تم سمجھ نہیں سکتے
آرزو کی مٹھی میں
چاہتیں مقید ہیں
بے ثبات جذبے ہیں
ہم نے سن یہ رکھا ہے
اسطرح کے کاموں میں
مصلحت ہی ہوتی ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دل کی سرزمینوں میں
با رہا یہ دیکھا ہے
اژدھامِ غم آ کر
مرقدِ محبت پر
ڈھول جب بجاتا ہے
ٹیس اٹھنے لگتی ہے
آنسوؤں کی جھانجر کو
پہن اپنے پیروں میں
رقص کرنے لگتی ہے
ضبط روٹھ جاتا ہے
تم سمجھ نہیں سکتے
دیکھ لو اداسی پر
انگلیاں اٹھاتے ہیں
لوگ اب شہر والے
تار تار جذبے ہیں
بے قرار سانسیں ہیں
پاک سی محبت کو
روندتے ہیں پیروں میں
لوگ اب شہر والے
یہ وبائے نفرت ہے
پھیلتی ہی جاتی ہے
شوق سے سجاتے ہیں
اپنے دل کے مندر میں
لوگ اب شہر والے
تم سمجھ نہیں سکتے۔
ربط کیا ، عداوت کیا؟
مفلسی ، امارت کیا؟
ضابطوں کی پابندی
قاعدوں کی حاجت کیا؟
ایک کاسہء مجبور
شاہ کی سخاوت کیا؟
برملا محبت کیا؟
بے سبب عقیدت کیا؟
عارضوں کے گھیرے میں
بے سکون لالی کیا؟
بکھرے بکھرے بالوں میں
بے کلی کی میّت کیا؟
زینؔ ایک مدت سے
ہم سمجھ نہیں پائے
تم کہاں سے سمجھو گے؟
تم سمجھ نہیں سکتے
زین شکیل
No comments:
Post a Comment