فرحت عباس شاہ کے نام
تم مرے پاس نہیں ہو لیکن
تم سدا ساتھ رہے ہو میرے
یہ جو رستے ہیں بڑے تنگ نظر ہیں دیکھو
اور وہ لوگ جو آگے سے چلے آتے ہیں ان رستوں سے
ان کے بارے میں تو مت ہی پوچھو!
اور اکثر میں تری یاد میں بیٹھا ہوا تکتا ہوں انہی رستوں کو
بعض اوقات کوئی خط بھی تو لے آتا ہے
جس کو کھولوں تو میرے ہاتھ پہ چھالے سے نکل آتے ہیں
اور اس خط میں جو تحریر لکھی ہوتی ہے
اس میں بے چینی کے انبار لگے ہوتے ہیں
پھر بھی تم یاد بہت آتے ہو
جس طرح تم کو بھی تنہائی ڈسا کرتی تھی
جس طرح تم کو بھی خوف آتا تھا تنہائی سے
ہاں وہی، ویسی ہی تنہائی مجھے ملنے چلی آتی ہے
سینے لگتی ہے تو رو دیتا ہوں
اور پھر اس کے سوا کوئی بھی چارہ تو نہیں
شام کے وقت اجڑ جانے کا ماحول سہانا تو نہیں
اور تم میری ذہانت پہ ذرا غور کرو
شدتِ درد سے بچنے کے لیے روح کو لٹکا کے کسی ہینگر میں
اپنے کمرے میں ہی چھوڑ آتا ہوں
اور چل پڑتا ہوں یہ خوفزدہ جسم لیے پھر سے انہی رستوں پر
جن پہ شاید ہی کبھی ایسا کوئی شخص ملے
جو تری بات کہیں سے بھی چرا لاتا ہو
جو تری ذات کا احساس چرا لاتا ہو
اور ایسا تو کئی بار ہوا ہے فرحت
ترا احساس لیے گھر کو میں لوٹ آتا ہوں
تیرے احساس کو ہینگر میں لٹکتی ہوئی بے چین سی اک روح میں بند کرتا ہوں
اور پھر خود میں سمو لیتا ہوں
تب کہیں جا کہ قرار آتا ہے
اور بے چینی پہ پھر صبر کے بادل سے امڈ آتے ہیں
تم مرے ساتھ رہا کرتے ہو ایسے فرحت
اور اک بات سمجھ سے مری بالا تر ہے
تم مرے ساتھ بھی رہتے ہو مگر یاد بہت آتے ہو
رات کی ذات میں اک بات چھپی ہوتی ہے
اور اسی بات کی تہہ میں جا کر
میں تمہیں یاد کیا کرتا ہوں
اور اک بات بتانا تو تمہیں بھول گیا
وہ جو رستے ہیں ناں! بے کل رستے
اس پہ کچھ پیڑ کھڑے ہوتے ہیں بوسیدہ سے
میری حالت پہ بہت ہنستے ہیں
تلخ جملے بھی کسا کرتے ہیں
پھر سے تم میری ذہانت پہ ذرا غور کرو
پیڑ جو کچھ بھی کہا کرتے ہیں سن لیتا ہوں
اور اگنور کیا کرتا ہوں
اور ان رستوں پہ آتے جاتے
بس تمہیں یاد کیا کرتا ہوں
یوں مرے ساتھ رہا کرتے ہو تم فرحت شاہ
زین شکیل
No comments:
Post a Comment