دائمی حوالوں سے
دیکھ لو نکل آئے
جان ہم تری خاطر
ہم تو اب نصیبوں کا بھی گلہ نہیں کرتے
شاعروں کے بختوں میں رونقیں نہیں ہوتیں
یہ عجیب ہوتے ہیں
جنگلوں، پہاڑوں میں اک نگر بساتے ہیں 
خواب کے سہارے پر
شہر میں تو رہتے ہیں 
بَس مگر نہیں پاتے
ہم بھی ٹھیک ویسے تھے
شاعروں کے جیسے تھے
شہر کاٹ کھاتا تھا، بے کلی ستاتی تھی
جان تیری باتوں نے کس طرح بدل ڈالا

درد بھی نہیں لکھتے 
آہ بھی نہیں بھرتے
اور بیتی چاہت کو یاد بھی نہیں کرتے
جان ہم تری خاطر
اب تو مانگتے ہیں بس
ان تمام چیزوں کو، ہر طرح کی خوشیوں کو
جو کبھی نہ مانگیں تھیں
اب خدا سے کہتے ہیں
اے خدائے بحر و بر! 
آپ کو کمی کیا ہے؟
اب تو وہ سبھی کچھ دیں، جس کی خواہشیں نہ تھیں
جان تیری خاطر ہم
اب خدا سے مانگ آئے
جو کبھی نہ مانگا تھا
جو کبھی نہ پایا تھا
اور اس سے زیادہ اب کچھ بھی کر نہیں سکتے
زور بھی نہیں چلتا

بس چلا نہیں سکتے
جان! اب اگر اپنا حال نہ بدل پایا
بخت سے سیاہی کے ابر چھٹ نہیں پائے
پھر خدا کی مرضی ہے
اس سے اب گلہ کیسا
اس سے لڑ نہیں سکتے
وہ بہت بڑا ہے ناں
ہم بہت ہی چھوٹے ہیں
کچھ بھی تو نہیں ہیں ہم
صبر کرتے آئے ہیں، صبر ہی کریں گے ہم
تُو تو جانتی ہے ناں
خود کو ہیں بدل لائے
جان ہم تیری خاطر
اب بھی کچھ شکایت ہو،
اب بھی کچھ گلہ ہو تو،
اب بھی تُو خفا ہو تو،
جان تیری مرضی ہے۔۔۔۔

زین شکیل

***************

سُن درد پیا، ہمدرد پیا

سُن درد پیا، ہمدرد پیا
سب لوگ یہاں بے درد پیا
ہم آنکھیں بھی نا کھول سکیں
یہاں ہر سُو غم کی گرد پیا
یہ آنگن تجھ بن سُونا ہے
تُو میرے دل کا فرد پیا
میں تیرے بن بے جان بہت
مری تجھ بن سانسیں سرد پیا

زین شکیل

***************

بولو! اب کیوں؟

تم کو اچھا لگتا تھا
خاموشی سُنتے رہنا
ہم نے آخر سیکھ لیا
تم سے مل کر چپ رہنا
اب پچھتاوا کیوں؟
 بولو!
اب کیوں روتے رہتے ہو؟

زین شکیل

***************

سائیاں وے ہم بھُولے بھٹکے

سائیاں ہم سے بھول ہوئی ہے 
اپنے رحم کرم کی بارش ہم پر بھی برساؤ ناں
سینے ہمیں لگاؤ ناں!
سائیاں ہم کو دانائی نے اتنے زخم لگا ڈالے ہیں
ہم گھاٹے کے سودے میں تھے
کتنی راتیں جاگ جاگ کر کاٹیں لیکن ہم نے سائیاں عشق کا بھید نہ پایا
بس نقصان کمایا ....

لوگوں نے بھی جب جب چاہا ہم کو کتنے دوش دیے اور 
ہم الزاموں کی گٹھڑی کو لادے ان نازک کندھوں پر جانے کس کس نگری گھومے
کیسی کیسی تہمت جھیلی
کچھ بھی ہاتھ نہ آیا
بس نقصان کمایا سائیاں
اپنا آپ گنوایا...
ہم سے موسم، بادل، بارش سب کے سب ناراض ہوئے ہیں
صندل سی خوشبو میں سائیاں گھلی ملی اک سَچّی، سُچّی
میٹھی بات سناؤ ناں...
دل کا درد مٹاؤ ناں!
معاف کرو تقصیریں ساری 
دیکھو ناں ہم خود سے کتنے عاجز آئے
دنیا سے بیزار ہوئے ہیں... ہم کتنے بیمار ہوئے ہیں
دکھ کا بوجھ گھٹاؤ ناں!
سکھ دینے آجاؤ ناں!
سائیاں پاس تو آؤ ناں!
ہم دانائی کے دھوکے میں پچھلی عمر بِتا آئے ہیں... 

یعنی عمر گنوا آئے ہیں
سائیاں ہم سے بھول ہوئی ہے
ہم نے عشق کا بھید نہ پایا..
اپنے رحم کرم کی بارش ہم پر بھی برساؤ ناں
دل میں آن سماؤ ناں!
تجھ میں اپنا آپ فنا کر دینے کو ہم حاضر سائیاں
اپنے صادق، سُچے، سوہنے، مٹھڑے ہونٹ ہلاؤ ناں! ِ
اب تو ’’کُن‘‘  فرماؤ ناں!
سینے ہمیں لگاؤ ناں!

زین شکیل

***************

محبت ہے

کبھی گھر سے نکلتے وقت
خاموشی سے بازو تھام کر میرا
مرے چہرے پہ،آنکھیں بند کر کے
اس کا جلدی سے
درودِ تاج پڑھ کر پھونک دینا بھی
محبت ہے!

زین شکیل

***************

یاد بھی نہ آئیں گے

پاس تم نہیں آتے
دیکھو اپنی آئی پر
ہم اگر اُتر آئے
یاد بھی نہ آئیں گے!

زین شکیل

***************

تم نے کہا تھا

تم نے کہا تھا، یاد آؤ گے!
چاہت کے وہ سارے سوہنے، پیارے، میٹھے، سچے لمحے
آس بھرے اِن دو نینوں سے
(یہ نیناں تم شب بھر جن کو دیکھ دیکھ کر سکھ پاتے تھے)
آنسو بن کر بہہ جائیں گے۔۔

تم نے کہا تھا 
مجھ کو ساری پیار بھری یہ بیتی باتیں
(جن کو اب تو سنے ہوئے اک لمبا عرصہ بیت گیا ہے)
پھر رہ رہ کر یاد آئیں گی۔۔۔جب دوری کا موسم کا ہوگا!
اور بھی کتنا کچھ تھا بلکہ سب کچھ ہی تو تم نے کہا تھا۔۔
اب جو تم کو وقت ملے تو بس اک بار پلٹ کر آؤ
میں نے بھی اب تم سے ایک ضروری بات یہی کہنی ہے
اور وہ بات فقط اتنی ہے،
تم ناں!
 بالکل سچ کہتے تھے۔۔۔۔۔۔

زین شکیل

***************

اِکلاپے دی شُوک

رو رو بیت چلا جیون
جان پھنسی کن بیروں میں
زنجیریں ان پیروں میں
سائیاں اب تو پاس بُلا
عمر کٹی ہے غیروں میں!

زین شکیل

***************

مجبوری

کوئی مجبوری آ گئی ہو گی
وقت برباد وہ نہیں کرتا
اب مجھے یاد وہ نہیں کرتا

زین شکیل

***************

تمہیں معلوم تھا ناں سب؟؟

تمہیں معلوم تھا تو کیوں نہیں مجھ کو بتایا تھا؟
کہ آگے راستے اپنے علیحدہ ہونے والے ہیں
بتا دیتے تو پھر شائد اداسی جھیل نہ ہوتی
مرے سکھ کے پلوں کو پھر کبھی تعطیل نہ ہوتی
مرے دل میں دکھوں کی پھر کوئی زنبیل نہ ہوتی
تو میرا نام بھی گمنام ہی رہتا حریمِ جاں!
محبت کے صحیفے میں پروتا درد میں کیسے؟
تمہارے ہاتھ میں گر پیار کی انجیل نہ ہوتی!

تمہاری آنکھ سے بچھڑا، کسے دیکھے؟ کہاں جائے؟
تمہاری بات سے بچھڑا، سُنے کیسے؟ کہے کیسے؟
تمہارے لمس سے بچھڑا بھلا کیسے، 
کسی کو چھو سکے اور پھر اَمر کر دے؟
بڑا بے رحم حملہ کر دیا ہے مل کے دکھڑوں نے
تمہیں معلوم تھا تو کیوں نہیں مجھ کو بتایا تھا؟
کہ لمبے راستوں پر مجھ کو خالی ہاتھ چلنا ہے
مرے اندر تمہارا درد پلنا ہے
تمہیں سب کچھ پتا تھا ناں!
تو بولو کیوں؟؟؟؟؟؟؟
تو بولو کیوں بھلا مجھ سے چھپایا تھا؟
کہو ناں کس لیے چپ ہو؟ او بولو ناں!
نہ جانے کیوں نہیں تم بولتے، بولو گے بھی تو کیا؟
اگر کچھ بولنا ہوتا تو پہلے ہی بتا دیتے
میں پھر بے وقعت و بے مایہ و بے آبرو ہو کر
نہ یوں تم سے جدا ہوتا! 
مگر کیا فرق پڑنا تھا اگر تم کو نہیں معلوم ہوتا تو؟

جدائی ہی مقدر تھی تو پھر جانا تو پڑنا تھا
مجھے اس بات کا دکھ تو نہیں بالکل، متاعِ دل، 
نوائے دل، دوائے دل، حریمِ جاں!
مجھے تو بس یہی دکھ مار دیتا ہے
کہ تم سب جانتے کیوں تھے؟
تمہیں معلوم ہی کیوں تھا؟ 
کہ جی بھر بھر کے چہرہ دیکھنے والی سریلی،
اور ان مخمور آنکھوں کو بہت بے نور ہونا ہے
سدا کے واسطے تم کو بھی مجھ سے دور ہونا ہے
مرے دل پر لگے ہر زخم کو ناسور ہونا ہے
مجھے سکھ بھول جانے ہیں
دکھوں سے چور ہونا ہے۔۔ 
بہت مجبور ہونا ہے۔۔۔
بہت مجبور ہونا ہے۔۔۔۔
تمہیں معلوم تھا ناں سب۔۔۔۔؟

زین شکیل

***************

اے شام سُندر

کس طرح میری طرف دیکھتے ہو؟
اے شام سندر!
سانولے! پیار بھرے ! آنکھ کو کجلا کے مجھے دیکھتے ہو
زلف بکھرا کے مجھے دیکھتے ہو
اے مرے باعثِ سکھ، وجہِ سکوں،
شام سندر!
کیوں ستم ڈھا کے مجھے دیکھتے ہو؟
تم سے منہ پھیر نہیں سکتا میں
اور پھیروں تو مری سانس اکھڑ جاتی ہے
ڈگمگا جاتی ہے دھڑکن بھی مری فوراً ہی
اور تغافل مجھے کانٹوں پہ لٹا دیتا ہے 
میرے سرمایہِ کُل، نورِ نظر
شام سندر!

میں تمہیں دیکھتے ڈرتا ہوں ہمیشہ یوں ہی
میری حسرت زدہ، بے چین نگاہوں کے سبب
نامرادی کا نہ پڑ جائے کہیں تم پہ اثر
 اور پاکیزہ نگاہی کی قسم، مشکل ہے !
ٹک تمہیں دیکھنا اور دیکھتے جانا تا دیر
اک نظر پڑتے ہی بے حال ہوا جاتا ہوں
اور اک تم ہو کہ تڑپا کے مجھے دیکھتے ہو
میں تو ایسا بھی نہیں ہوں کہ تمہیں دیکھ سکوں ویسے ہی
جس طرح میری طرف دیکھتے ہو۔۔
کس طرح میری طرف دیکھتے ہو؟
اے شام سندر!
اے مِرے شام سندر!

زین شکیل

***************

رسول ہاشم کے نام

چھوڑو اب ایسے، کہاں یار کِیا کرتے ہیں..!
تُو نے جیون میں، بہاروں کو ابھی دیکھنا ہے
تیرے ہونے سے کسی اور کا ہونا بھی تو ہے
اب تجھے یہ بھی بتانے کی ضرورت تو نہیں
"روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں"
یہ تجھے کس نے کہا تُو نے کہیں جانا ہے
تجھ کو خاموش پرندوں کی دعائیں بھی لگیں
خواہشوں کے سبھی پیڑوں کو ہرا رہنا ہے
آسرا پل کا بھی ہو صدیوں پہ رہتا ہے محیط
اور دلاسے تو مری جان یونہی ہوتے ہیں
کچھ بھی ہو لب سے تو مسکان اٹھاتے نہیں ہیں
چاہنے والوں کو ایسے تو رُلاتے نہیں ہیں

جو بھی ہے، غم ترے چہرے پہ بُرا لگتا ہے
یار! تُو پیارا ہے، ہنستے ہی بھَلا لگتا ہے
تجھ سے مایوس ترانہ نہیں سننا ہم نے
اس طرح سے تجھے جانے نہیں دینا ہم نے
ہر کوئی شخص تجھے دل سے دعا دیتا ہے۔۔۔
تُو نے کہسارِ اذیت بھی کیے سَر کتنے
تیری خاطر یہ دعاؤں کے کھلے در کتنے
تیری دنیا یہ ترا سارا جہاں سبز رہے
ہے دعا برگِ گُلِ عمرِ رواں سبز رہے
عشق کے رَس میں گھُلے لوگ کہاں مرتے ہیں
چھوڑو اب ایسے، کہاں یار کِیا کرتے ہیں۔۔۔!

زین شکیل

***************

دوشیزہ تم بھاڑ میں جاؤ
(گو ٹو ہیل)

رات گزر گئی
گزر گئی ناں!
دن ڈھلنا ہے ڈھل جائے گا
سیدھی بات کروں گا تم سے
دیواروں سے لگ لگ رونا، مجھ سے اب یہ نہ ہووے ہے!
اور نظامِ یاد کا پُرزہ کہیں کہیں سے ٹوٹ گیا ہے
ایک تخیل ذہن سے کوئی جسم پہن کر نکل پڑا ہے
میرے سینے آن لگا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے
سخت بخار میں تپتا بھی ہے اور پیشانی سرد بہت ہے

رات کی گہری خاموشی میں
آوازوں کے ہونٹ ہلے ہیں
خاموشی کی بَک بَک سُن کر میرے کان بجے جاتے ہیں
میرے سر میں درد بہت ہے
پہلے ہی بے چین بہت ہوں فکر کروں تو آخر کس کی
کچھ بھی ٹھیک نہیں لگتا ہے
میں بد حال جو خجل خوار، 
زمانہ گردی کرتے کرتے ایک پرائی اور اُدھاری 
عمر جو تنہا کاٹ رہا ہوں
کٹتے کٹتے کٹ جائے گی
لیکن پچھلے دو سالوں سے 
قُرب و جوار کے چند اک آتش زن اور زہریلے کتوں کی
بھونکن وا سن سن کر میں تو 
خود اب کافی سٹھیایا ہوں
مجھ کو بے حس، بے احساسا، 
بے پروا، بد عہد یا گھٹیا وٹیا تم کو جو بھی ٹھیک لگے یا جو بھی 
نام مجھے تم دینا چاہو دے سکتی ہو ..... پر دوشیزہ!

کوئی سا بھی جسم پہن کر کسی تخیل کی صورت بھی
اب تم میرے پاس نہ آؤ
جو کہنا ہے جانے مِری بلا تم جا کر
جس کو چاہو جو بتلاؤ
لیکن میرا سر نہ کھاؤ
دوشیزہ تم بھاڑ میں جاؤ....

زین شکیل

***************

تمہارا زین

تمہارا زین
دیکھو آ پڑا آخر کسی انجان غم اور درد کے مابین
کتنا بے کس و مجبور، دکھ سے چُور، تم سے دور
اور ہر شام کے کڑوے کسیلے طنز پر آنسو بہاتا، چیختا، روتا، تڑپتا، اک تمہیں آواز دیتا
شدتوں کے دوغلے نرغے میں آیا ہے
تمہارا زین
کتنا کھوکھلا، خالی، پریشاں الجھنوں، دشواریوں کا واحد و یکتا یگانہ یارِ دیرینہ
نہایت مضمحل، بےچین، پژمردہ، قیامت خیز رنج و غم کی کالی شال اوڑھے ایک بیوہ کی نگاہوں سے نکلتی بے کلی کے رنگ جیسا درد 
سینے میں لیے 
تنہا، اکیلا، لاغر و بیمار پہلے اس طرف 
پھر اُس طرف 
گلیوں، محلوں، چوک، چوباروں میں، ویرانوں میں آوارہ بھٹکتا پھر رہا ہے

زندگی کیا زندگی ہے؟ خوبصورت شے ہے 
جس میں خواہشوں اور حسرتوں کا شور ہے 
میلہ ہے خوشیوں کا، بڑی رونق ہے ہر بازار میں 
ہر چیز بکتی ہے
مگر کچھ لوگ ایسے مفلسی کا فیض پا کر ہر دکانِ آرزو پر جھانکنے والی نگاہیں لے کے پھرتے ہیں بزاروں میں 
اور آخر شام ہوتے ہی گھروں کو لوٹتے ہیں
ہاتھ خالی ڈال کر اپنی تمناؤں کی تنگ و سرد جیبوں میں
تمہارا زین بھی ویسا ہی... یونہی... اُن کے جیسا ہی
تہی دامن، بیچارہ، اَدھ مرا، کھوٹا، دکھوں مارا
تمہیں نا چھین سکتا ہے
نا تم کو جیت سکتا ہے 
کرے بھی کیا؟ لڑے کیسے؟ نِہتّا 
اور بہت غربت گزیدہ، آبرو ریزی کئی دن سے مسلسل جھیلتا، گرتا سنبھلتا
اب بھی تم کو یاد کرتا ہے 
تمہارا زین
اب بھی ایسے عالم میں تمہی کو یاد کرتا ہے

تمہارا زین اکثر ڈاک خانے جایا کرتا ہے
شناسا ڈاکیے سے پوچھتا ہے "میں اگر ڈالوں پرانی طرز کے نیلے لفافے میں 
(وہی نیلا لفافہ جس میں سالوں قبل چھٹی آیا کرتی تھی.. کہ جس میں خیریت لکھی ہوئی ہوتی تھی اپنے رشتہ داروں کی)
کوئی بھی خیریت کا خط تو یہ اُس تک پہنچ جانے کا کچھ امکان بھی ہے کیا؟"
تمہارا زین پھر ہر بار اک انکار لے کر لوٹ آتا ہے
تمہارا گھر (بہت اجڑا ہوا، بے چین اور بے کار تم بن)
اب نہیں ہے منتظر میرے خطِ بے ربط کا میری حریمِ جاں
تمہاری اب سدا کے واسطے جو مستقل ہے
اور موجودہ سکونت ہے
مجھے اُس کا پتہ معلوم ہی کب ہے
سو خط کیا خاک جائیں گے
تمہارا زین لیکن عادتاً پھر ڈاکیے سے لڑ جھگڑ کر لوٹ آتا ہے...
تمہارے زین کو لوگوں نے جانے کیا سمجھ رکھا ہے 
سارے لوگ کب یہ جانتے ہیں وہ تمہارے واسطے کیا تھا!
تم اُس کے واسطے کیا تھی!
تمہارا زین تو بس اب تمہارے دکھ کا پروردہ،

تمامی سوگواری کو نگل بیٹھا تمہارے بعد،
اب بے آسرا، بے انت گہرا ہے مگر خالی
ذرا سی سانس لیتا ہے تو سینے کے کھنڈر میں بجلیاں سی کوند جاتی ہیں
در و دیوار خستہ ہیں
تمہی بتلاؤ! اے امیدِ آخر، دائمی حسرت،
بھلا یوں سانس لینا 
اس قدر بے کیف سی بوجھل طبیعت لے کے بے پایاں گھٹن میں سانس لینا
اضطراب و بے کلی سینے میں رکھے زندگی کے دن بتانا
آرزوؤں کی بلی دینا
مکمل علم ہو کہ اب صدا نہ جائے گی تم تک
مگر پھر بھی صدا دینا
کئی اچھے بھلے پیارے بہت معصوم لوگوں کو خفا کرنا اور ایسے ناپسندیدہ بنے رہنا
اور ایسے ہی مسلسل جیتے رہنا بھی بھلا کیا جینا ہوتا ہے؟
تمہیں معلوم ہے ناں؟ یہ کوئی جینا نہیں ہوتا!
مگر دیکھو تمہارا زین اب بھی جی رہا ہے
اب بھی زندہ ہے
تمہارا زین جیتا جاگتا ہے 

سانس لیتا ہے
مگر اب تم کہاں ہو؟ کچھ نہیں معلوم
لیکن زین اب بھی بس تمہارا ہے جو اس عالم میں زندہ ہے..
کسی کا زین کب کا مر چکا........
یہ زین کس کا ہے....؟؟؟؟

زین شکیل

***************

متفرق اشعار


ویسے تم بھی زمانے جیسے ہو
کچھ بھی ہو تم بُرے نہیں لگتے

زین شکیل

***************


چار، چھ اشک ہیں، کرنے ہیں تو منظور کرو!
اب میں بیتابیءِ یعقوب ؑ کہاں سے لاؤں؟

زین شکیل

***************

آنکھ سے مگر پھر بھی جھلکتے ہیں کئی غم
اے ہنستے ہوئے شخص تجھے کتنا کہا تھا!

زین شکیل

***************

ہم فقیر لوگوں کا حال چال پوچھا کر
تیری تاجداری پر حرف ہی نہ آ جائے

زین شکیل

***************

کس طرح زین زمانے سے چھپاؤں اُس کو
میرے لفظوں میں وہ اب صاف نظر آتا ہے

زین شکیل

***************

خود سے یہی گلہ ہے، ہم نے
اُس کے بغیر جی لیا ہے

زین شکیل

***************

کتنی مشکل سے نبھاتا ہوں میں اک عہدِ وفا
کتنی آسانی سے میں توڑ دیا جاتا ہوں

زین شکیل

***************

جاتے جاتے جذبے آگ میں جھونک گیا
اب شاید وہ میرے بن بھی جی لے گا

زین شکیل

***************

اپنی توبہ ہے، ہم نہ آویں گے
اب کسی نابغہ کی باتوں میں

زین شکیل

***************

وہ تو وقت کے جیسا تھا سو دیکھو بیت گیا ہے
چھوڑو کیا اِس بات پہ اتنا شور شرابا کرنا؟

زین شکیل

***************








(اختتام)








کتاب:  کہا بھی تھا زمانہ دیکھتا ہے
شاعر:  زین شکیل
zainshakeel300@gmail.com
www.zainshakeel.blogspot.com
Facebook Page: fb.com/zainshakeelofficial

5 comments:

  1. WOW!
    AAP KI MOHABBATU KI QADAR KARTE HAIN

    ReplyDelete
  2. ap apne BlogSpot per Notable them laghyo who zayda bather our goood looking hota ha. us me koye be eassly sumagh sakta ha topic ko is bloge me bata he nahi chal rah ke kon kah per khatam our konsa kha se start ho rhaha

    ReplyDelete
  3. زبردست کمال شاعری ہے اللہ سر بلند کامیاب کرے💕💕💕💕

    ReplyDelete