مرے پیروں میں زنجیر پِیا
اب نین بہاویں نیر پِیا
اے شاہ مرے اک بار تو آ
تو وارث، میں جاگیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
بے نام ہوئی، گم نام ہوئی
کیوں چاہت کا انجام ہوئی
مرا مان رہے، مجھے نام ملے
اک بار کرو تحریر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
کب زلف کے گنجل سلجھیں گے
کب نیناں تم سے الجھیں گے
کب تم ساون میں آؤ گے
کب بدلے گی تقدیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
سب تیر جگر کے پار گئے
مجھے سیدے کھیڑے مار گئے
آ رانجھے آ کر تھام مجھے
تری گھائل ہو گئی ہیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
میں جل جل ہجر میں راکھ ہوئی
میں کندن ہو کر خاک ہوئی
اب درشن دو، آزاد کرو
اب معاف کرو تقصیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پیا
کب زین اداسی بولے گی
کب بھید تمہارا کھولے گی
کب دیپ بجھیں ان آنکھوں کے
تم مت کرنا تاخیر پِیا
تم سپنوں کی تعبیر پِیا
زین شکیل
No comments:
Post a Comment