muhabbat k darakhton ka bhi apna bakht hota hai : poet zain shakeel

محبت کے درختوں کا بھی اپنا بخت ہوتا ہے 

محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ بھی گر جائے
ہوا کو چوٹ لگتی ہے
عجب وحشت کے عالم میں 
ہوا یوں سنسناتی ہے
اسے رستہ نہیں ملتا
کوئی تو دشت ہو ایسا 
جہاں دیوار ہو غم کی
جہاں وہ سر پٹخ  ڈالے
مگر بے درد آندھی کو
خبر شاید نہیں کہ جب
محبت کے درختوں سے
کوئی پتہ اگر ٹوٹے 
تو اک اک شاخ کو
اس سے بچھڑ جانے کا کتنا رنج ہوتا ہے
جڑوں کی آخری حد تک
بلا کا درد رہتا ہے
ہوا کو اس سے کیا مطلب
اسے تو ایک ہی پتے کا ماتم کرنا ہوتا ہے
ہوا تو شور کرتی ہے
اور اس کے شور سے 
کتنے ہی پتے پھر اُجڑتے ہیں
اُسے کیسے خبر ہو گی کہ تنہا پیڑ
بے چارہ
سلگتی دھوپ میں
تنہا
تھکا ہارا
کھڑا
نہ بیٹھ سکتا ہے
نہ آنسو پونچھ سکتا ہے
مگر وہ پھر بھی سایہ دار ہے
اپنی جگہ قائم
فقط خاموش اور ساکت
مگراکثر وہ کچھ کچھ بُڑبڑاتا، بولتا ، باتیں بھی کرتا ہے
وہی باتیں کہ جو بے چین سا اک شخص
اس پر لکھ دیا کرتا
کسی بچھڑے ہوئے کے نام کچھ یادیں۔۔
سنو!
تم جب کبھی تنہا کسی بھی پیڑ کے سائے میں بیٹھو
تو کبھی کچھ بھی نہیں لکھنا
نہ میرا نام اپنے ساتھ
نہ اپنا علیحدہ سے
محبت کا شجر سب کچھ سمجھتا ہے
اُسے پڑھنا بھی آتا ہے
تمہیں میں اس لیے محتاط کرتا ہوں
کہ اُس کا بخت اپنا ہے
تم اپنا اور میرا نام اپنے دل میں ہی لکھو
تو بہتر ہے۔
جب اپنے بخت سے تم لڑ نہیں سکتیں
تو پھر کس واسطے پیڑوں کو اپنا دکھ سناتی ہو
انہیں کیو نکر ستاتی ہے
وہ اپنے درد سے عاجز
تمہارا دُکھ کہاں بانٹیں؟
محبت کے درختوں سے
گرے ،بکھرے ہوئے پتے جہاں دیکھو
اُٹھاؤ!
اپنے آنچل میں سمیٹو
اور واپس لوٹ کر آؤ!!
سو ممکن ہے تمہارا درد بَٹ جائے!

زین شکیل



No comments:

Post a Comment