mujhe shikwa muhabbat se nahi hai : poet zain shakeel

مجھے شکوہ محبت سے نہیں ہے


مجھے شکوہ نہیں ہے موسموں سے

سرد آندھی سے
ہواؤں سے، گھٹاؤں سے
رقیبوں سے، بلاؤں سے
مجھے شکوہ نہیں ہے جنوری سے
فروری یا گرم جولائی سے
یا ٹھنڈے دسمبر سے
یقین مانو! مجھے ان تلخ لہجوں کا
بڑی کڑوی نہایت سرد باتوں کا
کسی گونگے شجر کا
یا کسی اندھے مسافر کا
تمہاری راہ میں پھیلے ہوئے
بےدرد خاروں کا
یا پاؤں میں پڑے ان آبلوں کا
یا گلی میں بین کرتے 
اک برہنہ، بھوک سے مارے ہوئے
بے چین اور بے حال بچے کا
یا پھر اک چاندنی شب میں
کسی کی یاد میں روتے ہوئے
بے چین سے اک غمزدہ کی
چیختی ، روتی، تڑپتی، بین کرتی سرد آہوں کا
ذرا سا بھی کوئی شکوہ نہیں مجھ کو
یقیں مانو
مجھے سچ مچ کوئی شکوہ نہیں تم سے
نہ شکوہ ہے مجھے خود سے
نہ اپنی آنکھ سے جو ہجر کے صدمے اُٹھاتی ہے
مجھے شکوہ محبت سے نہیں کیونکہ
سبھی موسم بدلتے ہیں 
محبت کب بدلتی ہے
محبت میں گلے شکوے تو ہوتے ہیں
مگر جائز نہیں ہوتے
تمہیں کس نے کہا ہے میں تمہیں الزام دے دوں گا
مجھے معلوم ہے مجبور ہو تم بے سہارا ہو
مجھے شکوہ تو ہے لیکن سہارے سے
سہارا وہ کہ جو اک میں تمہارا تھا
سو تم سے دور کیوں کر ہوں
چلو مانا کہ تم مجبور ہو کچھ کر نہیں سکتے
مجھے شکوہ ہے بس اس وقت سے جو کہ
تمہارے اور میرے درمیاں آیا جدا کرنے
چلو چھوڑو یہ سب باتیں 
تمہیں بس اتنا کہنا ہے
مجھے سچ مچ محبت سے کوئی شکوہ نہیں ہے
پر جو بچہ بھوک سے رویا جو آہیں بین کرتی ہیں
جو بانہیں ٹوٹ کر بکھریں
کسی گونگے شجر کے سائے میں بیٹھے ہوئے
اندھے مسافر کی تھکن
اور آبلوں کے پھوٹ جانے کا
مجھے شکوہ نہیں لیکن گزارش ہے
کہ دیکھوتم
ذرا سا غور کر لینا

زن شکیل


No comments:

Post a Comment