نظمیں




******************
زین شکیل کی نظمیں
******************

تم سپنوں کی تعبیر پِیا

مرے پیروں میں زنجیر پِیا
اب نین بہاویں نیر پِیا
اے شاہ مرے اک بار تو آ
تو وارث، میں جاگیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا

بے نام ہوئی، گم نام ہوئی
کیوں چاہت کا انجام ہوئی
مرا مان رہے، مجھے نام ملے
اک بار کرو تحریر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا

کب زلف کے گنجل سلجھیں گے
کب نیناں تم سے الجھیں گے
کب تم ساون میں آؤ گے
کب بدلے گی تقدیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا

سب تیر جگر کے پار گئے
مجھے سیدے کھیڑے مار گئے
آ رانجھے آ کر تھام مجھے
تری گھائل ہو گئی ہیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا

میں جل جل ہجر میں راکھ ہوئی
میں کندن ہو کر خاک ہوئی
اب درشن دو، آزاد کرو
اب معاف کرو تقصیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پیا

کب زین اداسی بولے گی
کب بھید تمہارا کھولے گی
کب دیپ بجھیں ان آنکھوں کے
تم مت کرنا تاخیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا

زین شکیل

******************

سُن سانسوں کے سلطان پیا

سُن سانسوں کے سلطان پیا
ترے ہاتھ میں میری جان پیا
میں تیرے بن ویران پیا
تو میرا کُل جہان پیا

مری ہستی، مان، سمان بھی تو
مرا زھد، ذکر، وجدان بھی تو
مرا، کعبہ، تھل، مکران بھی تو
میرے سپنوں کا سلطان بھی تو

کبھی تیر ہوئی، تلوار ہوئی
ترے ہجر میں آ بیمار ہوئی
کب میں تیری سردار ہوئی
میں ضبط کی چیخ پکار ہوئی

مرا لوں لوں تجھے بلائے وے
مری جان وچھوڑا کھائے وے
ترا ہجر بڑا بے درد سجن
مری جان پہ بن بن آئے وے

مری ساری سکھیاں روٹھ گئیں
مری رو رو اکھیاں پھوٹ گئیں
تجھے ڈھونڈ تھکی نگری نگری
اب ساری آسیں ٹوٹ گئیں

کبھی میری عرضی مان پیا
میں چپ، گم صم، سنسان پیا
میں ازلوں سے نادان پیا
تو میرا کُل جہاں پیا

زین شکیل

******************

یہ کیسی تیری پریت پیا

یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا

ترے رسم رواج عجیب بہت
مرا در در پھرے نصیب بہت
ترا ہجر جو مجھ میں آن بسا
میں تیرے ہوئی قریب بہت

مجھے ایسے لگ گئے روگ بُرے
میں جان گئی سب جوگ بُرے
آ سانول نگری پار چلیں
اس نگری کے سب لوگ بُرے

تجھے دیکھ لیا جب خواب اندر
میں آن پھنسی گرداب اندر
بن پگلی، جھلَی، دیوانی
میں ڈھونڈوں تجھے سراب اندر

ترے جب سے ہو گئے نین جدا
مرے دل سے ہو گیا چین جدا
کیا ایک بدن میں دو روحیں
ہم جسموں کے مابین جدا

یہ ہے ازلوں سے رِیت پیا
کب مل پائے من میت پیا
اب لوٹ آؤ سُونے مَن میں
کہیں وقت نہ جائے بیت پیا

یہ کیسی تیری پریت پیا
تو دھڑکن کا سنگیت پیا

زین شکیل

******************

”تُو میرا سانول ڈھول پیا“

تری یاد میں کاٹوں رین پیا
گئی نیند، گیا سکھ چین پیا
تری ایک جھلک تک لینے کو
مرے ترس گئے دو نین پیا
میں خواب نگر کے پار گئی
اک بار نہیں ہر بار گئی
میں رو رو جیون ہار گئی
مجھے تیری جدائی مار گئی
ہر سمت خموشی طاری ہے
اور ہجر بھی ہر سو جاری ہے
ہر رات ترے بن بھاری ہے
اب جندڑی تجھ پر واری ہے
مجھے درد ملے انمول پیا
میں ہستی بیٹھی رول پیا
کبھی میرے دکھ سکھ پھول پیا
”تُو میرا سانول ڈھول پیا“

زین شکیل

******************

تو میرا سانول ڈھول پیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

ذرا دھیرے سے لب کھول پیا
یوں مول نہ کر مت تول پیا
مِری جندڑی کو مت رول پیا
یوں کانوں میں رَس گھول پیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

کبھی آنکھیں ساون بھادوں ہیں
کبھی سانسوں میں ویرانی ہے
’’میں لوٹ کہ پھر نہیں آؤں گا‘‘
تو ایسے تو مت بول پِیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

ہمیں پیار کرو، بیمار کرو
جو جی میں آئے یار کرو
احسان یہ اب کی بار کرو
تبدیل کرو ماحول پیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

کوئی سچ نہ تمہارا مانے گا
اپنا نہ کوئی پہچانے گا
کوئی تولے گا کوئی چھانے گا
تو جو جی چاہے بول پیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

کیوں آس لگاتے رہتے ہو
کیوں پیاس جگاتے رہتے ہو
کبھی ہم بھی دیکھیں روپ تِرا
کبھی بند دروازے کھول پیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

زینؔ اُس کی باتیں کرتے ہو
کیوں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
نہ جیتے ہو نہ مرتے ہو
مت بند اشکوں کے کھول پیا

تو میرا سانول ڈھول پیا
کبھی بول تو مِٹھڑے بول پیا

زین شکیل

******************

دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے

ان آنکھوں میں ہجر کہیں آباد کیا
دن میں قید کیا شب میں آزاد کیا
ساری عمر تمہارے نام لگا ڈالی
عمر کے اک اک لمحے نے برباد کیا
اب سانسوں میں دور تلک ویرانی ہے

دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔

تم نے کہا تھا خوش رہنا، خوش رہتا ہوں
تم نے کہا تھا ہنس دینا، ہنس دیتا ہوں
اور کوئی گر میرے بارے پوچھے تو
تم نے کہا تھا چپ رہنا، چپ رہتا ہوں
پھر بھی مجھ پر اک دکھ کی سلطانی ہے

دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔

اب بھی ہے معمول وہی، دن، رات وہی
دکھ بھی، دکھ کا طول وہی، اور ذات وہی
اب بھی اکثر تم پر غزلیں کہتا ہوں
اب بھی خود سے کرتا ہوں اک بات وہی
نیا ہے چہرہ پر تصویر پرانی ہے

دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔

دکھ دردوں کی محفل خوب سجاتا ہوں
دکھ سہہ سہہ کر اب میں درد بناتا ہوں
دیواروں کے آنسو بہنے لگتے ہیں
ایسے آنکھ میں بھر کر پانی لاتا ہوں
اب تنہائی بھی میری دیوانی ہے

دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔

زین شکیل

******************

مرا محور اداسی ہے

تمہاری روح کا عالم
تمہی جانو
زمانے بھر کے رسم و راہ کو
جی جان سے مانو
مرا کوئی دخل کیسے؟
ترا نعمل البدل کیسے؟
مری آنکھوں کی بجھتی کربلا
اے یار پیاسی ہے
مرا محور اداسی ہے

زین شکیل

******************

کر نینوں سے بات سجن

بیت چلی ہے رات سجن
دے ہاتھوں میں ہاتھ سجن
تو ہی ہار سنگھار مرا
تو ہی میری ذات سجن

کر نینوں سے بات سجن

پریم نگر میں جا بیٹھی
اپنا آپ بھلا بیٹھی
تجھ سے اکھیاں پھیروں میں
کیا میری اوقات سجن

کر نینوں سے بات سجن

 خواب نگر میں کھوئی تھی
 رات ترے بن روئی تھی
درد بھری ان آنکھوں سے
جاری ہے برسات سجن

کر نینوں سے بات سجن

مار گئی ہے تیری چپ
ایسی گھور اندھیری چپ
کیا تیری اور میری چپ
خاموشی کو مات سجن

کر نینوں سے بات سجن

جیون ایک اداسی ہے
روح ترے بن پیاسی ہے
آنکھیں بنجر بنجر ہیں
سُونی سُونی رات سجن

کر نینوں سے بات سجن

زین محبت بیت گئی
آج اداسی جیت گئی
تیرے بعد بھی رہتی ہے
ہر سو تیری ذات سجن

کر نینوں سے بات سجن

زین شکیل

******************

درویش صفت میرے!

درویش صفت میرے!
برباد طبیعت میں
انبار اداسی کے
ایسے ہیں لگے جیسے
شہتوت کے پیڑوں پر
شہتوت لٹکتے ہیں
یہ روح دریدہ ہے
بکھری ہوئی سوچیں ہیں
مرہم کی ضرورت ہے
مرہم تو لگا جاؤ
ہر سوچ سلجھ جائے
پیوند لگا جاؤ
یہ روح تمہاری ہے
ہر زخم تمہارا ہے
اے حرفِ سکوں میرے!
درویش صفت میرے!

زین شکیل

******************

آج ضبط رویا ہے

عشق کے جزیرے میں
بے پناہ محبت کا
ایک ہی گھروندہ تھا
ایک ہی ٹھکانا تھا
بے پناہ چاہت کا
ایک ہی سہارا تھا
جس کو بے خیالی میں
اک انا کی ضِد لے کر
تم نے آج کھویا ہے
آج ضبط رویا ہے!!!

زین شکیل

******************

لال گلابی گال سجن کے

حسن مجسم ماشاءاللہ
اور تکلم سبحان اللہ
کالی آنکھیں جادو ٹونا
لمبی زلفیں، جال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے

پلکیں ہیں پتوار سجن کی
زلفیں بھی خمدار سجن کی
پل میں کیسے ہو جاتے ہیں
تیور بھی بے حال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے

اتری رنگت آگ لگائے
شب بھر جاگیں نیند نہ آئے
آخر ہم کو لے ڈوبیں گے
سائیاں رنج ملال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے

آن پڑی مجبوری ہیرے
آ گئی بیرن دوری ہیرے
تیرے لب پر رانجھن رانجھن
دل میں ہیں بونچال سجن کے
لال گلابی گال سجن کے

زین شکیل

******************

زندگی

یہ زندگی ،یہ عام زندگی، قرار زندگی
پکار زندگی ،نگار خانہء مراد اور
 فشار زندگی،بہار زندگی،خزاں کی رُت
پھر اس کے بعد پھر کہیں سدا بہار زندگی
مگر اداسیوں کے اشہبِ سیاہ پر یہاں
سوار زندگی، بڑی ہی بے قرار زندگی،
قطار زندگی، یہ تار تار زندگی مگر
کہیں پہ کم کہیں کہیں پہ بے شمار زندگی
حصار زندگی، وہ عارضی سے ایک جسم میں
کہیں پہ قید مدتوں سے اشکبار زندگی
کہیں پہ آرزو کی لہلہاتی آبشار اور
کہیں پہ بے پناہ درد کا خمار زندگی
ملال زندگی بڑی ہی پر ملال زندگی
کمالِ جستجو پہ آ ہوئی نڈھال زندگی
سنا رہی ہے کب سے اک فسانہء نشاطِ جاں
کہ لگ رہی ہے اب تو بس کوئی وبال زندگی
پرندگی کہوں کہ پھر درندگی اسے کہوں
کہ دے کے طاقتِ اڑان، کاٹ کر یہ بال و پر
ہمی سے پوچھتی نہیں ہے حال چال زندگی
کہیں پہ کوئی فیصلہ ابھی تلک نہ ہو سکا
کہ لاجواب ہے یا پھر فقط سوال زندگی
کسی کی چاہتوں کی بے بسی سمجھ نہیں سکی
ہے بے حسی کی قید میں بھی شرمسار زندگی
یہ رنج رنج چاہتیں، الم الم محبتیں
یہ بے سبب عداوتیں، نگاہ کی وضاحتیں
عذابِ بے کلی رگوں میں اس طرح اتر گیا
کہ بے لگام حسرتیں ،ہے بے مہار بندگی
کہیں خطاب ہے کہیں پہ ہے خطیب زندگی
کہیں صلیب پر لٹک گئی عجیب زندگی
کچھ اس طرح سمے خوشی کا ڈھل گیا عزیزِ من
کہ لفظِ غم دوام شد،یہ زندگی تمام شد

زین شکیل

******************

مرا ساجن بچھڑا محرماں

مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرے آنسو بیچ قطار
مری نیندیں بہہ گئیں آنکھ سے
مرے سپنے زار و زار

مجھے غم کے تھل سب کھا گئے
مجھے چاٹے دکھ کی ریت
مری روح بھی ایسی بانجھ ہوئی
مرے من کے اجڑے کھیت
مرے دن کے سوگ عجیب سے
مری رات کے اپنے بین
میں رو رو برہا کاٹتی
مرے نین نہ پائیں چین
مری پوجا مل گئی خاک میں
مری عرضی نا منظور
پھر کیونکر جل جل راکھ ہوں
نہ موسیٰ نہ میں طور
مجھے ماریں پھول گلاب کے
مرے نیناں چبھ گئے خار
مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرے آنسو بیچ قطار

اک سچ کی رنگت اڑ گئی
جب بیٹھا بن بن جھوٹ
کیا پڑھنت پڑھا اس ہجر نے
ہر مشکل ہوئی اٹوٹ
اک سینے میں اک سانس تھی
اب سانس میں ہے ہلچل
کوئی آ کر درد کو بو گیا
مرے چل گیا سینے ہَل
اک درد ہوا کی اوٹ میں
مرے آ کر چومے گال
مرا خون وچھوڑا پی گیا
مری پھر بھی آنکھیں لال
مرا پریتم جھولی ڈال وے
ترے آن پڑی دربار
مرا ساجن بچھڑا محرماں
مرے آنسو بیچ قطار

زین شکیل

******************

سُن مرے اسیرا سُن

سُن مرے اسیرا سُن
خواب ٹوٹ جانے سے
خواب مر نہیں جاتے
آگ کی محبت میں
ہاتھ جل بھی جائیں تو
درد ٹھہر سکتا ہے
پر نشاں نہیں جاتے
سُن مرے فقیرا سُن
رات کے اُجالے لوگ
چاند چہرے والے لوگ
روشنی میں کھو جائیں
پھر کبھی نہیں ملتے
درد کے امیرا سُن
ضبط کے سفیرا سُن
ہاتھ کے ملانے سے
یا گلے لگانے سے
رابطہ تو رہتا ہے
روح مل نہیں جاتی
اور پھر پرانے لوگ
شام سے سہانے لوگ
یاد نہ بھی آتے ہوں
بھول تو نہیں جاتے
اے مرے اسیرا سُن
سُن مرے فقیرا سُن

زین شکیل

******************

نہیں ملے ناں!

تمہیں کہا تھا کہ پاس رہنا
کوئی بھی رت ہو ،کوئی بھی موسم
کوئی گھڑی ہو
اگر فلک سے کبھی جو مجھ پر
ان آفتوں کے پہاڑ ٹوٹیں
تو راس رہنا
تمہیں کہا تھا ناں پاس رہنا
یہ کیا کیا ہے؟
کسی کی باتوں آ گئے ناں
کسی کی مرضی ہی مان لی ناں
نہیں ملے ناں!
تمہیں کہا تھا جو تم نہ ہو گے
تو رو پڑوں گا
مجھے سمیٹے گا کون آ کر
چنے گا آنکھوں سے کون آنسو
بہت کہا تھا،
بہت ہی زیادہ تمہیں کہا تھا
کہ مان تھا ناں
نہیں سنا ناں!
جو مان توڑا یا آپ ٹوٹا
تمہیں کہا تھا میں رو پڑوں گا
میں رو پڑا ناں۔۔
بہت دنوں سے اداس ہوں میں
نہیں ملے تھے!
نہیں ملے ناں!

زین شکیل

******************

مان جایا کرتے ہیں!

اس طرح نہیں کرتے
مان جایا کرتے ہیں!
خواب خواب آنکھوں کو
روندتے نہیں ہیں ناں
مان جایا کرتے ہیں!
عمر قید کا مجرم
ہجر کی اذیت سے
دیر تک نہیں ڈرتا!
آبرو چلی جائے
لوٹ کر نہیں آتی!
بے بسی پلٹ آئے
توڑ تاڑ دیتی ہے!
اور بے کلی دل کو
لے کے اپنی مٹھی میں
یوں جھنجھوڑ لیتی ہے!
رگ نچوڑ لیتی ہے!
اور جب بچھڑ جائیں
دیکھتے نہیں مڑ کر!
ورنہ اے نشاطِ من!
اے مری حریمِ جاں!
آنکھ پھوٹ جاتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
اور جن کو ملنا ہو
ٹھیک سے نہیں ملتے!
درد پھر نہیں سلتے!
اور جینا مرنا بھی
ایک بار کافی ہے
روز جی نہیں اٹھتے
روز تو نہیں مرتے!
مان جایا کرتے ہیں!
اس طرح نہیں کرتے!
اس طرح نہیں کرتے!!!!!!

زین شکیل

******************

سائیاں

سائیاں تیرا روگ محبت
سائیاں تیرا جوگ محبت
سائیاں میرے دریا سوکھے
سائیاں لہجے پھیکے روکھے
سائیاں کر لے من کی باتیں
سائیاں بیت نہ جائیں راتیں
سائیاں دیکھ میں ایک اِکّلی
سائیاں تیری کملی، جھلّی
سائیاں خواب پرودیتی ہیں
سائیاں آنکھیں رو دیتی ہیں
سائیاں اپنی بستی لے چل
سائیاں میری مستی لے چل
سائیاں اپنی کرپا کر دے
سائیاں نین کٹورے بھر دے
سائیاں اپنی دید کرا دے
سائیاں مجھ کو عید کرا دے
سائیاں تجھ پر واری ہو گئی
میں سارے کی ساری ہو گئی
سائیاں آج تمہاری ہوگئی
میں بھی راج کماری ہوگئی

زین شکیل

******************

وہی کیا ناں آپ نے!

بہت کہا تھا آپ سے
ذرا سا رحم کھائیے
ہمیں نہ چھوڑ جائیے
یہ دشت دشت راہگزر
یہ خواب خواب زندگی
کہ آپ کے بنا سفر
سراب ہے، عذاب ہے
بڑا ہی درد ناک ہے
کہ جھونکا ء خیال بھی
ملے کبھی جو راہ میں
تو پوچھتا ہے آپ کا
اسے میں کیا جواب دوں؟
گناہ دوں؟ ثواب دوں؟
میں کون سا حساب دوں؟
بہت کہا تھا آپ سے
کہ آپ کے بنا ہمیں
یہ زندگی ستائے گی
ہمیں نہ راس آئے گی
تو ہو گئے ناں آپ گم
سو کر گئے ناں آنکھ نم
بہت کہا تھا آپ سے
ذرا سا رحم کھائیے
ہمیں نہ چھوڑ جائیے
مگر کسے سنائیں اب
جو خدشہء جدائی تھا
جو دردِ بے حساب تھا
وہی دیا ناں آپ نے!
وہی کیا ناں آپ نے!
بہت کہا تھا آپ سے۔۔۔

زین شکیل

******************

محرماں تمہارے بن

کس طرح سے کاٹوں میں
راہ زندگی والی
سخت بے کلی والی
آرزو کی بستی میں
عمر بے بسی والی
محرماں تمہارے بن
دیکھنا وہ خوابوں کا
خواب دیکھتے رہنا
کیسے رات کرتا ہوں
کس طرح سے سوتا ہوں
کتنا درد ہوتا ہے
پھوٹ پھوٹ روتا ہوں
محرماں تمہارے بن
بار بار ضد کرنا
ایک چھوٹے بچے کا
ہر عجیب خواہش پر
میں بھی اس کی ہی مانند
آرزوئیں کرتا ہوں
دور تک بھٹکتا ہوں
دیر تک تڑپتا ہوں
تم کو یاد کرتا ہوں
مجھ سے ہر قسم لے لو
لمحہ بھر تمہارے بن
میرا جی نہیں لگتا
اور سوچتا ہوں میں
عمر کیسے گزرے گی
محرماں تمہارے بن!

زین شکیل

******************

لوٹ کر چلے آؤ

لوٹ کر چلے آؤ
بات ہی تو کرنی ہے
ہم نے تیری بانہوں میں
رات ہی تو کرنی ہے
تم تو کہہ گئے تھے ناں
ساتھ چل نہیں سکتے
بات کر نہیں سکتے
رات کر نہیں سکتے
کیا کریں کہ دل پاگل
کچھ نہیں سمجھ پایا
کچھ سمجھ نہیں سکتا
ہم مگر جدا تم سے
ذات کر نہیں سکتے
تجھ سے ہٹ کے کوئی بھی
بات کر نہیں سکتے
تم سے ہم جدا یہ دن
رات کر نہیں سکتے
ہم بہت پریشاں ہیں
تم نظر نہیں آتے
ہم اداس رہتے ہیں
ہم نے ٹھان لی جاناں
ہر خوشی تمہارے اب
ساتھ ہی تو کرنی ہے
لوٹ کر چلے آؤ
بات ہی تو کرنی ہے

زین شکیل

******************

سائیں

حق سائیں!
برحق سائیں!
ہم بدرنگے،
عاجز،
جھوٹے،
تم
سچ سائیں!

زین شکیل

******************

بے شمار لوگوں میں

بے شمار لوگوں میں
مت شمار ہو جانا
مت ہماری آنکھوں کا
انتظار ہو جانا
تم نے کس طرح سیکھا
بے قرار ہو جانا
ایک التجا سن لو
تم مری محبت کا
اعتبار ہو جانا
ذیست نا مکمل ہے
لوٹ کر چلے آنا
اور میری دنیا میں
بے شمار ہو جانا
اس لئے یہی تم سے
بار بار کہتا ہوں
تم بھلے عقیدہ ہو
ہو مگر محبت کا
جس طرح سے میں چاہوں
اختیار ہو جانا
بے شمار لوگوں میں
مت شمار ہو جانا

زین شکیل

******************

سائیاں وے

سائیاں وے
یہ کالی راتیں
کیوں ڈسنے پہ آ جاتی ہیں؟

سائیاں وے
اب پگڈنڈی پر
تنہا چلنا کیوں پڑتا ہے؟

سائیاں وے
کچھ سپنے کیونکر
نیناں زخمی کر دیتے ہیں؟

سائیاں وے
کالے بختوں میں
کیا کچھ اچھا بھی لکھا ہے؟

سائیاں وے
یہ خون جگر میں
پی کر کیوں سیراب نہیں ہوں؟

سائیاں وے
اک بار بتا دے
کیا وہ لوٹ کے آ جائے گا؟

سائیاں وے
دل اجڑی نگری
کیا آباد نہیں ہو سکتی؟

سائیاں وے
تو چپ چپ کیوں ہے؟
کیوں تو مجھ سے روٹھ گیا ہے؟

سائیاں وے
اے بھاگوں والے
کیوں میں اتنا ٹوٹ گیا ہوں؟؟؟؟

سائیاں وے
لب کھول خدارا
کیوں دل اتنا ٹوٹ گیا ہے؟؟؟؟

زین شکیل

******************

کہو نا یاد کرتے ہو!
انا کے دیوتا !
اچھا چلو مرضی تمہاری
 پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے
تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے
تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے
چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی،
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو
"چلو چھوڑو" کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو
کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا"
مگر اِس نظم میں پنہاں
جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا،
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذباب کو سمجھا
مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا!
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش
مجھے تڑپائے رکھتی ہے کہ تم بھی تو
کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے
مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں
تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو!!
کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو

زین شکیل

******************

اداس ہو گئی نظر

اداس ہو گئی نظر
کہ مدتوں سے دیکھنے کو
پھول پھول
ڈالیاں
کلی کلی ترس گئی
جو حسرتِ وصال تھی
وہ آنکھ سے کچھ اس طرح
برس گئی کہ کیا کہیں
حدودِ ضبط سے پرے
خیالِ آبرو نہیں
کمالِ جستجو نہیں
مگر یہ زعم ہے وہاں
ہزار ہا، کروڑ ہا
یہ شکر ہے، زمینِ دل
اجڑ گئی تو کیا ہوا
ابھی یہ بے نمو نہیں
اے خواہشوں کے،
حسرتوں کی
وادیوں کے دیوتا!!
اداس ہو گئی نظر۔۔۔!

زین شکیل

******************

میں سراپا عشق ہوں محرماں

میں اسیر ہوں
میں اسیرِ زلفِ دراز ہوں
میں فقیر ہوں
میں فقیرِ شاہِ نجفؑ ہوں طیبہ کی خاک ہوں
میں نشیبِ حسرتِ دید ہوں
میں فرازِ عشق کا راز ہوں
مِرے محرماں!
میں محبتوں کی صداقتوں کا یقین ہوں
کہیں مدتوں سے میں یوں ہی گوشہ نشین ہوں
میں مکانِ فکر ہوں محرماں
کہیں عاشقی کی زمین ہوں
مجھے آئینے نے بتا دیا میں حسین ہوں
میں وجودِ ضبطِ طویل ہوں
میں اداسیوں کا مکین ہوں
مرے محرماں میں عجیب سا
مری بات بات عجیب سی
مرے دن عجیب سے رنگ کے
مری رات رات عجیب سی
میں نوائے شامِ فراق ہوں
میں نہایت اونچی اڑان ہوں
کہیں شاعری کی زبان ہوں
میں کہیں کہیں پہ گمان ہوں
میں سرورِ وجدِ وصال ہوں
میں عقیدتوں کا نشان ہوں!
کوئی دہر ہوں!
میں غبارِ ذات میں اک گھرا ہوا پہر ہوں
میں کسی کے خواب میں پھیلتا ہوا شہر ہوں
میں مٹھاس ِ لہجہء یادِ یار کا زہر ہوں
میں حسین سا کوئی قہر ہوں
میں نشاطِ وصلِ حبیب ہوں
میں مریضِ عشق ہوں محرماں
کہ میں آپ اپنا طبیب ہوں
میں ، غموں کے سینہء جاوداں میں جو گڑ گئی وہ صلیب ہوں
میں ہوں دسترس میں کسی کی
پر کسی اور کا میں نصیب ہوں
میں اداسیوں کا خطیب ہوں
نہ میں دور ہوں نہ قریب ہوں
 میں عجیب ہوں
مرے محرماں !
میں محبتوں کی اساس ہوں
کسی اور شہر میں اور ہی کسی شہر کو کہیں راس ہوں
کہیں عام ہوں کہیں خاص ہوں
میں سنہرے دشت کی پیاس ہوں
مرے محرماں میں لباس ہوں
میں لباسِ حسنِ مجاز ہوں
کہیں سوزِ ہوں کہیں ساز ہوں
میں محبتوں میں چھپا ہوا
 کوئی ایک سوز و گداز ہوں
 میں کسی غزل کی ردیف ہوں ،
کسی نظم کی کوئی داد ہوں
مرے محرماں، مرے  رازداں!
میں سراپا عشق کی بات ہوں۔۔۔!

زین شکیل

******************

آملیں اس طرح

او مرے اجنبی،
یار بیلی مرے ہمنوا،
اے مری آنکھ کے ایک کونے میں ٹھہرے ہوئے اشک!
اشکِ عقیدت میں اے ڈولتے،
چیختے، دھاڑتے اک بھنور،
او مرے بے تکے، سانس لیتے مگر میرے بے جان جیون کے اوتار و سردار
آ پھر ملیں!
پھر ملیں اس طرح کہ نظامِ وصل
اپنی آسودگی کے مراحل سبھی بھول کر دیکھنے لگ پڑے
دو محبت کے مارے ہوؤں کو..
ملیں اس طرح جس طرح ڈار سے دو پرندے بچھڑ کر
علیحدہ علیحدہ مسافت جو صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہو
اسے طے کریں اور پھر
آخری سانس لینے کو عمروں پہ طاری سفرختم کرنے پہ
یوں ہی اچانک ملیں ایک ایسی جگہ
جس جگہ جسم کی قید سے پھر رہائی کا وقتِ غضب ناک بختوں سے باہر نکل کر
سواگت میں ان کے کھڑا ہو..
کہ پھر اس سے آگے فقط روح کا مرحلہ ہو شروع
آ ملیں اس طرح
اس طرح اس گھڑی
جس گھڑی میں نہ میں نہ ہی تو
صرف ہم ہوں
مری آرزوؤں کے اے بادشاہ
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے زمیں کا کوئی آخری ایک کونہ ملے آسماں سے
یا پھر
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے کوئی اور ملتا نہ ہو
اک فنا کی طرف ہے رواں یہ جہاں
اس جہاں کے جھمیلوں سے دامن بچا کے
تُو آ تو سہی
اے اداسی کی سب سے بلند اور نوکیلی چوٹی پہ ہو کر کھڑے دور سے ہی فقط
اے مرا نام چلانے والے
تُو آ تو سہی
او مرے اجنبی یار جی
آ ملیں...
اور ملتے رہیں
اس طرح کہ جدائی کا اپنا مقدر ہمیں دیکھ کر رو پڑے
ایک مدت سے بچھڑے ہوئے سانولا!
آ ملیں ....... !

زین شکیل

******************

سائیں ہمیں ڈال امن کی خیر

وے سائیں ہم لوگ محبت والے،
سائیں ہمیں درد ملے انمول
وے سائیں اب عمریں بیت نہ جاویں،
سائیں کہیں لے کر عشق کا جوگ
وے سائیں ہمیں کالی رات کا صدمہ،
سائیں ہمیں آئے نہ اک پل چین
وے سائیں اب نیناں رو رو ہارے،
سائیں کرے روز اداسی بین
وے سائیں کیوں سُونا دل کا آنگن،
سائیں کسی روز قدم رکھ، آ
وے سائیں ہم اجڑے اجڑے موسم،
سائیں کبھی آ کر ہمیں بسا۔۔۔
وے کرکبھی سکھ کی بھی برسات،
 وے سائیاں کبھی بن کر بادل آ۔۔۔
کبھی دل کا شہر بسا،
وے سائیں ہمیں آئے نہ اک پل چین۔۔

زین شکیل

******************

MISTAKE

تن تنہا جو سنگ چلے تھے دنیا کے
تم نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہی کب تھا
لہجوں میں بھی اکتاہٹ چھوڑ آئے تھے
اپنوں سے رتّی بھر دوری کیا معنی؟
میرے کمرے میں بے چینی کا ڈھولک
تک دھن تک دھن تک دھنا دھن بجتا ہے
اس پر رقصاں تنہائی تھیّا تھیّا
اور تماشا میرے ٹوٹے خوابوں کا
اور تمہاری تعبیروں کی تصویریں
چھوڑو ! اب یہ باتیں تم سے کیا کرنی
اب خود ٹوٹے تو احساس ہوا ہے ناں
کس نے تھاما ہاتھ ذرا بتلاؤ تو
کس نے آن لگایا اپنے سینے سے
کتنا میں تم کو سمجھایا کرتا تھا
اپنے ہی بس اپنے ہوتے ہیں آخر
تب میری باتیں بےکار سمجھتے تھے
اب روتے رہنے سے کیا ہو گا پاگل؟
یہ تو تم نے پہلے سوچا ہوتا ناں!
تم نے مجھ کو غیر ضروری سمجھا تھا!!!

زین شکیل

******************

سنو اے مضطرب میرے!
اگر جنگل اداسی کا گھنا رستے میں آجائے
تو پھر ڈرنا نہیں اس سے
لباسِ خون آلودہ پہ اب کوئی بھروسہ بھی نہیں کرتا
تمہارے خط بڑے شاداب تھے سچ مچ
مگر زیادہ انہیں پڑھتا نہیں تھا میں
کہیں تم آنکھ سے بہہ بہہ کے اپنا عکس
ہی نہ توڑ ڈالو خود
فقط اس واسطے میں نے جلا ڈالے تمہارے خط
ابھی کل شام ہی آئی اداسی اور میری
بے کلی کے ہاتھ پر بوسہ دیا
اور میری بے چینی کے قدموں کو چھوا تھا
پھر مری آنکھوں سے میری روح میں اتری
بنا پوچھے
مگر اس میں مری مرضی بھی شامل تھی
یقیں جانو!
سواد آیا!
مری بے کیف سی بوجھل طبیعت میں
وہ کیسے رنگ بھرنے لگ گئی آہا...مزہ آیا
مگر اے مضطرب میرے
تمہیں اس ذات کے سارے حوالوں سے ابھی کٹنا نہیں تھا چاہئیے
کیونکہ
وہ جب چاہے
جہاں چاہے
جسے چاہے
ملا دے اس کو قدرت ہے
مری آوارگی کے اک پیاسے دشت کے اس آخری کونے میں اے بہتے ہوئے چشمے
مرے اے مضطرب اے میرے پژمردہ
تبھی شکوہ کرو اس سے کہ جب وہ دوست ہو جائے
اسے کب دیر لگتی ہے
کہ وہ بس "کن" ہی کہتا ہے
اسے بس "کن" ہی کہنا ہے.......

زین شکیل

******************

بول ری کوئل

میٹھی بولی بول ری کوئل
میٹھی بولی بول
کھو گئی پریم کے سب باغوں سے
اک پریتم کی باس
ہجر نہ آوے راس
رگ رگ اندر شور
پیا ملن کی آس
آ ری کوئل چُوری ڈالوں
آج اپنے پَر تول
نام پیا کا بول
سازِ محبت چھیڑ
رَس کانوں میں گھول
آج تو کھل کر بول ری کوئل
آج تو کھل کر بول
میٹھی بولی بول ری کوئل
میٹھی بولی بول

زین شکیل

******************

بات سنو! یوں چپ مت بیٹھو
دیواروں سے لگ کر رونا
آنکھیں پتھر ہو جانے سے
کتنا بہتر ہوتا ہے ناں..
کچھ تو بولو ناں اب چندا
کہ میں آنکھیں پتھر ہونے
سے پہلے دیوار سے لگ کر
ڈھیر سا تیری یاد میں رو لوں...
اپنے ان خاموش لبوں کو
کھولو ناں اور یہ بتلا دو
کیا یہ چپ چپ دیواریں بھی
آنسو پونچھنا جان گئیں ہیں؟؟
اب یہ دکھ سکھ بانٹیں گی ناں؟؟

زین شکیل

******************

3 October 2015

ایسی بھی اب کیا جلدی تھی
من میں بسنے والے لوگو!
دیکھو منوا ٹوٹ گیا رے
ضبط کا دامن چھوٹ گیا رے
ہم سے وعدہ ٹوٹ گیا ہے
آپ ایسے مسکائے کیوں تھے؟
دل میں آن سمائے کیوں تھے؟
گر جانا تھا آئے کیوں تھے؟؟؟

زین شکیل

******************

میں تم پر نظم لکھوں گا

میں تم پر نظم لکھوں گا
جسے دنیا سنے گی، اور لے میں گنگنائے گی
مگر فرصت تو ملنے دو
مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!
دیدہءِ حیراں، پریشاں بھی ہے یکسر اور نالاں بھی!
محبت کے سوا کتنے بکھیڑے ہیں جہاں میں
جن کو تنہا جھیلنا پڑتا ہے جن سے رخ تو پھیرا جا نہیں سکتا
سلونی! گر تمہاری ان گھنی زلفوں سے میں اب کھیل نہ پایا۔۔
تو مجھ کو معاف کر دینا!!!
یہاں آسودگی کی قحط سالی ہے
یہاں بستی کے ہر اک موڑ پہ مقتل سجا ہے
خواہشوں اور حسرتوں کا روز قتلِ عام ہوتا ہے
یہاں سرکار گونگی ہے
یہاں قانون اندھا ہے
کسی مجبور نے بچے کی اپنے فیس بھرنی تھی
مگر وہ بھر نہیں پایا۔۔
کسی نادار نے بیٹی بیاہنی تھی مگر نہ گھر میں دانے تھے نہ کملے ہی سیانے تھے۔۔
مجھے گلیوں میں اکثر کھیلتے وہ صاف دل والے
مگر میلے کچیلے، اور گندے سے غلیظ، ادھڑے ہوئے ملبوس میں موجود ننگے نونہالوں کے
خوشی تقسیم کرتے کھلکھلاتے قہقہے بھی بین لگتے ہیں!!!!
انہیں یہ کون بتلائے کہ ان گلیوں کے کھیلوں میں ڈھکی خوشیاں جو ہیں وہ عارضی ہیں
اور پھر اس کھیل سے آگے انہیں احساسِ محرومی ستائے گا۔۔۔
بڑے مہنگے سے رنگیں اور افرنگی کسی مخمل کے بستر پراے محوِ استراحت میری محبوبہ!
مرے دل میں یہ خواہش ہے کہ میں ان صاف دل والے
گلی میں کھیلتے میلے کچیلے اور ملبوسِ دریدہ میں ڈھکے بچوں کے دل میں
زندگی کے رنگ بھر ڈالوں!
انہیں بھی زندگی جینے کا ڈھب آئے
انہیں بھی خواہشوں کو قتل ہونے سے بچانے کا سلیقہ ہو
سلونی! ہاں مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم اچھی لگتی ہو
مگر مجھ کو کسی کی زندگی میں کوئی محرومی،
ذرا رتّی برابر بھی کمی اچھی نہیں لگتی
مجھے ان بے کسوں اور بے بسوں کے نرم سینوں میں
غمی اچھی نہیں لگتی۔۔
کسی اَمّی کی آنکھوں میں
نمی اچھی نہیں لگتی
نہیں میں جانتا کیسے یہ تن تنہا کروں گا
مجھ سے روشن اک دیا ہو پائے گا بھی یا نہیں
لیکن مجھے اب اس ڈگر پہ چلتے جانا ہے
سلونی! اس لیے گر اب تمہاری ان غزال آنکھوں کو میں یوں ٹکٹکی باندھے ہوئے
(جیسے کہ پہلے دیکھتا تھا)
دیکھ نہ پایا
تو مجھ کو معاف کر دینا!!!
مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!
دیکھ لو ناں! اس جہاں میں اک محبت کے علاوہ بھی بکھیڑے ہیں،
بڑے صدمے ہیں اور اتنے جھمیلے ہیں
کہ اب ان سے اگر فرصت کبھی مجھ کو ملی
تو پھر
میں تم پر نظم لکھوں گا
جسے دنیا سنے گی، اور لے میں گنگنائے گی
مگر فرصت تو ملنے دو۔۔
مگر اس بار تم یہ نظم پڑھ لینا
کہ یہ نوحہ بھی میری ذات میں پیوست ہے
مجھ سے جڑا ہے
اور اسے تم اس طرح محسوس کرنا
جس طرح سے میں محبت کے علاوہ بھی کئی دکھ ہیں جنہیں محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔!!!!
سلونی!!!!

زین شکیل

******************

پھربہت درد ہوا

پھر ترا ہجر لگا سینے سے
پھر تری یاد کفن پہنے ہوئے لوٹ آئی
پھر کسی درد بھری سسکی نے تھپکی دے دی
پھر اذیت کی کوئی شال گری کاندھوں پر
پھر کسی پھول کی میت کو کہیں دفن کیا
خوشبو نے
پھر یہ دل، مٹھی میں آیا ہوا دل رونے لگا
پھر تمہیں کیسے بتائیں کہ بہت درد ہوا
درد اتنا کہ ان اشکوں کے بھی آنسو نہیں تھمتے پل بھر
ہجر کی ذات بھی وسعت کو ہی ترجیح دیا کرتی ہے
تھام لیتی ہے مرا ہاتھ جدا ہوتی نہیں
دن خفا رہنے لگا رات خفا ہوتی نہیں
کون سی رات ہے جب آنکھ مری روتی نہیں
یہ تھکی ہاری ہوئی بد بختی
جاگ اٹھی ہے جو اب سوتی نہیں
جب ترا ہجر گلے لگتا ہے
تب یہ کہتا ہوں کہ ہجرا ذرا آہستہ سے مل
دیکھ میں ٹوٹا ہوا ہوں مجھےمت توڑ کہ میں
اس سے ملنے کے لیے کب سے سفر میں ہوں
کہ جس سے مل کر
میں نے اس ذات کو تکمیل عطا کرنی ہے
اور اسے ضبط کی تفصیل بھی بتلانی ہے
بس ذرا دھیرے سے مل اے ہجرا
مت مجھے توڑ مجھے اس کی طرف جانا ہے
اس سے مل کر یہی اک بات بتانی ہے اسے
اور بتانی بھی ہے تفصیل کے ساتھ
اور پھر سسکیاں لیتے ہوئے رونا ہے،
اسے کہنا ہے!
پھر ترا ہجر لگا سینے سے
پھر یقیں جان بہت درد ہوا

زین شکیل

******************

ہائیکوز

درد کی کتابوں میں
ضبط ہی نہیں لکھا
تیرا نام لکھا ہے
*
زندگی کے پیڑوں کو
چاٹنے لگی دیمک
بے کلی کا موسم ہے
*
آرزو کے پھندے میں
قتل چند خوشیوں کا
ریت ہے محبت کی
*
خار خار جیون میں
خوشبوؤں کا مرہم تھا
پھول کتنے زخمی تھے
*
روح سے محبت تھی
بس اسی عداوت میں
جسم نے سزا پائی

زین شکیل

******************

وہ عورت ذات تھی

وہ عورت ذات تھی
اس میں وفا کے سب عناصر پائے جاتے تھے
وہ بیٹی تھی محبت کی
اسے چاہت سوا اب اور آتا ہی نہیں تھا کچھ
وہ لڑکی تھی وہ بھاگوں والی لڑکی تھی
دعا سی تھی، عطا سی تھی،
ارادت کی فضا سی تھی،
اسے آسودگی کی چاہ تھی لیکن
اسے آسودگی نہ مل سکی تھی
اور پھر وہ دور جا نکلی کہیں تنہا
اکیلی اور بہت بے چین
بوسیدہ سے رستوں پر سفر کرتی
تھکن اوڑھے ہوئے پچھلے سفر کی
اک کنارہ پار کر کے دور جا نکلی
وہ پژ مردہ
وہ عورت ذات
وہ بیٹی
ہوا ئے سرد کے بپھرے ہوئے اندھے بہاؤ سے
اب اس سے اور زیادہ لڑ نہیں پائی
وہ جیسے کانچ کی ٹوٹی ہوئی اک آہ
جیسے بجھنے والی آخری شمع کی حسرت
یا کسی مجبور رستے کی مسافت تھی
کہ جس میں بے کلی کا ربط بھی ویسا ہی تھا
جیسا ہے اب مجھ میں!
اور اس میں سادگی کے سب تناظر پائے جاتے تھے
وہ عورت ذات تھی
اس میں وفا کے سب عناصر پائے جاتے تھے

زین شکیل

******************

اجنبی لڑکی

سنو!
اے اجنبی لڑکی
تمہیں میں اجنبی کہتا تو ہوں لیکن
تمہیں میں اجنبی کب مانتا ہوں!
مجھ میں سکت ہی نہیں
میری مجال اتنی نہیں ہے کہ
تمہارے جس قدر بھی ہیں حوالے
اب میں ان سے کٹ سکوں
میں پھر تمہاری راہ سے بھی ہٹ سکوں
تم  سے جدائی موت جیسی ہے
طبیعت مضطرب سی ہے
تمہارے بن
ادھورا پن مجھے اب چاٹنے کو ہر گھڑی رہتا ہے میرے پاس ہی
پہلو میں بیٹھا
زور سے جب چیختا ہے
سچ بتاؤں ؟
روح کے اندر بلا کا درد ہوتا ہے
اداسی پھیل جاتی ہے
وہ ناصر کاظمی کہتے جو تھے
کہ گھر کی دیواروں پہ ان کی
کھول کر یہ بال سوئی تھی..
تمہیں اب کیا بتاؤں
اجنبی لڑکی
یہاں کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ عجب سا ہے
اداسی بال کھولے آ تو جاتی ہے
مگر سوتی نہیں
نہ جاگتی ہے
نا ہی کوئی بات کرتی ہے
فقط خاموش ہے
مدت سے خاموشی کی چادر اوڑھ کر
اپنے لبوں میں ہی
نجانے کون سا منتر پڑھے جاتی ہے
اور پھر پھونک دیتی ہے
مری لاچاریوں پر بھی
مری بیداریوں پر بھی
مگر جب بھی تمہاری یاد آتی ہے
تو پھر یہ چیختی ہے
اور مرے کانوں میں وحشت گونجنے لگتی ہے
اور اندر تلک جاتی ہے
میری روح کو زخموں کا پہناوا عطا کر کے
نجانے پھر کہاں پر لوٹ جاتی ہے
اداسی بین کرتی ہے
تو پھر بے ساختہ میرے لبوں سے یہ نکلتا ہے
تمہیں میرا یقیں آتا نہیں کیوں کر؟؟
سنو اے اجنبی لڑکی
بتاؤ کس طرح سے میں تمہاری روح میں اتروں؟
بتاؤ کس طرح باور کراؤں میں تمہیں کیسے بتاؤں؟
کہ مجھے تم سے محبت ہو رہی تھی
ہو گئی تھی
ہو گئی ہے
اور بہت ہی دور تک ہوتی چلی جائے گی
میری اجنبی لڑکی
مجھے تم سے محبت بے تحاشہ ہے
بہت زیادہ سے زیادہ ہے
مگر جب پوچھتی ہو
کس قدر ہے
تو نجانے کیوں
تمہیں دکھلا نہیں پاتا
تمہیں بتلا نہیں پاتا
یقین جانو مری اے اجنبی لڑکی
محبت ناپنے کا کوئی بھی آلہ نہیں ہے پاس میرے
نا ہی میں نے اس طرح کی کوئی بھی خواہش کبھی کی ہے
کہ میں تم کو کبھی لفظوں میں بتلاؤں
کہ ہاں اتنی...
ذرا سی...
اور تھوڑی...
اور زیادہ سی...
یہاں تک بس....
نہیں اے اجنبی لڑکی
محبت کب سماتی ہے
سمندر میں بتاؤ تو
نہ کوئی لفظ ایسا ہے
بتائے جو
کہ ہاں اتنی محبت ہے
یہاں سے ہے شروع اور بس یہاں تک ہے
مری اے اجنبی لڑکی
سنو دیکھو..
میں بے پایاں محبت تم سے کرتا ہوں
کنارہ ہی نہیں اس کا
کبھی آؤ
کبھی تو ڈوب کر دیکھو
تمہیں شکوہ ہے تو بس یہ
کہ میں کہتا نہیں تم سے
تمہیں خود جان جانا چاہئیے تھا ناں
مرے اندر بھی رہتی ہو
مگر تم بے خبر کیوں ہو؟
تم اتنی بے صبر کیوں؟؟
مری اس زندگانی سے جڑے سارے حوالوں سے جڑی
میری فقط
میری ہی ذاتی
اک مری اپنی
مری اے اجنبی لڑکی
مجھے تم سے محبت ہے
محبت ہے
محبت ہے
بہت زیادہ محبت ہے
بہت زیادہ سے بھی زیادہ محبت ہے
مری اے اجنبی لڑکی....!

زین شکیل

******************

December 2015

مجھے وہ۔۔۔
 جنوری ہو، فروری ہو،
مارچ ہو،
یا پھر ہوں دن اپریل کے،
یا ہو مئی یا جون، جولائی
اگست اور پھر ستمبر میں.
وہ اکتوبر، نومبر میں
بھی اتنا یاد آتا ہے
کہ جتنا اب دسمبر میں !!!!!

زین شکیل

******************

آمِلیں

آمِلیں اس طرح کہ
وچھوڑا ہمارا ملن دیکھ کر رو پڑے
محرماں!
آ ملیں اور جدائی کو ناراض کر دیں
مرے سانولا
آ ملیں۔۔!

زین شکیل

******************

بول سجن

مت بول سجن،
یہ مندے مندے بول سجن
صدیوں سے روایت ہے یارا
قربان تو کر اب "میں" یارا
بس رنگ بکھیر محبتاں کے
اے سوہنے مٹھڑے یار سجن!
آ لگ سینے اک بار ماہی
سب گھٹ جاویں آزار ماہی
یہ پریم کی گانٹھیں کھول سجن
مت ایسے جندڑی رول سجن
آ چھوڑ کے آج اور کل، بیٹھیں
آ مل کر پل دو پل بیٹھیں
ہم اک دوجے کی دید کریں
ہم عید کریں ہم عید کریں
گل باتاں سُن، انمول سجن
تو آج لبوں کو کھول سجن
اب عید مبارک بول سجن
تجھے عید مبارک ڈھول سجن
تجھے عید مبارک ڈھول سجن

زین شکیل

******************

ہم سودائی اب تک جان نہیں پائے

ہم سودائی اب تک جان نہیں پائے
کس کے سینے لگ کر کتنا رونا تھا
کس سے کتنی بات چھپایا کرنی تھی
کس کو کتنی بات بتایا کرنی تھی
کس کی آنکھ میں چھپ کر بیٹھے رہنا تھا
کس کے دل میں شام گزارا کرنی تھی
ہم معصوم طبیعت والے آوارہ
اب تک بالکل بھی یہ جان نہیں پائے
بن پوچھے کس کس کے خواب میں جانا تھا
کس کو اپنا حال سنایا کرنا تھا
کس کو آنکھوں پار اتارا کرنا تھا
ہم سودائی اب تک جان نہیں پائے

زین شکیل

******************

اداس کر کے کہاں گئے ہو

مکان والو!
زمین والوں کو چھوڑکر تم کہاں گئے ہو؟
اے آسمانوں کے راستوں میں بھٹکنے والو
کہاں رکے تھے؟
تمہیں اداسی کے پار جانے کا شوق کیوں تھا؟
مکان والو!
زبان کھولو!
کہ خاک ہونے سے خاک ہوتا نہیں ہے جیون
وہ ایک منزل کہ دو قدم پہ پہنچ تو سکتے تھے آپ بھی اور ہم بھی لیکن
ذرا بتاؤ
کہ دو قدم تھے جو خارزاروں میں بکھرے بکھرے
کہ ساتھ چلنے کے تم نے وعدے تو کر لئے تھے مگر بتاؤ کہ دو قدم وہ
کہاں چلے ہو؟
زبان والو!
ذرا بتاؤ کہاں پہ کرنی تھی بات کس سے، کہاں پہ کی تھی؟
کہی تھی کس سے؟
وہ بات کیا تھی؟
اے کان والو!
وہ جس کی باتیں ہنسی ہنسی میں اڑا گئے ہو وہ کس اذیت میں ذیست کرنے نکل پڑا ہے
کوئی خبر ہے؟؟
کہ جس نے عمروں کی بے حسی کو ،
اسی محبت کی بے بسی کو حروف دے کر بیاں کیا تھا
تمہاری خاطر
تمہیں سنانے کے واسطے ہی لہو جلا کر اداسیوں کے اجاڑ خانے سے لفظ لا کر
تمہیں سنانے کے واسطے ہی عذاب جھیلے تھے شاعری کے
اسے ہی سن کر ہنسی ہنسی میں اڑا گئے ہو!
اے کان والو!
یہ کیا کِیا ہے؟
نظر ملانی تھی کس سے تم نے، ملائی کس سے؟
اے آنکھ والو!
نظر اٹھا کر جھکانے والو!
نگاہ والوں سے اے نگاہیں چرانے والو!
ذرا بتاؤ کہ کس نگر میں ہماری آنکھوں کو لے گئے ہو؟
کہاں پہ جا کر چھپا دیا ہے؟
تمہاری چاہت میں خون رسنے لگا تو ہے پر
کسی کی جانب نہیں یہ اٹھنے کی تاب رکھتیں
کسی بھی صورت
کسی بھی لمحے
حصار ٹوٹے اداسیوں کا
تو ہم بھی حسرت کے آئینوں پر
گرائیں پتھر
حصار ٹوٹے تو ہم بھی بولیں
مگر ابھی تک حروف جامد ہیں، آنکھ نم ہے
زبان چپ ہے،
اداسیوں کے گھڑے میں ہم کو گرانے والو!
ہماری مردہ سی حسرتوں کو جناز گاہوں میں لانے والو!
زبان کھولو!
کہ آخری بار پوچھتے ہیں
سو آخری بار ہی بتا دو
اداس کر کے کہاں گئے ہو؟
مکین تم بن اجڑ چکے ہیں،
مکان والو!

زین شکیل

******************

مجھے تم یاد آتے ہو

اداسی بین کرتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی
مجھے تم یاد آتے ہو
یہ نیناں روز روتے ہیں
مجھے تم یاد آتے ہو
تمہیں واپس بلاتے ہیں
مجھے تم یاد آتے ہو
مرے تم پاس ہو کر بھی
مجھے تم یاد آتے ہو
بڑی بوجھل طبیعت ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
جدائی جان لیتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے ہنسنا نہیں آتا
مجھے تم یاد آتے ہو
مری ہر سانس کہتی ہے
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے اتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
مجھے کتنا رُلاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو

زین شکیل

******************

تم چلے آؤ

یاد کے سارے دریچے بھیگتے ہیں
بے بسی کرلا رہی ہے
راستوں پر پھیلتی جاتی اداسی بین کرتی اور
بڑی معدوم سی آواز میں کرلا رہی ہے
بے بسی خود بے حسی کے گیت گاتی جا رہی ہے
کھڑکیوں پر دھول بارش کے کئی قطروں کو خود میں یوں سمائے جم گئی ہے
اور شیشوں پر بنا ہر عکس دیتا ہے صدائیں
گھر کی بے ترتیبیاں ساری تمہیں واپس بلائے جا رہی ہیں
اور اس پر المیہ یہ ہے کہ مجھ کو
چائے
وہ بھی ایک ہی کپ،
خود بنانا پڑ رہی ہے!

زین شکیل

******************

سن پاگل، بے چین سی لڑکی!

سن پاگل،
بے چین سی لڑکی!
یہ جو آنکھیں ہوتی ہیں ناں
اکثر دھوکا دے جاتی ہیں
اکثر دھوکا کھا جاتی ہیں
سن پگلی، سن جھلّی لڑکی!
جسم تو مٹی ہوتا ہے ناں
جسم کو مٹی ہو جانا ہے
تو پھر اس کی چاہت کیسی؟
پھر جسموں کی حاجت کیسی؟
سن کوئل کی میٹھی میٹھی
پیاری بولی جیسی لڑکی!
میٹھے بول سنا لینا تم
روح سے روح ملا لینا تم
وار کرے جب تنہائی تو
مجھ کو پاس بلا لینا تم!
میرے گھر کے آنگن میں اک
تنہا پیڑ پہ آنے والے
میٹھے پھل کے جیسی لڑکی!
میں اس پیڑ کے نیچے بیٹھا
پھر سے تم کو سوچ رہا ہوں!
آج مجھے تم یاد آئی ہو !

زین شکیل

******************

اکثر ایسا ہو جاتا ہے

آنسو راہ بھٹک جاتے ہیں
آنکھیں بنجر ہو جاتی ہیں
سپنے مردہ ہو جاتے ہیں
نیندیں ماتم کر لیتی ہیں
اکثر ایسا ہو جاتا ہے
بھولی بسری یادیں آ کر
دل میں درد جگا دیتی ہیں
روح کو زخم لگا دیتی ہیں
بے چینی کے اس عالم میں
ساری رات گزر جاتی ہے
آنکھیں سرخ رہا کرتی ہیں
سر میں درد رہا کرتا ہے
اکثر ایسا ہو جاتا ہے

زین شکیل

******************

سن دردا

اے دردا
سن پاگل دردا
نین مرے مت چھیڑ
یہ روئیں زار و زار

سن دردا
مرے گھائل دردا
روح سے گلے نہ مل
مان جنوں کی بات

چل دردا
چل یہاں سے چل
یہاں چہروں پر سو بھیس
بےدردوں کا دیس

چل دردا
چل وہاں چلیں
جہاں گہری رات سی زلف
چندا جیسے مکھ

آ دردا
ترے بال سنواروں
جیون بھی دوں وار
کروں میں اتنا پیار

چل دردا
چل وہاں چلیں
جہاں نیناں پائیں سکھ
بانٹوں تیرا دکھ

اے دردا
مرے اچھے دردا
رکھ لے ہمارا مان
بات ہماری مان

زین شکیل

******************

تم سمجھ نہیں سکتے

آرزو کی مٹھی میں
چاہتیں مقید ہیں
بے ثبات جذبے ہیں
ہم نے سن یہ رکھا ہے
اسطرح کے کاموں میں
مصلحت ہی ہوتی ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دل کی سرزمینوں میں
با رہا یہ دیکھا ہے
اژدھامِ غم آ کر
مرقدِ محبت پر
ڈھول جب بجاتا ہے
ٹیس اٹھنے لگتی ہے
آنسوؤں کی جھانجر کو
پہن اپنے پیروں میں
رقص کرنے لگتی ہے
ضبط روٹھ جاتا ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دیکھ لو اداسی پر
انگلیاں اٹھاتے ہیں
لوگ اب شہر والے
تار تار جذبے ہیں
بے قرار سانسیں ہیں
پاک سی محبت کو
روندتے ہیں پیروں میں
لوگ اب شہر والے
یہ وبائے نفرت ہے
پھیلتی ہی جاتی ہے
شوق سے سجاتے ہیں
اپنے دل کے مندر میں
لوگ اب شہر والے
تم سمجھ نہیں سکتے۔
ربط کیا ، عداوت کیا؟
مفلسی ، امارت کیا؟
ضابطوں کی پابندی
قاعدوں کی حاجت کیا؟
ایک کاسہء مجبور
شاہ کی سخاوت کیا؟
برملا محبت کیا؟
بے سبب عقیدت کیا؟
عارضوں کے گھیرے میں
بے سکون لالی کیا؟
بکھرے بکھرے بالوں میں
بے کلی کی میّت کیا؟
زینؔ ایک مدت سے
ہم سمجھ نہیں پائے
تم کہاں سے سمجھو گے؟
تم سمجھ نہیں سکتے!

زین شکیل

******************

کون ملاوے یار پریتم بولے نہ

کون ملاوے یار پریتم بولے نہ
کون لگاوے پار پریتم بولے نہ

من میں یار کی آس کہ جیون روتا ہے
ہجر نہ آوے راس کہ جیون روتا ہے
آجا میرے پاس کہ جیون روتا ہے
بکھر گیا سنگھار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ

ہر لمحہ بے چین جدائی مارے وے
کب اکھیوں کو چین جدائی مارے وے
کیسے بیتے رین جدائی مارے وے
آن ملے آزار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ

جان پہ بن بن آئے وچھوڑا عمروں کا
من مندر سلگائے وچھوڑا عمروں کا
روح تلک ڈس جائے وچھوڑا عمروں کا
ٹوٹے دل کے تار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ

سوکھے من کے رُکھ پیا بے چین ہوئے
دِکھے نہ پِی کا مکھ پیا بے چین ہوئے
کہیں ملے نہ سکھ پیا بے چین ہوئے
زین گئے ہم ہار پریتم بولے نہ
کون ملاوے یار پریتم بولے نہ

زین شکیل

******************

کیسے نین ملائیں تم سے؟

گھر کے دروازے پر پھیلی بیل پہ لٹکی باتیں
بوسیدہ سی ایک محبت، اک بے نام اداسی
میں تو اب بھی تکتا ہوں، دالان تمہارے گھر کا
بھورے رنگ کا دروازہ بھی سیکھ گیا چپ رہنا
ساون تو بس دھول میں لپٹی یادیں دھونے آئے
آنکھوں میں برسات بھگو دیتی ہے منظر سارے
اور وہ اجڑا ، اجڑا سا گھر نین چرائے ہم سے
بات کرے نہ بیری لیکن من میں آگ لگائے!
دیکھو وہ جو ہار گیا تھا ہم سے، جیت گیا ہے!
بالکونی میں تم کو دیکھے عرصہ بیت گیا ہے!

زین شکیل

******************

جس دن کے ساجن بچھڑے ہیں

جس دن کے تم گئے ہو
اپنے ہی آپ کا میں
انکار ہو گیا ہوں
اک ضبط ہی کا چہرہ
یوں دیکھ کر مسلسل
بیزار ہو گیا ہوں
آجا مرے مسیحا
مدت گزر گئی ہے
بے درد ہے جدائی
بے ربط ہے اداسی
بیمار ہو گیا ہوں
جس دن کے تم گئے ہو

زین شکیل

******************

سن بارش میرا حال کبھی

سن بارش میرا حال کبھی
مرے نیناں ہو گئے ابر
سن بادل کے دربار کبھی
میرے اندر ہے برسات
سن بارش بارش دل والے
مری جل تھل جل تھل ذات
سن بارش کی بے چین نمی
مرے نیناں ہو گئے دشت
سن بارش کی ناراض ہوا
کبھی میرے اندر چل
سن بارش میں مہجور پِیا
اک بار دِکھا دے مکھ
سن بارش کے اوتار، مجھے
اک بار ملا سانول

زین شکیل

******************

وہی ہوا نا

تمہی نے تھاما تھا ہاتھ میرا
مجھے ہی تم نے گرا دیا نا
تمہیں کہا تھا
کہ گرد آنکھوں میں پڑ گئی گر
تو لوٹ آنا
ہماری آنکھوں کو ساتھ لے کر
سفر پہ جانا!
تم آئے، آ کر
مری ان آنکھوں کو چھوڑ کر صرف
خواب ہی لے گئے ہو میرے
نمی کو لے کر
میں اپنی آنکھوں میں
کس کو دیکھوں؟
کسے دکھاؤں گا خواب اپنے
مجھے مری ہی نظر میں تم نے
گرا دیا نا
ابھی محبت کی داستاں بھی
تھی نا مکمل
ابھی تو میرا بھی ذکر آنا تھا داستاں میں
بس آنے والا تھا نام میرا
سو اس سے پہلے ہی ختم کر کے
کہانی اپنی
یہ تم نے نقطہ
لگا دیا نا
بہت کہا تھا
کہ پاس رہنا
نہ دور ہو کر اداس کرنا، اداس رہنا
مجھے ہمیشہ ہی راس رہنا
سو دور ہو کر
قرار کھو کر
اداسیوں کا مجھے فسانہ
بنا دیا نا
تمہیں تو پہلے ہی زین ہم نے
بتا دیا تھا
بھلا وہ دے گا
جہاں بھی لکھے گا نام تیرا
مٹا بھی دے گا
جو بے تحاشہ اسے میسر
اگر ہوئے تم
گنوا بھی دے گا
تمہیں مکمل وہ کاغذوں پر
لکھا کرے گا
جلا بھی دے گا
زمانے بھر کے وہ سامنے پھر
تمہیں فسانہ
بنا بھی دے گا
تمہیں تو پہلے ہی ہم نے سب کچھ
بتا دیا تھا
نہیں کہا تھا؟
سو دیکھ لو اب
کہ اس نے سب کچھ
وہی کیا نا
وہی ہوا نا!!

زین شکیل

******************

اور سناؤ،
 تنہائی سے
تم نے کتنی باتیں کیں ؟
تم نے کتنے خواب بُنے
اور
تم نے کتنے خط لکھے؟

زین شکیل

******************

کچی نیند سے جاگی آنکھیں

اس کی بوجھل سی دلربا آنکھیں
میری جانب کبھی جو اٹھتی ہیں
مجھ کو محسوس ہونے لگتا ہے
میرا سارا وجود وزنی ہے
اس کی ہلکی سی مسکراہٹ سے
اس کے اک نیم جاں تبسم سے

زین شکیل

******************

یوں ترے ہجر میں ہم روئے ہیں

یوں کسی درد سے لڑتے ہوئے گزریں راتیں
اس طرح دل میں کوئی ٹیس اٹھی
جیسے حسرت کوئی بازار میں رہ جاتی ہے
جیسے بچہ کوئی سوتے ہوئے ڈر جاتا ہے
یوں اداسی نے مجھے اپنایا
جیسے بیوہ کسی آزار سے لگ جاتی ہے
اور ہر بات پہ بیٹھےہوئے رو پڑتی ہے
ہم نے کچھ ایسے تمہیں یاد کیا
جیسے بچے کسی تختی پہ کوئی سبق لکھیں
اور پھر یاد کریں پہروں تک
پھر ذرا سا جو اسے بھولیں تو
ڈانٹ پڑتی ہے تو رو دیتے ہیں
پھر کبھی بھول نہیں پاتے ہیں
ہم نے کچھ ایسے تمہیں یاد کیا
جیسے بیمار طبیعت کو شفا یاد آئے
ہم نے یادوں سے وضو کر کر کے
اک ترے نام کی تسبیح کی ہے
یوں ترا ہجر منایا ہم نے
جیسے بارش کی جھڑی لگ جائے
جس کے تھم جانے کا امکان نہ ہو
یوں ترے ہجر میں ہم روئے ہیں!

زین شکیل

******************

اک ترا دکھ ہی نہیں تھا کہ پریشاں ہوتے

یہ جو پہناوا ہے زخموں پہ، مداوا تو نہیں
یہ جو آنکھیں ہیں، ترے نور سراپا کی قسم
اس قدر پھوٹ کے روئی ہیں کہ اب یاد نہیں
کون سا درد کہاں آن ملا تھا ہم کو
کس جگہ ضبط پریشان ہوا پھرتا رہا
نہ ہمیں راس رہا ہجر نہ ملنے کی گھڑی
اب تمہیں کیسے کہیں زخم پہ مرہم رکھو
اب تمہیں کیسے کہیں ہم سے کہیں آ کے ملو
اب تمہیں کیسے کہیں آنکھ سے بہتے ہوئے شخص
اب ہمیں اور کئی دکھ بھی تو ہو سکتے ہیں!!!

زین شکیل

******************

مجھے تم یاد آتے ہو

اگر تم مجھے یاد آؤ
تو اس قدر یاد مت آنا
کہ میں تمہیں سارے کا سارا
یاد کر لوں!
کہیں ایسا نہ ہو
کہ پھر مجھے یاد آنے کے لیے
تم تھوڑا سا بھی باقی نہ رہو!

زین شکیل

******************

کہو تم کیا کرو گے

کبھی جب شام ڈھلتے
پکارو گے کسی کو
کسی کا نام لو گے
کوئی جب دور ہو گا
تھکن سے چُور ہو گا
تو پھر تم کیا کرو گے؟
مناؤ گے کسے تم؟
کسے دیکھا کرو گے؟
کہو تم کیا کرو گے؟
ذرا سی برہمی گر
جدائی کا سبب ہو
تو پھر یہ جان لینا
محبت یہ نہیں ہے
ذرا سی بات پر بھی
اگر روٹھا کرو گے
تو پھر تم زندگی کو
بسر تنہا کرو گے
تو پھر تم کیا کرو گے؟
تو پھر کس سے کہو گے
کہ سر میں ہاتھ پھیرے
 کہ سر میں درد ہے نا
تمہاری برہمی سے
کوئی جب دور ہو گا
تھکن سے چور ہو گا
تو سر میں درد لے کر
یونہی رویا کرو گے
نظر بھی چیخ اٹھے گی
جگر تک درد ہو گا
جو لاکھوں درد سہہ کر
کسی سے دور ہو کر
تھکن سے چور ہو کر
کبھی کا مر چکا ہے
تو اس ہنستے ہوئے کو
اگر دیکھا کرو گے
بہت ہی دیر تک تم
بہت رویا کرو گے
تو پھر تم کیا کرو گے؟
کہو تم کیا کرو گے؟

زین شکیل

******************

سنو!
اے کانچ کی گڑیا
تمہیں چھونے کی خواہش سے بھی ڈرتا ہوں
کہیں پر آنچ نہ آئے
کہیں کچھ ٹوٹ نہ جائے
سنو اے ماہِ رُو لڑکی
تمہیں میں نے بتانا ہے
تمہاری صندلیں خوشبو
مجھے محصور رکھتی ہے
محبت کے سحِر میں
تم مجھے اتنا بتا ؤ تو !
بھلا تم کون ہو ؟
اے ماہ وش
اے ماہ پارہ
چاندنی جیسی
تمہارے دور جانے سے
نہ جانے کیوں مری اب سانس رُکتی ہے
مجھے کیوں موت کا اِحساس ہوتا ہے
سنو!
اے دلربا لڑکی
مجھے دل میں جگہ دے دو
میں صدیوں سے اکیلا ہوں
تری آنکھوں میں رہنا ہے
مرے سارے ہی لفظوں کو
فقط اپنی زباں دو
مری تو زندگی ڈوبی ہوئی ہے گھپ اندھیروں میں
سنو تم نور ہو تم تیرگی میں  نور بھر دو نا
مجھےسب سے چھپا لو نا
مجھے اپنا بنا لو نا
کبھی پیڑوں سے ملنے جاؤ تو
جس پیڑ پر تم سب زیادہ
سبز پتے دیکھ لو تو اس پہ اک پتھر سے
میرا اور اپنا نام لکھنا
اور دونوں نام لکھ کر یہ بھی لکھ دینا
ہوا، آندھی کوئی طوفان
یا غم کا کوئی صحرا
کسی بھی راہ میں آئے
کوئی بھی رُت ہمیں اک دوسرے سے
یوں جدا اَب کر نہیں سکتی
محبت مر نہیں سکتی

زین شکیل

******************

محبت کے درختوں کا بھی اپنا بخت ہوتا ہے

محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ بھی گر جائے
ہوا کو چوٹ لگتی ہے
عجب وحشت کے عالم میں
ہوا یوں سنسناتی ہے
اسے رستہ نہیں ملتا
کوئی تو دشت ہو ایسا
جہاں دیوار ہو غم کی
جہاں وہ سر پٹخ  ڈالے
مگر بے درد آندھی کو
خبر شاید نہیں کہ جب
محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ اگر ٹوٹے
تو اک اک شاخ کو
اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے
جڑوں کی آخری حد تک
بلا کا درد رہتا ہے
ہوا کو اس سے کیا مطلب
اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے
ہوا تو شور کرتی ہے
اور اس کے شور سے
کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں
اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ
بے چارہ
سلگتی دھوپ میں
تنہا
تھکا ہارا
کھڑا
نہ بیٹھ سکتا ہے
نہ آنسو پونچھ سکتا ہے
مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے
اپنی جگہ قائم
فقط خاموش اور ساکت
مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے
وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص
اس پر لکھ دیا کرتا
کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادیں۔۔
سنو!
تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو
تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا
نہ میرا نام اپنے ساتھ
نہ اپنا علیحدہ سے
محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے
اُسے پڑھنا بھی آتا ہے
تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں
کہ اُس کا بخت اپنا ہے
تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو
تو بہتر ہے۔
جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں
تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو
انہیں کیو نکر ستاتی ہے
وہ اپنے درد سے عاجز
تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟
محبت کے درختوں سے
گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو
اُٹھاؤ!
اپنے آنچل میں سمیٹو
اور واپس لوٹ کر آؤ!!
سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے!

زین شکیل

******************

میرے بعد

میری آنکھوں، باتوں میں اور
میرے سارے ہی لفظوں میں
تیری باتیں، تیرا چہرہ
بالکل صاف نظر آتا ہے۔
میرے بعد بھی کب لوگوں نے
تجھ کو جینے دینا ہے۔۔

زین شکیل

******************

میں جھوٹا ہوں تم سچے ہو

میں جھوٹا تھا!
میری باتیں، مری محبت
میرے سپنے، سارے جذبے
سب جھوٹے تھے!
کس کس لمحے،
تیری کن کن باتوں پر یہ
آنکھیں برسیں
تیری تو وہ ساری باتیں
دیکھو کتنی سچی تھیں ناں،
پھر بھی تم کو یوں لگتا ہے
میرے سب آنسو جھوٹے تھے!
خیر چلو، سب چھوڑو آؤ
آ کر دیکھو !
جیسا جیسا تم کہتے تھے
سب کچھ میں نے مان لیا ہے
تم سچے تھے جان گیا ہوں
میں جھوٹا ہوں مان لیا ہے
اب ناراضی ختم کرو نا
اب تو آؤ!
آ کر دیکھو!
اب تو شام سویرے میں بس
ایک ہی بات کہے جاتا ہوں
سارے جذبے،
سارے آنسو،
سارے موسم ،
ساری کلیاں،
ساری سڑکیں،
ساری گلیاں،
میز پہ رکھی چائے کی پیالی،
سورج ، چاند، ستارے، راتیں
صبحیں، شامیں، ہجر کے قصے
سب کے سب کتنے جھوٹے تھے
دیکھو میں نے مان لیا ہے
ساری دنیا ہی جھوٹی تھی
اس میں بس اک تم سچے تھے
تیری قسمیں،
تیرے وعدے،
تیرے جذبے
اور تمہارے آنسو سچے،
اور تمہاری چاہ بھی سچی،
اب تو خدارا آن ملو نا
دیکھو سب کچھ مان چکا ہوں
میں جھوٹا ہوں، جان چکا ہوں
اب ناراضی ختم کرو نا
اَب تو آؤ۔۔ آن ملو نا!

زین شکیل

******************

ملو مجھ سے
 (نثری نظم)

ملو مجھ سے کسی بھی ویران لمحے میں
کسی پریشان خواب میں
یا پھر کسی کی بھی حیران آنکھوں میں
اداسی کے غضب سے تنگ ہوں
بد حواسی روح کو گھائل کرتی جا رہی ہے
نبضیں چیخ چیخ کر تمہارا نام لے رہی ہیں
لہو کی گردش تمہیں رو رو کر پکار رہی ہے
ہوا ڈر ڈر کر میرے کوچے سےگزرتی ہے
کہیں میں غصہ نہ کروں
تمہارے بارے میں پوچھوں مت
پاگل ہوں،
پوچھتا رہتا ہوں
ہر بار ایک ہی بات
بار بار
ہوا سے،
موسم سے،
اداسی سے بھی تھوڑی بہت،
تنہائی سے کچھ زیادہ ہی،
ہر آنے والے سے بھی جو تمہارے شہر سے ہو کر آئے
ہر اس شخص کے ہاتھ پیغام بھیجتا ہوں
جسے جانا ہوں
تمہارے شہر ،
یا اس سے گزر کر کہیں آگے،
یا کہیں اس سے پہلے
تو اس کی بھی بنتی کرتا ہوں کہ
تمہارے شہر رک جائے کچھ دیر جسے آگے جانا ہو
 یا کچھ آگے چلا جائے جسے پہلے رکنا ہو
ہوا کے ہاتھ بھی بھیجتا ہوں
یہی پیغام
بار بار
ہر بار
پاگل ہوں،
تمہاری بات کے سوا کوئی بھی بات
مجھے ٹھیک طرح سے اچھی نہیں لگتی
سچ کہوں تو کچھ پسند نہیں آتا
تم کیوں اچھی لگی؟
تم نے کیا نا سب؟
کوئی منتر پڑھا ؟
یا ٹونا کیا؟
کیوں مجھے کچھ پسند نہیں آتا؟
نہ کپڑے،
نہ جوتے،
شیو بھی بڑھی رہتی ہے،
کچھ چاہنے والے ہیں جو زبردستی مجھے سنوارنے میں لگے رہتے ہیں
سچ کہوں!
مجھے وہ بھی بالکل پسند نہیں ہیں
مجھے تم پسند ہو
کیوں کہ تم نے مجھے ایسا کیا
مجھے ایسا کیوں پسند ہے؟
مجھے بھی معلوم نہیں ہے
تمہیں شاید معلوم ہو
شاید تمہیں بھی نہ ہو!
اگر ہوتا تو ہوائیں مجھے سب کچھ بتا دیتیں
مگر ان کے پاس بھی تو کچھ نہیں بتانے کے لیے
سو وہ بھی ڈر کے یا پھر دامن بچا کے
یا مجھ سے کترا کے گزرتی ہیں
کہ کہیں پھر سے تمہارے بارے میں
کچھ مت پوچھوں!
یہ بھی ممکن ہے کہ یہی برتاؤ
وہ تمہارے ساتھ بھی کرتی ہوں
لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتا۔
کل سے روح میں کوئی دراڑ سی ہے
جس سے درد ہے
محسوس ہو رہا ہے
خیر کل سے تو نہیں ہے
مدت ہونے کو ہے
ایسا ہی کچھ ہے!
خیر تم دھیان مت دینا
جتنے بھی پیغام تم کو بھیج رہا ہوں
سب فضول باتیں لگیں گی
یہ بھی معلوم ہے!
اور یہی بات ہر پیغام کی ابتدا میں لکھی ہے
کہ درمیان کی ساری باتوں پر دھیان مت دینا
میں جانتا ہوں تمہیں فضول لگیں گی
شاید بے معنی
اور اس سے اگلی بات یہ لکھی
کہ بس آخری سطروں میں لکھا ایک مختصر سا پیغام ہے
اسے ضرور پڑھنا
جس میں فقط یہی لکھا ہے
 ملو مجھ سے
مجھ سے ملو
بے تحاشہ
اور بہت زیادہ
جتنا ہو سکے
جتنی جلدی ہو سکے
یا جب بھی فرصت ملے۔
ہوا نے مجھے بتایا تھا
کہ سارے پیغام ٹھیک سے بھجوا دیئے ہیں
تم تک قرینے سے پہنچ بھی گئے ہیں
مگر مجھے لگتا ہے
تم نے صرف درمیان کی باتیں پڑھ لیں ہیں
پہلی اور آخری سطر چھوڑ کر
درمیان کی بے معنی اور فضول سی گفتگو پر دھیان دیا ہے
اسی لیے شاید
تم ملنے نہیں آ رہیں
مگر میں کیا کروں
درمیان کی باتیں ہر پیغام میں نہ لکھوں
تو یہ کہنے کا بالکل مزہ نہیں آتا کہ
ملو مجھ سے
مجھ سے ملو
بے تحاشہ
اور بہت زیادہ
جتنا ہو سکے
جتنی جلدی ہو سکے
یا جب بھی فرصت ملے!!!

زین شکیل

******************

ملو مجھ سے 1

ملو مجھ سے
کہ ملنا ہے مجھے تم سے
کسی شاداب نگری کےکسی برباد خطے کے
بڑے ویران کونے میں
کسی بے چین لمحے میں
بڑے بیتاب سینے سے
لگانا ہے تمہیں میں نے
جہاں پر ہجر کے موسم بھی اپنا رخ بدلتے ہوں
جہاں پر آرزوؤں کا کبھی نہ خون ہو پائے
جہاں تم سے بچھڑنے کا کوئی بھی راستہ نہ ہو
جہاں پر خواب تعبیریں بھی اپنے ساتھ لاتے ہوں
جہاں پر آنکھ کھلتی ہو تو میرے سامنے تم ہو
جہاں پر نیند بھی مجھ کو تمہارے ساتھ آتی ہو
تمہارے ساتھ ہونے سے خزاں بھی کھلکھلا اُٹھے
فضا بھی مسکرا اٹھے،
جہاں نہ بھوک اور افلاس سے بچے بلکتے ہوں
جہاں سر کی ردا لاچار کا ماتم نہ کرتی ہو
جہاں نہ شہر جلتے ہوں
جہاں نہ بے سروپا آفتوں سے لوگ مرتے ہوں
جہاں پر دوسروں کے خون سے نہ پیاس بجھتی ہو
جہاں پر صرف بے پایاں محبت کا بسیرہ ہو
جہاں بس نین ملتے ہوں، دلوں کو چین آجائے
جہاں بیٹھے بٹھائے اک حسیں پر پیار آجائے
تو ساری عمر بس اس اک حسیں کے نام ہو جائے
تو سوچو تم!
کسی شاداب نگری کا کوئی برباد سا خطہ
کوئی ویران سا کونہ
سدا آباد ہو جائے
تمہیں سینے لگا کر دل کی بیتابی ٹھہر جائے
یہ کہنا ہے مجھے تم سے
زمانے کے جھمیلوں سے
بچا کر اپنی نظروں کو
چھڑا کر ہاتھ دنیا سے
وہاں اک بار آجاؤ
کہ اب بھی منتظر ہوں میں
جہاں تم سے بچھڑنے کا
کوئی بھی راستہ نہ ہو
یہی ہر خط میں لکھتا ہوں
ملو مجھ سے
کہ ملنا ہے مجھے تم سے
بڑے بیتاب سینے سے
لگانا ہے تمہیں میں نے
ملو مجھ سے

زین شکیل

ملو مجھ سے 2

ملو مجھ سے
کہ مجھ سے اب کوئی ملتا نہیں ویسے
کہ جیسے تم ملے مجھ سے
ملو مجھ سے کہ بے چینی نہیں جاتی
سنائی دینے لگتی ہیں مجھے خاموشیاں ایسے
کہ جیسے دل کی دھڑکن سانس کے ٹکڑوں سے مل کر
بے سروپا اور اک بے ضابطہ ترتیب سے بس شور کرتی ہو
ملو مجھ سے کہ اب راتیں عجب
 سرگوشیاں کرتی ہیں مجھ سے
 اور کچھ ایسی عجب باتیں سناتی ہیں
جنہیں میں سن تو لیتا ہوں
 مگر سہتے ہوئے کانوں سے اتنا خون رستا ہے
 کہ مقتل گاہ کا منظر سا بن جاتی ہیں آنکھیں بھی
جگر کے پار سے بھی درد کی آواز آتی ہے
تمہیں میں یاد کرتا ہوں
میں سب کچھ بھول کر اک بس تمہیں ہی یاد کرتا ہوں
مگر کب تک، کہاں تک اور پھر کیسے سہوں سب کچھ تمہارے بن
کہوں کس سے؟
ملوں کس سے؟
کہ مجھ سے اب کوئی ملتا نہیں ویسے
کہ جیسے تم ملے اک بار ہی مجھ سے
ملو مجھ سے!

زین شکیل

ملو مجھ سے 3

ملو مجھ سے کہ بے ترتیب ہوں ترتیب دے جاؤ!
ملو مجھ سے کہ میرا جسم بھی اب سرد ہے سانسیں رکی ہیں
 آؤ اب جذبات کی حدت سے میری روح میں
 اک روح کو تحلیل کر دو اور
محبت کی اس آمیزش سے میری سانس کو تحریک دے جاؤ!
ملو مجھ سے کہ لکھنا ہے تمہیں میں نے
خود اپنے دل کے صفحوں پر غزل کی شکل میں یا پھر
 نظم کے اک نرالے انگ میں ایسے
 کہ جس کی بحر بھی تم ہو، تمہی تشبیہ، تمہی ہو استعارہ بھی!
ملو مجھ سے کہ دانستہ تمہی سے روٹھ کر میں نے
تمہیں اتنا منانا ہے کہ پھرتم روٹھ نہ پاؤ
کبھی مجھ سے!
یہ بے ترتیبیاں میری
مجھے اک ناگ کی مانند ڈستی ہیں
بڑا نقصان کرتی ہیں
مری رگ رگ میں اتنا زہر بھرتی ہیں
کہ جس کے درد سے پھر روح کی آ ہ و بکا سونے نہیں دیتی،
میں رونا چاہتا ہوں یہ مجھے رونے نہیں دیتی!
میں بے ترتیب ہوں اتنا کہ بےترتیبیاں میری
تمہیں آواز دیتی ہیں
 تڑپتی ہیں تمہارا نام لیتی ہیں
سسکتی ہیں تمہیں واپس بلاتی ہیں
کہ لوٹ آؤ!
ملو مجھ سے میں بے ترتیب ہوں ترتیب دے جاؤ!
ملو مجھ سے!

زین شکیل

ملو مجھ سے 4

مجھے معلوم ہے مجبور ہو
مہجور ہو
میری حدوں سے دور ہو
یا پھر
کسی بھی کام میں مصروف ہو
تم مل نہیں سکتے
مگر پھر بھی
گزارش ہے
ملو مجھ سے!

زین شکیل

ملو مجھ سے 5

اِسے چاہو تو میری
آخری خواہش سمجھ لو
پر
ملو مجھ سے

زین شکیل

ملو مجھ سے 6

ملو مجھ سے
نگاہوں کے اشاروں سے پرے ہو کر
زمانے کے فشاروں سے پرے ہو کر
گلوں سے اور بہاروں سے پرے ہو کر
کسی بے چین دریا کے کناروں سے پرے ہو کر
ان آنکھوں سے نکلتی آبشاروں سے پرے ہو کر
ہمارے دل میں پھیلے اک گھنے غم کے سیاہ جنگل میں بکھری ،درد کے پیڑوں کی شاخوں
اور رستوں میں کہیں بکھری پڑی کچھ سخت جھاڑوں سے پرے ہو کر، ملو مجھ سے
ملو مجھ سے
خساروں سے پرے ہو کر
اکیلے تم ، اکیلا میں
ملو مجھ سے
 ہزاروں سے پرے ہو کر
زمیں کی وسعتیں محدود ہیں
پھر بھی جدائی کیوں نگاہیں پھاڑ کر تکنے لگی ہے راہگزر ایسے
کہ جیسے آسمانوں میں بھی اک پھیلی ہوئی ایسی جدائی ہے
مسلسل جو ہمیں باور کراتی ہے کہ جیسے لامکاں کی وسعتوں میں بھی نہیں ممکن تمہیں ملنا
تمہیں ملنے کی خاطر آسرے کی سخت حاجت ہے
مگر میں تم سے کہتا ہوں
کوئی بھی آسرا لے کر
کسی محتاج لمحے کی کسی ٹوٹی ہوئی ساعت میں اب
تم سے نہیں ملنا۔
مگر تم جس قدر چاہو ، جہاں چاہو
ملو مجھ سے
مگر دیکھو،
سہاروں سے پرے ہو کر

زین شکیل

ملو مجھ سے 7

ملو مجھ سے،
کہ مدت سے نہیں دیکھا تمہیں میں نے!
تمہیں سوچا بہت ہے پر تمہارا سامنا کرنے کی حاجت ہے
تمہارے سامنے اک بار پھر خاموش رہ کر چیخنا ہےاور تمہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں
یہی اک بات کہنی ہے
مجھے اب بھی محبت ہے
مگر پہلے سے زیادہ ہے
ملو مجھ سے !
مجھے اک بار پھر سے پوچھنا ہے
کون سے انداز میں بالوں کوکنگھی سے بناؤں جس سے میں اچھا لگوں تم کو
مجھے اک بار پھر سے پوچھنا ہے
 کیا تمہیں میں یاد آتا ہوں؟
مجھے یہ پوچھنا ہے کیا ہوا اُس ڈائری کا جس میں میرے شعر لکھے تھے
تمہیں سب یاد تھے ناں !
کیا تمہیں وہ یاد ہیں اب بھی؟
تمہیں مل کر مجھے خود آپ اپنی ذات سے ملنا ہے
خود سے پھر تمہارے بارے میں
میں نے ضروری بات کرنی ہے
تمہارے نام میں نے پھر سے اپنی ذات کرنی ہے
ملو مجھ سے،
کہ مدت سے نہیں دیکھا تمہیں میں نے!

زین شکیل

******************

مار نہ مجھ کو مائے

مار نہ مجھ کو مائے
میری رانجھن کے سنگ پریت
بول نہ مندے بول
مِرا ہر سکھ رانجھن کے ساتھ
پھیلی میرے نینوں میں
بن رانجھن کالی رات
رانجھن کوسوں دور
یہ نیناں روئیں زار قطار
مار نہ مجھ کو مائے
میری آنکھوں میں برسات

زین شکیل


******************

چندا جی

کچھ تو بولو چندا جی
تم کیوں اتنے چپ چاپ
کالی رات میں تنہا بیٹھے
تاروں سے کیا بیر؟
تیری صورت سے جھلکے ہے
ایک اداسی آپ
تڑپے تیرے ہجر میں کیونکر
پاگل ایک چکور
تم نے اس سے جانے رکھا
کیسا میل ملاپ
کچھ تو بولو چندا جی
تم کیوں اتنے چپ چاپ

زین شکیل

******************

اب مِرے پاس تم نہیں آنا

مسکراہٹ کے بعد کا رستہ
مجھ سے پھر طے نہ ہو سکا جاناں
تجھ سے پہلے بھی میں اکیلا تھا
میں ترے بعد بھی اکیلا ہوں
یہ مرا بخت بھی نرالا ہے
اس میں ٹھہری تھیں جس قدر خوشیاں
پہن کر وہ سیاہ لباس سبھی
بال اپنے بکھیر بیٹھی ہیں
گھر وہ اپنا اجاڑ بیٹھی ہیں
وصل کا ایک پل بھی راس نہیں
کوئی سکھ بھی تو آس پاس نہیں
کوئی میری طرح اداس نہیں
اس لئے مجھ سے دور رہنے میں
ہے ترے بخت کی بھلائی اب
احتیاطاً یہ تم سے کہتا ہوں
اپنی خوشیاں اجاڑ مت دینا
بخت کا سوگ تم نہیں کرنا
اب مِرے پاس تم نہیں آنا۔۔۔

زین شکیل

******************

پریتم ہم سے دور نی مائے

نی مائے ہم روگوں والے
دل ہاتھوں مجبور
یار کی دید کی آس میں جل جل
بن بیٹھے ہیں طور
راہ دِکھے نہ پریم نگر کی
سب آنکھیں بے نور
جتنا پاس ہوا ہے پریتم
ہم سے اتنا دور
ایک نگاہ کرے پریتم کی
درد سبھی کافور
لیکن پریتم دور نی مائے
پریتم ہم سے دور
نی مائے ہم روگوں والے
دل ہاتھوں مجبور

زین شکیل

******************

یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں
ان کی ہوتی ہے ایک ذات اپنی
ان کی ہوتی ہے ایک بات اپنی
ان کے تیور کمال ہوتے ہیں
یہ کسی سے خفا نہیں ہوتیں
یہ کسی کو خفا نہیں کرتیں
ان کی عادت ہے بے ضرر کتنی
لوگ دنیا کے جو ستائے ہوں
وہ جو تنہائیوں کے مارے ہوں
ہاتھ یہ ان کا تھام لیتی ہیں
اور سب سے بڑا ہے وصف ان کا
یہ کبھی بے وفا نہیں ہوتیں
ہم ہی مردہ ضمیر لوگ ہیں بس
صرف الزام دیتے رہتے ہیں
بولتے ہیں برا اداسی کو
اس سے آنکھیں ملا کے دیکھو تو
کتنی معصوم ہے اداسی یہ
جاں سے پیارے جو لوگ ہوتے ہیں
جو کہ بچھڑے ہوئے ہوں مدت سے
بس انہی کے سبب اداسی یہ
ہم کو جتنا اداس رکھتی ہے
ان کو اتنا ہی پاس رکھتی ہے!
یار یہ جو اداسیاں ہیں ناں
ان کو محسوس کر کے دیکھو ناں
یہ کوئی بے سبب نہیں ہوتیں!

زین شکیل

******************

کاش عید مت آتی

عید آ گئی جاناں
پچھلی کتنی راتوں سے
میں نے خواب دیکھے تھے
چاند رات کے جاناں
تم پلٹ کے آؤ گے
موتیے کے گجروں سے
بانہوں کو سجاؤ گے
کان میں کوئی بالی
ہاتھ میں کوئی کنگن
پیر میں کوئی پائل
جو کبھی چھنکتی ہو
تیرا نام لیتی ہو
اور ہاتھ کی مہندی
تم جو لے کے آؤ گے
ہاتھ کے ڈیزائن میں
تیرا نام لکھوں گی
جو ترے سوا کوئی
اور پڑھ نہ پائے گا
جب گلے لگاؤ گے
دوریوں کے سارے پل
سانس توڑ جائیں گے
بس ہرے بھرے ہوں گے
وصل کے سبھی لمحے
انتظار جاری تھا
اواس کا فون آیا
آج آ نہیں سکتا
کام اک ضروری ہے
میں خرید بیٹھا ہوں
چوڑیاں تری خاطر
بالیاں بھی مہندی بھی
موتئیے کے گجرے بھی
پر میں آ نہ پاؤں گا
میں انہیں ملازم کے
ہاتھ بھیج دیتا ہوں
پلیز مائینڈ مت کرنا
تم تو جانتی ہو ناں
مجھ کو کتنی چاہت ہے
تم سے ہی محبت ہے
کام بھی ضروری ہیں
کل ضرور آؤں گے
اب میں کال رکھتا ہوں
آئی مس یو سو ویری مچ
اور یونہی گھنٹوں تک
فون ہاتھ میں لے کر
جانے کتنے گھنٹوں سے
جانے دیر سے کتنی
اک نگر میں کھوئی ہوں
بے تحاشہ روئی ہوں
کچی عمر کی چاہت
کتنی پکی ہوتی ہے
وہ سمجھ نہ پائے گا
کاش عید مت آتی
اور ہجر ٹلنے کا
اک سبب تو کم ہوتا
اب یہ سوچتی ہوں میں
جب صبح وہ لوٹے گا
کس طرح اسے مل کر
میں نظر ملاؤں گی
اور کس طرح اسکو
دل سے یہ کہوں گی میں
اور یہ اسے کہنا
کس قدر کٹھن ہو گا
عید کی مبارک ہو۔۔!

زین شکیل

******************

عید الفطر 2015

عید آگئی بابا
سارے لوگ ملتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں سے
بانٹتے ہیں پیار اتنا
جس کی حد نہ ہو کوئی!
بھول کر کدورت کو
بس گلے لگاتے ہیں
باپ اپنے بیٹوں سے
خوب پیار کرتے ہیں
عیدیاں بھی ملتی ہیں
یار دوست ملتے ہیں
خوب رنگ ہوتے ہیں
چاہتوں کی محفل کے
اور یہ روایت تو
چل رہی ہے برسوں سے
ہوش جب سنبھالا تھا
تب سے ملتے آیا ہوں
بے پناہ لوگوں سے
چند رشتہ داروں سے
کچھ پرانے یاروں سے
اک تمہارے بن بابا
عید زہر لگتی ہے
روح میں  اذیت ہے
جسم و جاں کو ڈستی ہے
اک تمہارے بن بابا
آپ یاد آتے ہیں
اور لگ سی جاتی ہے
آنکھ میں جھڑی بابا
عید کیوں گزرتی ہے
اک تمہارے بن بابا
آپ یہ بتائیں ناں
میرے ساتھ کیا بابا
ایک عید کرنی تھی؟
میری عمر کی پہلی
اور آخری وہ عید
اس کے بعد بس بابا؟؟؟
بن گیا مری خاطر
عید عام دن بابا
آج پھر چلی آئی
آپ کے بنا بابا
آپ کیوں نہیں آتے؟
عید لوٹ آتی ہے
آپ کے بنا بابا
پھر بھی آپ کو دل سے
عید کی مبارک ہو
آپ کو میرے بابا۔۔۔!
عید پھر مبارک ہو۔۔۔!

زین شکیل

******************

بےخبر
ماہمِ من!
قسم سے تمہارا ہی یہ حوصلہ تھا
کہ تم نے سنبھالا ہوا تھا
مری ساری بے چینیوں اور بے تابیوں کو
بڑے ہی قرینے سے
اور اک تسلسل سے
اور اب تمہاری ضرورت
بکھرنے لگی ہے دوبارہ مرے چار سو
ماہمِ من!
سنو تو سہی!


زین شکیل

******************

فرحت عباس شاہ کے نام

تم مرے پاس نہیں ہو لیکن
تم سدا ساتھ رہے ہو میرے
یہ جو رستے ہیں بڑے تنگ نظر ہیں دیکھو
اور وہ لوگ جو آگے سے چلے آتے ہیں ان رستوں سے
ان کے بارے میں تو مت ہی پوچھو!
اور اکثر میں تری یاد میں بیٹھا ہوا تکتا ہوں انہی رستوں کو
بعض اوقات کوئی خط بھی تو لے آتا ہے
جس کو کھولوں تو میرے ہاتھ پہ چھالے سے نکل آتے ہیں
اور اس خط میں جو تحریر لکھی ہوتی ہے
اس میں بے چینی کے انبار لگے ہوتے ہیں
پھر بھی تم یاد بہت آتے ہو
جس طرح تم کو بھی تنہائی ڈسا کرتی تھی
جس طرح تم کو بھی خوف آتا تھا تنہائی سے
ہاں وہی، ویسی ہی تنہائی مجھے ملنے چلی آتی ہے
سینے لگتی ہے تو رو دیتا ہوں
اور پھر اس کے سوا کوئی بھی چارہ تو نہیں
شام کے وقت اجڑ جانے کا ماحول سہانا تو نہیں
اور تم میری ذہانت پہ ذرا غور کرو
شدتِ درد سے بچنے کے لیے روح کو لٹکا کے کسی ہینگر میں
اپنے کمرے میں ہی چھوڑ آتا ہوں
اور چل پڑتا ہوں یہ خوفزدہ جسم لیے پھر سے انہی رستوں پر
جن پہ شاید ہی کبھی ایسا کوئی شخص ملے
جو تری بات کہیں سے بھی چرا لاتا ہو
جو تری ذات کا احساس چرا لاتا ہو
اور ایسا تو کئی بار ہوا ہے فرحت
ترا احساس لیے گھر کو میں لوٹ آتا ہوں
تیرے احساس کو ہینگر میں لٹکتی ہوئی بے چین سی اک روح میں بند کرتا ہوں
اور پھر خود میں سمو لیتا ہوں
تب کہیں جا کہ قرار آتا ہے
اور بے چینی پہ پھر صبر کے بادل سے امڈ آتے ہیں
تم مرے ساتھ رہا کرتے ہو ایسے فرحت
اور اک بات سمجھ سے مری بالا تر ہے
تم مرے ساتھ بھی رہتے ہو مگر یاد بہت آتے ہو
رات کی ذات میں اک بات چھپی ہوتی ہے
اور اسی بات کی تہہ میں جا کر
میں تمہیں یاد کیا کرتا ہوں
اور اک بات بتانا تو تمہیں بھول گیا
وہ جو رستے ہیں ناں! بے کل رستے
اس پہ کچھ پیڑ کھڑے ہوتے ہیں بوسیدہ سے
میری حالت پہ بہت ہنستے ہیں
تلخ جملے بھی کسا کرتے ہیں
پھر سے تم میری ذہانت پہ ذرا غور کرو
پیڑ جو کچھ بھی کہا کرتے ہیں سن لیتا ہوں
اور اگنور کیا کرتا ہوں
اور ان رستوں پہ آتے جاتے
بس تمہیں یاد کیا کرتا ہوں
یوں مرے ساتھ رہا کرتے ہو تم فرحت شاہ

زین شکیل

******************

محبت روٹھ جاتی ہے

یہ ہے اک کانچ کی گڑیا یہ گر کر ٹوٹ جاتی ہے
یہ اک لمبی مسافت سے کبھی جب لوٹ آئے تو
یہ بن کر آبلہ پاؤں کا اکثر پھوٹ جاتی ہے
تمہیں میں نے کہا بھی تھا اسے مت آزمانا تم
کہ ایسے آزمانے سے محبت روٹھ جاتی ہے

زین شکیل

******************

تاش کے ان باون پتوں میں

تاش کے ان باون پتوں میں
میں اکلوتا حکم کا اِکّا
پان، حکم، چڑیا یا اینٹ کے
سب پتوں پر آخر کب تک
اپنا حکم چلا سکتا ہوں
کب تک حکم چلا سکتا تھا
کھیل میں ان باون پتوں کے
کیا کچھ داؤ پر لگتا ہے
کوئی جیت کے خوش ہوتا ہے
کوئی ہار کے رو دیتا ہے
لیکن ان باون پتوں کی
جنگ میں کیا کیا ہو جاتا ہے
ہار اور جیت پہ ہنسنے رونے
والے کب کچھ جان سکے ہیں
کھیل میں کیسے لڑتے لڑتے
حکم کے شاہ کی چال پہ آخر
حکم کی بیگم بے بس ہو کر
پان کا راجہ کھو دیتی ہے
کیسے اتنا رو دیتی ہے
اینٹ کا راجہ چال سے اپنی
اک دیوار بنا دیتا ہے
جس پر چڑیا کے سب پتے
بیٹھ کے دونوں جانب کا وہ
اجڑا منظر دیکھ دیکھ کر
گہرے سوگ میں کھو جاتے ہیں
کیسے حکم کی بیگم آخر
پان کا راجہ کھو دیتی ہے
کیسے کیسے رو دیتی ہے
میں اکلوتا حکم کا اِکّا
سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہوں
بس یہ سوچ رہا ہوتا ہوں
کب میں ان باون پتوں پر
اپنا حکم چلا سکتا ہوں
پہلے بھی کب ان پتوں پر
اپنا حکم چلا سکتا تھا
تاش کے ان باون پتوں میں
کتنا کرب چھپا بیٹھا ہے
ہار اور جیت پہ ہنسنے رونے
والے آخر کب جانیں گے
کتنی عمریں ان پتوں کی
آڑ میں دیکھو بکھر گئیں ہیں
کوئی اب یہ کیسے جانے
مجھ پر کیا کچھ بیت رہا ہے
میں اکلوتا حکم کا اِکّا

زین شکیل

******************

اوراِک تم ہو کہ بس۔۔۔

عمر کے ویراں پلوں میں
لہلاتا سرد جھونکا
آتشی سا پیرہن اوڑھے ہوئے
آتا ہے لگ جاتا ہے سینے سے
اچانک ذات کی ویرانیاں
آ کر اسی لمحے
نظر کے سامنے یو ںمشتعل انداز میں
اُدّھم مچا دیتی ہیں
جس کے بعد منظر خون آلودہ نظر آتا تو ہے
محسوس لیکن حد سے زیادہ ہونے لگتا ہے
اور ایسے میں
اکیلا میں
وہ تعزیراتِ چاہت کاٹنے لگتا ہوں
تن تنہا
میں اپنی ذات کی ویرانیوں میں
خود کو ہی آواز دیتا ہوں
اور اک تم ہو
مسلسل جو
تماشہ دیکھنے میں محو رہتے ہو۔۔

زین شکیل

******************

نینوں پر کیا زور؟

نینوں کی تو بات ہی چھوڑو
نینوں پر کیا زور؟
جس دم نیناں لڑ جاویں
پھرکچھ نہ دیکھیں اور
سب کچھ گھائل کرڈالیں یہ
دل کر دیں کمزور
نینوں پر کیا زور پیا ان
نینوں پر کیا زور؟؟

زین شکیل

******************

توکل علی دوست!
دیکھو تو دنیا کو اندر کی آنکھوں سے
دیکھو یہ دنیا
یہ دنیا رذیل اور جھوٹی، کمینی
نہیں یہ وہ دنیا نہیں ہے.. توکل!
جو تھی...!
اب سے کچھ روز پہلے کی دنیا
کہ جس میں رہا کرتے تھے ہم سکوں سے
مگر وہ تو کچھ روز پہلے کی دنیا تھی
جس میں حسیں رنگ ہوتا تھا چہرے کا
جس کی ملاحت سنہری سنہری سی رہتی تھی
دیکھو توکل!
وہ کچھ روز صدیوں سے بیتے ہوئے لگ رہے ہیں ہمیں
یہ وہ دنیا نہیں ہے مرے یار
سچ میں یہ وہ والی دنیا نہیں
جس میں سورج کی آنکھیں جو کھلتیں
تو کوئل درختوں پہ صبح سویرے
محبت بھری راگنی چھیڑ دیتی!
ہوائیں جو رخسار چھو کر گزرتیں
تو ان کا ہر اک لمس اند تلک روح میں یوں
سرائیت سا کرتا
کہ محسوس ہوتی رطوبت بدن کی
توکل!
مگر اب یہ دنیا
یہ کذاب دنیا
پلیتی کے جاموں میں جھوٹوں سے لبریز دنیا
ہماری نہیں ہے... توکل!
یہاں آئے دن لوگ ننھی سی معصوم کلیوں کو
پل میں یونہی روند دیتے ہیں
جیسے نزاکت کا ذرہ بھی باقی بچا ہو نہ ان میں
وہ احساسِ انسانیت سے بھی عاری
وہ گندے، کمینے، غلیظ اور غنڈے موالی
وہ بچوں کے قاتل...
وہ معصوم بچوں کے قاتل.....
توکل! مرے یار....
اف کیا بتاؤں کہ ظلم و ستم کی کوئی حد نہ چھوڑی گئی
لوگ مرتے گئے
کیا غضب تھا...توکل
یہ ایسی ہی دنیا ہے..
بےحس سی دنیا
مگر کتنے بے بس ہیں مجبور بھی ہم..توکل!
توکل کیے ہی جیئے جا رہے ہیں
یہ آنسو جو ہیں خون کے ہم پئیے جا رہے ہیں
مگر کتنے مجبور ہیں ناں....توکل!
کبھی غور سے اپنا چہرہ تو دیکھو
بھلے ساری دنیا کو دیکھو
کہ چہروں پہ زردی ہے چھائی ہوئی
جو کہ دکھتی ہے کالک نما
اے مرے یار
سورج بھی اب تو نکلنے سے گھبرایا کرتا ہے
دن کے لیے یہ نکلتا تو ہے
جاگتا پر نہیں...
اور کوئل وہ باغوں کی رانی
وہ میٹھے سُروں والی کوئل
وہ کوئل فضاؤں کی تلخی کو مدت سے
محسوس کرنے لگی ہے
محبت کے سُر چھیڑتی ہی نہیں
صرف نوحہ سناتی ہے دن کے نکلنے پہ
ظلم و ستم کا
توکل!
وہ ہر روز کہتی یے
لوگو! اے لوگو!
اے معصوم لوگو!
خدا سے خدا کا رحم مانگ لو..
ہر گھڑی اور ہر ایک پل
مانگ لو اس خدا سے وہ سانسیں
وہ جذبات، چاہت، خلوص
اور تازہ ہوائیں وہ مہکی فضائیں
وہ امن و سکوں
جو کہ تھا
اب نہیں جو
کہ یہ تو وہ دنیا نہیں جس میں رہتے تھے تم
اے اداسی کے مارے ہوئے سارے بے چین لوگو!
توکل!
وہ کوئل سبھی کچھ تو سچ کہہ رہی ہے
سنو تو سہی
اپنی اندر کی آنکھوں کو کھولو.. توکل!
ذرا اپنے اندر کی آنکھوں سے دیکھو سہی
اس سے پہلے کہ ہم بے بسی، بے کسی، بے حسی میں نہ مر جائیں یونہی...توکل!
چلو ہم تلاشیں وہ دنیا،
وہ دنیا
کہ جس میں کبھی سانس لیتے تھے ہم
اور جیتے تھے سچ مچ جیا کرتے تھے
اے مرے یار
یہ تو وہ دنیا نہیں ہے
چلو ڈھونڈ لائیں کہیں سے وہی اپنی دنیا...توکل!
توکل علی اے مرے یار چل نا چلیں
اپنی دنیا کو پھر ڈھونڈ لائیں
کہ دنیا جو یہ ہے
یہ دنیا نہیں ہے
یہ گندے، کمینوں، رذیلوں سے مل کر بنا جھوٹ ہے
اے توکل!
مرے یار آ پھر چلیں اپنی دنیا میں واپس
جہاں ہم جیا کرتے تھے
اور سچ مچ جیا کرتے تھے........!

زین شکیل

******************

ابھی کچھ ہوش باقی ہے

ابھی کچھ ہوش باقی ہے
ابھی سے بھول جاؤں کیا؟
تمہیں اچھی طرح سے یاد ہے نقشہ مرے کمرے کا
بولویاد ہے نا کیا؟
وہی کمرہ کہ جس میں تم کبھی آئے
ذرا پل بھر سہی بیٹھے تو تھے
کچھ بات بھی کی تھی
کوئی وعدہ لیا تھا تم نے شاید
اور وہ جو اک ذرا پل تھا
اسے پھر طول دے کر تم نے اس کمرے میں
مجھ سے خود کو اوجھل کر کے میرے نیم جاں بے ہوش سے بستر پہ تنہا رات بھی کی تھی
اسی اک  رات کی باتیں
سبھی باتیں
سنو ہاں وہ سبھی باتیں
نہیں معلوم ان میں ہم نے کس کی ذات کو موضوع بنایا تھا
کسے پھر ذیست کا حصہ بنا لینے کا سوچا تھا
کسے پھر چھوڑ دینا تھا، وہ سب باتیں
مجھے اب ٹھیک سے بھولی ہوئی ہیں
تب تو میں قائم تھا اپنے ہوش میں پھر بھی میں سب کچھ بھول بیٹھا ہوں
قسم لے لو
مجھے بس یاد ہے اتنا کہ کچھ باتیں ہوئیں ، باتیں تھیں کیسی بھول بیٹھا ہوں
کئی وعدے لئے تھے یہ تو مجھ کو یاد ہے پر کس لئے وعدے لئے سب بھول بیٹھا ہوں
وجہ یہ تھی کہ میں قائم تھا اپنے ہوش میں پر ہوش وہ ہونے نہ ہونے کے برابر تھا
ترے وعدے ، سبھی باتیں مجھے سب یاد ہیں
لیکن سبھی باتوں میں وعدوں میں چھپی تھیں جس قدر رمزیں
جو مرکز تھے
حوالے تھے
وہ سارے بھول بیٹھا ہوں
ابھی کچھ ہوش باقی ہے تو اتنا سا
کہ جس الماری میں پہلے میں کپڑوں کو سجاتا تھا
جنہیں تم استری کر کے بڑی ترتیب سے رکھتی تھی میرے سامنے
اور وہ اب ویسے ہی میرے بیڈ پہ بکھرے رہ گئے ہیں
اور الماری کے خالی ہینگروں میں
میں نے وہ وعدے، سبھی باتیں بڑی ترتیب سے لٹکا کے رکھی ہیں
میں جب بھی کھولتا ہوں اپنی الماری
تو مجھ کو یاد آتا ہے
کہ تم اک بار تو آئی مرے کمرے میں مجھ سے بات کرنے
اور مِری آنکھوں سے اوجھل کر کے خود کو میرے ہی کمرے میں
اور میرے وہاں ہوتے ہوئے بھی تم میری آنکھوں سے اوجھل تھی
مجھے سب یاد ہے
تم نے مرے کمرے میں اس دن رات بھی کی تھی
کوئی وعدہ لیا تھا
اور کوئی بات بھی کی تھی
مگر تم مجھ سے اوجھل تھی
میں سچ مچ ہوش میں تھا اور میرا ہوش میں رہنا یا نہ رہنا برابر ہے
تو بس اس بات کو میں یاد رکھنے کے لئے اتنا ہی کرتا ہوں
بلا ناغہ میں الماری کو جب بھی کھولتا ہوں
ہینگروں پر بس تری باتیں ترے وعدے نظر آتے ہیں
تو
مجھ کو تسلی ہو ہی جاتی ہے
کہ میں بے ہوش ہی کب تھا
ابھی بھی ہوش باقی ہے
ابھی کچھ ہوش باقی ہے

زین شکیل

******************

تم کو قسم ہے سچ بتلانا!

اچھا چلو بس ٹھیک ہے چھوڑو جانے دو!
تم سے جتنا ہو ناتھا تم کر بیٹھے
ہم سے جتنا ہوتا تھا ہم کرتے تھے
کس نے کس کی بات بھلا دی جانے دو!
کس نے ذات اچھالی کس کی، مت سوچو!
ان باتوں میں کیا رکھا ہے ،جانے دو!
یہ بتلاؤ!
مدت پہلے
میری باتیں میری یادیں
اک گٹھڑی میں باندھ کے جب تم
دور شہر سے اک آسیب زدہ جنگل میں
ایک پرانے خوف سے ڈر کر یوں ہی تنہا چھوڑ آئے تھے
اتنی مسافت طے کرنے کے بعد بھلاکب باتیں زندہ رہ سکتیں ہیں
یہ بتلاؤ !
جب تم لوٹے
 میری یادوں ،باتوں نے کیا تم کو نہیں پکارا تھا؟
یا پھر سب کی سب ہی مردہ ہو گئی تھیں ؟
اتنے کرب ،اذیت، درد میں سب کچھ یونہی چھوڑ آئے ہو
اس گٹھڑی میں ،ساری یادوں اور باتوں کے بیچ کہیں پر
میں نے اپنی اور تمہاری
ایک تعلق والی بات چھپا رکھی تھی
وہ تو واپس لے آتے ناں
کیا اس کا دم ٹوٹ گیا تھا؟

زین شکیل

******************

ماشاءاللہ یار مصور

نپی تلی سی موہنی صورت
ایک سمندر سے بھی گہری
دشت کی ویرانی سے زیادہ ویرانی میں کھوئی صورت
سرد محبت کے مندر میںسجی ہوئی بے چین سی مورت
ہجر کے طعنے سہتی سہتی رستہ دیکھ رہی ہے کس کا
اس کی آنکھوں کا گیلا پن جو اس کی آنکھوں سے باہر،کوئی دیکھ نہیں سکتا ہے،
دل میں درد سمو دیتا ہے!
میری رات بھگو دیتا ہے!
پھر چہرے کے ہر نقشے پر
ایک پرانے غم کی کوئی، بھولی بسری بات لکھی ہے!
دکھ، دردوں کی ذات لکھی ہے!
زلفوں کے گھیرے میں چہرہ
اور وہی بے چین سا چہرہ
جس پر آویزاں دو آنکھیں
چپ چپ رہ کر بول رہی ہیں
میں گھنٹوں سے اک تصویر ،تکے جاتا ہوں، سوچ رہا ہوں
یار مصور نے بھی کیسے
ایک حسین اداسی والے قلم سے اس کےچہرے پر یوں
بالوں،
آنکھوں،
ہونٹوں،
گالوں،
کی ترتیب لگا ڈالی ہے اور یہاں اب یہ عالم ہے
دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھرتا
کیا تصویر بنا ڈالی ہے
میں اس کے چہرے پر بکھری
رنگوں سے بھرپور اداسی
اور مکمل سوہنا چہرہ
دیکھ رہا ہوں ،ماشاءاللہ!
ماشاءاللہ یار مصور!
میں تیرے قربان مصور!
دیکھ دیکھ کر جی نہیں بھرتا
کیا تصویر بنا ڈالی ہے
یار مصور ، ماشاءاللہ

زین شکیل

******************

خط لکھنے بیچاری بیٹھی

دکھ دردوں کی ماری بیٹھی
جگ سے ہو کر عاری بیٹھی
ایک سکھی جو اپنے پِیا کو
خط لکھنے بیچاری بیٹھی
خط جو پیا کے نام ہے لکھا
اس میں بس اتنا لکھا ہے
میں سارے کی ساری بیٹھی
اپنے آپ سے ہاری بیٹھی
تیرا رستہ دیکھ رہی ہوں
سانس بھی تم پر واری بیٹھی
ہو کر صرف تمہاری بیٹھی
صرف تمہی کو سوچ رہی ہوں
مت آنے میں دیر لگانا
میں نے اپنے خوابوں سے بھی
لے کر اپنی آنکھوں تک کو
تیری سمت لگا رکھا ہے
سب کچھ تجھ پر وار چلی ہوں
اپنا جیون ہار چلی ہوں
تیری آس میں جیتے جیتے
سارے جذبے مار چلی ہوں
مت آنے میں دیر لگانا
اور بھی کتنا کچھ لکھا تھا
تقریباًسب کچھ لکھا تھا
سارے آنسو رو ڈالے تھے
سارے درد پِرو ڈالے تھے
لیکن پگلی جانے کیونکر
اپنے پیا کا، بس اُس خط میں
نام ہی لکھنا بھول گئی تھی!

زین شکیل

******************

بولو

اب تم کس کو خواب سنایا کرتی ہو؟
بتلاؤ اب کس سے روٹھا کرتی ہو؟
کون تمہارے ناز اُٹھایا کرتا ہے؟
رو رو کر اب کون منایا کرتا ہے؟
میں نے تو اب خواب سجانا چھوڑ دیا
نیند کی وادی سے میں نے ہجرت کر لی
خود سے روٹھوں، تو پھر روٹھا رہتا ہوں!
بولو کیا تم اب بھی ویسا ہنستی ہو؟
میری تو اب آنکھیں بھیگی رہتی ہیں!
بولو کیا اب چاند سے باتیں کرتی ہو؟
تارے اب بھی دل بہلایا کرتے ہیں؟
جب سے چاند ستارے مجھ سے روٹھے ہیں
مجھ کو ہر اک رات اماوس لگتی ہے!
بولو کیا تم اب بھی شور مچاتی ہو؟
میں تو اب خاموشی سے ڈر جاتا ہوں
بولو کیا تم اب بھی ان کو پڑھتی ہو؟
میں نے جتنی باتیں خط میں لکھی تھیں!
بولو کیا تم اب بھی ملنے آ سکتیں ہو؟
جیسے مجھ کو ملنے آیا کرتیں تھی!
بولو کیا تم اب بھی چھوڑ کے جا سکتی ہو؟
جیسے پہلے چھوڑ کے جایا کرتیںتھی!
میں تو اب بھی راہیں تکتا رہتا ہوں!
بولو کیا تم سچ مچ سب کچھ بھول گئیں؟

زین شکیل

******************
جانے کیوں!

الجھے بالوں والی لڑکی
سلجھی سلجھی باتیں کر کے
کیوں مجھ کو الجھا دیتی ہے؟

زین شکیل

******************

وہ کون چپ تھا؟

وہ کون چپ تھا؟
کہ جس کی آنکھیں جو بول اٹھتیں،
تو پھر جہاں کے سکوت سارے ہی ٹوٹ جاتے!
وہ کون ایسا گلِ صِفَت تھا؟
سبک خرامی تھی ختم جس پر
وہ ہولے ہولے سے اپنے نازک قدم جو رکھتا
تو راہگزر بھی مہک سی اٹھتی
وہ چاہتوں کی ردائیں اوڑھے جہاں ٹھہرتا
تو گھر بناتا محبتوں کے
جو گر نہ پاتے
نہ ٹوٹ سکتے تھے اس زمانے کی افراتفری کے موسموں میں
مگر زمانے گزر گئے ہیں
یہ کون چپ ہے؟
کہ جس کی چپ سے وجود گم ہے
اذیتوں میں
کوئی تو اس کو بتا کے آئے
کوئی تو اس کو پیام دے ناں
کوئی کہے ناں!
کوئی تو پوچھے!!!
وہ جس کے ہونے سے زندگی تھی
کہاں پہ گم ہے؟؟؟
یہاں پہ ہر سُو اداسیوں کا ہجوم کیوں ہے؟
فقط دکھوں کی لپیٹ کیوں ہے؟
زمیں فسادی بنی ہوئی ہے!
یہ آسماں بھی تو چڑچڑا سا ہوا ہے کیونکر؟
کوئی تو جا کر کہے ناں اس سے
نظر اٹھائے...
سکوت توڑے
وہ جو بھی جیسا بھی ہے وہ بولے
وہ کون چپ تھا؟ 
جو اپنی آنکھوں سے بے تحاشہ ہی بولتا تھا!
یہ کون چپ ہے؟ 
کہ جس کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب ہیں بس



زین شکیل





******************

وہ تھی کون اک
ملکہءِ عالیہ، 
دل محل میں سجے تخت پر جو کہ 
مرجان، یاقوت، موتی، زمرّد، عقیقِ یمن سے جڑے تخت سے بھی حسیں تھا
وہ مسند نشیں تھی۔۔۔۔۔
وہ پہنے ہوئے پریم کا تاج سر پر
لبوں سے لٹاتی رہی تھی جواہر محبت کے احساس میں جو بندھے تھے
وہ تھی کون ایسی 
کہ جس کی نگاہوں کا منتر بدن توڑ دیتا تھا
وہ جس کے گالوں کا بس سانولا پن ہی کافی تھا محشر اٹھانے کی خاطر
وہ تھی کون جس کی ہر اک بات
میٹھی تھی، لہجہ بھی شیرینیوں سے بھرا تھا
وہ دل کش وہ دل سوز اور دل گدازی کی حد سے سوا تھی
وہ تھی کون ایسی کہ 
اب جو نہیں ہے تو لگتا ہے کچھ بھی نہیں ہے
یہاں بھی، وہاں بھی، کہیں بھی مکاں میں
کہیں لامکان میں اگر ہے بھی کچھ تو 
وہ فہم و فراست، وہ وجدان کی حد سے بس ماورا ہے
سو اس سے شروع تھا سبھی کچھ 
سبھی کچھ وہیں کا وہیں آ گیا ہے
وہ تھی کون آغاز تھی 
جو کہ انجام ہے اب
وہ تھی کون جس کے لیے لفظ شرمندہ شرمندہ سے ہیں ابھی
جو کبھی بھی نہیں تھے 
مگر اب تو آبِ نداست بہانا بھی بے سُود ہے
وہ جو تھی ملکہِ عالیہ
دل محل کی مکیں
اور اکلوتی وارث،
کہیں بھی نہیں ہے!!
مگر دل محل بھی تو اب اک کھنڈر میں ہی تبدیل سا ہو چکا ہے
وہ جو بھی تھی بس اس کے ہونے سے میں بادشاہ تھا 
اور احساس و جذبات کی سلطنت پر حکومت چلاتا رہا تھا
میں اس کی محبت کے سر سبز باغات، 
اس کی سبھی کائناتوں کا بھی اور سبھی موسموں کا 
بس اکلوتا میں بادشاہ تھا۔۔ 
مگر اب نہیں ہوں ،،، 
نہیں ہوں۔۔۔
میں کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زین شکیل



******************


اللہ جان

پھرتے ہیں دیوانے لے کر لب پر یہی سوال
اللہ جان! محبت بھیجیں! اس نگری میں کال
اللہ جان! یہ کیسی نگری، ہر سُو درد ہوائیں
رگ رگ اندر شور مچاویں، دل کا درد بڑھائیں
اللہ جان! دریدہ سوچیں لینے دیں نہ چین
بے چینی کی میخیں گڑ گئیں سانسوں کے مابین
اللہ جان !ہمارا پریتم مدت سے مہجور
اکھیاں ترسیں دیکھن کو پر سانول ہم سے دور
اللہ جان! مصیبت بھاری جندڑی ہے کمزور
اک لاوا بے چینی کا ، اک کرے اداسی شور
اللہ جان! زمانے گزرے آنکھیں بھی بے نور
اکھیوں میں ہے آبِ نداست ہم جو آپ سے دور
اللہ جان !یہاں ہر جانب جھوٹوں کے ہیں جال
سُچے، صادق لب تھے جن پر چُپ کا پڑ گیا تال

اللہ جان ! ہوئے ہم عاجز اکھیاں زار و زار
آپ کے بن ہم بے حالوں کی سنے گا کون پکار
اللہ جان! جہانوں اندر آپ کا اونچا نام
اب اپنے محبوبؐ کے صدقے بھیجیں سکھ پیغام
روح تلک میں پھیلی نفرت ،جندڑی ہوئی وبال
اللہ جان! محبت بھیجیں! اس نگری میں کال۔۔۔

زین شکیل

******************

عہدِ نارسائی میں

عہدِ نارسائی میں، خوابِ زندگی لے کر
دور تک بھٹکتے تھے
جانتے تو تم بھی تھے!
راکھ راکھ ہو کر بھی، خاک خاک ہو کر بھی
ہاتھ کچھ نہیں آتا
خواب کی مسافت ہے، ہاتھ خالی رہتے ہیں
مانتے تو تم بھی تھے!
اور باوجود اس کے نیند کو لٹا کر بھی
چین کو گنوا کر بھی، 
ہر شبِ عبادت میں، زار زار اکھیوں کے
اشک رکھ ہتھیلی میں، 
ہچکیوں کے پھندے میں، میرا نام لے لے کر،
مجھ کو اپنے مولا سے
مانگتے تو تم بھی تھے!
عشق کے عقیدے میں، فہم کیا؟ فراست کیا؟
کارِ عقل کیا معنی؟
عشق کے مخالف گر لاکھ ہی دلیلیں ہوں
جس قدر حوالے ہوں، مستند نہیں ہوتے
مانتے تو تم بھی تھے!
اور ساری دنیا سے، پھر چھڑا کے دامن کو
میری ذات میں آ کر، خود کو سونپ دینے کا
سوچتے تو تم بھی تھے!
اب کی بات چھوڑو تم..
اب میں کچھ نہیں کہتا
کچھ نہیں کہوں گا میں، 

اب فقط سہوں گا میں، 
اب تو چپ رہوں گا میں
کچھ گلہ نہیں تم سے،
یاد بس دلایا ہے
اس طرح سے ہوتا تھا
عہدِ نارسائی میں
اب میں کچھ نہیں کہتا........!

زین شکیل

******************

دکھ آسان ہوا من موہن
دکھ آسان ہوا۔۔۔
سُکھ کی پِیڑ سہی نہ جاوے
ہر ہر سانس وبال
خون رِسے زخمی خوابوں سے
رو رو اکھیاں لال
جیون سُکھ کا راگ الاپے
بے سُر اور بے تال
اک مسکان کے بدلے پاویں
سو سو رنج ملال
اِس پر تیری یادیں ہم سے
سو سو کریں سوال
چاہ، پریم کے ہر سودے میں بھی نقصان ہوا من موہن!
دکھ آسان ہوا ہم کو
اب دکھ آسان ہوا۔۔

زین شکیل


******************

وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں

وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
مانتا ہی نہیں روایت کو
شدتوں کو زوال آتا ہے
لوگ بھی ایک سے نہیں رہتے

بات گر اک جگہ سے نکلے تو
وہ بھی چہرے بدلتی رہتی ہے
زلف کالی گھنی، سنہری ہو
اس میں چاندی اُتر ہی آتی ہے
لوگ جو پیار کرنے والے ہوں
ان کا شیرینیوں بھرا لہجہ
رفتہ رفتہ بدلتا جاتا ہے
رنگ رُخ کا پگھلتا جاتا ہے
اور پھر تم بھی کون ایسے ہو
جو امر ہو، سدا رہو گے تم
کب تلک مجھ کو خط لکھو گے تم
ساتھ کب تک مرے ہنسو گے تم
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
اس کو ڈھلنا ہے ڈھل ہی جائے گا
رنگ کیا کیا ہمیں دکھائے گا
تم پریشان بس نہیں ہونا
میں اگر سنگ چل نہیں پاؤں
میں اگر ساتھ رہ نہیں پاؤں
سارے الزام میرے سر لکھنا
میری مجبوریاں بھلا دینا
تم مجھے صرف بے وفا لکھنا
تم مِری چاہتوں کو چاہو تو
تم مِرے رابطوں کو چاہو تو
بے وفائی کی انتہا لکھنا
اور مجھ کو بہت بُرا لکھنا
مجھ کو لیکن یقین ہے اک دن
جب کبھی تم اُداس بیٹھو گے
جب مِرے دکھ تمہیں ستائیں گے
مدتوں بعد جب مری باتیں
تم کسی اور کو سناؤ گے
اور کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے
آخری بات یہ کہو گے تم
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
ہونٹ دھیرے سے کپکپائیں گے
پھر پُر اسرار سی ہنسی آ کر
ایسے ہونٹوں پہ بیٹھ جائے گی
اک نمی وقت کی بَلی چڑھ کے
یونہی آنکھوں میں پھیل جائے گی
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں!

زین شکیل

******************

اور کیا عالمِ وارفتگی ہو
ہم غمِ دنیا سے گھبرائے ہوئے
جب بھی روتے ہیں تمہیں ڈھونڈتے ہیں

زین شکیل

******************

خط

سلام عرض ہے جنابِ من ! 
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر،
 میں ٹھیک ہوں میں خیریت سے ہوں 
اب آپ کی بھی خیریت کا خط ملے تو جان پاؤں آپ ٹھیک ہیں، مزے میں ہیں ، 
یہ جانتے ہوئے کہ خیریت کا خط کبھی نہیں لکھیں گے آپ !
اور جانتے ہوئے کہ آپ خیریت سے ہیں، مزے میں ہیں
مگر میں پھر بھی منتظر ہوں اور منتظر رہوں گا جانے کب تلک!
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر،
میں مضطرب نہیں، میں غم زدہ نہیں ، یہ بے کلی مجھے ستا نہیں رہی
یہ بسی بھی میرے پاس آ نہیں رہی
طبیعت اب بڑی ہی پر سکون ہے، 
رگوں میں خون کی جگہ قرار دوڑتا ہے اب
مجھے تو کوئی رات یاد ہی نہیں
وہ یاد ہے ناں آپ کو کہ جب اداس ہو کے میرا نام کتنی بار لے کے مجھ سے آپ پوچھتے تھے کیا کرو گے میرے بن؟
اگر تمہیں ملوں نہیں؟ 
اگر تمہیں دِکھوں نہیں؟
تو دل کی بات کس کے پاس جا کے تم سناؤ گے؟ 
مری طرح سے کون نام لے گا اس طرح ؟
مجھے جو دل کی ساری باتیں یاد تھیں حرف حرف
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر
مجھے تو اب وہ دل کی کوئی بات یاد ہی نہیں!
جنابِ من! عزیزِ جاں!
گلی میں چلتے چلتے کل ، نہ جانے کس خیال میں چلا گیا تھا دور تک
بڑا حسیں خیال تھا! 
حقیقتاً فراق ہے، خیال میں وصال تھا مگر وہ باکمال تھا
میں اس قدر کسی دھیان میں مگن ہوا کہ راستوں سے بے خبر بڑی ہی دور تک چلا
بڑی ہی دیر تک چلا کہ پھر حواس کی جو بے شمار ٹھوکریں لگیں تو گر پڑا
بڑی بُری طرح گرا 
گلی بھی سوچتی تو ہو گی کیا عجیب شخص ہے

مگر خیال میں وہ آپ تو نہیں تھے اے جنابِ من!
میں جھوٹ بولتا نہیں مگر
کبھی کبھی۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں مجھ کو خط نہیں لکھیں گے آپ 
پھر بھی جانے کس لیے یہ لکھ رہا ہوں آپ کو
میں یہ بھی جانتا ہوں میرا خط کبھی نہیں ملے گا آپ کو 
میں آپ کو کبھی یہ بھیج پاؤں گا نہیں 
کہ میں تو جھوٹ بولتا نہیں تو پھر یہ خط ہی کیوں؟؟؟
جنابِ من! عزیزِ من!
سلامتی ، دعائیں ۔۔۔
والسلام

زین شکیل

******************

سانول بھولا بھالا مٹھڑا 
ہم سے روٹھ گیا
پریت اَوَلڑی ظلم نہ چھوڑے
من میں آگ لگائے
ہر لمحہ تڑپائے بیرن سانسوں کو سلگائے
جیون روتا جائے.....
بھول گئی معصوم سی کوئل کومل تِیوَر سُر
رو رو بین کرے اور دیکھے
اُجڑا اُجڑا گھر
کون سِتم زاد آیا 
گھر کوئل کا لوٹ گیا
سانول بھولا بھالا مٹھڑا 
ہم سے روٹھ گیا

زین شکیل

******************


پھر سے!


لو ہاں یاد تمہاری آگئی
اور سارے کی ساری آگئی
پہلے جگ کے دُکھ کیا کم تھے
اب سَر پر یہ منڈلائے گی
پورے زور سے چلائے گی
دھاڑیں مار کے روئے گی اب
دل کا دشت بھگوئے گی اب
پہلے ہی بے چین بہت تھا
بے کل ساری رین بہت تھا
تھوڑے سے آنسو باقی ہیں
یہ بھی چھین کے لے جائے گی
خود غرضی کی ماری آگئی
لو ہاں یاد تمہاری آگئی
پھر سے یاد تمہاری آگئی


زین شکیل

******************

5 comments:

  1. awsome poetry
    کافی عرصہ بعد کسی شاعری نے دل کو چھوا ہے.
    بہت عمدہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ آپ سلامت رہیں اور آپ کی قیمتی رائے کا بے حد شکریہ

      Delete
  2. ماشاء الله -بہت خوبصورت شاعری ...الله تعالیٰ آپ کے اس سہوق کو جلاء بخشے - سلامت رہیں

    ReplyDelete
  3. ماشاء الله -بہت خوبصورت شاعری

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ
    نہایت خوب الفاظ دل کو چھولینے والا احساس
    کہ جس کو پڑھ کر بہت جگہوں پہ آنکھیں نم ہوئین
    یوں لگا کہ جیسے آپ نے ہمارے ہی دل کی ہمارے ہجروفراق کی کیفیت بیان کرڈالی ہو
    اک سانول یار ہمارا بھی تھا جو کہ ہم سے روٹھ گیا
    سلامت رہئے

    ReplyDelete