Sunday 3 January 2016

tum samajh nahi saktay : poet zain shakeel

تم سمجھ نہیں سکتے


آرزو کی مٹھی میں

چاہتیں مقید ہیں
بے ثبات جذبے ہیں
ہم نے سن یہ رکھا ہے
اسطرح کے کاموں میں
مصلحت ہی ہوتی ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دل کی سرزمینوں میں
با رہا یہ دیکھا ہے
اژدھامِ غم آ کر
مرقدِ محبت پر
ڈھول جب بجاتا ہے
ٹیس اٹھنے لگتی ہے
آنسوؤں کی جھانجر کو
پہن اپنے پیروں میں
رقص کرنے لگتی ہے
ضبط روٹھ جاتا ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دیکھ لو اداسی پر
انگلیاں اٹھاتے ہیں
لوگ اب شہر والے 
تار تار جذبے ہیں
بے قرار سانسیں ہیں
پاک سی محبت کو
روندتے ہیں پیروں میں
لوگ اب شہر والے
یہ وبائے نفرت ہے
پھیلتی ہی جاتی ہے
شوق سے سجاتے ہیں
اپنے دل کے مندر میں
لوگ اب شہر والے
تم سمجھ نہیں سکتے۔
ربط کیا ، عداوت کیا؟
مفلسی ، امارت کیا؟
ضابطوں کی پابندی
قاعدوں کی حاجت کیا؟
ایک کاسہء مجبور
شاہ کی سخاوت کیا؟
برملا محبت کیا؟
بے سبب عقیدت کیا؟
عارضوں کے گھیرے میں
بے سکون لالی کیا؟
بکھرے بکھرے بالوں میں
بے کلی کی میّت کیا؟
زینؔ ایک مدت سے
ہم سمجھ نہیں پائے
تم کہاں سے سمجھو گے؟
تم سمجھ نہیں سکتے

زین شکیل


No comments:

Post a Comment