توکل علی دوست
دیکھو تو دنیا کو اندر کی آنکھوں سے
دیکھو یہ دنیا
یہ دنیا رذیل اور جھوٹی، کمینی
نہیں یہ وہ دنیا نہیں ہے.. توکل
جو تھی
اب سے کچھ روز پہلے کی دنیا
کہ جس میں رہا کرتے تھے ہم سکوں سے
مگر وہ تو کچھ روز پہلے کی دنیا تھی
جس میں حسیں رنگ ہوتا تھا چہرے کا
جس کی ملاحت سنہری سنہری سی رہتی تھی
دیکھو توکل
وہ کچھ روز صدیوں سے بیتے ہوئے لگ رہے ہیں ہمیں
یہ وہ دنیا نہیں ہے مرے یار
سچ میں یہ وہ والی دنیا نہیں
جس میں سورج کی آنکھیں جو کھلتیں
تو کوئل درختوں پہ صبح سویرے
محبت بھری راگنی چھیڑ دیتی
ہوائیں جو رخسار چھو کر گزرتیں
تو ان کا ہر اک لمس اند تلک روح میں یوں
سرائیت سا کرتا
کہ محسوس ہوتی رطوبت بدن کی
توکل
مگر اب یہ دنیا
یہ کذاب دنیا
پلیتی کے جاموں میں جھوٹوں سے لبریز دنیا
ہماری نہیں ہے... توکل
یہاں آئے دن لوگ ننھی سی معصوم کلیوں کو
پل میں یونہی روند دیتے ہیں
جیسے نزاکت کا ذرہ بھی باقی بچا ہو نہ ان میں
وہ احساسِ انسانیت سے بھی عاری
وہ گندے، کمینے، غلیظ اور غنڈے موالی
وہ بچوں کے قاتل
وہ معصوم بچوں کے قاتل
توکل! مرے یار
اف کیا بتاؤں کہ ظلم و ستم کی کوئی حد نہ چھوڑی گئی
لوگ مرتے گئے
کیا غضب تھا...توکل
یہ ایسی ہی دنیا ہے
بےحس سی دنیا
مگر کتنے بے بس ہیں مجبور بھی ہم..توکل
توکل کیے ہی جیئے جا رہے ہیں
یہ آنسو جو ہیں خون کے ہم پئیے جا رہے ہیں
مگر کتنے مجبور ہیں ناں....توکل
کبھی غور سے اپنا چہرہ تو دیکھو
بھلے ساری دنیا کو دیکھو
کہ چہروں پہ زردی ہے چھائی ہوئی
جو کہ دکھتی ہے کالک نما
اے مرے یار
سورج بھی اب تو نکلنے سے گھبرایا کرتا ہے
دن کے لیے یہ نکلتا تو ہے
جاگتا پر نہیں
اور کوئل وہ باغوں کی رانی
وہ میٹھے سُروں والی کوئل
وہ کوئل فضاؤں کی تلخی کو مدت سے
محسوس کرنے لگی ہے
محبت کے سُر چھیڑتی ہی نہیں
صرف نوحہ سناتی ہے دن کے نکلنے پہ
ظلم و ستم کا
توکل
وہ ہر روز کہتی یے
لوگو! اے لوگو
اے معصوم لوگو
خدا سے خدا کا رحم مانگ لو
ہر گھڑی اور ہر ایک پل
مانگ لو اس خدا سے وہ سانسیں
وہ جذبات، چاہت، خلوص
اور تازہ ہوائیں وہ مہکی فضائیں
وہ امن و سکوں
جو کہ تھا
اب نہیں جو
کہ یہ تو وہ دنیا نہیں جس میں رہتے تھے تم
اے اداسی کے مارے ہوئے سارے بے چین لوگو
توکل
وہ کوئل سبھی کچھ تو سچ کہہ رہی ہے
سنو تو سہی
اپنی اندر کی آنکھوں کو کھولو.. توکل
ذرا اپنے اندر کی آنکھوں سے دیکھو سہی
اس سے پہلے کہ ہم بے بسی، بے کسی، بے حسی میں نہ مر جائیں یونہی...توکل
چلو ہم تلاشیں وہ دنیا
وہ دنیا
کہ جس میں کبھی سانس لیتے تھے ہم
اور جیتے تھے سچ مچ جیا کرتے تھے
اے مرے یار
یہ تو وہ دنیا نہیں ہے
چلو ڈھونڈ لائیں کہیں سے وہی اپنی دنیا...توکل
توکل علی اے مرے یار چل نا چلیں
اپنی دنیا کو پھر ڈھونڈ لائیں
کہ دنیا جو یہ ہے
یہ دنیا نہیں ہے
یہ گندے، کمینوں، رذیلوں سے مل کر بنا جھوٹ ہے
اے توکل
مرے یار آ پھر چلیں اپنی دنیا میں واپس
جہاں ہم جیا کرتے تھے
اور سچ مچ جیا کرتے تھے۔۔۔
زین شکیل
No comments:
Post a Comment