Sunday, 10 January 2016

main tum per nazm likhon ga : poet zain shakeel

میں تم پر نظم لکھوں گا

میں تم پر نظم لکھوں گا
جسے دنیا سنے گی، اور لے میں گنگنائے گی
مگر فرصت تو ملنے دو
مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!
دیدہءِ حیراں، پریشاں بھی ہے یکسر اور نالاں بھی!
محبت کے سوا کتنے بکھیڑے ہیں جہاں میں 
جن کو تنہا جھیلنا پڑتا ہے جن سے رخ تو پھیرا جا نہیں سکتا
سلونی! گر تمہاری ان گھنی زلفوں سے میں اب کھیل نہ پایا۔۔
تو مجھ کو معاف کر دینا!!!
یہاں آسودگی کی قحط سالی ہے
یہاں بستی کے ہر اک موڑ پہ مقتل سجا ہے
خواہشوں اور حسرتوں کا روز قتلِ عام ہوتا ہے
یہاں سرکار گونگی ہے
یہاں قانون اندھا ہے
کسی مجبور نے بچے کی اپنے فیس بھرنی تھی
مگر وہ بھر نہیں پایا۔۔
کسی نادار نے بیٹی بیاہنی تھی مگر نہ گھر میں دانے تھے نہ کملے ہی سیانے تھے۔۔
مجھے گلیوں میں اکثر کھیلتے وہ صاف دل والے 
مگر میلے کچیلے، اور گندے سے غلیظ، ادھڑے ہوئے ملبوس میں موجود ننگے نونہالوں کے 
خوشی تقسیم کرتے کھلکھلاتے قہقہے بھی بین لگتے ہیں!!!!
انہیں یہ کون بتلائے کہ ان گلیوں کے کھیلوں میں ڈھکی خوشیاں جو ہیں وہ عارضی ہیں
اور پھر اس کھیل سے آگے انہیں احساسِ محرومی ستائے گا۔۔۔
بڑے مہنگے سے رنگیں اور افرنگی کسی مخمل کے بستر پراے محوِ استراحت میری محبوبہ!
مرے دل میں یہ خواہش ہے کہ میں ان صاف دل والے
 گلی میں کھیلتے میلے کچیلے اور ملبوسِ دریدہ میں ڈھکے بچوں کے دل میں 
زندگی کے رنگ بھر ڈالوں!
انہیں بھی زندگی جینے کا ڈھب آئے 
انہیں بھی خواہشوں کو قتل ہونے سے بچانے کا سلیقہ ہو
سلونی! ہاں مجھے تم سے محبت ہے
مجھے تم اچھی لگتی ہو
مگر مجھ کو کسی کی زندگی میں کوئی محرومی،
ذرا رتّی برابر بھی کمی اچھی نہیں لگتی
مجھے ان بے کسوں اور بے بسوں کے نرم سینوں میں
غمی اچھی نہیں لگتی۔۔
کسی اَمّی کی آنکھوں میں 
نمی اچھی نہیں لگتی
نہیں میں جانتا کیسے یہ تن تنہا کروں گا
مجھ سے روشن اک دیا ہو پائے گا بھی یا نہیں
لیکن مجھے اب اس ڈگر پہ چلتے جانا ہے
سلونی! اس لیے گر اب تمہاری ان غزال آنکھوں کو میں یوں ٹکٹکی باندھے ہوئے
(جیسے کہ پہلے دیکھتا تھا) 
دیکھ نہ پایا 
تو مجھ کو معاف کر دینا!!!
مری اے سانوری، اے بانوری، میری سلونی!
دیکھ لو ناں! اس جہاں میں اک محبت کے علاوہ بھی بکھیڑے ہیں،
بڑے صدمے ہیں اور اتنے جھمیلے ہیں
کہ اب ان سے اگر فرصت کبھی مجھ کو ملی
تو پھر 
میں تم پر نظم لکھوں گا
جسے دنیا سنے گی، اور لے میں گنگنائے گی
مگر فرصت تو ملنے دو۔۔
مگر اس بار تم یہ نظم پڑھ لینا
کہ یہ نوحہ بھی میری ذات میں پیوست ہے
مجھ سے جڑا ہے
اور اسے تم اس طرح محسوس کرنا
جس طرح سے میں محبت کے علاوہ بھی کئی دکھ ہیں جنہیں محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔۔
!!!!سلونی

زین شکیل


No comments:

Post a Comment