Monday, 4 January 2016

abi kuch hosh baqi hai : poet zain shakeel

ابھی کچھ ہوش باقی ہے


ابھی کچھ ہوش باقی ہے

ابھی سے بھول جاؤں کیا؟
تمہیں اچھی طرح سے یاد ہے نقشہ مرے کمرے کا
بولویاد ہے نا کیا؟
وہی کمرہ کہ جس میں تم کبھی آئے
ذرا پل بھر سہی بیٹھے تو تھے
کچھ بات بھی کی تھی
کوئی وعدہ لیا تھا تم نے شاید
اور وہ جو اک ذرا پل تھا
اسے پھر طول دے کر تم نے اس کمرے میں 
مجھ سے خود کو اوجھل کر کے میرے نیم جاں بے ہوش سے بستر پہ تنہا رات بھی کی تھی
اسی اک  رات کی باتیں 
سبھی باتیں 
سنو ہاں وہ سبھی باتیں
نہیں معلوم ان میں ہم نے کس کی ذات کو موضوع بنایا تھا
کسے پھر ذیست کا حصہ بنا لینے کا سوچا تھا
کسے پھر چھوڑ دینا تھا، وہ سب باتیں
مجھے اب ٹھیک سے بھولی ہوئی ہیں
تب تو میں قائم تھا اپنے ہوش میں پھر بھی میں سب کچھ بھول بیٹھا ہوں
قسم لے لو
مجھے بس یاد ہے اتنا کہ کچھ باتیں ہوئیں ، باتیں تھیں کیسی بھول بیٹھا ہوں
کئی وعدے لئے تھے یہ تو مجھ کو یاد ہے پر کس لئے وعدے لئے سب بھول بیٹھا ہوں
وجہ یہ تھی کہ میں قائم تھا اپنے ہوش میں پر ہوش وہ ہونے نہ ہونے کے برابر تھا
ترے وعدے ، سبھی باتیں مجھے سب یاد ہیں 
لیکن سبھی باتوں میں وعدوں میں چھپی تھیں جس قدر رمزیں
جو مرکز تھے 
حوالے تھے 
وہ سارے بھول بیٹھا ہوں
ابھی کچھ ہوش باقی ہے تو اتنا سا
کہ جس الماری میں پہلے میں کپڑوں کو سجاتا تھا
جنہیں تم استری کر کے بڑی ترتیب سے رکھتی تھی میرے سامنے 
اور وہ اب ویسے ہی میرے بیڈ پہ بکھرے رہ گئے ہیں 
اور الماری کے خالی ہینگروں میں 
میں نے وہ وعدے، سبھی باتیں بڑی ترتیب سے لٹکا کے رکھی ہیں
میں جب بھی کھولتا ہوں اپنی الماری 
تو مجھ کو یاد آتا ہے
کہ تم اک بار تو آئی مرے کمرے میں مجھ سے بات کرنے
اور مِری آنکھوں سے اوجھل کر کے خود کو میرے ہی کمرے میں 
اور میرے وہاں ہوتے ہوئے بھی تم میری آنکھوں سے اوجھل تھی
مجھے سب یاد ہے 
تم نے مرے کمرے میں اس دن رات بھی کی تھی
کوئی وعدہ لیا تھا
اور کوئی بات بھی کی تھی
مگر تم مجھ سے اوجھل تھی
میں سچ مچ ہوش میں تھا اور میرا ہوش میں رہنا یا نہ رہنا برابر ہے
تو بس اس بات کو میں یاد رکھنے کے لئے اتنا ہی کرتا ہوں 
بلا ناغہ میں الماری کو جب بھی کھولتا ہوں
ہینگروں پر بس تری باتیں ترے وعدے نظر آتے ہیں تو 
مجھ کو تسلی ہو ہی جاتی ہے
کہ میں بے ہوش ہی کب تھا
ابھی بھی ہوش باقی ہے
ابھی کچھ ہوش باقی ہے

زین شکیل


No comments:

Post a Comment