میں سراپا عشق ہوں محرماں
میں اسیر ہوں
میں اسیرِ زلفِ دراز ہوں
میں فقیر ہوں
میں فقیرِ شاہِ نجفؑ ہوں طیبہ کی خاک ہوں
میں نشیبِ حسرتِ دید ہوں
میں فرازِ عشق کا راز ہوں
مِرے محرماں
میں محبتوں کی صداقتوں کا یقین ہوں
کہیں مدتوں سے میں یوں ہی گوشہ نشین ہوں
میں مکانِ فکر ہوں محرماں
کہیں عاشقی کی زمین ہوں
مجھے آئینے نے بتا دیا میں حسین ہوں
میں وجودِ ضبطِ طویل ہوں
میں اداسیوں کا مکین ہوں
مرے محرماں میں عجیب سا
مری بات بات عجیب سی
مرے دن عجیب سے رنگ کے
مری رات رات عجیب سی
میں نوائے شامِ فراق ہوں
میں نہایت اونچی اڑان ہوں
کہیں شاعری کی زبان ہوں
میں کہیں کہیں پہ گمان ہوں
میں سرورِ وجدِ وصال ہوں
میں عقیدتوں کا نشان ہوں
کوئی دہر ہوں
میں غبارِ ذات میں اک گھرا ہوا پہر ہوں
میں کسی کے خواب میں پھیلتا ہوا شہر ہوں
میں مٹھاسِ لہجہء یادِ یار کا زہر ہوں
میں حسین سا کوئی قہر ہوں
میں نشاطِ وصلِ حبیب ہوں
میں مریضِ عشق ہوں محرماں
کہ میں آپ اپنا طبیب ہوں
میں ، غموں کے سینہء جاوداں میں جو گڑ گئی وہ صلیب ہوں
میں ہوں دسترس میں کسی کی
پر کسی اور کا میں نصیب ہوں
میں اداسیوں کا خطیب ہوں
نہ میں دور ہوں نہ قریب ہوں
میں عجیب ہوں
مرے محرماں
میں محبتوں کی اساس ہوں
کسی اور شہر میں اور ہی کسی شہر کو کہیں راس ہوں
کہیں عام ہوں کہیں خاص ہوں
میں سنہرے دشت کی پیاس ہوں
مرے محرماں میں لباس ہوں
میں لباسِ حسنِ مجاز ہوں
کہیں سوزِ ہوں کہیں ساز ہوں
میں محبتوں میں چھپا ہوا
کوئی ایک سوز و گداز ہوں
میں کسی غزل کی ردیف ہوں
کسی نظم کی کوئی داد ہوں
مرے محرماں، مرے رازداں
میں سراپا عشق کی بات ہوں۔۔۔
زین شکیل
No comments:
Post a Comment