Saturday 9 January 2016

aa milain is tarah : poet zain shakeel

آملیں اس طرح

او مرے اجنبی
یار بیلی مرے ہمنوا
اے مری آنکھ کے ایک کونے میں ٹھہرے ہوئے اشک
اشکِ عقیدت میں اے ڈولتے
چیختے، دھاڑتے اک بھنور
او مرے بے تکے، سانس لیتے مگر میرے بے جان جیون کے اوتار و سردار
آ پھر ملیں!
پھر ملیں اس طرح کہ نظامِ وصل 
اپنی آسودگی کے مراحل سبھی بھول کر دیکھنے لگ پڑے
دو محبت کے مارے ہوؤں کو
ملیں اس طرح جس طرح ڈار سے دو پرندے بچھڑ کر 
علیحدہ علیحدہ مسافت جو صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہو 
اسے طے کریں اور پھر
آخری سانس لینے کو عمروں پہ طاری سفرختم کرنے پہ
یوں ہی اچانک ملیں ایک ایسی جگہ
جس جگہ جسم کی قید سے پھر رہائی کا وقتِ غضب ناک بختوں سے باہر نکل کر
سواگت میں ان کے کھڑا ہو
کہ پھر اس سے آگے فقط روح کا مرحلہ ہو شروع
آ ملیں اس طرح
اس طرح اس گھڑی
جس گھڑی میں نہ میں نہ ہی تو
صرف ہم ہوں
مری آرزوؤں کے اے بادشاہ
آ ملیں اس طرح 
جس طرح سے زمیں کا کوئی آخری ایک کونہ ملے آسماں سے 
یا پھر
آ ملیں اس طرح
جس طرح سے کوئی اور ملتا نہ ہو
اک فنا کی طرف ہے رواں یہ جہاں
اس جہاں کے جھمیلوں سے دامن بچا کے
تُو آ تو سہی
اے اداسی کی سب سے بلند اور نوکیلی چوٹی پہ ہو کر کھڑے دور سے ہی فقط
اے مرا نام چلانے والے 
تُو آ تو سہی
او مرے اجنبی یار جی
آ ملیں
اور ملتے رہیں
اس طرح کہ جدائی کا اپنا مقدر ہمیں دیکھ کر رو پڑے
ایک مدت سے بچھڑے ہوئے سانولا
آ ملیں۔۔۔۔


زین شکیل





No comments:

Post a Comment