ملو مجھ سے
کہ مجھ سے اب کوئی ملتا نہیں ویسے
کہ جیسے تم ملے مجھ سے
ملو مجھ سے کہ بے چینی نہیں جاتی
سنائی دینے لگتی ہیں مجھے خاموشیاں ایسے
کہ جیسے دل کی دھڑکن سانس کے ٹکڑوں سے مل کر
بے سروپا اور اک بے ضابطہ ترتیب سے بس شور کرتی ہو
ملو مجھ سے کہ اب راتیں عجب
سرگوشیاں کرتی ہیں مجھ سے
اور کچھ ایسی عجب باتیں سناتی ہیں
جنہیں میں سن تو لیتا ہوں
مگر سہتے ہوئے کانوں سے اتنا خون رستا ہے
کہ مقتل گاہ کا منظر سا بن جاتی ہیں آنکھیں بھی
جگر کے پار سے بھی درد کی آواز آتی ہے
تمہیں میں یاد کرتا ہوں
میں سب کچھ بھول کر اک بس تمہیں ہی یاد کرتا ہوں
مگر کب تک، کہاں تک اور پھر کیسے سہوں سب کچھ تمہارے بن
کہوں کس سے؟
ملوں کس سے؟
کہ مجھ سے اب کوئی ملتا نہیں ویسے
کہ جیسے تم ملے اک بار ہی مجھ سے
ملو مجھ سے!
زین شکیل
No comments:
Post a Comment