وہی ہوا نا
تمہی نے تھاما تھا ہاتھ میرا
مجھے ہی تم نے گرا دیا نا
تمہیں کہا تھا
کہ گرد آنکھوں میں پڑ گئی گر
تو لوٹ آنا
ہماری آنکھوں کو ساتھ لے کر
سفر پہ جانا!
تم آئے، آ کر
مری ان آنکھوں کو چھوڑ کر صرف
خواب ہی لے گئے ہو میرے
نمی کو لے کر
میں اپنی آنکھوں میں
کس کو دیکھوں؟
کسے دکھاؤں گا خواب اپنے
مجھے مری ہی نظر میں تم نے
گرا دیا نا
ابھی محبت کی داستاں بھی
تھی نا مکمل
ابھی تو میرا بھی ذکر آنا تھا داستاں میں
بس آنے والا تھا نام میرا
سو اس سے پہلے ہی ختم کر کے
کہانی اپنی
یہ تم نے نقطہ
لگا دیا نا
بہت کہا تھا
کہ پاس رہنا
نہ دور ہو کر اداس کرنا، اداس رہنا
مجھے ہمیشہ ہی راس رہنا
سو دور ہو کر
قرار کھو کر
اداسیوں کا مجھے فسانہ
بنا دیا نا
تمہیں تو پہلے ہی زین ہم نے
بتا دیا تھا
بھلا وہ دے گا
جہاں بھی لکھے گا نام تیرا
مٹا بھی دے گا
جو بے تحاشہ اسے میسر
اگر ہوئے تم
گنوا بھی دے گا
تمہیں مکمل وہ کاغذوں پر
لکھا کرے گا
جلا بھی دے گا
زمانے بھر کے وہ سامنے پھر
تمہیں فسانہ
بنا بھی دے گا
تمہیں تو پہلے ہی ہم نے سب کچھ
بتا دیا تھا
نہیں کہا تھا؟
سو دیکھ لو اب
کہ اس نے سب کچھ
وہی کیا نا
!!وہی ہوا نا
زین شکیل
No comments:
Post a Comment