تم کو قسم ہے سچ بتلانا
اچھا چلو بس ٹھیک ہے چھوڑو جانے دو
تم سے جتنا ہو ناتھا تم کر بیٹھے
ہم سے جتنا ہوتا تھا ہم کرتے تھے
کس نے کس کی بات بھلا دی جانے دو
کس نے ذات اچھالی کس کی، مت سوچو
ان باتوں میں کیا رکھا ہے ،جانے دو
یہ بتلاؤ
مدت پہلے
میری باتیں میری یادیں
اک گٹھڑی میں باندھ کے جب تم
دور شہر سے اک آسیب زدہ جنگل میں
ایک پرانے خوف سے ڈر کر یوں ہی تنہا چھوڑ آئے تھے
اتنی مسافت طے کرنے کے بعد بھلاکب باتیں زندہ رہ سکتیں ہیں
یہ بتلاؤ
جب تم لوٹے
میری یادوں ،باتوں نے کیا تم کو نہیں پکارا تھا؟
یا پھر سب کی سب ہی مردہ ہو گئی تھیں ؟
اتنے کرب ،اذیت، درد میں سب کچھ یونہی چھوڑ آئے ہو
اس گٹھڑی میں ،ساری یادوں اور باتوں کے بیچ کہیں پر
میں نے اپنی اور تمہاری
ایک تعلق والی بات چھپا رکھی تھی
وہ تو واپس لے آتے ناں
کیا اس کا دم ٹوٹ گیا تھا؟
زین شکیل
No comments:
Post a Comment