وہ تھی کون اک
ملکہءِ عالیہ،
دل محل میں سجے تخت پر جو کہ
مرجان، یاقوت، موتی، زمرّد، عقیقِ یمن سے جڑے تخت سے بھی حسیں تھا
وہ مسند نشیں تھی۔۔۔۔۔
وہ پہنے ہوئے پریم کا تاج سر پر
لبوں سے لٹاتی رہی تھی جواہر محبت کے احساس میں جو بندھے تھے
وہ تھی کون ایسی
کہ جس کی نگاہوں کا منتر بدن توڑ دیتا تھا
وہ جس کے گالوں کا بس سانولا پن ہی کافی تھا محشر اٹھانے کی خاطر
وہ تھی کون جس کی ہر اک بات
میٹھی تھی، لہجہ بھی شیرینیوں سے بھرا تھا
وہ دل کش وہ دل سوز اور دل گدازی کی حد سے سوا تھی
وہ تھی کون ایسی کہ
اب جو نہیں ہے تو لگتا ہے کچھ بھی نہیں ہے
یہاں بھی، وہاں بھی، کہیں بھی مکاں میں
کہیں لامکان میں اگر ہے بھی کچھ تو
وہ فہم و فراست، وہ وجدان کی حد سے بس ماورا ہے
سو اس سے شروع تھا سبھی کچھ
سبھی کچھ وہیں کا وہیں آ گیا ہے
وہ تھی کون آغاز تھی
جو کہ انجام ہے اب
وہ تھی کون جس کے لیے لفظ شرمندہ شرمندہ سے ہیں ابھی
جو کبھی بھی نہیں تھے
مگر اب تو آبِ نداست بہانا بھی بے سُود ہے
وہ جو تھی ملکہِ عالیہ
دل محل کی مکیں
اور اکلوتی وارث،
کہیں بھی نہیں ہے!!
مگر دل محل بھی تو اب اک کھنڈر میں ہی تبدیل سا ہو چکا ہے
وہ جو بھی تھی بس اس کے ہونے سے میں بادشاہ تھا
اور احساس و جذبات کی سلطنت پر حکومت چلاتا رہا تھا
میں اس کی محبت کے سر سبز باغات،
اس کی سبھی کائناتوں کا بھی اور سبھی موسموں کا
بس اکلوتا میں بادشاہ تھا۔۔
مگر اب نہیں ہوں ،،،
نہیں ہوں۔۔۔
میں کچھ بھی نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زین شکیل
No comments:
Post a Comment