بیت چلی ہے رات سجن
دے ہاتھوں میں ہاتھ سجن
تو ہی ہار سنگھار مرا
تو ہی میری ذات سجن
کر نینوں سے بات سجن
پریم نگر میں جا بیٹھی
اپنا آپ بھلا بیٹھی
تجھ سے اکھیاں پھیروں میں
کیا میری اوقات سجن
کر نینوں سے بات سجن
خواب نگر میں کھوئی تھی
رات ترے بن روئی تھی
درد بھری ان آنکھوں سے
جاری ہے برسات سجن
کر نینوں سے بات سجن
مار گئی ہے تیری چپ
ایسی گھور اندھیری چپ
کیا تیری اور میری چپ
خاموشی کو مات سجن
کر نینوں سے بات سجن
جیون ایک اداسی ہے
روح ترے بن پیاسی ہے
آنکھیں بنجر بنجر ہیں
سُونی سُونی رات سجن
کر نینوں سے بات سجن
زین محبت بیت گئی
آج اداسی جیت گئی
تیرے بعد بھی رہتی ہے
ہر سو تیری ذات سجن
کر نینوں سے بات سجن
زین شکیل
No comments:
Post a Comment